بسم اللہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ سے بالمشافہ ملاقات میرے لیے بڑی خوشی و مسرت کی بات ہے – اس شیریں و پر تپاک نشست سے دو سال کی محرومی کے بعد ہونے والی یہ نشست، اور اسی طرح وہ تقریریں جو ہوئيں۔ البتہ میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض لوگوں نے چونکہ بہت تیز تیز بات کی، سوائے آخری مقرر کے، پناہی صاحب نے کسی حد تک اطمینان سے بات کی اور میں ان کی زیادہ تر باتوں کو سمجھ سکا، دوسرے دوستوں نے بہت تیز تقریر کی۔ کچھ باتوں کو میں سمجھا اور کچھ باتوں کو سمجھ نہیں سکا۔ اس لیے آپ اپنی تحریریں ضرور مجھے دے دیجیے تاکہ میں بعد میں انھیں دیکھ سکوں۔

میں اصلی بات شروع کرنے سے پہلے جس چیز کے بارے میں ایک مختصر بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی آپ لوگوں نے کہا ہے، وہ دل کی باتیں ہیں اور انسان، ان باتوں کو سننا پسند کرتا ہے۔ البتہ آپ کے بہت سے سوالوں کے ٹھوس اور اطمینان بخش جواب موجود ہیں، بہت سی تنقیدوں کے، مشکل کو حل کرنے والے جوابات ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ اعتراض جو آپ کے یا آپ کے گروپ کے ذہن میں آيا ہے اور جسے آپ نے یہاں بیان کیا ہے، وہ واقعی ایک بند گلی ہو۔ نہیں، ان میں سے زیادہ تر کے جواب ہیں۔ البتہ خود آپ کی باتوں میں کچھ تجاویز تھیں اور ممکن ہے کہ ان میں سے بعض تجاویز واقعی قابل عمل اور ممکن ہوں لیکن اصلی چیز اعتراض تھی۔ بہت سے اعتراضوں اور تنقیدوں میں، میں نہیں کہتا کہ سب میں، ہماری مشکل یہ ہے کہ متعلقہ عہدیدار سے آپ کی گفت و شنید نہیں ہے۔ اسے حل ہونا چاہیے۔

یہ ابھی کی نہیں بلکہ چالیس سال پہلے کی بات ہے، میں ہر ہفتے ایک دن تہران یونیورسٹی جایا کرتا تھا، بلا ناغہ۔ وہاں اسٹوڈنٹس اکٹھا ہوتے تھے اور اپنے اپنے سوال پوچھا کرتے تھے، میں جواب دیتا تھا۔ بہت سی مشکلات حل ہو جاتی تھیں، بہت سی گرہیں کھل جاتی تھیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ اعتراض کا جواب نہیں ہوتا تھا۔ ہم سمجھ جاتے تھے کہ مثال کے طور پر ہمیں جا کر کوئي کام کرنا ہوگا۔

یہ چیز ہمیں کسی طرح شروع کرنی چاہیے۔ میں نے عہدیداروں سے تاکید کے ساتھ کہا ہے کہ وزراء بھی آئيں اور آپ کی باتیں سنیں اور مختلف اداروں کے عہدیدار بھی۔ جیسے سپاہ پاسداران اور کچھ دوسرے اداروں کا نام لیا گيا، وہ آئيں اور بات کریں، آئيں اور بتائيں۔ ان میں سے بہت سی باتوں کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ ہاں کبھی ایسا بھی ہو سکتا کہ وہ بات قابل وضاحت نہ ہو، تو فریق مقابل سمجھ جاتا ہے کہ اسے جا کر کچھ کرنا ہوگا، کوئي اقدام کرنا ہوگا، کوئي قدم اٹھانا ہوگا۔ یہ بھی ایک بات تھی جس کی طرف میں چاہتا تھا کہ آپ توجہ دیں۔

ساتھ ہی ابھی پارلیمنٹ کی بات ہوئي، پارلیمنٹ پر اعتراض کیا گيا اور مجھ سے درخواست کی گئي کہ میں، اس پارلیمنٹ سے انقلابیت کا عنوان واپس لے لوں۔(2) دیکھیے اس پارلمینٹ کے بہت سے اراکین، کل کے وہی نوجوان ہیں جو آپ جیسے تھے۔ مطلب یہ کہ ان میں سے بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو کچھ سال پہلے آپ کی طرح آتے تھے، کھڑے ہوتے تھے، اعتراض کرتے تھے، باتیں کرتے تھے، تنقید کرتے تھے۔ یہ سب انقلابی ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ انقلابی نہ ہوں۔ البتہ میں ان سب کو فردﴼ فردﴼ تو نہیں پہچانتا بلکہ میں اجتماع کی بات کر رہا ہوں۔ یہ اجتماع برا نہیں ہے، اچھا ہے۔ حکومت میں بھی، پارلمینٹ میں بھی اور بعض دوسرے اداروں میں بھی۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے بعض پر کچھ اعتراضات صحیح بھی ہوں۔

بہرحال میں آج آپ کی باتوں سے محظوظ ہوا۔ یہ جان لیجیے کہ آپ لوگ بیٹھتے ہیں، سوچتے ہیں، مسائل کے پہلوؤں پر غور کرتے ہیں، کسی نتیجے تک پہنچتے ہیں اور یہاں کھل کر بیان کرتے ہیں، یہ چیز میرے لیے مفید اور مطلوب ہے۔

جو باتیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں، ان میں سب سے پہلے تو ایک نصیحت ہے، میں آپ عزیزوں کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام حسن علیہ السلام کو لکھے گئے ایک خط(3) میں تحریر کیا ہے: "احی قلبک بالموعظۃ" اپنے دل کو وعظ و نصیحت سن کر زندہ کرو! یہ بات امیر المومنین علیہ السلام کہہ رہے ہیں، وہ بھی اپنے بڑے بیٹے، اپنے پیارے بیٹے امام حسن سے کہہ رہے ہیں اور آپ کے لیے یہ جاننا بھی دلچسپ ہوگا کہ یہ خط امیر المومنین نے صفین سے واپسی کے راستے میں، اپنے سامنے موجود بے شمار مسائل کے دوران لکھا تھا۔ یہ خط نہج البلاغہ میں موجود ہے، اگر آپ اس خط کا مطالعہ کریں تو آپ کے لیے بہتر ہوگا۔ احی قلبک بالموعظۃ۔ نصیحت بھی ضروری ہے۔

آج میں جو نصیحت کرنا چاہتا ہوں، وہ سورۂ مریم کی ایک آيت ہے جو قرآن مجید کی ہلا دینے والی آيتوں میں سے ایک ہے، واقعی جب بھی یہ آیت انسان کے ذہن میں آتی ہے، اسے ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ آیت میں کہا گيا ہے: وَ اَنذِرھُم یَومَ الحَسرَۃِ اِذ قُضِیَ الاَمرُ وَ ھُم فی غَفلَۃ(4) یعنی اے ہمارے پیغمبر! ان لوگوں کو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، حسرت کے دن سے ڈرائیے۔ حسرت کا دن، قیامت کا دن ہے، اس دن کو یوم حسرت بھی کہا گيا ہے۔ اذا قضی الامر یعنی جب کام پورا ہو چکا ہوگا اور پھر کچھ بھی نہ کیا جا سکے گا۔ قضی الامر کا مطلب یہ ہے۔ آيت کہتی ہے کہ پیغمبر ان لوگوں کو اس دن سے ڈرائیے۔ انسان قیامت میں دیکھے گا کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ ایک چھوٹے سے کام سے یہاں ایک بڑا انعام حاصل کر لیا جائے۔ دنیا میں ایک چھوٹے سے کام کا یہاں پر بہت زیادہ سودبخش اور ابدی نتیجہ حاصل ہو جائے اور وہ کام، اس نے نہیں کیا ہے۔ اس پر انسان حسرت زدہ رہ جائے گا۔ یا وہ دنیا میں ایک پرہیز کے ذریعے، کسی کام سے اجتناب کر کے، کسی بات کو یا عمل کو ترک کرکے ایک دردناک عذاب کو خود سے دور کر سکتا تھا، لیکن اس نے نہیں کیا، کوشش نہیں کی۔ ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے کہ کہ صحیح کام کریں، ہمیں صحیح عمل کرنے کا، صحیح بات کرنے کا، صحیح پروگرام تیار کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے، حسرت کا دن، بہت سخت دن ہے۔ یہ کام اور یہ فیصلے جوانی میں ممکن ہیں، میرے اور میرے جیسی عمر کے لوگوں کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ کبھی کبھی ہم اس بڑی حسرت کے نمونے دنیا میں بھی دیکھتے ہیں۔ کوئي چیز ہمارے ہاتھ سے نکل جاتی ہے، ہم حاصل نہیں کر پاتے تو ہمیں حسرت ہوتی ہے کہ ہم نے ایسا کیوں کیا؟ ویسا کیوں نہیں کیا؟ البتہ یہ، قیامت کی حسرت کے مقابلے میں بہت چھوٹی چیز ہے۔ اس حسرت سے ہزاروں گنا چھوٹی ہے لیکن بہرحال حسرت ہی ہے۔ بحمد اللہ آپ کو آج یہ حسرت نہیں ہے، کیونکہ آپ جوان ہیں۔ یہ چیز ہم جیسے لوگوں کے لیے ہے جو جوانی اور ادھیڑ عمر کو پار کر چکے ہیں، ہمیں کچھ کام کرنے چاہیے تھے، ہم نے نہیں کیے اور کچھ کام نہیں کرنے چاہیے تھے، وہ ہم نے کیے۔

آپ، اپنے پاس موجود اس موقع کی قدر کیجیے۔ آپ جس عمر میں ہیں، ممکن ہے آپ کے سامنے ساٹھ سال، ستر سال کی عمر ہو، اس موقع کی قدر کیجیے جو آپ کے سامنے اور آپ کی خدمت میں ہے۔ یہ میری آج کی نصیحت ہے۔

اب جو چیز میں نے تیار کی ہے وہ زیادہ تر یونیورسٹی اور یونیورسٹی کے مسائل کے بارے میں ہے۔ آپ لوگوں نے جو باتیں کیں، ان میں ایک صاحب نے یونیورسٹی یا شاید اسٹوڈنٹس کے مسائل کے بارے میں ایک مختصر تنقید بھی کی تھی۔ میں یونیورسٹی کے مسائل کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں، میرے پاس رائے بھی ہے اور تجویز بھی ہے، جسے میں بیان کرتا ہوں: سب سے پہلے یونیورسٹی کی کردار تراشی، کردار تراشی کا امکان اور مستقبل قریب میں اس کردار تراشی کی ضرورت، دوسرے بعض مواقع جو موجود ہیں، کچھ خطرے جو موجود ہیں اور پھر طلبہ کے لیے کچھ ضروری نکات۔ یہ ہماری آج کی گفتگو کے بنیادی موضوعات ہیں، ان شاء اللہ اگر آپ نے ہمت دکھائي اور میں بھی بیان کر سکا تو ان باتوں کو عرض کروں گا۔

انقلاب کی ابتدا سے ہی یونیورسٹی کو ایک بنیادی موضوع کی حیثیت سے پیش کیا گيا۔ یعنی جب انقلاب وجود میں آیا تو اس کے کچھ اہداف تھے، کچھ بڑے اہداف تھے: انفرادی اور آمریت والی حکمرانی کو عوامی حکمرانی میں تبدیل کرنا، ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں میں دوسروں کی پیروی کو خودمختاری میں بدلنا اور اسی طرح کے دوسرے اہم اہداف جو انقلاب کے تھے لیکن ان اہداف کے علاوہ انقلاب کے سامنے کچھ عملی اور فوری پروگرام بھی تھے جن میں سے ایک یونیورسٹی کا مسئلہ تھا۔ دیگر پروگراموں میں فرض کیجیے کہ ملک کی سلامتی، سرحدوں کی سیکورٹی، ملک کی داخلہ سیکورٹی وغیرہ تھے جو ان بنیادی اور اہم مسائل میں تھے جو انقلاب کے سامنے تھے اور انقلاب کو ان پر کام کرنا تھا، انہی میں سے ایک یونیورسٹی کا مسئلہ تھا۔

یونیورسٹی کا مسئلہ اس لحاظ سے اہم تھا کہ یونیورسٹی ایک حقیقت تھی اور ایک ایسی حقیقت تھی جس کی ضرورت بھی تھی۔ تاہم یونیورسٹی کے بارے میں دو طرح کے نظریات تھے: ایک نظریہ، انقلاب کا نظریہ تھا اور دوسرا نظریہ، یونیورسٹی کے بارے میں انقلاب مخالف رجعت پرست دھڑے کا تھا۔ اس دوسرے نظریے کو پہلے نظریے میں تبدیل ہونا چاہیے تھا۔ اس لیے وہ ایک چیلنج تھا۔ انقلاب کے پہلے دن سے یونیورسٹی کا مسئلہ، چیلنج والے مسائل میں سے ایک تھا۔ اس لیے آپ دیکھتے ہیں کہ امام خمینی نے ابتداء میں ہی، ثقافتی انقلاب کے مرکز کی تشکیل کی۔(5) آپ میں سے کسی ایک صاحب نے ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کی طرف اشارہ کیا۔ یہ کونسل ایک عمیق مطالعے کی بنیاد پر تشکیل پائي، ایسا نہیں تھا کہ بغیر کسی وجہ کے کوئي کونسل تشکیل دینا چاہتے تھے۔ اس کونسل سے پہلے، اس کا پیشرو، ثقافتی انقلاب کا مرکز تھا جسے خود امام خمینی نے تشکیل دیا تھا۔ البتہ اعلی کونسل کو بھی امام خمینی نے ہی تشکیل دیا تھا(6) لیکن سینٹر کے بعد۔ شروعات میں امام خمینی نے یونیورسٹیاں چلانے کے لیے ثقافتی انقلاب کا ایک مرکز تشکیل دیا۔ دیکھیے، یہ چیز امام خمینی کی نظر میں یونیورسٹی کی اہمیت کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے یونیورسٹی کے بارے میں اہم بیانات دیے جن سے پتہ چلتا ہے کہ یونیورسٹی کا معاملہ، انقلاب کے پہلے درجے کے چیلنجنگ مسائل میں سے ایک تھا۔

ہم نے وہ جو دو نظریے بیان کیے، ان کا تضاد کس چیز میں ہے؟ ایک تو یہ ہے کہ انقلاب، یونیورسٹی کو، ملک کی پیشرفت اور ملک کے مسائل کے حل کے لیے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی پرورش کا ایک مقام سمجھتا تھا۔ یونیورسٹی کے بارے میں انقلاب کا نظریہ یہ ہے۔ ملک کے مسائل کے حل کے لیے، ملک کی ترقی و پیشرفت کے لیے، ملک کی دو تین سو سالہ پسماندگی کی تلافی کے لیے غیر معمولی صلاحیت کے افراد کی پرورش ضروری ہے۔ انقلاب اس نظر سے یونیورسٹی کو دیکھتا تھا۔ جبکہ یونیورسٹی کے بارے میں اس رجعت پرست اور انقلاب مخالف دھڑے کا نظریہ بالکل یہ نہیں تھا، انھوں نے ملک میں یونیورسٹیاں بنائي تھیں اور چلائي تھیں تاکہ پٹھو اور مہرے تیار کریں، تاکہ خود قوم کے اندر سے اور قوم میں سے کچھ لوگ ایسا کام کریں جسے وہ لوگ باہر سے کرنا چاہتے تھے۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے، یہ بڑا  طویل مسئلہ ہے۔ نئي نوآبادیاتی پالیسی۔

افسوس کی بات ہے کہ نوجوان، کتابیں کم پڑھتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ نے سامراج اور نیو کالونیئل ازم وغیرہ کے بارے میں کتنی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کے بارے میں کتنا جانتے ہیں۔ یورپ والوں نے کسی زمانے میں یعنی سترہویں صدی سے، لگ بھگ سنہ 1600 عیسوی سے۔ پہلے پرتگالیوں نے، پھر ہسپانویوں نے اور پھر دوسروں نے، دنیا میں استعمار اور نوآبادیات بنانے کا کام شروع کیا۔ یعنی وہ ملکوں پر قبضہ کرتے تھے اور لوگوں کا خون بہا کر، مظالم ڈھا کر اور طاقت استعمال کر کے، کمزور ملکوں کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لیتے تھے اور ان کی دولت و ثروت کو لوٹ لیتے تھے۔ بیسویں صدی میں یعنی تقریبا تین چار صدی تک نوآبادیاتی نظام چلانے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اب براہ راست استعمار کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ ایک نئي پالیسی وجود میں آئي اور وہ یہ تھی کہ ٹارگٹ بنائے گئے ملکوں میں کچھ افراد کو تیار کیا جائے تاکہ وہ افراد وہی کام کریں جو وہ سامراجی ملک انجام دینے والا تھا، وہی باتیں کریں جو وہ کرنے والا تھا، اپنے ملک میں وہی اقدام کریں جو وہ سامراجی ملک کرنے والا تھا۔ تو ہدف یہ ہے۔ بنابریں مغرب والوں کے لیے ٹارگٹ بنائے گئے ملک میں یونیورسٹی، غیر معمولی صلاحیت والوں کی پرورش اور ان کی شناخت کے سلسلے میں جو نظریہ تھا وہ یہی تھا جو میں عرض کر رہا ہوں اور اسی کا نام نیو کالونیئل ازم تھا۔ اس سلسلے میں کتابیں لکھی گئي ہیں، باتیں کی گئي ہیں، لوگوں نے کافی زیادہ تحقیقی مقالے وغیرہ لکھے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ آپ انھیں دیکھیں۔ یونیورسٹی کے بارے میں رجعت پرست اور انقلاب مخالف دھڑے کا نظریہ یہ تھا اور یہ انقلاب کے نظریے سے پوری طرح تضاد رکھتا ہے۔

یونیورسٹی کے بارے میں ایک دوسرا چیلنج یہ تھا کہ انقلاب، یونیورسٹی کو علم کی پیداوار کے مرکز اور علم کی پیشرفت کے مرکز کی حیثیت سے دیکھتا تھا تاکہ یونیورسٹی علم کو آگے بڑھا سکے۔ پہلے سیکھیں، پھر پیداوار کریں اور پھر آگے بڑھائيں۔ تاکہ علم کے ذریعے قومی قوت کو یقینی بنایا جا سکے کیونکہ علم و سائنس، ایک قوم کو اور ایک ملک کو طاقت عطا کرتی ہے، قوت عطا کرتی ہے۔ انقلاب کا نظریہ یہ تھا۔ اس رجعت پرست اور انقلاب مخالف دھڑے کا نظریہ یہ بالکل نہیں تھا۔ اسے یونیورسٹی سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ علم کی پیداوار کرے۔ نہیں، وہ یہ چاہتا تھا کہ ہماری یونیورسٹیاں، صرف ہمارے ملک کی ہی یونیورسٹیاں نہیں، ٹارگٹ بنائے گئے تمام ملکوں کی یونیورسٹیاں، مغربی علم و سائنس کی خوشہ چینی کریں یعنی اس بے کار اور بے فائدہ یا کم فائدے والی چیز کو سیکھیں اور علم و سائنس کی پیداوار کر ہی نہ سکیں۔ یعنی حقیقی معنی میں ان ملکوں میں علم پیشرفت نہ کر سکے اور اس کی توسیع نہ ہو سکے۔ ان لوگوں کا ہدف یہ تھا۔ ان ملکوں میں کسی بھی شعبے میں علم کی جدت طرازی میں اٹھنے والے ہر قدم کی سرکوبی کر دی گئي۔ یہ دعوے نہیں، حقائق ہیں، یہ وہ واقعات ہیں جو رونما ہو چکے ہیں۔ تو یہ بھی ایک چیلنج تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یونیورسٹی کے ذریعے "صارف دانشور" اور "صارف معاشرہ" تیار کریں۔ صارف دانشور یعنی وہ شخص جو مغربی علم کا صارف ہے اور وہ بھی پیشرفتہ علم نہیں بلکہ پچھڑا ہوا علم، منسوخ شدہ علم۔ صارف معاشرے کا مطلب یہ ہے کہ یہی تعلیم یافتہ صارف دانشور جب معاشرے میں آتا ہے، جب کسی چیز کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیتا ہے تو ایک صارف معاشرہ وجود میں لے آتا ہے، مغربی مصنوعات کے لیے صارف منڈی تیار کرتا ہے۔ یونیورسٹی کا ہدف یہ تھا۔  یونیورسٹی کے سلسلے میں اس قسم کے نظریات تھے۔

یونیورسٹیوں کے بارے میں ایک دوسرا چیلنج یہ تھا کہ انقلاب کا اہدف، ایک دیندار یونیورسٹی تیار کرنا تھا کہ جب ملک کا کوئي نوجوان یونیورسٹی میں آتا ہے اور کئي سال تک یونیورسٹی میں رہتا ہے اور پھر باہر آتا ہے تو اسے دیندار بن کر باہر آنا چاہیے بلکہ جب اس نے یونیورسٹی میں ایڈمشن لیا تھا، اس وقت سے بھی زیادہ دیندار بن کر نکلنا چاہیے۔ لیکن ان لوگوں کا ہدف اس کے بالکل برخلاف تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یونیورسٹی سے دین کا خاتمہ کر دیں اور انھوں نے اس کی کوشش بھی کی۔ لیکن اس ہدف میں وہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ مگر انھوں نے اپنی ہر ممکن کوشش کی۔ یہ جو میں نے کہا کہ وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اس لیے کہا کہ طاغوت کی بنائي ہوئي اور مغرب کے پروگراموں کے مطابق چلائي جانے والی اسی یونیورسٹی سے حسن باقری جیسے لوگ نکلے، ایک عالی مقام نمایاں شہید جو اسی تہران یونیورسٹی کی لاء فیکلٹی کے اسٹوڈنٹ تھے۔ یا ان ایٹمی شعبے کے شہیدوں میں سے کئي اس زمانے کے اسٹوڈنٹ ہیں۔ مقدس دفاع کے بہت سے شہداء، ممتاز افراد اور کمانڈر وغیرہ، انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹیوں کے طلبہ ہیں۔ بنابریں دین کو ختم کرنے کے اس ہدف میں وہ پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے لیکن بہرحال انھوں نے اپنی ہر ممکن کوشش کی اور بڑی تلخ باتیں وجود میں لے آئے جن میں سے بعض کو بیان بھی نہیں کیا جا سکتا اور بعض اس نشست اور اس مختصر وقت کے لحاظ سے ہمارے لیے مناسب نہیں ہیں۔ بنابریں، یونیورسٹی کا معاملہ، پہلے دن سے ہی انقلابی دھڑے اور انقلاب مخالف دھڑے کے درمیان چیلنج والا معاملہ تھا۔

اب یہ سوال کہ انقلاب نے یونیورسٹی کے لیے کیا کیا؟ انقلاب نے یونیورسٹی کے لیے جو بڑا کام کیا، وہ یونیورسٹی کو تشخص عطا کرنا تھا، یہ کام ایرانی قوم کو اس کی پہچان عطا کرنے کے نتیجے میں ہوا۔ انقلاب نے قوم کو اس کے تشخص، نمونۂ عمل ہونے، شخصیت اور خودمختاری کا احساس عطا کیا اور اسے واضح افق دکھایا۔ یہ وہ کام ہیں جو انقلاب نے ایرانی قوم کے لیے انجام دیے۔ فطری طور پر جب کسی قوم کے اندر تشخص پیدا کرنے اور آئيڈیلائزیشن کی قومی تحریک شروع ہوتی ہے تو جسے سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا ہے وہ یونیورسٹی کا جوان اور اسٹوڈنٹ ہے، وہ نوجوان اسٹوڈنٹ جس کے اپنے جذبات ہیں، اپنی آگہی ہے اور پاکیزگي ہے۔ یونیورسٹی نے اپنے تشخص کو محسوس کیا اور یہ احساس، اس بات کا سبب بنا کہ یونیورسٹی اور اسٹوڈنٹس، مغربی طاقتوں کے مقابلے میں کمزوری اور حقارت کا احساس نہ کریں۔ یہ چیز، انقلاب سے پہلے کے ماحول کے بالکل برخلاف تھی۔ یعنی تہران یونیورسٹی کا اسٹوڈنٹ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جن لوگوں نے آ کر اس یونیورسٹی میں محاذ آرائي کی ہے، انھیں سوویت یونین کے سفارتخانے سے مدد مل رہی ہے اور انھیں سوویت یونین کی پالیسیوں کا سہارا ہے، پوری طاقت سے جا کر ان کے مقابلے میں ڈٹ گيا اور اس نے تہران یونیورسٹی کو ایسے  لوگوں سے صاف کیا۔ یا وہ طلبہ، جنھوں نے جا کر اسلامی نظام کے خلاف سازشوں کے مرکز امریکا کے سفارتخانے پر قبضہ کر لیا، یہ جانتے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ امریکا کی طاقت کا سامنا کر رہے تھے۔ انھوں نے کمزوری کا احساس نہیں کیا، طاقت کا احساس کیا، یہ وہی تشخص ہے۔ یہ وہی تشخص کا احساس ہے، خودمختاری کا احساس ہے، شخصیت کا احساس ہے۔ یہ احساس یونیورسٹی کو دیا گيا۔

اس کے بعد میرے خیال میں اسٹوڈنٹس کی تعداد ان لوگوں میں سب سے زیادہ تھی، جنھوں نے سپاہ میں رکنیت حاصل کی – میں اعداد و شمار تو نہیں بتا سکتا لیکن مجھے ایسا ہی لگتا ہے – یعنی ابتدا میں ہی اسٹوڈنٹس آ کر سپاہ کے رکن بن گئے۔ اس وقت سپاہ کو قومی اور انقلابی طاقت کا ایک مرکز سمجھا جاتا تھا اور صحیح سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ وہ جا کر سپاہ کے رکن بنتے تھے اور تیار رہتے تھے۔ یعنی جو سپاہ میں چلا جاتا تھا اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم دنیا کی بڑی طاقتوں کے مقابلے میں لڑنے اور ڈٹنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ یونیورسٹی کو تشخص عطا کرنا تھا۔ خودمختاری کا احساس تھا، دنیا کی بڑی طاقتوں کی تحقیر تھی۔

اس وقت نوجوان طالب علم، خودمختاری کے احساس کی مٹھاس کو محسوس کرتا تھا۔ آج آپ لوگ، خودمختاری کے احساس سے بہت زیادہ شیرینی محسوس نہیں کرتے۔ آپ نے اپنی پوری عمر ایک ایسے ملک میں گزاری ہے جو شاید پالیسیوں کے لحاظ سے سب سے خودمختار ملکوں میں سے ایک رہا ہے۔ یعنی بڑی طاقتوں کے حکم پر نہ چلنا۔ آپ نے کسی کے حکم پر چلنے کی ذلت کو محسوس ہی نہیں کیا ہے اس لیے آپ آج کے نوجوان، خودمختاری کو زیادہ نہیں جانتے لیکن اس دن کا نوجوان جانتا تھا، وہ دیکھتا تھا کہ امریکا کے مقابلے میں دربار، حکومت اور عہدیداروں کا رویہ ایک طرح کا ہے، یورپ کے مقابلے میں ایک اور طرح کا ہے۔ اسے وہ لوگ دیکھتے تھے۔ اس ذلت کو انھوں نے دیکھا تھا اس لیے خودمختاری کے احساس کی واقعی ایک شیریں چیز کے طور پر پذیرائي کرتے تھے۔

بنابریں پہلے مرحلے میں انقلاب نے یونیورسٹی سے متعلق چیلنجز میں بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس نے یونیورسٹی کو پوری طرح بدل دیا اور انقلاب و اسلام کی پسندیدہ یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا۔ نہیں، کوئي بھی یہ دعوی نہیں کرتا لیکن وہ انقلاب مخالف دھڑے کے مقابلے میں یونیورسٹی کے سلسلے میں ایک صحیح، مضبوط اور قابل تعریف قدم اٹھانے میں کامیاب رہا۔ اس نے یونیورسٹی کو ایک پہچان دی، شخصیت عطا کی۔ اسی وقت کے کچھ طلبہ نے جا کر قم میں ایک مرکز سے ہم آہنگي کی اور 'بشریات' سے متعلق کتابوں کی تدوین کے لیے طویل نشستیں کیں، حالانکہ وہ بہت زیادہ کامیاب نہیں رہے لیکن اس کام کے لیے حوصلے کی ضرورت تھی اور انھوں نے یہ کام کیا، تہران کے پروفیسروں اور کچھ اسٹوڈنٹس اور قم کے بعض اسلامی مفکرین نے کتابوں کا ایک تفصیلی مجموعہ تیار کیا۔ ابتدا میں اس طرح سے کام انجام پائے۔

پھر ملک کی یونیورسٹیوں میں، اسلامی یونینیں تشکیل پائيں، پھر اسٹوڈنٹس کی اور پروفیسرز کی رضاکار انجمنیں تشکیل پائيں اور یہ انقلاب کے پرچم بنے۔ اسلامی انجمنیں (یونینز) حقیقی معنی میں اس وقت اسلام کے پرچم سمجھی جاتی تھیں۔ اچھی بحثیں ہوتی تھیں، عمیق باتیں ہوتی تھیں۔ میں بھی جڑا ہوا تھا۔ یعنی اسلامی انجمنوں نے امام خمینی سے رجوع کیا تھا اور انھوں نے میرا نام لیا تھا کہ فلاں سے رابطے میں رہیے۔(7) یونینز اور ان سے متعلقہ جوانوں سے میں مسلسل رابطے میں رہتا تھا۔ اسی امیر کبیر یونیورسٹی میں ہماری متعدد نشستیں ہوئي تھیں، ہم مختلف موضوعات پر باتیں کرتے تھے، بڑی اچھی نظریاتی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ تو یہ پہلا قدم تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ٹکراؤ ختم ہو گيا تھا۔ جی نہیں، مطلب ایسا نہیں تھا کہ انقلابی دھڑے کی اس کامیابی سے، انقلاب مخالف دھڑا پیچھے ہٹ گیا ہو اور اس نے یونیورسٹی کو چھوڑ دیا ہو اور چیلنج ختم ہو گيا ہو۔ نہیں، ایسا نہیں تھا۔ چیلنج جاری تھا، ٹکراؤ جاری تھا، اسی لیے یونیورسٹی میں ان برسوں میں، ان عشروں میں نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ موجود تھا جس کے بہت سے قصے ہیں۔ میرے خیال میں یہ تحقیق کا موضوع بن سکتا ہے۔ بنیادی تحقیقی کاموں میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے: انقلاب کے بعد ملک کی یونیورسٹیوں کی صورتحال، ان کا اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز، اس کے افراد کا تبدیل ہو جانا کہ کون لوگ تھے، کہاں چلے گئے، ان کا انجام کیا ہوا اور ان کی جگہ پر کون لوگ آئے؟ یہ بڑی اہم باتیں ہیں جو ایک اچھی اور تفصیلی تحقیق کا موضوع بن سکتی ہیں۔

میں ان باتوں سے جو نتیجہ حاصل کرنا چاہتا ہوں اور عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ آج اسلامی جمہوریہ اول تو یہ کہ اپنی یونیورسٹی پر فخر کر سکتی ہے، دوم یہ کہ اس کی ذمہ داری ہے کہ یونیورسٹیوں کی فکر میں رہے۔ میں ان دونوں باتوں پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔ جہاں تک اپنی یونیورسٹی پر اسلامی جمہوریہ کے فخر کی بات ہے وہ اس لیے ہے کہ آج کی یونیورسٹی کا انقلاب کے ابتدائي دور کی یونیورسٹی سے کوئي موازنہ ہی نہیں ہے۔ ہاں اس وقت جوش و جذبہ زیادہ تھا اور جوشیلے اقدامات انجام پاتے تھے کیونکہ انقلاب کا ابتدائي زمانہ تھا۔ لیکن آج ہمارے ملک کی یونیورسٹی کا، انقلاب کے اوائل کی یونیورسٹی سے کوئي موازنہ ہی نہیں ہے۔ پہلے تو طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے، اس وقت ملک کی تمام یونیورسٹیوں کے کل اسٹوڈنٹس کی تعداد تقریبا ڈیڑھ لاکھ تھی جبکہ آج یونیورسٹیوں کے طلباء کی تعداد دسیوں لاکھ ہے۔ یہ تعداد یونیورسٹیوں سے پڑھ کر فارغ ہونے والوں سے ہٹ کر ہے، اس وقت یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے طلبہ کی تعداد دسیوں لاکھ ہے۔ تعداد کے لحاظ سے اس کا واقعی موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں یونیورسٹیاں ہیں۔

دوسرے اساتذہ اور پروفیسرز کے لحاظ سے۔ اس وقت ہمیں جو رپورٹیں دی جاتی تھیں ان کے مطابق انقلاب کے ابتدائي دنوں میں تہران کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی کل تعداد تقریبا پانچ ہزار تھی جبکہ آج دسیوں ہزار ہے جن کے درمیان بہت سے بڑے ہی ممتاز اساتذہ ہیں، غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہیں۔ یعنی اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کی تعداد واقعی قابل فخر ہے۔

پھر زبردست علمی پیشرفت۔ اس وقت علمی کام کے لحاظ سے یونیورسٹی میں ہمارے پاس واقعی کوئي بھی قابل افتخار چیز نہیں تھی، حقیقت میں ایسا ہی تھا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ کبھی کسی غیر معمولی صلاحیت والے جوان نے ملک کے کسی گوشے میں کوئي اچھی سوچ بنائي ہو، کوئی کام انجام دیا ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہو لیکن مجموعی طور پر ایک یونٹ کی حیثیت سے یونیورسٹی میں کوئي قابل ذکر اور لائق اعتنا کام نہیں ہوتا تھا۔ آج اللہ کے فضل سے، اللہ کی توفیق سے یونیورسٹی میں بڑے بڑے اور قابل ذکر علمی کام انجام پائے ہیں اور بدستور پروفیسروں، تعلیمی ورکشاپس کے ذریعے اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل طلبہ کے ذریعے انجام پا رہے ہیں۔

غیر معمولی صلاحیت کے حامل نمایاں طلباء کی پرورش۔ ہمارے ملک میں آج کتنی بڑی تعداد میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے جینیئس جوان ہیں۔ کچھ لوگ ملک سے چلے جاتے ہیں اور کچھ لوگ اس بات کا ماتم کرتے ہیں کہ وہ لوگ ملک سے چلے گئے۔ ٹھیک ہے ہم چاہتے ہیں کہ انٹلیکچوئلس اور ایلیٹس ملک میں رہیں لیکن اس وقت ملک میں جتنے ایلیٹس ہیں وہ ان لوگوں کے کئي گنا ہیں جو ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ بحمد اللہ اس لحاظ سے ہماری یونیورسٹیاں بہت اچھی ہیں۔

حکومت کے انتظامی عہدوں پر یونیورسٹیوں سے تعلیم مکمل کرنے والوں کی تعیناتی ۔ یہ بہت اہم ہے۔ مختلف اوقات میں ہمارے یہاں بڑے اچھے منتظمین رہے ہیں، اب آپ کو مثال کے طور پر فلاں حکومت پر اعتراض ہے اور اس کے عہدیداروں پر آپ اعتراض کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس حکومت میں نمایاں اور اچھے منتظمین اور ہمارے اس بھائي کے بقول عالم، بہادر اور سچے منتظمین نہیں تھے۔ کیوں نہیں بہت اچھے منتظمین رہے ہیں، اس وقت بھی ہیں۔ اس وقت بھی ایسے لوگ، عام زبان میں جن کے منہ سے ابھی یونیورسٹی کی بو آتی ہے، حکومت اور پارلیمنٹ وغیرہ میں موجود ہیں۔ یہ ملک کی یونیورسٹی کے پرافتخار کارناموں میں سے ایک ہے۔

اس کے بعد ممتاز اسلامی اور دینی مظاہر کی موجودگي۔ ایسا نہیں ہے کہ میں آج کی یونیورسٹیوں کی فکری، دینی اور عملی مشکلات سے بے خبر ہوں۔ کسی حد تک مطلع ہوں لیکن ملک کی یونیورسٹیوں میں دین کی موجودگي، پوری طرح سے نمایاں، بے نظیر اور اشتیاق انگیز موجودگي ہے۔ قطعی طور پر عالم اسلام میں کہیں اور یونیورسٹیوں میں اتنے زیادہ عبادت کرنے والے، اعتکاف کرنے والے، مستحبی نماز پڑھنے والے، نماز جماعت پڑھنے والے، دعائيں پڑھنے والے، شب بیداری کرنے والے اور قرآنی عمل کرنے والے نوجوان نہیں ہیں۔ عالم اسلام میں کہیں بھی یہ چیز نہیں ہے اور بحمد اللہ یہاں ہے۔ بنابریں آج اسلامی جمہوریہ بجا طور پر اپنی یونیورسٹیوں پر فخر کر سکتی ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آج کی یونیورسٹی وہی یونیورسٹی ہے جو انقلاب کی نظر میں پسندیدہ ہے۔ نہیں لیکن یہی یونیورسٹی، وہ یونیورسٹی ہے جس پر حقیقی معنی میں فخر کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک فکرمندی کی ضرورت کی بات ہے تو یونیورسٹی کی طرف سے تشویش کیوں ہونی چاہیے؟ اس لیے کہ وہ انقلاب مخالف رجعت پرست پٹھو دھڑا، غیر ملکی جڑوں سے جڑا ہوا تھا اور وہ جڑیں اب بھی باقی ہیں۔ اس دھڑے کی حمایت کی جا رہی ہے۔ وہ دھڑا اب بھی ہے اور سرگرم بھی ہے۔ مغرب کی سامراجی پالیسیاں رکی نہیں ہیں، وہ نیو کالونیئل ازم جس کے بارے میں، میں نے اختصار سے عرض کیا، وہ اب بھی اپنی جگہ باقی ہے اور کام کر رہا ہے۔ ان کے تھنک ٹینکس سوچتے رہتے ہیں، بجٹ دیتے ہیں اور ہماری یونیورسٹیوں پر کام کرتے ہیں۔ اس لیے یہ تشویش ہونی چاہیے۔ ابھی چیلنج باقی ہے۔

اب آپ اس یونیورسٹی اور ملک اور ملک کے مسائل پر اس یونیورسٹی کے اثرات کا موازنہ کیجیے، انقلاب کے ابتدائي دور کی ڈیڑھ لاکھ طلبہ والی یونیورسٹیوں کے اثرات سے۔ یقینا آج کی یونیورسٹی کا اثر کہیں زیادہ ہے۔ بنابریں اگر دشمن، یونیورسٹی کو اندر سے تباہ کر سکے تو اس کے اثرات اور اس کے نقصانات، انقلاب کے ابتدائي دور سے کئي گنا زیادہ ہوں گے۔ اس لیے کہ یونیورسٹی زیادہ وسیع ہے، اس میں زیادہ نوجوان ہیں، بات کرنے والے ہیں، سرگرم طلبہ ہیں، آرٹسٹ ہیں اور اسی طرح دوسرے لوگ۔ بنابریں ہمیں اس سلسلے تشویش رہنی چاہیے۔

کس چیز کی تشویش ہونی چاہیے؟ کون سی چیز ہے جو اس بات کی متقاضی ہے کہ عہدیداران اور خود یونیورسٹی والے اور آپ طلبہ اس کی جانب سے تشویش میں رہیں؟ میرے خیال میں سب سے پہلے مرحلے میں یونیورسٹی کے تشخص کا خاتمہ اور یونیورسٹی کے آئيڈیئلائزیشن کا خاتمہ ہے۔ پہلے مرحلے میں جس چیز کی تشویش ہونی چاہیے اور جس چیز کی طرف سے متفکر رہنا چاہیے، وہ یہ ہے۔ اس کے لیے کچھ سوچنا چاہیے، سبھی کو سوچنا چاہیے۔ یونیورسٹی کے عہدیداروں کو بھی، یونیورسٹی کے علمی کارکنوں جیسے پروفیسروں اور محققین کو بھی، طلباء کو بھی اور اسی طرح ملکی حکام کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

آج آپ اخبارات اور سائبر اسپیس میں نشر ہونے والے بہت سے بیانوں میں سنتے ہیں کہ آئيڈیالوجی کے خاتمے کو ایک ضروری کام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ وہی تشخص کا خاتمہ ہے۔ آئيڈیالوجی، تفکر اور اقدار، ایک قوم کا تشخص ہیں۔ آج ان کا قبلہ امریکا ہے اور امریکی ہمیشہ، امریکی اقدار پر تاکید کرتے ہیں کہ امریکی اقدار کا یہ کہنا ہے، امریکی اقدار کا یہ ماننا ہے – امریکی اقدار یعنی وہی آئيڈیالوجی – لیکن یہ لوگ، یہ چیز امریکا سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ملک کے اندر سے آئيڈیالوجی کا خاتمہ کیا جائے اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کا فکری تشخص، جس کا سب سے اہم مظہر یونیورسٹی اور اسٹوڈنٹ ہے، ختم کر دیا جائے۔ تشخص کے خاتمے کا مطلب یہ ہے۔ کسی ملک کی فکری بنیادوں اور تاریخی و قومی ورثوں کی تذلیل کی جائے، کسی ملک کے ماضی کو حقارت سے دیکھا جا ئے، انقلاب کے ماضی کی تحقیر کی جائے، انجام پانے والے بڑے بڑے کاموں کو چھوٹا بتایا جائے۔ البتہ کچھ عیوب بھی ہیں، جنھیں دسیوں گنا بڑا کر کے دکھایا جائے۔ تشخص کے خاتمے کا مطلب یہ ہے۔ اس کے بعد اس تشخص کی جگہ مغرب کے فکری نظام کو دے دی جائے۔ جس کا ایک نمونہ امریکیوں کا یہی ڈاکیومینٹ 2030 ہے جو ہمارے زمانے میں مغرب کے نیو کالونیئل ازم کے تسلط کا مظہر ہے۔ مطلب اس کا ایک نمونہ یہ ہے۔

خیر، انقلاب کی برکت سے، ملک میں فکر و ثقافت کا عظیم ورثہ پھر سے زندہ ہو گيا۔ اسے یا تو ختم کر دیا جائے یا غیر اہم بنا دیا جائے، دشمن کا ہدف یہ ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایسے کروڑوں جوان ہیں جو چوٹیاں سر کرنے کے لیے تیار ہیں، ہمارے ملک کے جوان آج واقعی تیار ہیں – ان میں سے بعض مذہبی اور انقلابی محرکات کے ساتھ جبکہ بعض دیگر ممکن ہے، انقلابی اور مذہبی محرکات نہ رکھتے ہوں لیکن آمادہ ہیں، علمی سفر اور قومی عزت و شرف کی چوٹیوں تک پہنچنے کے لیے مستعد ہیں – انھیں کام سے روک دیا جائے، انھیں مایوس کر دیا جائے تاکہ یہ چوٹیوں کی طرف سے منہ پھیر لیں، اب تک جو کام ہوا ہے اس کی ناقدری کریں، ناامیدی کا زہریلا ماحول تیار کریں اور نوجوانوں کو مایوس کر دیں! آج یہ کام ہو رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں کھڑے ہو جانا چاہیے، ڈٹ جانا چاہیے۔ آپ جو یہاں آتے ہیں اور اتنی جرئت اور اتنی طاقت کے ساتھ بات کرتے ہیں، کہ انسان واقعی محظوظ ہوتا ہے – مجھے واقعی لذت ملتی ہے، بیان کی اس قوت، مستحکم بیان اور اچھی منطق سے انسان کو خوشی حاصل ہوتی ہے – وہ چاہتے ہیں کہ اسے اپنے بہکاوے سے مایوس کر دیں، تعطل کا احساس اس میں پیدا کر دیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا، یہ بند گلی ہے، کوئي فائدہ نہیں۔ یہ وہ کام ہے جو اس وقت کیا جا رہا ہے۔ تشخص کا خاتمہ یہ تھا۔

آئيڈیئلائزیشن کے خاتمے کا مطلب ہے لوگوں کو غربت، بدعنوانی اور امتیازی رویے کے سلسلے میں لاتعلق بنا دینا۔ منحرف معاشرے کے ان تین بڑے شیطانوں اور پلید عناصر – غربت، بدعنوانی اور امتیازی سلوک – جنھیں ختم ہو جانا چاہیے، ان سے مقابلہ ہونا چاہیے، ان کی طرف سے لوگوں کو لاتعلق بنا دیں۔ مغربی ثقافت کے تسلط کی طرف سے لاتعلقی اور اسلامی انقلاب کے اشاریوں اور معیارات کے بارے میں بے عملی۔ انقلاب کے کچھ معیارات اور اشارئے ہیں جنھوں نے دنیا کو ہلا دیا ہے، ملکوں کی استقامت کو مہمیز کیا ہے۔ ظلم کے مقابلے میں مزاحمت و استقامت کا اشاریہ، منہ زوری کے سامنے سر نہ جھکانے کا اشاریہ، ظلم کے آگے نہ جھکنے کا اشاریہ۔ یہ سب اسلامی انقلاب کے اشاریے ہیں، یہ سب اسلامی ایران کے اشاریے ہیں، انھوں نے دنیا اور اسلامی ملکوں کو ہلا دیا ہے، اقوام کو ایران کی طرف متوجہ کر دیا ہے۔ ان برسوں میں ہمارے تمام سربراہان مملکت میں سے کوئي بھی، جن کے مختلف رجحانات تھے – بعض کے رجحانات تو پالیسیوں اور افکار کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بالکل خلاف تھے – جب کسی دوسرے ملک میں عوام کے درمیان پہنچا تو لوگوں نے اس کے لیے نعرے لگائے اور اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کیوں اسلامی جمہوریہ ایران کا پرچم، دنیا کے مختلف ملکوں میں عوام کے ہاتھوں میں ہوتا ہے لیکن امریکا کا پرچم جلایا جاتا ہے؟ دنیا کو ان اشاریوں نے ہلا دیا ہے اور یہ لوگ ان اشاریوں کو خود ایران کے اندر غیر اہم بنانا اور لوگوں کو ان کی طرف سے لاتعلق بنا دینا چاہتے ہیں۔ حقیقی اسلام کی طرف واپسی اور رجعت پرستی کو مسترد کرنے کا اشاریہ، فلسطین کے معاملے میں استقامت کا اشاریہ، میں اپنی گفتگو کے آخر میں ان شاء اللہ فلسطین کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

تو یہ اصلی تشویشیں ہیں۔ یعنی ہمیں یہ تشویش ہونی چاہیے۔ اب یہ بحث الگ ہے کہ جو لوگ تشخص کا خاتمہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آئيڈیئلائزیشن کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں، خودمختاری کے خاتمے کی کوشش کر رہے ہیں، کون ہیں؟ کتنے ہیں؟ کتنے کامیاب ہیں؟ یہ بحث آپ کے ذمے ہے۔ اپنی نشستوں میں بیٹھ کر ان پر بحث کیجیے، جائزہ لیجیے، تحقیق کیجیے، تلاش کیجیے لیکن جان لیجیے کہ یہ چیز موجود ہے اور آپ لوگ اسے جانتے ہی ہوں گے۔ تو یہ تشویش اور فکر مندی کی باتیں تھیں۔

ممکن ہے کہ مثال کے طور پر دس سال پہلے بھی یہ تشویش موجود رہی ہو لیکن آج یہ تشویش زیادہ ہے۔ کیوں؟ میں آپ کو بتاتا ہوں: آج دنیا ایک نئے نظام کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ ایک نیا عالمی نظام دنیا کے سامنے ہے، دو قطبی نظام کے مقابلے میں جو بیس پچیس سال پہلے تھا – امریکا اور سوویت یونین، مغرب اور مشرق – اسی طرح یک قطبی نظام کے مقابلے میں جس کا اعلان بیس پچیس سال پہلے بوش سینئر(8) نے کیا تھا۔ دیوار برلن گرائے جانے اور دنیا سے مارکسسٹی نظام اور سوشلسٹ حکومتوں کے خاتمے کے بعد بش نے کہا تھا کہ آج دنیا، نئے عالمی نظام کی دنیا اور امریکا کے یک قطبی نظام کی دنیا ہے۔ یعنی امریکا، دنیا کے سیاہ و سفید کا مالک ہے، البتہ انھیں غلط فہمی تھی، وہ صحیح سمجھ نہیں پائے تھے، امریکا روز بروز اس بیس پچیس سال پہلے کے امریکا کی نسبت، زیادہ کمزور ہو چکا ہے، اپنے اندر بھی، داخلہ پالیسیوں میں بھی، خارجہ پالیسیوں میں بھی، معیشت میں بھی، سیکورٹی میں بھی، ہر چیز میں امریکا، بیس سال پہلے سے لے کر اب تک زیادہ کمزور ہوا ہے لیکن بہرحال دنیا آج ایک نئے نظام کی دہلیز پر ہے۔ میرے خیال میں یوکرین کی جنگ کو زیادہ گہرائي سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ایک ملک پر صرف ایک فوجی حملہ نہیں ہے۔ اس قدم کی جڑیں جو آج انسان یورپ میں دیکھ رہا ہے، بہت گہری ہیں اور دیکھنے والا ایک پیچیدہ اور دشوار مستقبل کا اندازہ لگا رہا ہے۔

تو اگر ہم فرض کریں کہ ہمارا یہ اندازہ صحیح ہے اور دنیا ایک نئے نظام کی دہلیز پر ہے تو پھر ہمارے اسلامی ملک ایران سمیت تمام ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس نئے نظام میں شامل ہوں – فکری لحاظ سے اور عملی لحاظ سے شرکت کریں – تاکہ اپنے ملک کی سلامتی اور ملک و قوم کے مفادات کی حفاظت کر سکیں، حاشیے پر نہ چلے جائيں، پیچھے نہ رہ جائيں۔ تو اگر یہ طے ہو کہ ملک ایک ایسا بڑا کام انجام دے یعنی نئے عالمی نظام میں فکری و عملی لحاظ سے شرکت کرے تو اس میں سب سے زیادہ ذمہ داری کس کے کندھے پر ہے؟ اس مشن کے ہراول دستے میں کون ہوگا؟ اسٹوڈنٹس اور یونیورسٹی کے افراد۔ یعنی آپ کو سب سے آگے رہنا ہوگا، آپ کو سب سے زیادہ اثر انداز طبقہ ہونا ہوگا۔ تو اگر وہ تشویش، جس کے بارے میں میں نے کہا، یونیورسٹی کے بارے میں حقیقت پر مبنی ہوئي تو اس عرصے میں وہ تشویش اس صورتحال کے سبب زیادہ ہوگي۔

خیر یہ تو یونیورسٹی کے مسائل کے بارے میں ایک تجزیہ، ایک وضاحت تھی۔ البتہ اس بارے میں باتیں زیادہ ہیں، ایک نشست میں ان سب کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور وقت بھی محدود ہے۔ اسے، جیسا کہ آپ لوگوں نے بھی کہا، اسٹوڈنٹس کی کئي نشستوں میں بیان کرنا ضروری ہے اور اگر میں اس کے لیے تیار بھی ہو جاؤں تو کورونا کے حالات میں اس کا امکان نہیں ہے۔ ان شاء اللہ کورونا ختم ہو جائے تو ہم دیکھتے ہیں، شاید اس سلسلے میں کئي نشستیں منعقد کر سکیں۔ دوسروں کو بھی میٹنگ رکھنی چاہیے۔ یعنی ملک کے مفکرین، ملک کے صاحب رائے افراد – ہمارے یہاں صاحب رائے افراد ہیں، نظریہ پرداز اور مفکرین ہیں، کچھ دوستوں نے جو کچھ کہا، اس کے برخلاف ملک میں ایسے افراد موجود ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نہ ہوں – انھیں بیٹھنا چاہیے، میٹنگ کرنی چاہیے، بات کرنی چاہیے، اس سلسلے میں زیادہ گفتگو ہونی چاہیے اور کافی باتیں ہیں بھی۔ ہمارے ذہن میں بھی کافی باتیں ہیں لیکن فی الحال انھیں نظر انداز کرتے ہیں۔

میری کچھ سفارشات ہیں۔ آپ طلبہ سے میری پہلی سفارش بے عملی اور مایوسی سے پرہیز کی ہے۔ ہوشیار رہیے۔ یعنی اپنا خیال رکھیے، اپنے دل کا خیال رکھیے، ہوشیار رہیے کہ بے عملی کا شکار نہ بن جائيے، نا امیدی میں مبتلا نہ ہو جائیے۔ آپ کو دوسرے شعبوں میں امید جگانے کا مرکز ہونا چاہیے۔ جی ہاں! مختلف شعبوں میں کچھ خرابیاں ہیں لیکن کیا ان خرابیوں کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا؟ بالکل کیا جا سکتا ہے، انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔ اچھے منتظمین ہیں، موجود ہیں، ان شاء اللہ وہ کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں، جیسا کہ اب تک بہت سارے کام انجام پائے ہیں۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے ایک علمی و سائنسی مشن کی بات کی گئي تھی، کون یقین کر سکتا تھا کہ وہ بات یہاں تک پہنچے گی۔ الحمد للہ اس مشن نے پیشرفت کی، بڑے بڑے کام انجام پائے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں، علاج معالجے کے میدان میں، صحت و سلامتی کے میدان میں اور بہت سے دوسرے میدانوں میں بہت سے بڑے کام انجام پائے ہیں، دوسرے میدان میں بھی انجام پا سکتے ہیں۔ بنابریں وہ پہلی بات جس کی میں سفارش کروں گا یہ ہے کہ آپ اس سلسلے میں تقوے سے کام لیجیے، تقوی اسی معنی میں جسے میں نے یہاں ملک کے اعلی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات میں عرض کیا تھا(9) تقوی یعنی مسلسل خود پر نظر رکھنا اور چوکنا رہنا۔ اپنی طرف سے ہوشیار رہیے کہ مایوسی، ناامیدی اور "نہیں ہو سکتا"، "کوئي فائدہ نہیں" اور اس جیسی  باتوں میں مبتلا نہ ہو جائیے۔ یہ میری پہلی سفارش ہے۔ اگر آپ نے اس سفارش کو نظر انداز کر دیا تو نہ صرف یونیورسٹی کے طالب علم کا کردار گر جائے گا بلکہ آگے بڑھنے کے بقیہ انجن بھی ٹھپ ہو جائيں گے، آگے کی جانب سفر کی رفتار دھیمی پڑ جائے گي۔ مطلب یہ کہ ان پر بھی منفی اثر پڑے گا۔

آپ کی عمر کے نوجوانوں نے مقدس دفاع کے دوران کمر کسی اور ملک کو نجات دلائي۔ حقیقی معنی میں ملک کو نجات دلائي۔ آپ کی عمر کے نوجوان تھے۔ اس وقت بھی بہت سے لوگ کہتے تھے، "نہیں ہو سکتا، ممکن نہیں ہے"۔ میں میدان کے وسط میں تھا یعنی میدان جنگ کے وسط میں نہیں بلکہ عسکری امور اور فوجی فیصلوں وغیرہ کے میدان کے متن میں موجود تھا، میں دیکھتا تھا۔ بعض لوگ کہتے تھے: "جناب! کوئي فائدہ نہیں ہے، نہیں ہو سکتا، ممکن نہیں ہے، کچھ نہیں کیا جا سکتا" مطلب یہ کہ ہم صدام کے فوجیوں کو، جو اہواز سے دس کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچ چکے تھے، وہیں رہنے دیں، کوئي کام نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت بھی ایسے لوگ تھے جو اس طرح کی باتیں کرتے تھے۔ آپ جیسے جوان ہی میدان میں آئے اور انھوں نے ایسا کام کیا کہ پوری دنیا انگشت بدنداں رہ گئي۔ جب خرم شہر کو فتح کر لیا گيا تھا تو کئي اسلامی ملکوں کے سربراہان مملکت پر مشتمل ایک ٹیم، جس میں سر فہرست جناب سکوتورہ تھے جو گنی کے صدر تھے – سات آٹھ اسلامی ملکوں کے سربراہان مملکت کی ایک ٹیم تھی – جو ثالثی کے لیے آئے تھے۔ خرم شہر کے فتح ہونے کے بعد وہ لوگ یہاں آئے، اس سے پہلے بھی ایک یا دو بار آ چکے تھے، میں صدر تھا اور ان سے ملاقات کرتا تھا۔ اس بار جب وہ لوگ آئے تو سکوتورہ نے کہا: اس بار جو ہم لوگ آئے ہیں تو ایران کی صورتحال پہلے سے الگ ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ خرم شہر فتح ہو چکا تھا، خرم شہر کو بحال کرا لیا گيا تھا۔ مطلب یہ کہ اثر اس طرح کا ہے۔ دنیا میں پیشرفت کا اثر اس طرح کا ہوتا ہے۔ آپ ہی کے ہم عمر نوجوان تھے جنھوں نے یہ کام کیا تھا، آپ بھی کر سکتے ہیں۔

البتہ آپ کی بعض گزشتہ نسلیں یہاں پر ایسا نہ کر سکیں، اس معاملے میں وہ غلطی کا شکار ہو گئيں۔ یعنی جہاں انھیں مایوس نہیں ہونا چاہیے تھا، ناامید نہیں ہونا چاہیے تھا، ناامید ہو گئيں اور اس مایوسی نے انھیں میدان سے نکال باہر کیا اور ان میں سے بعض تو بہت بری طرح باہر نکلے! کچھ لوگ صرف باہر نکلے لیکن کچھ دوسرے انقلابی جدوجہد کے میدان سے باہر نکلنے کے علاوہ، مخالفین کی ہاں میں ہاں بھی ملانے لگے۔ تو میری پہلی سفارش یہ ہے کہ ہوشیار رہیے کہ افق کی طرف سے منہ نہ موڑ لیجیے، چوٹیوں کی طرف پیٹھ نہ کیجیے، ہمیشہ  چوٹیوں کی طرف اور روشن افق کی طرف بڑھتے رہیے۔

اگلی سفارش فکری میدان میں آنے کی ہے۔ دیکھیے یونیورسٹی میں دو چیزیں ضروری ہیں: علم اور فکر۔ فکر کے بغیر علم پریشان کن ہو جاتا ہے، بغیر فکر والا علم غلط راستے پر نکل جاتا ہے، وہ عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں، ایٹمی ہتھیاروں، کیمیائي اسلحوں اور دیگر سائنسی خطروں میں تبدیل ہو جاتا ہے جو انسانیت کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ جس علم کے ساتھ صحیح فکر نہ ہو اور وہ بغیر فکر کے یا غلط فکر کے ساتھ آگے بڑھے وہ ایسا ہو جاتا ہے۔ علم کے سلسلے میں ہماری سفارش پر یونیورسٹیوں نے حقیقت میں بہت اچھا کام کیا اور پیشرفت کی۔ میں نے فکر کی بھی بہت سفارش کی ہے، شاید یہ زیادہ سخت ہے، اس معاملے میں کام کرنا شاید زیادہ مشکل ہے، زیادہ کام انجام نہیں پایا۔

ایک اہم کام فکری میدان کا کام ہے۔ میری سفارش یہ ہے: بیٹھیے اور سوچیے۔ آپ لوگ باصلاحیت ہیں، اچھی فکر والے ہیں، آپ سوچ سکتے ہیں، بیٹھیے اور سوچیے۔ البتہ سوچنے کے لیے بھی رہنما کی ضرورت ہے، فکر کا استاد بھی ضروری ہے۔ اگر بغیر فکر کے اور سوچے سمجھے بغیر ہم آگے بڑھیں گے تو ہماری حرکت ٹیڑھی میڑھی ہوگي جو کند رفتاری، حرکت کے متوقف ہو جانے اور پسپائي وغیرہ کا سبب بنے گي۔ ہر معاملے میں سوچنا چاہیے، البتہ آپ میں سے کچھ لوگوں نے اپنی باتوں میں اس کی طرف اشارہ کیا۔ ملک کا انتظام چلانے کے معاملے میں بھی فکر اور سوچ کا بہت اہم کردار ہے۔ یہ میں آپ اسٹوڈنٹس کو سفارش کر رہا ہوں – منتظمین کا معاملہ الگ ہے – بیٹھیے اور سوچ کے مسئلے پر کام کیجیے۔

فکر اور سوچ اس کا تعین کرتی ہے کہ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ علم ہمیں حقائق بتاتا ہے، فکر، انجام دی جانے والی ضروری چیزیں ہمیں بتاتی ہے، انجام نہ دی جانے والی ضروری چیزیں بھی ہمیں بتاتی ہے۔ یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔ یہ سوچ صحیح راستے پر ہونی چاہیے۔ اگر آپ نے سوچ اور فکر کا صحیح مینجمینٹ نہیں کیا تو ممکن ہے کہ وہ غلط راستے پر چل پڑے۔ میں عام طور پر لوگوں کا نام کم ہی لیتا ہوں لیکن مرحوم مصباح صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) فکر کے استاد تھے۔ البتہ وہ سیاسی کام اور سیاسی فکر کا کام بھی کرتے تھے جن کے بارے میں یہاں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن وہ فکری مسائل میں ایک رہنما اور ایک مرشد تھے جن سے لوگ رجوع کر سکتے تھے۔ اس طرح کے لوگوں کا، فکری استاد ہونا ضروری ہے۔  جس طرح سے علم کو استاد کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح فکر کو بھی استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے فکر کے بارے میں مزید دو تین نکات نوٹ کیے ہیں لیکن چونکہ وقت گزر رہا ہے اس لیے انھیں چھوڑ دیتا ہوں۔

اگلی سفارش یہ ہے کہ ملک کے مسائل سے جڑے رہیے۔ انسان جب ملک کے مسائل کو دور سے دیکھتا ہے تو وہ کچھ اور دکھائي دیتے ہیں لیکن جب وہ مسائل سے جڑ جاتا ہے تو وہ کچھ اور دکھائي دیتے ہیں۔ کبھی کبھی الگ ہوتے ہیں۔ جیسے کسی دوست نے پانی کے مسئلے کی بات کی۔ تو پانی کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جب آپ اس میں داخل ہوتے ہیں، جڑ جاتے ہیں، تحقیق کرتے ہیں تو ایسے نتائج تک پہنچتے ہیں جو ان نتائج سے الگ ہوتے ہیں جو مثال کے طور پر یہاں بیان کیے گئے۔ ملکی مسائل سے جڑ جائیے، مسائل کو قریب سے دیکھیے، سمجھیے، ان پر کام کیجیے، توجہ مرکوز کیجیے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ سب اور وہ گروہ یا یونین جس میں آپ ہیں، ملک کے تمام مسائل کو دیکھے۔ نہیں، ایک مسئلے یا دو مسئلوں پر توجہ مرکوز کیجیے، ان مسائل کے بارے میں سوچیے، کام کیجیے، تحقیقی کیجیے، آپ کی تحقیق کے نتائج سے استفادہ کیا جائے گا۔

آج ہمارے یہاں ایسے نوجوان طلبہ موجود ہیں جن کی ریسرچ اداروں میں استعمال ہو رہی ہے۔ موجود ہیں۔ میں یہاں نام نہیں لینا چاہ رہا ہوں، مگر ایسے افراد ہیں جن کی ریسرچ کے ثمرات حتی ان جگہوں پر اور ان مقامات پر استعمال ہو رہے ہیں جہاں کے افراد نوجوانوں کی اس ریسرچ کو زیادہ در خور اعتنا نہیں سمجھتے تھے، اس پر توجہ نہیں دیتے تھے۔ ایسی بھی جگہیں ہیں کہ جہاں سے کچھ سفارشات آتی تھیں، کسی حد تک سپورٹ کیا جاتا تھا اور نوجوانوں کی تحقیقات پر توجہ دی جاتی تھی، انھیں قابل اعتنا سمجھا جاتا تھا، ان پر کام ہوتا تھا۔

مثال کے طور پر اس سال کے نعرے کا موضوع ہے (10) نالج بیسڈ کمپنیوں کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست کو نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ فائدہ مند نہیں لگتا۔ چونکہ بہت تیز گفتگو کر رہے تھے اس لئے ان کی باتیں پوری طرح سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ میرے خیال میں وہ ان کمپنیوں کی تعداد میں اضافے کو نقصان دہ بھی سمجھتے ہیں۔ نہیں! آپ اس پر غور کیجئے۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کے موضوع پر کام کیجئے۔ جن چیزوں کے بارے میں آپ غور کر سکتے ہیں، کام کر سکتے ہیں، جس سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں، ان میں ایک تو یہی نالج بیسڈ کمپنیوں کا مسئلہ اور نالج بیسڈ مراکز کا میدان ہے۔ جس کا  وسیع دائرہ ہے، ظاہر ہے اس کے باعث یونیورسٹی سے بھی اس کا ربط ہے۔ آپ نالج بیسڈ کمپنیوں کے بارے میں کیا کام کر سکتے ہیں؟ جن لوگوں کی توانائی میں ہے وہ تو نالج بیسڈ کمپنیاں قائم کر رہے ہیں، میری بحث کا موضوع یہ نہیں ہے۔ میری بحث کا تعلق طلبہ سے ہے۔ طلبہ بیانیہ تیار کر سکتے ہیں، نالج بیسڈ کمپنیوں کے بارے میں ذہنوں کو ہموار کر سکتے ہیں۔ جب ایک چیز کا ملک کے اندر بیانیہ تیار ہو جاتا ہے اور وہ عرف عام میں ایک تسلیم شدہ موضوع کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے تو وہ فطری طور پر پھیلنے لگتا ہے۔ اسے بیانیہ کہتے ہیں۔

یا فکری اعتبار سے رجحان سازی کیجئے۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کے راستے میں خلل پیدا کرنے والے عوامل کے خلاف رجحان سازی کیجئے۔ مثال کے طور پر خام مال کی فروخت ہے۔ یعنی ایڈڈ ویلیو کے بغیر خام مال فروخت کر دینا، اس بات کو اس انداز میں کہنا چاہئے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کے اندر یہ رجحان موجود ہے۔ بہت رائج ہے۔ اس مسئلے میں آپ رجحان سازی کیجئے تاکہ اس روش کے برخلاف جو رجحان ہے وہ رائج ہو۔ یا اشیائے صرف کی درآمدات ہیں، ایسی درآمدات جنہیں پروڈکشن کے لئے نہیں استعمال کیا جانا ہے۔ کچھ درآمدات ایسی ہیں جن کا آنا ضروری ہے، ضرورت کی چیزیں ہیں۔ تاہم درآمدات میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جو اشیائے صرف کی حیثیت رکھتی ہیں۔ البتہ ان میں بھی کچھ ضروری ہیں۔ ایسی چیزیں ہیں جنھیں امپورٹ کرنا ہمارے لئے ناگزیر ہے۔ اسے امپورٹ کیا جانا چاہئے۔ ایسی چیزوں کے سلسلے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ ماہرین کی رائے لی جائے۔ ماہرین جو کہیں وہ کیا جائے۔ لیکن کلی طور پر ایسی تمام چیزوں کی درآمدات جن کی مماثل مصنوعات ملک کے اندر تیار ہو رہی ہیں ملک کے لئے نقصان دہ ہیں، رکاوٹیں ڈالنے والی ہیں۔ یہ ملک میں نالج بیسڈ کمپنیوں کی مہم سے تصادم رکھنے والے عوامل میں ہے۔ یا مثال کے طور پر اسمگلنگ کو لے لیجئے۔ یہ بھی ایسا میدان ہے جس میں طلبہ اپنی افادیت دکھا سکتے ہیں۔

میری اگلی سفارش مطالبات پیش کرنے کے بارے میں ہے۔ اسٹوڈنٹس کا مزاج ہے کہ وہ اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں۔ آپ مطالبہ کیجئے اور عہدیداروں سے کہئے کہ سنجیدہ اقدامات کریں۔ جو کام آپ کر سکتے ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ آپ عہدیداران کو نمائشی کاموں سے دور رہنے کے لئے کہئے۔ ان سے مطالبہ کیجئے کہ سنجیدہ اور حقیقی معنی میں کام کریں۔ یہ ایک درست اور بجا مطالبہ ہے جو طلبہ پیش کر سکتے ہیں۔

البتہ کوئی ضرورت نہیں ہے کہ بڑا سخت اور تند و تیز برتاؤ کیا جائے! بعض افراد اس خیال میں رہتے ہیں کہ متنبہ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ تند و تیز لہجے میں بات کریں، تنقید کریں، جھگڑا کریں، ہنگامہ برپا کر دیں۔ نہیں! اس کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ہم بھی نوجوانی کے دور میں یہ کام کرتے تھے۔ میں بعض اوقات جب نوجوانوں کی تندی دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی نوجوانی کا زمانہ یاد آ جاتا ہے، اس وقت کی کچھ یادیں ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ منطقی انداز میں، دانشمندی کے ساتھ اور پوری سنجیدگی سے مطالبے کے میدان میں قدم رکھا جائے اور اپنا مطالبہ پیش کیا جائے۔ جب اس نہج پر کام ہوگا تو پھر طالب علم پر کوئی گلے شکوے کرتے رہنے کا الزام نہیں لگائے گا۔ اگر آپ تند لہجے میں بات کریں گے تو لوگ آپ کو مورد الزام ٹھہرائیں گے کہ جناب! اسٹوڈنٹس آکر بس گلے شکوے کرتے ہیں۔ نہیں! جب آپ منطقی انداز میں، سنجیدگی کے ساتھ پختہ دلائل کے ہمراہ اپنا مطالبہ پیش کریں گے تو کوئی آپ پر بے جا گلے شکوے کرنے کا الزام نہیں لگائے گا۔ مطالبات کا سلسلہ جاری رہنے کی صورت میں بعض لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں ملے گا کہ آج جب حکومت کا پورا نیٹ ورک انقلابی ہے، پارلیمنٹ بھی انقلابیوں کی ہے، حکومت بھی انقلابیوں کی ہے، یا اس طرح کی دوسری باتیں۔ ایسا ہے تو پھر انقلابی طالب علم کا رول کیا رہ جائے گا؟ جی نہیں! بلکہ اتفاق سے یہ بھی کہا سکتا ہے کہ ان کا رول زیادہ اہم ہے۔ اس لئے کہ ان کے میدان میں آ جانے اور سرگرمیاں انجام دینے کا امکان زیادہ ہے۔ ایک کام جو آپ کر سکتے ہیں یہی مطالبات پیش کرنا ہے۔

میں نے مثال اس سال کے نعرے کی دی، یہ نالج بیسڈ پروڈکشن کا نعرہ ہے۔ دوسری بھی بہت ساری مثالیں ہیں جن کے تعلق سے اپنے مطالبات پیش کئے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقتصادی مساوات کا مسئلہ ہے، ثقافت کا مسئلہ ہے، طرز زنگی کا مسئلہ ہے۔ یہ سارے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں واقعی مطالبات رکھے جا سکتے ہیں اور سنجیدگی سے کام کرنے کا تقاضا کیا جا سکتا ہے۔ عہدیداران سے مطالبہ کیا جا سکتا ہے، البتہ میں نے یہ بھی عرض کیا کہ یہ کام منطق اور دلائل کے ساتھ ہونا چاہئے۔

مطالبے کے عمل میں ایک اہم نکتہ جو طلبہ سے متعلق اقدامات میں میری نظر میں بہت اہمیت رکھتا ہے، یہ ہے کہ طلبہ اپنی اعتقادی بنیادوں کو مستحکم کریں۔ اعتقادی بنیادوں اور ایمانی بنیادوں کو طلبہ اپنے اندر مضبوط کریں، البتہ اس کے اپنے مخصوص طریقے ہیں جیسے مطالعہ اور علما کی صحبت وغیرہ۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ایک مقام پر یہ بات کہی گئی ہے کہ کیوں میں بعض اوقات اپنے اندر دعا کی کیفیت پیدا نہیں کر پاتا، توجہ کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔ امام زین العابدین علیہ السلام کے بقول ایک چیز جو اس کی وجہ ہے یہ ہے کہ "اَو لَعَلَّکَ فَقَدتَنی مِن مَجالسِ العُلَماء" (11) اب یہاں علماء سے لازمی طور پر سر پر عمامہ رکھنے والے افراد مراد نہیں ہیں۔ علم اخلاق رکھنے والے اور علم دین رکھنے والے افراد کی صحبت اختیار کرنے کی ضرورت ہے، وہاں جانے کی ضرورت ہے، ان سے کسب فیض کرنے کی ضرورت ہے۔ تو اعتقادی بنیادوں کی تقویت، تفکر کی تقویت، ملکی مسائل کا گہرائی سے ادراک، راہ حل اور تجربات کا جائزہ۔ راہ حل کا گہرائی سے جائزہ لیجئے۔ یہاں آپ مثال کے طور پر کسی چیز پر تنقید کر رہے ہیں، اس کے بعد کہتے ہیں کہ یہ کام انجام دئے جانے چاہئے۔ تجویز اور راہ حل کے طور پر۔ سوال یہ ہے کہ اس راہ حل کا آپ نے کس حد تک جائزہ لیا ہے؟ اس پر کتنا تجربہ کیا ہے؟ اس کے مختلف پہلوؤں پر کتنا غور کیا ہے؟ یہ سب اہم ہے۔ اگر یہ سارے کام انجام پائے ہیں تو اس کی بڑی ارزش ہے، یقینا اس کی اہمیت دو بالا ہو جائے گی۔

یہ جو میں کہتا ہوں کہ تند و تلخ برتاؤ نہ کیجئے تو آپ یہ نہ سمجھئے کہ میں سمجھوتا کر لینے کا مشورہ دے رہا ہوں، خاموشی سے برداشت کرنے یا تملق بازی کا مشورہ دے رہا ہوں۔ بالکل نہیں! میں نے کبھی بھی نوجوانوں کو اور طلبہ کو اس طرح کا مشورہ دیا ہے نہ دوں گا کہ دوسروں کی چاپلوسی کریں، خوشامد کریں۔ جی نہیں، ہرگز نہیں! مراد یہ نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ عقل و منطق کی روشنی میں کام کرنا چاہئے، بات کرنا چاہئے۔ منطق سے عاری تند و تیز لہجہ اختیار کرنے اور طعن و طنز کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ افسوس کہ اس وقت سوشل میڈیا پر طعن و طنز اور اس طرح کی چیزوں کا بڑا رواج ہو گیا ہے جو بہت نقصان دہ ہے۔ اگر آپ نے یہ روش اختیار کی تو بہت سی ناقص کارکردگی اسلامی جمہوریہ کے حساب میں اور اسلامی انقلاب کے حساب میں نہیں لکھی جائے گی۔ یعنی دونوں میں فرق رکھنا ہوگا۔ ایک تو انقلاب کے اہداف ہیں جن کا انقلاب نے مطالبہ کیا ہے اور دوسری چیز منتظم کی حیثیت سے میری ناقص کارکردگی ہے، دونوں میں فرق ہے۔ اس فرق کو مد نظر رکھنا بہت ضروری چیز ہے۔

ایک سفارش اور کر دوں، میں نے یہاں نوٹ کر رکھی ہے۔ میں آپ کو مطالبات پیش کرنے کا جو مشورہ دے رہا ہوں تو مطالبہ کرتے وقت یہ خیال رکھئے کہ دشمن آپ کے ان مطالبات سے سوء استفادہ نہ کرنے پائے۔ مشکل کی تصویر کشی میں بھی اور مجوزہ راہ حل پیش کرنے کے عمل میں بھی، کوشش یہ کیجئے کہ دشمن کی مرضی اور منصوبے پر عملدرآمد نہ ہونے پائے۔ آپ کا اور دشمن کا عمل ایک نہ ہونے پائے۔ کیونکہ وہ بھی تو موضوعات کو اٹھاتا ہے، وہ بھی مشکلات کی نشاندہی کرتا ہے۔ مشکل کو بھی بیان کرتا ہے اور راہ حل اور نتیجہ بھی پیش کرتا ہے۔ آپ مشکل کو جب پیش کریں تو اس کی شکل الگ ہونی چاہئے۔ آپ جو نتیجہ اخذ کریں وہ بھی دشمن سے الگ ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ تو دشمن ہے۔ اسے عناد ہے، وہ خیر خواہی کے جذبے سے کام نہیں کر رہا ہے۔

ایک سفارش بین الاقوامی فعالیت کے بارے میں کرنا ہے۔ البتہ میں پہلے بھی یہ سفارش کر چکا ہوں۔ ایک دو دفعہ کہہ چکا ہوں کہ ہمارے طلبہ اور ہماری تنظیمیں بین الاقوامی سرگرمیاں رکھیں۔ آج دنیا میں بہت سے اسٹوڈنٹس اور غیر اسٹوڈنٹ نوجوانوں کے گروپ موجود ہیں جو استکباری پالیسیوں، امریکہ، یورپ اور مغرب کی پالیسیوں کے خلاف بڑی تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ خود یورپ میں موجود ہیں۔ شاید امریکہ میں بھی ہوں۔ ویسے امریکہ کے بارے میں مجھے زیادہ اطلاع نہیں ہے۔ لیکن یورپ میں بہت سی تنظیمیں ہیں۔ اسلامی ملکوں میں اسلامی تنظیمیں ظاہر سی بات ہے بہت ساری ہیں۔ اگر ان سے آپ صحتمند روابط قائم کر سکیں تو اس کے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ ان کو آپ سے قوت ملے گی مدد ملے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ انھیں اسلامی جمہوریہ سے روشناس کرائیں گے۔ یعنی آپ ایک طالب علم کے طور پر اسلامی جمہوریہ سے مثلا فرانسیسی طالب علم، آسٹریا کے طالب علم یا برطانوی طالب علم کو روشناس کرائیں گے کہ اسلامی جمہوریہ کی یہ حقیقت ہے۔ اگر آپ یہ کام کرتے ہیں تو بہت اچھا ہے۔ میں اس سلسلے میں پہلے بھی بات کر چکا ہوں۔ آپ کا یہ عمل اسلامی جمہوریہ کے تعارف کا ذریعہ قرار پانے کے ساتھ ہی اسلامی جمہوری نظام کے لئے ایک ڈھال کا بھی کام کرے گا۔ اس لئے کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف میڈیا کا سامراج بڑی شد و مد سے ریشہ دوانیاں کر رہا ہے۔ یہ اس کا جواب شمار ہوگا۔ البتہ میں چند ہمسایہ ممالک کے سلسلے میں تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ عراق، افغانستان اور پاکستان کی طلبہ تنظیموں سے جہاں تک ممکن ہو اپنے روابط بڑھائيے۔ آپ کے سلسلے میں ان کی فکری و قلبی آمادگی بہت زیادہ ہے۔ ان سے روابط قائم کیجئے۔

میری آخری سفارش ان افراد کے لئے ہے جو چند سال قبل آپ جیسے نوجوان تھے مگر آج وہ انتظامی عہدوں پر فائز ہیں۔ خواہ پارلیمنٹ میں ہوں، آپ میں سے ایک صاحب نے ابھی ایسے لوگوں کی اچھی خاصی خبر لے لی (12)، خواہ حکومتی عہدوں پر ہوں۔ یہ بڑا موقع غنیمت ہے۔ یہ طے ہے کہ مومن، جوش و جذبے اور توانائيوں سے سرشار نوجوان فورس کے بغیر اسلامی جمہوریہ کا ایک سنگین بوجھ آگے لے جانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ میں نے چند سال قبل آپ کی اسی نشست میں 'نوجوان حزب اللہی منتظم' کی بات کہی تھی (13)، تو اس کی وجہ یہی تھی کہ نوجوان، پرجوش اور مومن انتظامیہ کے بغیر کام آگے نہیں بڑھ پاتا۔ ان عہدوں پر نوجوانوں کو موجود ہونا چاہئے۔ لیکن ان عزیز نوجوانوں کے لئے جو بحمد اللہ میدان میں قدم رکھ چکے ہیں، خواہ مقننہ میں ہوں، عدلیہ میں ہوں یا مجریہ میں، ایک سفارش جو کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ افراد یہ کوشش کریں کہ موجودہ عہدے کو بالاتر عہدے تک پہنچنے کا زینہ نہ بنائیں۔ میری پہلی سفارش اور اہم ترین سفارش یہ ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم یہ سوچنے لگیں کہ ہمارا یہ ریکارڈ ہمارے لئے اس سے بڑے عہدے کی بنیاد بن جائے گا۔ نہیں! اسی عہدے پر محنت سے کام میں لگ جائیے۔ اللہ کے لئے کام کیجئے، اسی موضوع پر توجہ مرکوز کیجئے جو آپ سے مربوط ہے۔ خواہ اقتصادی شعبہ ہو، سیاسی شعبہ ہو، ثقافتی میدان ہو یا دیگر شعبے ہوں۔ مسائل پر پوری توجہ سے لگ جائیے اور اس مسئلے کو حل کیجئے جو آپ کے سپرد کیا گيا ہے۔ یہ ضروری ہے۔ جن نوجوانوں کو عہدے ملے ہیں ان سے ہماری توقع یہ ہے کہ مسائل کے تصفئے کو اپنا ہدف بنائیں۔

طلبہ اور ان کے مسائل کے سلسلے میں ہماری گفتگو یہیں پر ختم ہوئی۔ بس اختصار سے ایک بات یہ عرض کر دوں کہ یوم قدس قریب ہے۔ میرے خیال میں اس سال کا یوم قدس دیگر برسوں سے مختلف ہے۔ گزشتہ سال ماہ رمضان میں بھی اور اس ماہ رمضان میں بھی فلسطینی بڑی قربانیاں دے رہے ہیں اور صیہونی حکومت بھی واقعی رذالت اور جرائم کی حدیں پار کر رہی  ہے۔ اس سے بیشتر اور زیادہ خبیثانہ اقدامات شاید ہی قابل تصور ہوں گے۔ جو بھی حماقت ان کے بس میں ہے انجام دے رہے ہیں، امریکہ پشت پناہی کر رہا ہے، یورپ بھی حمایت کر رہا ہے۔ فلسطین مظلوم بھی ہے اور مقتدر بھی۔ طاقتور مظلوم۔ میں نے چند سال قبل یہی بات اسلامی جمہوریہ کے بارے میں کہی تھی (14) کہ امیر المومنین علیہ السلام کی مانند ہے جو طاقتور بھی تھے، قوی بھی تھے ساتھ ہی واقعی مظلوم بھی تھے۔ آج فلسطین کی بھی یہی صورت حال ہے۔ واقعی طاقتور بن چکا ہے۔ یعنی فلسطینی نوجوان مسئلہ فلسطین کو فرموش نہیں ہونے دے رہے ہیں۔ دشمن کی جارحیتوں کے سامنے، دشمن کے مجرمانہ اقدامات کے سامنے ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔

یوم قدس بڑا اچھا موقع ہے مظلوم فلسطینی عوام سے ہمدلی اور یکجہتی کے اظہار کا، انھیں حوصلہ دینے کا اور انھیں تقویت پہنچانے کا تاکہ وہ میدان میں ڈٹے رہیں۔ البتہ بد قسمتی سے اسلامی حکومتیں اس سلسلے میں بڑی کوتاہیاں کر رہی ہیں۔ بہت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ فلسطین کے لئے اس سے کہیں زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہے، کام کرنے کی ضرورت ہے، بولنے کی ضرورت ہے۔ ان میں بہت سی حکومتیں عملی اقدامات تو خیر نہیں کر رہی ہیں لیکن ان میں بعض تو قاعدے کا بیان دینے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ فلسطینی عوام کے حق میں قاعدے سے بولنے پر بھی آمادہ نہیں ہیں۔ یہ تصور کہ فلسطینیوں کی مدد کا یہ طریقہ ہے کہ صیہونی حکومت سے رابطہ کیا جائے اور اس سے رشتے قائم کئے جائیں، بہت بڑی بھول ہے۔ چالیس سال پہلے مصر نے یہی غلطی کی تھی۔ مصر اور اردن نے صیہونی حکومت سے روابط قائم کر لئے۔ کیا ان چالیس برسوں میں صیہونی حکومت کے جرائم میں کوئی کمی آئی؟ نہیں! دس گنا بڑھ گئے۔ صیہونی آبادکار جو کام کر رہے ہیں، مسجد الاقصی پر جو حملے ہو رہے ہیں، یہ اس زمانے میں نہیں تھے۔ آج وہ زیادہ مظالم ڈھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ انور سادات کے مصر کا چالیس سال پرانہ تجربہ آج دہرانا چاہتے ہیں۔ یہ نہ ان کے فائدے میں ہے، نہ فلسطینیوں کے فائدے میں ہے۔ خود ان کے لئے بھی ضرر رساں ہے اور فلسطینیوں کے لئے بھی مضر ہے۔ البتہ صیہونی حکومت کو بھی کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یعنی انھیں بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ امید ہے کہ اللہ تعالی ان شاء اللہ مسئلہ فلسطین کو نیک انجام تک پہنچائے اور فلسطینیوں کو غلبہ عطا کرے۔

پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ اس مبارک مہینے کے آخری ایام میں تمام ملت ایران پر اپنے لطف و رحمت کا سایہ فرما۔ ان راتوں میں دعا کے لئے بلند ہونے والے ہاتھوں، خاص طور پر عزیز نوجوانوں کے ان ہاتھوں کو پر کر دے۔ ہمارے نوجوانوں پر اپنے الطاف میں اضافہ فرما۔ دنیائے اسلام کو، دنیائے تشیع کو اپنے خاص فضل و کرم سے نواز۔ پروردگار! محمد و آل محمد کے صدقے عزیز شہیدوں اور ہمارے امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہم سے راضی و خوشنود کر۔ ہمیں ان کی راہ پر اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ اس نشست کو راہ خدا کی نشست قرار دے، اسے مخلصانہ قرار دے اور قبول فرما۔ بیان کرنے والوں، سامعین اور بعد میں ان باتوں کو سننے والوں کے لئے اس نشست کو مفید قرار دے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں کچھ طلبہ اور اسٹوڈنٹ یونین کے نمائندوں نے اپنے خیالات اور نظریات بیان کیے۔

(2) رہبر انقلاب اسلامی نے 12/7/2020 کو گیارہویں پارلیمنٹ کے ارا کین سے ورچول ملاقات میں، اس پارلیمنٹ کو انقلاب کے بعد کی سب سے زیادہ انقلابی پارلیمانوں میں سے ایک بتایا تھا۔

(3) نہج البلاغہ، خط نمبر 31

(4) سورۂ مریم، آيت نمبر 29

(5) صحیفۂ امام، جلد 12، صفحہ 431

(6) صحیفۂ امام، جلد 19، صفحہ 110

(7) صحیفۂ امام، جلد 8، صفحہ 138

(8) امریکا کے اکتالیسویں صدر، جارج ہربرٹ واکر بش

(9)  اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں کی ملاقات میں تقریر، 12/4/2022

(10) سال کا نعرہ: نالج بیسڈ اور روزگار فراہم کرنے والی پیداوار

(11) مصباح المتہجّد و سلاح المتعبّد، جلد 2، صفحہ 588

(12) رہبر انقلاب اور حاضرین کی ہنسی

(13) اسٹوڈنٹس یونینز سے ورچول ملاقات میں تقریر (17/5/2020)

(14) امام حسین علیہ السلام کیڈٹ کالج کی پاسنگ آؤٹ/ پریڈ کی تقریب سے خطاب (30/6/2018)