بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

دورو دراز علاقوں سے تشریف لائے ہوئے تمام بھائیوں اور بہنوں، خاص کر علمائے اسلام اور شہیدوں کے محترم خاندانوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ امید ہے کہ خداوند متعال آپ مومنین اور معزز حضرات اور انقلاب کے عشاق اور جاں نثاروں پر اپنی رحمت، فضل و برکات نازل فرمائےـ

آج پوری دنیا میں ایک حقیقت واضح نظر آتی ہے، اگر کوئی شخص عالمی مسائل سے آگاہی رکھتا ہو، تو وہ اس حقیقت کا مشاہدہ کرے گا اور اس کا انکار نہیں کرسکے گا۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام انسانی معاشروں میں رشد و بالیدگی کی حالت میں ہے، اس کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے۔  خواہ یہ معاشرے افریقی اور ایشیائی ممالک کے مانند، شیطانی طاقتوں اور طاغوتی نظاموں کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہوں اور نئی راہ کی تلاش و کوشش میں ہوں، خواہ حتی یورپی ممالک۔ البتہ یہ نکتہ قابل بحث ہے کہ کون سا اسلام؟ کیونکہ دو قسم کے اسلام ہیں، شائد بعض ظواہر کے مطابق یہ دونوں اسلام آپس میں شباہت رکھتے ہوں، لیکن ان کی روح اور ان کا موقف یکسان نہیں ہے۔

ان میں سے ایک حقیقی، قرآنی اور خالص محمدی (ص) اسلام ہے، یعنی وہی اسلام جو اپنے پیروٶں کو ایک نئی فضا میں زندگی  گزارنے کی دعوت دیتا ہے، جو ارباب قدرت اور مشرق و مغرب کی بڑی طاقتوں کا خدمت گزار نہیں ہےـ دوسرا اسلام وہ ہے کہ بظاہر جس کا نام اسلام تو ہے لیکن آسانی سے امریکہ اور مشرق و مغرب کی بڑی طاقتوں کا خادم بن جاتا ہےـ مثال کے طور پر ان مطلق العنان عناصر اور جابر قوتوں کا اسلام جو بعض اسلامی ممالک پر مسلط ہیں۔ وہ بھی اسلام کا دم بھرتے ہیں، لیکن ان کے لئے اسلام ایک دوکان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے لئے اسلام اقتدار کا ذریعہ ہے۔ ورنہ اگر اسلام وہی قرآن مجید کا اسلام ہو، تو وہ مسلمانوں کے تیل کے خزانوں اور تقدیر پر امریکہ کے تسلط کو مسترد کرتا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مسلمان بھی ہو اور امریکہ کا مطیع و فرمانبردار بھی ہو؟! مسلمان بھی ہو اور ساتھـ ہی اہل فسق و فساد، تعیش و عشرت اور گوناگون اخلاقی برائیوں سے آلودہ بھی ہو؟! مسلمان بھی ہو اور لوگوں پر ظلم بھی کرتا ہو اور ایک ظالمانہ حکومت کا سربراہ بھی ہو اور اسلام کے دشمنوں کی خواہش کے مطابق مسلمانوں پر ستم ڈھائے؟! اس قسم کے اسلام کے لئے حضرت امام خمینی (رح) کے بقول "امریکی اسلام" کا عنوان بالکل صحیح ہے۔ جس کا دعوی اس قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ جو اسلام، آج انسانی معاشروں کے دلوں میں گھر کر رہا ہے، وہ حقیقی، خالص اور اصولوں سے سمجھوتا نہ کرنے والا اسلام ہے۔ اس لئے آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ بعض عرب اور افریقی ممالک کے مانند، جن ممالک کے لوگ مسلمان ہیں ان میں مسجدیں آباد ہیں، لیکن مسلمانوں کی ایک جماعت اسلام کے حامیوں کے عنوان سے انقلاب لاتے ہیں اور ان ممالک کی پٹھو حکومتیں ان پر دباٶ ڈال رہی ہیں اور انھیں گوناگون جسماتی ایذائیں پہنچائی جا رہی ہیں، ان پر تخریب کاری کا الزام لگایا جاتا ہے!! اس کے کیا معنی ہیں؟! اس کے یہ معنی ہیں کہ جو کچھ ان ممالک میں رائج ہے، چونکہ اسلام کی حقیقت سے دور ہے، اس لئے آگاہ مومن اور با ضمیر مسلمان کوشش کرتے ہیں کہ حقیقی اور اصولوں سے سمجھوتا نہ کرنے والے اسلام کی بالادستی قائم کریں۔ یہاں پر ٹکراؤ ہوتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ آج اسلام آگے بڑھـ رہا ہے اور یہ اسلام و قرآن کے معجزہ ہے، کیونکہ اسلام کے خلاف، خاص کر حالیہ دس برسوں کے دوران اس قدر پروپیگنڈا کیا گیا ہے اور پیسے خرچ کئے گئے ہیں کہ شاید ہی اتنی مدت میں کسی اور فکر و عقیدے کے خلاف اس قدر پروپیگنڈا، مخالفت اور عناد دیکھنے میں آیا ہو۔

جب ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا، ہمارے مومن اور فرض شناس افراد نے اسلام کے اصولوں پر عمل کیا، یعنی، ہمارے ملک میں صرف زبانی اسلام نہیں تھا اور نہ اب ہے، بلکہ ہمارے لوگوں نے وہی موقف اختیار کیا جس کا قرآن مجید مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہےـ اس لئے انہوں نے شیاطین اور ظالم طاقتوں سے ٹکر لی اور راہ خدا میں ہر چیز قربان کی، وہی جاں نثاری دکھائی جس کا اسلام حکم دیتا ہے۔

ہماری قوم نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں اپنی عزت و وقار کی حفاظت کی، یعنی وہی چیز جس کا قرآن مجید نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے: " و للہ العزة و لرسولہ و للمومنین" عزت، مومنین کا سرمایہ ہے۔ کیونکہ مومن صرف وہ ہے جو اپنی پوری قوت کے ساتھـ ہر اس چیز کا مقابلہ کرتا ہے، جس سے شیطنت، ظلم اور فساد کی بو آتی ہو۔ وہ صرف خدا کا بندہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ کسی کی بندگی قبول نہیں کرتا ہے۔ جب سے ایرانی قوم انقلاب کی کامیابی کے ذریعہ دین اسلام کو ایک سماجی نظام کے پیکر میں ڈھالنے میں کامیاب ہوئی، تب سے مستکبرین کے دلوں میں اسلام کا خوف پیدا ہوا ہے۔ اس لئے وہ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور اس کے خلاف لڑنے کے لئے بے تحاشہ پیسے خرج کر رہے ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف استکباری طاقتوں کی جنگ، اسلام کی وجہ سے ہے۔ جس وقت اسلامی جمہوریہ نے ثابت کیا کہ وہ اپنے اعتقادات اور اسلامی اصولوں کی پابند ہے، اسے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا گیا۔ تمام استکباری طاقتیں اس کے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ ورنہ ابتدائی دنوں میں جب وہ ابھی نہیں جانتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کیا ہے اور کس حد تک اپنے اصولوں پر پابند ہے، اس قدر مخالفت ظاہر نہیں کرتے تھے۔

بنابریں یہ دو رجحان ہیں جو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ یہ ہم ایرانیوں کے لئے  بہت عبرت و درس ہے۔

ایک طرف سے دنیا میں جہاں کہیں بھی اسلام کی کوئی نشانی نظر آتی ہے اس کے خلاف استکباری اور مادی طاقتوں کی طرف سے دباٶ میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان خبروں سے آپ آگاہ ہیں۔ یہاں تک کہ کسی یورپی ملک میں اسلام کا ایک معمولی سا ظہور بھی ہنگامے کا سبب بن جاتا ہے۔ حکومتیں اور سیاستدان اس کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف آج کل دنیا میں مسلمانوں اور اسلام پر زبردست دباٶ کے باوجود، دنیا کے لوگوں، خاص کر نوجوانوں، تعلیم یافتہ اور آگاہ لوگوں کے دل اسلام کے گرویدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ صورت حال اسلام کی ترویج کا سبب بنے گی۔ جو اسلام انسانی فطرت اور ظلم و ستم کے تمام ایوانوں سے پیکار کا داعی ہو، اس میں دوام کا مادہ ہے، وہ دنیا پر حکومت کر سکتا ہے اور انسانوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا ہے۔

ہمارے لئے اور ایرانی قوم کے لئے یہ بات اس لحاظ سے ایک درس ہے کہ ہم اپنے معاشرہ میں اسلام کی قدر و منزلت کو سمجھیں۔ جو چیز ہماری قوم کو ہر قسم کی قید و بند سے آزادی دلا سکتی ہے، وہ اسلام کا نظام اور اس کے احکام ہیں۔ آج آپ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں دیکھیں گے، جو کسی نہ کسی طرح بڑی طاقتوں کے دباٶ اور تسلط میں نہ ہو۔ حتی بڑی قومیں بھی ایک طرح سے چند طاقتوں کے دباٶ میں ہیں۔ تمام دنیا میں چند بڑی طاقتیں ہیں جو ایک محلہ یا بستی کے غنڈے کی مانند کام  کرتی ہیں اور باقی انھیں باج دینے پر مجبور اور ان کی اطاعت کرنے اور ان کی بات ماننے پر ناچار ہیں۔

آج، دنیا میں چند بڑی طاقتیں ہیں، جن کی مثال غنڈوں جیسی ہے، باقی قومیں کسی نہ کسی طرح ان کے اثر رسوخ میں ہیں۔ یہ قومیں خود اس صورت حال سے راضی نہیں ہیں، لیکن بدعنوان اور جابر حکومتوں نے انھیں بڑی طاقتوں کے تسلط کا اسیر بنا رکھا ہے اور انھیں باج دیتی ہیں۔

جن حالات میں دنیا ظلم کرنے والوں اور ظلم سہنے والوں میں تقسیم ہوئی ہے، ایک قوم نے اعلان کرکے ثابت کیا کہ تمام بڑی طاقتوں اور غنڈوں کے تسلط سے آزاد ہے، اور وہ قوم ہماری قوم ہے۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں بلکہ عین حقیقت ہے۔ آج کی دنیا پر مسلط طاقتوں میں سے کوئی ایک طاقت اسلامی جمہوریہ کے نظام اور ہماری قوم پر تسلط جمانے کی طاقت نہیں رکھتی۔ یہ ایرانی قوم کی حریت پسندی اور اسی قابل قدر سیاسی آزادی کا نتیجہ ہے۔ یہ ممتاز خصوصیت روز بروز قوی تر ہونی چاہئے اور اس میں وسعت آنا چاہئے۔

ہمیں اپنے آپ کو اقتصادی طور پر بھی بیرونی طاقتوں کے تسلط اور اجارہ داری سے آزاد رکھنا چاہئے، یعنی ہماری قوم کو اپنی مصلحتوں اور تشخیص کے مطابق ملک کی ضروری چیزوں کو اپنے ہی ملک میں موجود وسائل و امکانات کی مدد سے تیار کرنا چاہئے۔ البتہ اس سلسلے میں آج ہم متعدد مشکلات سے دوچار ہیں اور ابھی قوم اس مقام پر نہیں پہنچی ہے کہ اپنی تمام ضرورتوں کو ملک کے اندر ہی پورا کر سکے، کیونکہ ماضی میں اس قوم کے تمام امور بڑی طاقتوں پر منحصر تھے۔ صنعت کو چھوڑئے ہماری زراعت کو بھی اغیار پر منحصر کر دیا گيا تھا۔ اغیار اور ملک پر حاکم پہلوی حکمرانوں اور اس سے پہلے والی حکومتوں نے ایسے فیصلے کئے کہ ہماری زراعت سائنسی ترقی سے پوری طرح محروم ہو گئی۔

اس قوم کو اپنی سعی و کوشش، اچھے انتظامی اقدامات، خود مختاری و آزادی کے سلسلے میں لوگوں کے اتحاد و اتفاق کے ذریعے، دشمنوں کی سازشوں سے آگاہی حاصل کرکے اور دشمنوں کے پروپیگنڈے کی پروا کئے بغیر مکمل اقتصادی خود انحصاری کی طرف قدم بڑھانا چاہئے۔ لیکن اس اقتصادی خود انحصاری کی شرط  سیاسی خود مختاری ہے۔ جو ممالک سیاسی لحاظ سے دوسروں کے غلام ہیں، وہ کبھی اقتصادی خود انحصاری حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ الحمد للہ ہمارے ملک کو سیاسی خود مختاری حاصل ہو چکی ہے، اس کے بعد اقتصادی آزادی اور اس سے بالاتر ثقافتی آزادی ہے۔ ایک ایسی ثقافت، جو معاشرے میں مغرب کی زوال پذیر اور گمراہ کن ثقافت سے آزاد ہو۔ اس سلسلہ میں تفصیلی بحث کی جا سکتی ہے تاہم فی الحال ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں۔  

اس وقت مجھے جو عرض کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم نے ابھی آدھا راستہ طے کیا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق اعلی اہداف اور ان کے حقائق تک رسائی کے لئے کافی لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔ دشمن، یعنی عالمی استکبار اور ان میں سر فہرست امریکہ کی سر توڑ کوشش یہ تھی کہ ہماری قوم ان مقاصد کی تکمیل نہ کرنے پائے۔ جو بھی حکومت اور انتظامیہ اپنی قوم و وطن کو ضروری آزادی اور خود کفائی تک پہنچانے کی کوشش کرے، وہ عالمی سامراجی طاقتوں کی نظروں میں قابل نفرت بن جاتی ہے۔

آج ایران کی موجودہ حکومت نے کمر ہمت کسی ہے، عزم و ارادہ کر لیا ہے کہ  اپنے ملک کو داخلی وسائل کی مدد سے بھرپور کوششوں کی سمت لے جائے اور ملک میں جنگ کے بعد تعمیر نو کا کام شروع کرے۔ اس کام کے لئے، منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور کافی محنت ہو رہی ہے کہ لوگوں کی مشکلات کو دور کیا جائے اور جو چیز انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کے شایان شان ہے اس پر عملی جامہ پہنایا جائے۔ جس حکومت نے آج حقیقی معنی میں ملک کی تعمیر نو کا عزم کیا ہے، وہ عالمی سامراج اور بڑی طاقتوں کی نظروں میں کھٹکنے لگی ہے۔ استکباری طاقتوں کو یہ پسند نہیں ہے کہ انقلابی اور زندہ و بیدار قوم تعمیر نو اور پیشرفت کے بارے میں سوچے اور اس کے لئے منصوبہ بندی کرے اور جدید سازوسامان اور وسائل کے ذریعہ تعمیراتی کام کو آگے بڑھائے۔ وہ قوم کی مشکلات کو ہمیشہ باقی رکھنا چاہتے ہیں اور دنیا والوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اسلام ملک کا نظم و نسق نہیں چلا سکتا۔  وہ حقیقت میں نہیں چاہتے کہ ملک کا نظام بخوبی چلتا رہے۔

وہ دنیا کے دوسرے مسلمانوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر آپ لوگوں نے بھی انقلاب لایا اور اسلام کی طرف قدم بڑھایا تو آپ کے مشکلات بڑھ جائیں گے اور آپ کی زندگی اجیرن ہو جائے گی! وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ ایران کی مسلمان قوم، جس نے سب سے پہلا عظیم اسلامی انقلاب برپا کیا ہے، پرسکون اور شیریں زندگی گزارے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہماری قوم میں یہ توانائی پیدا ہوئی، تو یہ امر دوسری قوموں کے لئے نمونہ عمل بن جائے گا۔ اس لئے استکبار ہر اس حکومت اور حکمراں کی مخالفت کرتا ہے جس نے ملک کو تعمیر و ترقی کی منزلوں کی سمت لے جانے کا پختہ ارادہ کیا ہو۔

دشمن کے پروپیگنڈے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح ذہنوں میں مستقبل کے تعلق سے شک و شبہہ ڈال دیتا ہے۔ افسوس ہے کہ بعض سادہ لوح افراد، ممکنہ طور پر ان کی پشت پر سرگرم عناصر دشمن ہوں، جب دیکھتے ہیں ملک، تعمیر و ترقی اور پیشرفت کی طرف بڑھ رہا ہے، مدد اور تعاون کرنے کے بجائے تمام چیزوں میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں تا کہ لوگ شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا ہو جائیں۔

قابل عہدیداداروں کی کوششیں اور پیشرفت فطری طور پر ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اگر ایک قوم ترقی کر رہی ہے تو ہم اس کی ترقی کو شک کی نگاہ سے کیوں دیکھنے پر اصرار کریں؟ جو لوگ یونہی باتیں کرنے لگتے ہیں، رائے زنی کرتے ہیں انھیں محتاط رہنا چاہئے کہ کہیں وہ دشمن کی خواہش تو پوری نہیں کر رہے ہیں؟! دشمن یہی چاہتا ہے اور اس کا مقصد یہی ہے کہ لوگ اپنی تعمیر و ترقی کی کوششوں میں شک و تردد کی کیفیت میں مبتلا رہیں۔

میں نے بارہا کہا ہے کہ جب میں اس قوم کے اتحاد و اتفاق اور ایمان و اخلاص سے سرشار لوگوں کو دیکھتا ہوں اور اس  پروگرام کو دیکھتا ہوں اور جب ہم  پروردگار عالم  کے لطف و کرم پر توجہ کرتے ہیں تو ہمارے دل مستقبل کے بارے میں امید کی روشنی سے منور ہو جاتے ہیں۔ بیشک اس مجاہد، شجاع، مومن، اسلام کے اصولوں کی پابند اور دشمنان اسلام سے مقابلے کے لئے آمادہ قوم کا مستقبل تابناک، روشن اور شیریں ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے اسلام، اس دشمن کو اس ملک سے مکمل طورپر نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوگا، جو ابھی بھی اپنے رسوخ کے ذریعے ہماری ملت کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔

میں ان تمام بھائیوں بہنوں کو دعا و سلام کہتا ہوں، جن کی نمائندگی میں آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔ امید رکھتا ہوں کہ خداوند متعال اپنے لطف و کرم اور رحمت سے ہماری قوم کی مشکلات آسان کرے اور لوگوں اور حکومت کے درمیان اس اتحاد و اتفاق کو روز بروز زیادہ مستحکم بنائے۔

و السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ