نبوی طرز سلوک

آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای: "پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظیم شخصیت، انبیاء و اولیاء میں سر فہرست ہے اور ہم مسلمانوں پر آنحضرت کی پیروی لازم قرار دی گئي ہے۔ "

(12 مئی 2005)

KHAMENEI.IR  نے ذیل میں رہبر انقلاب اسلامی کے بیانوں اور تقاریر کے اقتباسات کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کے انتہائي اہم پہلوؤں پر ایک سرسری نظر ڈالی ہے جو سبھی کے لیے نمونۂ عمل بن سکتی ہے۔

 

روحانی ارتقاء کی بے وقفہ کوشش

جب شعبان کا مہینہ آتا تھا تو وہ پیغمبر کے روزوں اور نماز کا مہینہ ہوتا تھا، یہ رسول اللہ کی روش تھی۔

آپ دیکھیے کہ رسول اللہ اپنی اس عظیم منزلت اور عصمت کے اعلی ترین مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود، مرتے دم تک اس کوشش کو ترک نہیں کرتے تھے جو انھیں مسلسل خداوند عالم سے مزید قریب کرے۔ کیونکہ پیغمبر کو بھی روز بروز ارتقاء حاصل ہوتا تھا۔ بعثت کے پہلے سال کے پیغمبر اور بعثت کے تیئیسویں سال کے پیغمبر یکساں نہیں تھے؛ وہ پروردگار عالم کے تقرب میں تیئیس سال آگے بڑھ چکے تھے۔

صدر مملکت اور کابینہ کے اراکین سے خطاب، 28 اگست 2006

 

اللہ کا شکر گزار بندہ

پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عبادت ایسی عبادت تھی کہ محراب عبادت میں کھڑے رہ رہ کر آپ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے تھے۔ وہ رات کا ایک بڑا حصہ شب جاگ کر، عبادت، دعا و استغفار اور اللہ کے حضور گریہ و زاری میں گزارتے تھے۔ خداوند عالم سے دعا و مناجات اور استغفار کیا کرتے تھے۔ اصحاب نے آنحضرت سے عرض کی: اے خدا کے رسول! آپ نے تو کوئي گناہ کیا ہی نہیں، پھر اتنی زیادہ دعا، عبادت اور استغفار کس لیے؟ وہ فرماتے تھے: "افلا اکون عبداً شکورا" کیا میں خدا کا شاکر بندہ نہ رہوں جس نے مجھے یہ ساری نعمتیں عطا کی ہیں؟

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ، 12 مئي 2000

 

لغزشوں سے ہوشیار

پیغمبر گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہر دن خداوند عالم سے شک، شرک، غضب، ظلم اور حسد جیسی خصلتوں سے پناہ مانگتے تھے۔ تقوی کے معنی یہ ہیں: اپنے آپ کو بچانا، یعنی انسان کی راہ میں جو گڑھے، کنویں اور کھائياں ہیں، ہر دن بیٹھ کر ان کا حساب کتاب کرے اور ان سے بچنے کی خود  کو تلقین کرے۔ پیغمبر اکرم، عصمت کے مقام پر فائز ہیں لیکن اس کے باوجود، اپنے حرکات و سکنات کی ایسی کڑی نگرانی رکھتے ہیں، اپنی یہی گہری دیکھ بھال اور لغزشوں سے حفاظت ہی عصمت کا سبب بنتی ہے۔

درس خارج کے آغاز میں حدیث کی تشریح، 30 مئي 2004

 

صداقت و جوانمردی کا پیکر

اپنی ولادت سے لے کر بعثت کے وقت تک یعنی چالیس سال، ہمارے پیغمبر عزیز کے لیے پاکیزگي، امانت داری، جوانمردی اور صداقت کے امتحان کے سال تھے۔ اس زمانے میں دوست دشمن سبھی، قبیلوں کے سرداروں سے لے کر عام لوگوں اور مکے کا سفر کرنے والے مسافروں تک یا اپنے تجارتی سفر میں پیغمبر اکرم کی زیارت کرنے والے لوگوں تک، سبھی اس بات کے معترف تھے اور گواہی دیتے تھے کہ یہ عظیم اور باشرف انسان، پاکیزگي، دیانت داری، صداقت اور جوانمردی کا پیکر ہے۔

امام رضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں تقریر، 20 مارچ 2008

 

دوست، دشمن سبھی کے درمیان امانت داری کی شہرت

پیغمبر اکرم کا امین ہونا اور ان کی امانت داری ایسی تھی کہ عہد جاہلیت میں انھیں 'امین' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لوگ جس چیز کو بھی اپنے لیے بہت زیادہ قیمتی سمجھتے تھے، اسے ان کے پاس امانت کے طور پر رکھوا دیتے تھے اور انھیں اطمینان رہتا تھا کہ وہ امانت انھیں صحیح سالم واپس ملے گي۔ یہاں تک کہ اسلام کی دعوت شروع ہونے اور قریش کے ساتھ دشمنی کی آگ بھڑکنے کے بعد بھی، اگر وہی دشمن کسی چیز کو کہیں امانت کے طور پر رکھوانا چاہتے تھے تو آ کر اسے پیغمبر کے حوالے کرتے تھے۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ،  12 مئي 2000

 

لوگوں سے اچھا سلوک اور اپنی تکلیفوں کی پردہ پوشی

عام انسانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم کا رویہ، بہت اچھا تھا۔ لوگوں کے درمیان وہ ہمیشہ خوش و خرم رہتے تھے۔ جب اکیلے ہوتے تب ان کے غم و اندوہ اور تکلیفیں ظاہر ہوتی تھیں۔ وہ لوگوں کے سامنے اپنے چہرے پر اپنے غم و اندوہ کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، ہشاش بشاش رہتے تھے۔ سبھی کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئي انھیں رنجیدہ کرتا تھا تو وہ چیز ان کے چہرے پر دکھائي دیتی تھی لیکن وہ زبان سے شکوہ نہیں کرتے تھے۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ،  12 مئي 2000

 

فحش کلامی کی سختی کے ساتھ روک تھام

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئي ان کے سامنے کسی کو گالی دے یا بدگوئي کرے۔ وہ خود بھی کسی کو گالی نہیں دیتے تھے اور کسی کی بدگوئي نہیں کرتے تھے۔ بچوں سے عطوفت سے پیش آتے، خواتین کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرتے اور کمزوروں سے  انتہائي اچھا برتاؤ کرتے تھے۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ،  12 مئي 2000

 

عوام الناس اور غریبوں کے ساتھ نشست و برخاست

پیغمبر اکرم، غلاموں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ وہ زمین پر بیٹھ کر کچھ غریب لوگوں کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ ایک بدو عورت وہاں سے گزری اور اس نے حیرت سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ غلاموں کی طرح کھانا کھاتے ہیں؟ آپ مسکرائے اور کہنے لگے: "ویحک ای عبد اعبد منّی" مجھ سے بڑا غلام کون ہے؟

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ،  27 ستمبر 1991

 

بدگوئي کی سختی سے مخالفت

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کہ کوئي بھی میرے اصحاب کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہے؛ میرے پاس آکر ایک دوسرے کی برائي نہ کرو؛ میں چاہتا ہوں کہ جب لوگوں کے درمیان آؤں اور اپنے اصحاب کے درمیان جاؤں تو 'سلیم الصدر' رہوں، یعنی صاف اور پاکیزہ سینے کے ساتھ اور بغیر کسی بدگمانی کے مسلمانوں کے درمیان جاؤں؛ میرے سامنے ایک دوسرے کی بدگوئي نہ کرو۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ،  20 اکتوبر 1989

 

مسلمانوں کے درمیان اخوت کے حق کی ترویج

مدینۂ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آمد کے ابتدائي مہینوں میں آنحضرت نے سب سے پہلے جو کام کیے ان میں سے ایک، مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت قائم کرنا تھا؛ یعنی انھوں نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائي بنایا۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بھائي ہیں، یہ اسلام میں کوئي تکلف والی بات نہیں ہے؛ یعنی حقیقت میں مسلمان کا ایک دوسرے پر برادری اور اخوت کا حق ہے؛ ایک کی گردن پر دوسرے کا حق ہے، جیسے بھائی کا بھائی پر حق ہوتا ہے، مسلمان بھی ایک دوسرے پر حق رکھتے ہیں اور انھیں ایک دوسرے کے باہمی حقوق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ،  20 اکتوبر 1989

 

معاشرے میں عدل کے قیام پر خاص توجہ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ایسا نظام قائم کیا جس کا ایک بنیادی پہلو بغیر کسی کا لحاظ کیے ہوئے مکمل عدل و انصاف کا قیام تھا۔ قضاوت کے امور میں انصاف، عمومی سہولتوں میں انصاف، حدود الہی کے قیام  میں انصاف، مناصب اور عہدوں میں انصاف ... انصاف، یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا اور ہر کسی کو اس کا حق عطا کرنا ... پیغمبر کے عہد میں اسلامی معاشرے میں کوئي بھی عدل و انصاف کے دائرے سے باہر نہیں تھا۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ،  8 اکتوبر 1998

 

دشمن کے مقابلے میں سیاسی امور پر توجہ

پیغمبر اکرم میں بڑی قطعیت اور صراحت تھی۔ وہ کبھی بھی دوہری بات نہیں کرتے تھے۔ البتہ جب دشمن کا سامنا ہوتا تھا تو وہ بہت نپا تلا سیاسی کام کرتے تھے اور دشمن کو غلط فہمی میں ڈال دیتے تھے۔ بہت سارے مواقع پر آنحضرت نے دشمن کو چکمہ دیا ہے؛ چاہے وہ عسکری لحاظ سے ہو یا سیاسی لحاظ سے؛ لیکن وہ مومنین اور اپنے عوام کے ساتھ ہمیشہ صریحی، شفاف اور واضح انداز میں بات کرتے تھے، سیاست سے کام نہیں لیتے تھے اور ضروری مواقع پر لچک دکھاتے تھے۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ، 18 مئي 2001

 

میدان جنگ میں لشکر کی مضبوط قیادت اور خدا پر توجہ

پیغمبر جنگ کے میدان میں جب اپنے لشکر کو منظم کر رہے ہوتے تھے اور اسے جہاد کے لیے ترغیب دلا رہے ہوتے تھے، تو خود بھی ہتھیار اٹھا لیتے تھے اور بڑی مضبوطی سے سپہ سالاری کرتے تھے۔ یا جب سپاہیوں کو ٹریننگ دے رہے ہوتے تھے کہ وہ کیا کریں تو گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے اور اپنے ہاتھ بارگاہ خداوندی میں بلند کرتے اور لوگوں کے سامنے آنسو بہاتے ہوئے خدا سے بات کرتے تھے: اے پالنے والے! تو ہماری مدد کر، اے پالنے والے! تو ہماری پشت پناہی کر، اے پروردگار! تو خود اپنے دشمنوں کو دور کر دے۔ نہ تو ان کی دعا اس بات کا سبب بنتی تھی کہ وہ اپنی طاقت کا استعمال نہ کریں اور نہ طاقت کا استعمال اس بات کا موجب ہوتا تھا کہ وہ خداوند عالم سے توسل، اس کے سامنے گریہ و زاری ترک کر دیں اور تقرب پروردگار سے غافل ہو جائيں؛ وہ دونوں پر توجہ رکھتے تھے۔

تہران کی نماز جمعہ کا خطبہ، 18 مئي 2001

 

دشمن سے گفتگو اور اس سے روبرو ہونے کے وقت خاص صلابت

قرآن مجید کی آیت فرماتی ہے: "محمّد رسول اللہ و الّذین معہ اشدّاء علی الکفّار رحماء بینہم" (محمد، اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں) کفار کے خلاف اشداء یا سخت ہونے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ مسلسل کافروں سے جنگ کی حالت میں ہیں۔ اشداء، شدت، یعنی استحکام، صلابت، ڈٹے رہنا ... استحکام کبھی میدان جنگ میں ہوتا ہے تو ایک طرح سے سامنے آتا ہے؛ کبھی دشمن سے گفتگو کے میدان میں ہوتا ہے تو دوسری طرح سامنے آتا ہے۔ آپ دیکھیے کہ پیغمبر اکرم اپنی جنگوں میں، جہاں ضروری ہوتا تھا کہ اپنے فریق اور اپنے دشمن سے بات کریں تو کس طرح بات کرتے تھے۔ پیغمبر، سراپا استحکام ہیں، ٹھوس، ذرہ برابر بھی خلل نہیں ہے۔ جنگ احزاب میں پیغمبر نے اپنے فریق مقابل سے گفتگو کی لیکن کیسی  گفتگو! تاریخ پڑھیے۔ اگر جنگ ہے تو شدت کے ساتھ؛ اگر گفتگو ہے تو بھی شدت کے ساتھ؛ اگر لین دین ہے تو بھی شدت کے ساتھ، صلابت کے ساتھ۔ اشداء علی الکفار کے معنی یہ ہیں۔

یوم بعثت رسول کے موقع پر ملکی حکام سے ملاقات میں تقریر، 30 جولائي 2008

 

علم کے حصول اور تعلیم کی دعوت

پیغمبر نے انسان کو علم کی دعوت دی۔ قرآن مجید کی ابتدائي آیتیں، علم کی اہمیت اجاگر کرتی ہیں: اقرا باسم ربّک الّذی خلق. خلق الانسان من علق. اقرا و ربّک الاکرم. الّذی علّم بالقلم (اے نبی! پڑھیے۔ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھیے کہ آپ کا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا) ابتدا میں ہی تعلیم کی بات پیش کی۔ علم، انسان کی فلاح و نجات کا ذریعہ ہے اور کسی خاص وقت اور مقام سے مختص نہیں ہے۔

ملکی نظام کے اہم عہدیداروں سے ملاقات میں تقریر، 24 ستمبر 2003

 

حق کی راہ پر پیغمبر اور ان کے اصحاب کی ثابت قدمی

پیغمبر اکرم کی تعلیمات کا ایک اہم جزء، استقامت ہے۔ سورۂ 'ھود' میں خداوند عالم پیغمبر سے فرماتا ہے: فاستقم کما امرت و من تاب معک و لا تطغوا۔ (تو اے محمد، آپ اور آپ کے ساتھی راہ راست پر ثابت قدم رہیں جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور بندگی کی حد سے تجاوز نہ کیجیے) پیغمبر سے ایک روایت ہے جس میں آپ نے فرمایا ہے: شیبتنی سورۃ الھود یعنی سورۂ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ اس لیے کہ سورۂ ہود کا بوجھ بڑا سنگین تھا۔ سورۂ ہود میں کہاں؟ منقول ہے کہ مراد فاستقم کما امرت کی یہی آیت مراد ہے۔ کیوں پیغمبر کو بوڑھا کر دیا؟ اس لیے کہ اس آیت میں اللہ فرماتا ہے: جیسا کہ ہم نے آپ کو حکم دیا ہے، اس راہ میں ثابت قدم رہیے، استقامت کیجیے، صبر کا مظاہرہ کیجیے ... پیغمبر کو صرف یہ حکم نہیں دیا گيا ہے کہ وہ استقامت کریں، بلکہ مومنین کی کثیر تعداد کو بھی اسی راہ میں ثابت قدم رہنے کی ترغیب دلائیں۔

رضاکار فورس 'بسیج' کے اراکین سے ملاقات میں تقریر، 26 مارچ 2006