بسم اللہ الرحمن الرحیم.

 و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

محترم حضرات! برادران عزیز! بہت خوش آمدید، میرے لیے یہ بہت خوشی کا مقام ہے کہ بحمد اللہ یہ بہت اہم نشست اپنے مقررہ وقت پر منعقد ہو رہی ہے اور سبھی احباب اس میں شرکت کر رہے ہیں۔ جیسا کہ جناب رئیسی صاحب نے بتایا، اس میں پوری سنجیدگي سے موضوعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان شاء اللہ خداوند عالم  آپ لوگوں کی مدد کرے اور آپ کی ان زحمتوں کو قبول فرمائے۔ میں ماہ شعبان کی عیدوں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، خاص طور پر 15 شعبان کی عید کی مناسبت سے، جو پوری تاریخ کی تمام انسانیت کی سبھی آرزؤوں کی شکوفائي کا دن ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند متعال وہ دن، گشائش کا دن، ظہور کا دن ہمیں دکھائے اور ان شاء اللہ جلد از جلد دکھائے۔

ان عیدوں سے قطع نظر بھی ماہ شعبان بہت ہی اہم مہینہ ہے؛ اَلَّذى‌ کانَ رَسولُ اللَہِ صَلَّى اللَہُ عَلَیہِ وَ آلِہِ یَداَبُ فى‌ صیامِہِ‌ وَ قیامِہِ فى‌ لَیالیہِ وَ اَیّامِہِ بُخوعاً لَکَ فى‌ اِکرامِہِ وَ اِعظامِہِ اِلىٰ‌ مَحَلِّ‌ حِمامِہ. (اے خدا! یہ ماہ شعبان وہی مہینہ ہے جس میں حضرت رسول خدا اپنی فروتنی سے دنوں میں روزے رکھتے اور راتوں میں قیام کیا کرتے تھے۔ تیری فرمانبرداری اور اس مہینے کے مراتب و درجات کے باعث وہ زندگی بھر ایسا ہی کرتے رہے۔) پیغمبر اپنی عمر کے آخری دنوں تک اس مہینے میں ایسا ہی کرتے رہے۔ اس کے بعد ہم خداوند متعال سے دعا کرتے ہیں کہ وہ "فَاَعِنّا عَلَى الاِستِنانِ بِسُنَّتِہِ فیہ"(2) (تو اس مہینے میں ان کی سنت کی پیروی کی ہمیں توفیق دے۔) خود وہ زبردست مناجات بھی جو اس مہینے کے لیے نقل ہوئي ہے، اس ماہ کی عظمت کی گواہ ہے۔ اس زبردست مناجات میں جو فقرے موجود ہیں، ویسے فقرے دوسری جگہوں پر کم ہی ہیں۔ البتہ ہمارے پاس ائمہ علیہم السلام سے منقول ساری ماثورہ دعائیں، بڑے اعلی مضامین والی غیر معمولی اور زبردست دعائیں ہیں، سب غیر معمولی ہیں، جو ماثورہ ہیں، لیکن اس مناجات جیسی دعائيں واقعی کم ہی ہیں۔ ایک بار میں نے امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے پوچھا کہ یہ جو دعائیں ہیں، ان کے درمیان آپ کس دعا کو زیادہ پسند کرتے ہیں یا کس دعا سے زیادہ مانوس ہیں؟ مجھے اپنے جملے بعینہ یاد نہیں ہیں لیکن ایسا ہی کچھ سوال کیا تھا، انھوں کچھ دیر سوچا اور پھر جواب دیا کہ دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ۔ اتفاق سے یہ دونوں دعائيں، دعائے کمیل بھی واقعی ایک بہت ہی زبردست مناجات ہے، معنی و مضمون کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں، یہاں تک کہ ان کے بعض فقرے تو ایک دوسرے کے بہت ہی قریب ہیں۔ خود یہ دعا بھی واقعی ایک نعمت ہے۔ اِلٰہی ھَب لی‌ قَلباً یُدنیہِ مِنکَ شَوقُہُ وَ لِساناً یَرفَعُ اِلَیکَ صِدقُہُ وَ نَظَراً یُقَرِّبُہُ مِنکَ حَقُّہ. (اے میرے معبود! مجھے ایسا دل عطا کر جس کا اشتیاق اسے تیرے قریب کر لے، اور ایسی زبان جس کی سچائی اسے تیری جانب اوپر لے آئے اور ایسی نگاہ جس کی حقانیت اسے تیرے دائرہ قرب میں داخل کرے۔) واقعی خداوند متعال سے اس طرح بات کرنا، اپنی حاجت بیان کرنا، حق تعالی کے حضور اپنا اشتیاق ظاہر کرنا، بہت ہی غیر معمولی چیز ہے، بہت ہی اعلی ہے؛ یا یہ فقرہ کہ "اِلٰہی بِکَ عَلَیکَ اِلّا اَلحَقتَنى‌ بِمَحَلِّ اَہلِ طاعَتِکَ وَ المَثوَى الصّالِحِ مِن مَرضاتِک" (اے میرے معبود! تجھے تیری ذات گرامی کا واسطہ! مجھے اپنے مطیع بندوں کے مرتبے اور اپنی خوشنودی کے نتیجے میں شائستہ منزلت تک پہنچا دے۔) یا یہ فقرہ جو اس دعا کا نقطۂ عروج ہے اور جسے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ بار بار اپنے بیانوں میں دوہراتے تھے کہ "اِلٰہى‌ ھَب لى‌ کَمالَ الاِنقِطاعِ اِلَیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضیاءِ نَظَرِھا اِلَیکَ حَتَّى‌ تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور.(3) (اے میرے معبود! تیرے علاوہ تمام مخلوقات سے دور ہونے اور ان سے امید منقطع کرنے میں مجھے ایسا کمال عطا فرما کہ میں مکمل طور پر تجھ تک پہنچ سکوں اور ہمارے دلوں کی بصارتوں کو اپنی طرف مکمل توجہ کے نور سے روشنی عطا کرتے رہنا، یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔) واقعی ہم لوگ کس طرح یہ باتیں کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے سامنے تو ظلمتوں کے پردے یکے بعد دیگرے ہیں؛ جبکہ اس دعا میں درخواست یہ کی گئي ہے کہ حَتَّى‌ تَخرِقَ اَبصارُ القُلوبِ حُجُبَ النّور (یہاں تک کہ دل کی آنکھیں نور کے پردوں کو پار کر لیں۔)

خیر یہ سب غیر معمولی تعلیمات اور معلومات ہیں اور بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ان تک رسائي رکھتے ہیں۔ ان کے ذہن، دل اور روح ان مضامین سے آشنائي رکھتے ہیں اور ان باتوں کا صحیح طریقے سے ادراک رکھتے ہیں، خوش نصیب ہیں وہ لوگ! خداوند عالم ہمیں بھی اس کی توفیق عطا کرے۔ بہرحال ماہ شعبان، ایک بابرکت مہینہ ہے اور ان شاء اللہ ہم اس مہینے سے حتی الامکان اور زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں گے۔

مجلس خبرگان (ماہرین اسمبلی) ان قانونی اداروں میں سے ہے جن کا اسلامی نظام کے استحکام میں بڑا اہم کردار ہے۔ البتہ تمام آئينی ادارے - حکومت، پارلیمنٹ، مسلح افواج، تشخیص مصلحت نظام کونسل، نگراں کونسل وغیرہ یہ سب - اسلامی نظام کے استحکام میں کسی نہ کسی طرح اہم کردار کے حامل ہیں، لیکن بعض کا کردار زیادہ ہے، بعض کا کم ہے۔ میرے خیال میں ماہرین کی اسمبلی، اسلامی جمہوری نظام میں سب سے زیادہ کردار رکھنے والے اداروں میں سے ایک ہے، البتہ ان سبھی قانونی اداروں کی اثر اندازی کی شرط یہ ہے کہ آئین میں ان کے لیے مقرر شدہ ضابطے کے مطابق، حدود کے مطابق کام کریں۔ آپ کے لیے بھی یہی شرط ہے؛ یعنی واقعی انہی چیزوں پر عمل کیجیے جو ماہرین کی اسمبلی سے چاہی گئي ہے، چاہے اس شخص کے بارے میں جو اس وقت رہبر کے منصب پر ہے، چاہے اس شخص کے بارے میں جو بعد میں آپ کے ذریعے منتخب ہوگا اور اس میدان میں آئے گا، ان قانونی ضوابط پر سختی سے عمل کیجیے۔ پارلیمنٹ کو بھی یہی کرنا چاہیے، حکومت کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ حکومت کے معینہ قانونی حدود ہیں؛ اسے پارلیمنٹ کے تمام قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے معینہ قانونی حدود ہیں۔ اسے اجرائيہ کے کام میں بالکل بھی مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اسے قانون سازی کرنی چاہیے اور اسی طرح کی دوسری مثالیں جو موجود ہیں۔

یہ جو ہم نے نظام کے استحکام کی بات عرض کی اور کہا کہ پارلیمنٹ اور دیگر ادارے، نظام کے استحکام میں مؤثر ہیں تو اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ اگر یہ استحکام موجود ہوا تو 'قومی طاقت' اور 'قومی اقتدار' عملی جامہ پہنے گا۔ قومی طاقت، قوم کے لیے حیاتی ہے؛ یعنی اگر ایک قوم خودمختار رہنا چاہتی ہے، سرفراز رہنا چاہتی ہے، اپنے ارادے کی بنیاد پر اور اپنے حق میں اپنے حیاتی ذخائر سے استفادہ کرنا چاہتی ہے، اپنے بنیادی مسائل میں اپنی رائے پر عمل کرنا چاہتی ہے اور دوسروں کی رائے پر عمل کے لیے مجبور نہیں رہنا چاہتی ہے، دوسروں کی حریصانہ نگاہ کی طرف سے تشویش میں نہیں رہنا چاہتی، ہمیشہ خوف و وحشت کے عالم میں نہیں رہنا چاہتی، اگر کوئي قوم ان ساری باتوں کی خواہاں ہو تو وہ کیا کرے؟ اسے طاقتور اور مضبوط ہونا چاہیے۔ قومی طاقت اور قومی اقتدار، ایک قوم کے لیے حیاتی ہے۔ اگر قومی طاقت نہ ہوئي اور کوئي قوم طاقتور نہ ہوئي تو یہ چیزیں، جن کے بارے میں ہم نے عرض کیا کہ یہ ایک قوم کے سب سے اہم اور بنیادی مسائل ہیں، اس کے لیے عملی جامہ نہیں پہنیں گي۔ وہ ہمیشہ تشویش میں رہے گي، ہمیشہ کمزوری اور ذلت کی حالت میں رہے گي، اغیار اس پر مسلط رہیں گے اور اسی طرح کی دوسری باتیں پیش آتی رہیں گي۔ بنابریں، نظام کا استحکام ضروری ہے، قومی طاقت اور قومی اقتدار ضروری ہے۔

جب ہم قومی طاقت کی بات کرتے ہیں تو یہ ایک اجتماعی چیز ہے، کئي چیزوں سے مل کر بننے والی ایک چیز ہے۔ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے عناصر سے مل کر بننے والی چیز ہے۔ قومی طاقت کو، کسی ایک خاص جگہ، کسی ایک خاص گروہ یا کسی خاص اقدام میں نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں مختلف عناصر کا ایک مجموعہ ہے اور اگر یہ عناصر مجتمع ہو گئے تو قومی طاقت وجود میں آ جائے گي، میں ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

قومی طاقت کا ایک رکن، سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔ یعنی اس طاقت کا ایک حصہ، سائنس اور ٹیکنالوجی ہے۔ ایک اور رکن، سوچ اور سوجھ بوجھ ہے۔ صاحب فکر ہونے اور صاحب علم ہونے میں فرق ہے۔ سوچ ہونی چاہیے۔ یہ جو ہم فکری آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور جو بھی اس کا نعرہ لگائے اسے ہم تسلیم کرتے ہیں، اس کا اثر یہی فکری پیشرفت ہے۔ یعنی اگر فکری پیشرفت نہ ہو تو علم و سائنس وغیرہ بھی کسی قوم کے پاس آ جائيں تو اس کے کام نہیں آئيں گے، سوچ کو کام کرنا چاہیے، پوری قوم کو آگے بڑھانا چاہیے اور یہ چیز، فکری آزادی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ یعنی فکری آزادی کے بغیر، فکری پیشرفت ممکن نہیں ہے۔

ایک دوسرا عنصر سلامتی اور دفاعی طاقت ہے؛ کسی بھی قوم کو اس بات کی جانب سے اطمینان ہونا چاہیے کہ اضطراری حالات میں وہ اپنا دفاع کر سکتی ہے۔ ایک اور رکن، معیشت اور اجتماعی فلاح و بہبود کا ہے؛ یہ بھی بہت مؤثر چیز ہے کہ لوگ معیشت کے لحاظ سے آسودہ خاطر رہیں۔ ایک دوسرا عنصر سیاست اور سیاسی و سفارتی سودے بازی کی طاقت ہے۔ یہ بھی قومی طاقت کا ایک حصہ ہے کہ ایک ملک اور ایک قوم کے پاس ایسے چنندہ اور زبردست ماہر افراد ہوں جو سیاست اور سفارتکاری کے میدانوں میں سودے بازی کر سکیں، مذاکرات کر سکیں، قوم کے مفادات کی پاسبانی کر سکیں،  انھیں حاصل کر سکیں۔ ایک دوسرا رکن کلچر اور طرز زندگي (لائف اسٹائل) ہے؛ یہ بھی طاقت کا ایک رکن ہے۔ اگر ایک قوم طرز زندگي کے لحاظ سے دوسروں کی تابع اور مقید ہوگي، دوسروں کی رائے کی بے چون و چرا پیروی کرے گي اور اس کا اپنا کوئي ٹھوس کلچر نہیں ہوگا، تو یہ قومی طاقت میں ایک شدید نقص ہے۔

ایک دوسرا رکن وہ پرکشش منطق ہے جو دیگر اقوام پر اثر ڈالے اور ملک کے لیے اسٹریٹیجک گہرائي پیدا کرے۔ اگر اسلامی جمہوریہ میں آپ کے پاس ایک ایسی پرکشش منطق ہو جسے جب آپ براہ راست، دیگر اقوام کے سامنے پیش کریں اور ان کے لیے دلچسپ ہو، پرکشش ہو اور وہ اسے تسلیم کریں تو یہ آپ کی اسٹریٹیجک گہرائي بن جاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں، قومی طاقت کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے عناصر ہیں۔ البتہ ان کے علاوہ بھی کچھ دوسرے عناصر ہیں اور ان میں سے جو عناصر ہمارے موضوع سے متعلق ہیں، ان کی طرف میں بعد میں اشارہ کروں گا۔

طاقت کے ان بازؤوں میں سے کسی کو بھی کچھ دوسرے بازؤوں پر قربان نہیں کیا جانا چاہئے۔  اس پر ضرور توجہ دیں! ہمیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ طاقت کے ان عناصر میں سے کسی کو بھی، یہ سوچ کر کہ یہ دوسرے فلاں عنصر کے منافی ہے، کاٹ دیں۔ جی نہیں! ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے اور یہ ممکن بھی ہے۔ واقعی یہ سادہ لوحی ہوگي کہ اگر کوئي یہ تجویز دے کہ ہمارے دشمنوں کو ہمارے سلسلے میں حساس ہونے سے روکنے کے لیے ہم اپنی دفاعی طاقت کو کم کر دیں! میرے خیال میں اس سے زیادہ سادہ لوحانہ اور احمقانہ کوئي چیز نہیں کہ انسان اس طرح کی بات کرے کہ اپنے خلاف مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ہم اپنی دفاعی طاقت اور اپنی خارجہ سیکورٹی کی طاقت کو کم کر دیں۔ یا فرض کیجیے کہ علاقائي مسائل میں ہمارا رول نہ ہو تاکہ فلاں بڑی طاقت کو برا نہ لگے یا وہ ہمارے خلاف اسے کوئی بہانہ نہ ملے! نہیں! خطے میں ہمارا رول، ہماری اسٹریٹیجی کی گہرائي ہے؛ خود یہ چیز، نظام کے استحکام کا ذریعہ ہے۔ نظام کی طاقت کا وسیلہ ہے؛ ہم کیسے اسے اپنے ہاتھ سے جانے دے سکتے ہیں جبکہ ایسی چیز ہمارے پاس ہو سکتی ہے اور ہونی ہی چاہیے۔

سائنسی پیشرفت سے آنکھیں بند کر کے! بعض لوگ کہتے ہیں کہ "جناب! ایٹمی مسئلے کو کنارے رکھ دیجیے؛ ایٹمی مسئلے نے اتنی زیادہ مخالفت پیدا کر دی ہے، مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔" ایٹمی معاملہ ایک سائنسی معاملہ ہے، ہماری مستقبل کی سائنسی و تکنیکی پیشرفت کا معاملہ ہے۔ ہمیں بہت دیر میں نہیں بلکہ عنقریب ہی، کچھ ہی سال بعد، ایٹمی توانائي کے پروڈکٹ کی ضرورت ہوگي؛ یعنی ہمیں پوری طرح سے اس کی ضرورت ہوگي؛ تب ہم کس کے پاس جائيں گے؟ کہاں سے شروع کریں کہ اسے حاصل کر سکیں؟ بنابریں ان چیزوں کو نظر انداز کرنا اور انھیں اہمیت نہ دینا، ٹھیک نہیں ہے۔ یا مثال کے طور پر امریکا یا کسی بھی دوسری طاقت کے مقابلے میں، پابندیوں سے بچنے کے لیے جھک جانا! یعنی ہم اپنی سیاست اور سیاسی مباحثے کے بازو کو کاٹ دیں، ان کے مقابلے میں جھک جائيں کیونکہ مثال کے طور پر اگر ہم نے تھوڑی سی بھی سختی کی تو وہ ہم پر پابندی مسلط کر دیں گے۔ یہ سب میرے خیال میں غلطیاں ہیں، وہ خطائيں ہیں کہ جن کے بارے میں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ کسی وقت ہم سے سرزد ہوئي ہیں؛ کھوکھلی دلیلوں کے ذریعے، کمزور استدلال اور قابل اعتراض دلیلوں کے ذریعے کبھی کبھی اخبارات میں اور ادھر ادھر اس طرح کی باتیں کی گئي ہیں۔ جبکہ یہ ساری دلیلیں، مسترد کیے جانے کے لائق تھیں اور انھیں مسترد کر بھی دیا گيا اور ان کے اصرار کا کوئي فائدہ نہیں ہوا۔

اگر ان برسوں میں ان افراد کو، جو طاقت کے ان بازؤوں کو کاٹنا چاہتے تھے، اس بات کی اجازت دی گئي ہوتی کہ وہ یہ کام کریں تو آج ملک کو بہت بڑے خطروں کا سامنا ہوتا۔ خداوند متعال کا ارادہ تھا اور مدد تھی جس کی وجہ سے ان کاموں کی انجام دہی کا امکان ہی پیدا نہیں ہوا۔ یہ بھی ایک اہم بات تھی۔

میں نے کہا تھا میں قومی طاقت کے بعض ارکان کی طرف اشارہ کروں گا۔ قومی طاقت کا ایک اہم رکن، وہ چیزیں ہیں جو براہ راست قوم سے متعلق ہیں۔ جیسے قومی اتحاد، جیسے قومی اعتماد؛ جیسے قومی امید؛ اجتماعی امید، جیسے قومی خود اعتمادی۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ، جو ملک کے فلاں ادارے کے فلاں شعبے کے سربراہ ہیں اور خود اعتمادی کے مالک بھی ہیں لیکن آپ ایک ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے عوام کی مدد کی ضرورت ہے؛ اگر عوام میں یہ خود اعتمادی نہ ہوگي تو آپ اس کام کو انجام نہیں دے سکتے؛ میں نے کبھی اس قومی خود اعتمادی کے بارے میں تفصیل سے بات کی تھی۔(4) یا قومی اعتقاد کا استحکام؛ کچھ اصول ہیں جن پر ہماری قوم ایمان رکھتی ہے؛ یہ ایمان اس بات کا سبب بنا کہ جب عوام کے ہاتھوں میں کوئي ہتھیار نہیں تھا، یہاں تک کہ بہت سے موقعوں پر پتھر بھی نہیں ہوتا تھا، وہ طاغوتی سلطنت کے فوجیوں کی گولیوں کے سامنے کھڑے ہو جائيں اور اسے سرنگوں کر دیں؛ یہ ایمان کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ قومی ایمان، بہت گرانقدر سرمایہ ہے؛ قومی ایمان کی حفاظت، ان سرمایوں میں سے ایک ہے، جن کا تعلق عوام سے ہے۔ یا عمومی معیشت کا مسئلہ یا پھر سماجی مسائل کے حل ہونے کا معاملہ۔

جناب صدر صاحب نے آپ حضرات کی باتوں کی تشریح کی۔ ملک اور لوگوں کی عمومی زندگي چلانے میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے امور چلتے رہنے چاہیے، ان میں مشکلات اور رکاوٹیں نہیں ہونی چاہیے؛  جیسے کہ حال ہی میں محترم ذمہ داران نے فیصلہ کیا ہے کہ سرمایہ کاری وغیرہ (کے سبھی کاموں) کے لیے ایک ہی ونڈو کھولیں؛(5) ان چیزوں کی طرح، کاموں کو روانی سے انجام پانا چاہیے، آسانی سے انجام پانا چاہیے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تعلق عوام سے ہے۔ اگر ان چیزوں کی تکمیل ہو گئي تو، میدان میں عوام کی موجودگي، یقینی ہو جائے گي؛ یعنی اگر ہم ان مسائل کو حل کر سکے جن کا براہ راست تعلق عوام سے ہے تو میدان میں عوام کی موجودگي بھی سو فیصد ہوگي۔ البتہ بحمد اللہ اس وقت بھی جبکہ ہمیں ان میں سے بعض مسائل میں مشکلات در پیش ہیں، عوام میدان میں ہیں۔ یہاں تک کہ اسّی کے عشرے میں، مقدس دفاع کے زماے میں بھی جب بہت زیادہ مشکلات تھیں، عوام، میدان میں موجود تھے، اس میں کوئي شک نہیں ہے لیکن اگر ان چیزوں کی تکمیل ہو گئي تو عوام بھرپور طریقے سے میدان میں موجود رہیں گے اور جب عوام، موجود رہیں تو کسی بھی ملک یا قوم کو کوئي غم نہیں ہوگا، کسی سے کوئي خوف نہیں ہوگا۔

لہذا چونکہ عوام کی موجودگي بہت اہم ہے اور عوام کی موجودگي کا انحصار ان چیزوں پر ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ چھوٹے بڑے شیطان، لوگوں کو بہکانے کے چکر میں ہیں۔ جیسا کہ ان کے سردار نے کہا تھا: "لَاُغوِیَنَّھُم اَجمَعین"(6) مسلسل بہکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان ذرائع ابلاغ کے ذریعے جنھوں نے آج ہر بات کو، ہر جھوٹ کو لوگوں تک پہنچانا، ہر غلط بات کو سجا کر پیش کرنا اور اس کا جواز فراہم کرنا بہت آسان بنا دیا ہے، وہ لوگ مسلسل معاشرے کے ذہن کی گہرائیوں میں کچھ نہ کچھ پہنچاتے رہتے ہیں، بہکاتے رہتے ہیں؛ "لَاُغوِیَنَّھُم اَجمَعین" تاکہ لوگوں کو اس ایمان سے، اس اعتماد سے، اس امید سے، اس خود اعتمادی سے اور ان چیزوں سے جن کا ہم نے ذکر کیا، دور کر سکیں، انھیں مایوس کر سکیں، ان کی خود اعتمادی کو ختم کر سکیں، حکام پر ان کے اعتماد کو ختم کر سکیں، قومی اتحاد کو کمزور کر سکیں، وہ لوگ مسلسل اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو دشمن کرتا ہے۔

البتہ ان کا مقصد یہ ہے کہ عوام الناس کو بہکا دیا جائے لیکن عوام الناس کو بہکانے کا راستہ، سربرآوردہ لوگوں اور اہم شخصیات کو بہکانا ہے۔ آج ایک اہم کام، معاشرے کے اہم افراد کو بہکانا ہے؛ یعنی وہ لوگ جن کے پاس کوئي منصب ہے، وسائل ہیں، شاید عالم ہیں یا اسی طرح کی کوئی اور شناخت رکھتے ہیں۔ جب اہم افراد، بہک گئے تو اگر ان بہکے ہوئے اہم افراد کو موقع دیا جائے، وسائل فراہم کیے جائیں تو یہ بڑی آسانی سے عوام الناس کو بہکا دیں گے۔ ہمارے ملک کی تاریخ کی سب سے شدید نرم جنگوں (سافٹ وار) میں سے ایک، آج اسی سلسلے میں جاری ہے۔ وہ مسلسل اپنے مہروں کو پال کر، حرام خوری کی عادت ڈال کر، مختلف طرح کے حربوں سے لوگوں کو حرام خور بنا رہے ہیں۔ جب وہ حرام خوری کے عادی ہو گئے تو پھر نجاست کھانے والے جانور کی طرح، اسے حرام خوری سے روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ لوگوں کو اپنا پٹھو بنا رہے ہیں، کچھ کو دھمکیوں کے ذریعے، کچھ کو لالچ اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے ذریعے۔ بنابریں اس وقت ایک شدید، سافٹ وار جاری ہے۔

البتہ میں یہ عرض کر دوں کہ آج ہمارے خلاف سافٹ وار اتنی شدید کیوں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہم طاقتور ہو گئے ہیں؛ مضبوط ہو گئے ہیں۔ آج حق کا محاذ، انفراسٹرکچر کے لحاظ سے، وسائل کے لحاظ سے مضبوط ہو گيا ہے۔ آج حق کے محاذ کو چیلنج کرنا، دشمن کے لیے آسان نہیں ہے، بہت مشکل کام ہے؛ اسی وجہ سے اس نے سافٹ وار کا حربہ استعمال کیا ہے اور اپنی پوری کوشش کر رہا ہے کہ لوگوں کی سوچ خراب کر دے؛ یہ ہماری طاقت اور مضبوطی کی وجہ سے ہے۔ البتہ ہم نے کہا کہ اہم شخصیات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن ان کے درمیان آج ایک بہت بڑی تعداد، جو اعلی دینی تعلیمی مراکز اور یونیورسٹیوں کی پرورش یافتہ ہے، بالخصوص نوجوان، بحمد اللہ بابصیرت بھی ہے اور پرعزم بھی ہے۔ حقیقی معنی میں یہ لوگ ایک مستحکم ستون ہو سکتے ہیں۔ البتہ دشمن بھی اپنی پوری کوشش کر رہا ہے، اثر ڈالنے اور رسوخ پیدا کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔

تو دشمن کے اس قدم کے مقابلے میں ہم کیا کریں؟ تشریح اور وضاحت کا جہاد؛ وہی چیز جسے آپ لوگوں نے ان دو دنوں میں اپنے بیانوں میں باربار کہا، میں بھی اس سے پہلے کئي بار دوہرا چکا ہوں اور تشریح کے جہاد کی بات کر چکا ہوں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اسے جہاد کیوں کہتے ہیں، تشریح اور بیان کا جہاد؟ یہ امیر المومنین علیہ السلام کے کلام سے ماخوذ ہے؛ امیرالمومنین اپنی اس مشہور وصیت میں حسنین علیہما السلام سے فرماتے ہیں کہ خطاب انہی سے ہے، لیکن کہتے ہیں: "و من بلغہ کتابی" یعنی جس تک میرا یہ خط پہنچے یعنی میں اور آپ بھی اس وصیت کے مخاطب ہیں، اس وصیت میں جو وصیتیں انھوں نے فرمائي ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: وَ اللَہَ اللَہَ فِی الجِہَادِ بِاَموَالِکُم وَ اَنفُسِکُم وَ اَلسِنَتِکُم فِی سَبِیلِ اللَہ؛(7) (اور اللہ سے ڈرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں، جانوں اور زبانوں سے جہاد کے بارے میں) تو زبانوں سے جہاد۔ بحمد اللہ ہماری قوم میں وہ لوگ جو اپنے اموال اور اپنی جان سے جہاد کر سکتے  تھے، انھوں نے یہ جہاد کیا، اب بھی یہ جہاد کر رہے ہیں؛ زبانوں سے بھی جہاد کرنا چاہیے، ایسے لوگ ہیں جو اس میدان میں بھی واقعی سرگرم ہو سکتے ہیں اور جہاد کر سکتے ہیں۔

ہم نے تشریح اور وضاحت کے جہاد کے بارے میں کئي بار گفتگو کی ہے؛ آج میں اس سلسلے میں کچھ ایسے نکات عرض کروں گا جنھیں شاید میں نے پہلے بیان نہیں کیا ہے: ایک نکتہ، جسے سب سے پہلے بیان کرنا چاہیے، یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ پارلیمنٹ میں تشریح اور بیان کے جہاد کے لیے ایک بھاری بھرکم بجٹ مد نظر رکھا گيا ہے۔ میں اس طرح کی روش سے زیادہ متفق نہیں ہوں۔ ہم برسوں سے مختلف اداروں، ان کے بجٹ اور اسی طرح کی چیزوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ اس طرح کا بے نام و نشان بجٹ عام طور پر برباد ہو جاتا ہے اور اس کا کوئي نتیجہ نہیں نکلتا۔ پارلیمنٹ ایک بڑا بجٹ منظور کرتی ہے، یہیں پر میں یہ بھی عرض کر دوں کہ مجھے ان عہدیداروں پر پورا بھروسہ ہے جنھیں یہ بجٹ ملنے والا ہے، مجھے ان کے سلسلے میں کسی بھی طرح کا عدم اعتماد نہیں ہے، چاہے وہ وزارت ارشاد میں ہوں، چاہے تبلیغات کے ادارے میں ہوں یا اسی طرح کے دوسرے اداروں میں ہو، ہمیں ان پر اعتماد ہے، وہ مومن اور ایماندار لوگ ہیں لیکن اس کام کی ماہیت ہی غلط ہے کہ ایک بڑا بجٹ، تشریح اور وضاحت کے جہاد کے لیے مختص کر دیا جائے۔ امید ہے کہ اس پر توجہ دی جائے گی، المختصر یہ کہ میں اس سے متفق نہیں ہوں؛ اگرچہ میں تشریح اور وضاحت کے جہاد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں لیکن میں اس طرح بجٹ پاس کرنے اور اس طرح خرچ کرنے سے متفق نہیں ہوں۔ یہ ایک بات ہوئي۔

دوسری بات یہ ہے کہ عسکری جنگوں میں اب پرانے ہتھیاروں سے نہیں لڑا جا سکتا۔ آج تلوار اور نیزوں وغیرہ سے توپ اور میزائيلوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ تشریح اور بیان کے جہاد میں بھی ایسا ہی ہے؛ پرانے طریقوں سے کام نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ بعض پرانے طریقوں کا کوئي متبادل نہیں ہے، جیسے منبر، جیسے مداحی؛ یہ پرانے ہیں لیکن ان کا کوئي متبادل نہیں ہے؛ یہ بدستور مؤثر ہیں اور کوئي بھی چیز ان کی جگہ نہیں لے سکتی لیکن مختلف ذرائع کے لحاظ سے اپ ٹو ڈیٹ ہو کر آگے بڑھنا چاہیے۔ البتہ اس سلسلے میں آج ہمارے ہارڈ ویئر ہتھیار اچھے ہیں؛ یعنی سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا وغیرہ کے شعبے سرگرم ہیں اور کام کر رہے ہیں، اگرچہ سائبر اسپیس میں کچھ مشکلات ہیں، جنھیں جناب رئیسی صاحب اور ان کے رفقائے کار، کوشش کر کے جلد از جلد برطرف کر دیں گے، لیکن بہرحال یہ ہماری دسترس میں ہے؛ جو کام ہونے چاہیے وہ ہارڈ ویئر کے لحاط سے دسترس میں ہیں؛ اہم بات معاملے کا سافٹ ویئر شعبہ ہے۔ تشریح اور وضاحت کے ہتھیار کا ایک اہم سافٹ ویئر حصہ ہے؛ اس حصے میں جدت عمل دکھائي جانی چاہیے، نئي باتیں بیان ہونی چاہیے اور بیان میں نئے طریقے کا استعمال ہونا چاہیے۔

میرے خیال میں آج جو چیز بہترین طریقے سے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر کام کر سکتی ہے وہ مختلف میدانوں میں اسلام کی اعلی اقدار و تعلیمات کو بیان کرنا ہے۔ معرفتی مسائل کے میدان میں ہمارے پاس بہت زیادہ ان کہی باتیں ہیں، ایسی قابل بیان باتیں جو دنیا کے لیے پرکشش اور شیریں ہیں، ہمارے پاس بہت زیادہ ہیں۔ اسلامی طرز زندگي سے متعلق مسائل کے بارے میں ہمارے پاس ایسی بہت سی باتیں ہیں جنھیں ہنوز بیان نہیں کیا گيا ہے۔ فرض کیجیے کہ ان میں سے ایک بحث، ماحولیات کی ہے، ایک بحث جانوروں کے سلسلے میں طرز سلوک کی ہے، ایک بحث گھرانے کی ہے؛ یہ سب طرز زندگي ہی میں تو شامل ہیں۔ ان سب چیزوں کے بارے میں اسلام کے پاس پرکشش باتیں ہیں؛ یہ وہ اسلامی اقدار ہیں جنھیں اسلامی کتابوں سے نکالا جا سکتا ہے، منتخب کیا جا سکتا ہے اور سبھی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔

یا اسلامی حکمرانی کی روش کی بات لے لیجئے! ایک انتہائی اہم موضوع جسے پیش کیا جا سکتا ہے، اسلامی حکمرانی کا مسئلہ ہے۔ حکمرانی کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ، دنیا میں رائج حکمرانی سے پوری طرح الگ ہے۔ نہ وہ سلطنت کی طرح ہے اور نہ دنیا کی آج کی صدارتوں جیسا ہے، نہ فوجی کمانڈر کی طرح ہے اور نہ ہی بغاوت کرنے والے سربراہوں جیسا ہے۔ اسلام کے مد نظر جو حکمرانی ہے وہ ان میں سے کسی کی طرح نہیں ہے، وہ ایک خاص چیز ہے جو روحانی بنیادوں پر استوار ہے۔ اسلامی طرز حکمرانی یہ ہے: عوامی ہونا، دینی ہونا، عقیدتی ہونا، اشرافیہ نہ ہونا، فضول خرچ نہ ہونا، ظالم نہ ہونا، نہ ظالم ہونا اور نہ ظلم برداشت کرنے والا ہونا: لا اُظلَمَنَّ وَ اَنتَ مُطیقٌ لِلدَّفعِ عَنّی وَ لا اَظلِمَنَّ وَ اَنتَ‌ القادِرُ عَلَى‌ القَبضِ‌ مِنّی.(8) (کوئي مجھ پر ظلم نہ کرے کیونکہ تو مجھ سے ظلم کو دفع کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور میں کسی پر ظلم نہ کروں کیونکہ تو مجھے ظلم سے باز رکھنے پر قادر ہے۔) یہ صحیفۂ سجادیہ کی دعاؤوں میں ہے۔ ان کا ایک ایک لفظ معرفت کا سرچشمہ ہے؛ یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمارے نئے ہتھیار ہیں، ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔

تیسری بات جو میں تشریح اور وضاحت کے جہاد کے سلسلے میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ تشریح اور بیان کے جہاد میں، قوم کی مادی ترقی و پیشرفت کی راہ، غلط راستوں سے الگ کی جانی چاہیے؛ ایک اہم مسئلہ یہ ہے۔ ہم نے برسوں پہلے کسی دن نماز جمعہ کے خطبے میں(9) 'اپنے اور پرائے' کی بات کی تھی، اس پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا تھا کہ "اپنے اور پرائے میں کیوں تقسیم کر رہے ہیں؟" جبکہ جن حضرات نے یہ اعتراض کیا تھا، خود انہی لوگوں نے بار بار، مختلف مسائل میں اپنے اور پرائے کی بات پر عمل کیا۔ اپنے اور پرائے کی بحث، ایک بنیادی بحث ہے؛ 'اپنے' کا مطلب، اپنا رشتہ دار، یا اپنے مسلک والا، یا اپنی پارٹی والا یا گروہی مسائل میں اپنا ہم فکر نہیں ہے، اسلام کی راہ پر عقیدے میں اپنا، قرآن کی رائے پر عقیدہ رکھنے میں اپنا، اسلامی ایمان پر عقیدے میں اپنا اور اسلامی جمہوریہ کی عظیم حرکت میں اپنا، جس کے لیے اتنی قربانیاں دی گئي ہیں۔ یہ اہم ہے؛ اس صحیح راستے کو غلط راستے سے الگ کیا جانا چاہیے، واضح کیا جانا چاہیے؛ تشریح کے جہاد میں، یہ بات اہم ہے۔

تشریح اور بیان کے جہاد کے سلسلے میں آخری نکتہ یہ ہے کہ یہ خود ہمارے لیے انتباہ ہے، خود ہمارے لیے چوکنا ہونے کی بات ہے، کہ یہ جان لیں کہ اگر تشریح اور بیان کا جہاد صحیح طریقے سے انجام نہیں پایا تو دنیاپرست لوگ، دین تک کو اپنی ہوس اور خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا لیں گے؛ یعنی اگر ہم اور آپ اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہ کریں تو وہ، جو صرف دنیا کے لیے ہی کام کرتا ہے - اپنی ذاتی دنیا کے لیے، یعنی اپنی ہوس کے لیے، اپنی آرزؤوں کے لیے، اپنی ذاتی خواہشات کے لیے - دین تک کو اپنی خدمت میں لگا دے گا۔ یہ جملہ جناب مالک اشتر کے نام امیر المومنین علیہ السلام کے معروف خط(10) میں ہے۔ آپ انھیں حکم دیتے ہیں کہ ایسے افراد کا انتخاب کرو، جن میں یہ خصوصیات ہوں؛ آپ تفصیل کے ساتھ ان خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو اپنے ساتھ تعاون کے لیے منتخب کرو؛ جب یہ خصوصیات بیان کر چکتے ہیں تو پھر فرماتے ہیں: فَانظُر فی ذٰلِکَ نَظَراً بَلیغا؛ غور سے دیکھو، غور سے جائزہ لو؛ فَاِنَّ ھٰذَا الدّینَ قَد کانَ اَسیراً فی اَیدِی الاَشرار. بڑی عجیب بات ہے! یہ بات امیرالمومنین مالک اشتر سے کہہ رہے ہیں؛ پیغمبر اکرم کی وفات کے بیس پچيس سال بعد؛ یہ بنی امیہ اور انہی جیسے افراد کے تسلط کی طرف اشارہ ہے؛ وہ لوگ جو نماز صبح میں چار رکعت یا چھے رکعت پڑھا کرتے تھے اور پھر کہتے تھے کہ ہم پورے ہوش و حواس میں ہیں، خوش ہیں، اگر چاہو تو کچھ رکعت اور پڑھا دیں۔ فَاِنَّ ھٰذَا الدّینَ قَد کانَ اَسیراً فی اَیدِی الاَشرار یُعمَلُ فیہِ بِالہَوىٰ وَ تُطلَبُ بِہِ الدُّنیا؛ دین کو، دنیا حاصل کرنے اور اپنی ہوس  کو بجھانے کا ذریعہ بنا لیں گے۔ ہم شیطان کے ایسے سخت جال میں گرفتار ہونے سے خداوند عالم سے پناہ مانگتے ہیں؛ چاہے ہم ہوں یا ہمارے عوام ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ جو باتیں ہم نے کہی ہیں، ان شاء اللہ پہلے مرحلے میں ہم خود ان پر عمل کریں اور پھر یہ عمل اثر انداز بھی ہوں۔

خدایا! تجھے واسطہ ہے محمد و آل محمد کا، شعبان کے اس مہینے کو پوری امت اسلامیہ کے لیے، ایران کی عزیز قوم کے لیے مبارک کر دے۔ خدایا! حضرت ولی عصر، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود کر دے؛ ہمیں ان کی دعاؤں اور خوشنودی کا حقدار بنا دے اور ہمارا سلام اور ہماری عقیدت ان تک پہنچا دے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں ماہرین اسمبلی کے نائب سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے مختصر تقریر کی۔

(2) مصباح‌المتہجّد و سلاح‌المتعبّد، جلد 3، صفحہ 829 (صلوات شعبانیّہ)

(3) اقبال‌الاعمال، جلد 2، صفحہ 686 (مناجات شعبانیّہ)

(4) صوبۂ یزد کی یونیورسٹیوں کے طلباء سے ملاقات میں خطاب (3/1/2008)

(5) ایران کی پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے منظور کردہ بل کے مطابق روزگار اور کام کے لائسنس سے متعلق تمام امور، جیسے ڈیمانڈ، انکوائری کے جواب، اپروول اور لائسنس کا اجراء سنہ چودہ سو ایک ہجری شمسی کی شروعات (21 مارچ 2022) سے صرف لائسنسوں کے قومی پورٹل سے اور انٹگریٹیڈ طور پر انجام پائيں گے۔

(6) منجملہ، سورۂ صاد، آیت نمبر 82، "میں اِن سب کو بہکا کر ہی رہوں گا۔"

(7) نہج البلاغہ، خط نمبر 47

(8) صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 20

(9) تہران کی نماز جمعہ کے خطبے (30/7/1999)

(10) نہج البلاغہ، خط نمبر 53