بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا محمد و آلہ الطاہرین.

علمائے دین خیر کے داعی

ان علمائے دین کو خراج عقیدت پیش کرنا، جو جہاد کی خدمت میں رہے، جہاد کے میدان میں آئے، جہاد کیا اور آخرکار انھیں شہادت کی سعادت حاصل ہوئي، بہت اچھا کام ہے۔ اس لحاظ سے اہم ہے کہ علمائے دین ہمیشہ نیکی کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر نیکی کی دعوت دینے والا خود نیکی کے میدان میں آگے ہو تو اس کا اثر زیادہ ہے۔ کونوا دعاۃ الناس بغیر السنتکم(2) ہمارے یہ شہید علماء، وہ ہیں جنھوں نے لوگوں کو دعوت دی، اپنی زبان سے بھی اور اپنے عمل سے بھی۔ میں نے مقدس دفاع کے دوران بہت بار دیکھا کہ نوجوان دینی طالب علم، جن کے سروں پر عمامہ ہوتا تھا اور جنگ کرنے والے سپاہیوں کے درمیان جو تبلیغ کے لیے میدان جنگ میں جاتے تھے تاکہ جہاد میں مصروف جوانوں کو دین کے احکام بتائيں، وعظ و نصیحت کریں اور عالم دین کی ذمہ داری ادا کریں، وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتے تھے - ہم نے دیکھا اور جانتے ہیں کہ وہ خود میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر جا کر لڑتے تھے اور ان میں سے ایک بڑی تعداد کو شہادت بھی حاصل ہوئي۔

شہادت، علمائے دین کے درمیان رائج جذبہ

علمائے دین کی شہادت کے سلسلے میں عرض کروں کہ شہادت، صنف علماء کے لیے کوئي نئي بات نہیں ہے۔ ہمارے علوم دینیہ کے نصاب کی دو کتابیں دو شہیدوں کی ہیں: شہید اول(3) اور شہید ثانی(4) یعنی جب ہمارا طالب علم دینی تعلیم کے مرکز میں پہنچتا ہے تو دو تین سال گزرنے کے بعد ہی شرح لمعہ نامی کتاب پڑھتا ہے۔ لمعہ ایک شہید کی کتاب ہے اور اس کی شرح دوسرے شہید نے لکھی ہے۔ دو انتہائي ممتاز اور بزرگ علمائے دین جو علمی مرتبے کے لحاظ سے دنیائے علم دین میں ستاروں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شیعہ استدلالی فقہ کی تاریخ کے ان ہزار برسوں میں یہ سب سے نمایاں علماء میں شامل ہیں۔ شہید اول بھی اور شہید ثانی بھی۔ شہید ثالث بھی ہیں تاہم یہ لقب کئي ہستیوں سے منسوب ہے: قزوین کے شہید برغانی، ہندوستان کے شہید شیخ نور اللہ شوشتری اور کچھ دوسرے شہداء۔ اس کے علاوہ بھی کچھ شہید علمائے دین ہیں جنھیں شہید اول یا شہید ثانی یا شہید ثالث کا نام نہیں دیا گيا۔ عالقیدر عالم دین شہید مدرس، عالقیدر عالم دین شہید فضل اللہ نوری۔ یہ لوگ، علمائے دین کے شہیدوں میں سے ہیں۔ اس طرح کے شہید عالم دین اور بھی ہیں۔ بنابریں علمائے دین کے درمیان شہادت کی بات کوئي نئي بات نہیں ہے اور ہمارے یہاں بڑے بڑے شہید عالم دین گزرے ہیں۔

اہلسنت کے علمائے دین کے درمیان بھی ایسا ہی ہے۔ یہ چیز شیعوں سے مختص نہیں ہے۔ مقدس دفاع کے دوران بھی ایسے سنّی علماء تھے اور اس کے بعد بھی مختلف اوقات میں اہلسنت کے شہید علماء رہے ہیں۔ حال ہی میں یہ شہید شیخ الاسلام(5) جو کردستان کے انتہائي بااثر اور مفید علماء میں سے تھے اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر شہداء تھے جو اس علاقے میں اور دوسرے علاقوں میں شہید ہوئے۔

علمی کام اور عالم ہونا، جہاد کے منافی نہیں ہے

تو یہ صنف علمائے دین کے افتخارات میں سے ہے۔ ہمیں اس زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ یہ دوسری اصناف اور دوسرے طبقوں کے مقابلے میں کیسا ہے۔ یہ دوسرے اور تیسرے درجے کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس زاویے سے دیکھنا چاہیے کہ خیر کی طرف دعوت دینے میں، شہید عالم دین وہ ہے جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دعوت خیر کے میدان میں اترا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ آج نوجوان طلباء اور نوجوان علماء کے درمیان ہمیں اس جذبے کی ضرورت ہے کہ یہ جان لیں کہ عالم دین ہونا، بزرگ عالم دین ہونا اور عالیقدر مجتہد ہونا اس معنی میں نہیں ہے کہ میدان جہاد سے الگ ہو جائیں، دور ہو جائيں، بلکہ عالم دین ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی طرح اول درجے کا عالم دین، مرجع تقلید اور نمایاں استاد میدان جہاد میں پہنچا اور اس عظیم جہاد کو انھوں نے انجام دیا۔ پوری شیعہ تاریخ میں اتنا باعظمت اور ایسے نتائج والا جہاد کہیں نظر نہیں آتا۔ وہ عالم بھی تھے، محقق بھی تھے، فقیہ بھی تھے، اصولی(6) بھی تھے، حکیم بھی تھے، عارف بھی تھے۔ مطلب یہ کہ امام خمینی کی سطح کا ایک اعلی پائے کا عالم دین، پہلے اپنے زمانے کا مجاہد تھا اور وہ مجاہدت کے سب سے اعلی درجے پر فائز ہوئے۔ لہذا یہ تصور پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم عالم ہیں، مرجع تقلید ہیں، محقق ہیں، اعلی دینی تعلیمی مرکز کے بڑے مدرس ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ جہاد کے کاموں اور جہاد کے میدان سے دور ہو جائیں۔ جی نہیں! جہاد کے میدان میں آنا، ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں جہاد کرنا چاہیے۔

جہاد علمائے دین کی مسلّمہ اور اولیں ذمہ داری

جہاد کئي طرح کا ہوتا ہے: کبھی ممکن ہے کہ علمی جہاد کو ترجیح حاصل ہو جائے- جی ہاں، ایسے مواقع ہیں جہاں علمی جہاد کو ترجیح حاصل ہو جاتی ہے - کبھی فوجی جہاد کو فوقیت حاصل ہو جاتی ہے، کبھی سیاسی جہاد کو اولیت حاصل ہو جاتی ہے، کبھی سماجی جہاد اور سماجی سرگرمیوں کو ترجیح حاصل ہو جاتی ہے۔ ان تمام معاملوں میں ہمارے نوجوان دینی طلباء کو، نوجوان علماء کو اپنی ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ ان سارے امور میں سب سے پہلے خطاب ان ہی سے ہے۔ کیونکہ ہم دینی طلباء اور علماء کی صنف کی پہلی اور اصلی ذمہ داری، نیکی کی دعوت دینا ہے۔ یہ وہ کام ہے جو انبیاء کیا کرتے تھے۔ یہ ہماری پہلی ذمہ داری ہے اور خیر و نیکی کی جانب دعوت کا بہترین وسیلہ اور ذریعہ ہے، عمل۔ خیر کے میدان میں اور دعوت کے میدان میں عمل۔ بنابریں مجاہدت کے میدان میں اترنا، ایک عالم دین کے لیے سب سے پہلی، قطعی اور واضح ذمہ داری ہے۔ اس میں کوئي شک و شبہ نہیں ہے۔ جو جہاد کے میدان سے الگ ہوتا ہے، اسے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ جہاد کا میدان، اصلی اور بنیادی بات ہے۔

بحمد اللہ ہمارے علمائے دین میں یہ جذبہ ہمیں دکھائي دیتا ہے۔ حضرات نے شہداء کی گنتی کی ہے۔ کتاب الغدیر کے مصنف مرحوم علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے شہداء الفضیلہ جس میں انھوں نے پوری تاریخ کے شہید علمائے دین کا احصا کیا ہے۔ البتہ سب کا نہیں تاہم بڑی تعداد کو انھوں نے تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ چوتھی پانچویں صدی ہجری کے بعد سے انھوں نے شہید علمائے دین کو تلاش  کر کے ان کے نام گنوائے ہیں۔ اس سے پہلے کے شہید علمائے دین کی گنتی انھوں نے نہیں کی ہے۔ تاریخ میں بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو شہید ہوئے ہیں یا پھر جہاد کے میدان میں رہے ہیں اور انھیں شہادت نصیب نہیں ہوئي لیکن وہ اللہ کی راہ کے مجاہد تھے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان کے نام کتابوں میں نہیں ہیں۔ خیر تو یہ صنف علمائے دین کے لیے ایک قابل فخر ثقافت کا مظہر ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ جذبہ اور یہ ثقافت جاری رہے گي۔

شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنا اگلے کاموں اور اہداف کے لیے ایک ذریعہ

خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام منعقد کرنے والے عزیز دوستوں اور بھائيوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ انھیں ہدف کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے۔ یہ ذریعہ ہیں، وسیلہ ہیں۔ ان پروگراموں کے بعد بہت سارے کام انجام دیے جانے چاہیے۔ طریقۂ کار کی تلاش کے لیے فکری گروہوں کی ضرورت ہے۔ اہل فکر کا مطلب وہ افراد جو سوچنے والے ہیں، ثقافت والے ہیں، فن و ہنر والے ہیں، وہ بیٹھیں اور مختلف راستے تلاش کریں۔ جیسا کہ میں اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں(7) ان کے ناموں کی ترویج کے لیے، ان کی تصاویر کی ترویج کے لیے، ان کی زندگي کے واقعات بیان کرنے کے لیے، ان کے وصیت ناموں کی ترویج کے لیے اور ان پوزیشنوں کو بیان کرنے کے لیے، جن میں وہ تھے اور جن پوزیشنوں میں انھوں نے جہاد کیا، کام کرنا بڑے اہم کاموں میں سے ہے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ نشر و اشاعت ہونی چاہیے تاکہ ان شاء اللہ سبھی لوگ، ان عظیم شخصیات سے معنوی استفادہ کر سکیں۔

ہمیں امید ہے کہ اللہ آپ کی تائيد کرے گا، آپ کو کامیابی عطا کرے گا اور آپ کی مدد کرے گا تاکہ اس سلسلے میں جو ضروری کام ہے، وہ آپ انجام دے سکیں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں، جو اجتماعی ملاقات کے تناظر میں ہوئي، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے اور سیمینار کی منتظمہ کمیٹی کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین عبداللہ حاجی صادقی اور اصفہان کے امام جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین سید یوسف طباطبائي نژاد نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) کافی، جلد 2، صفحہ 78

(3) شیخ شمس‌الدّین محمّد بن ‌‌مکّی بن احمد عاملی نبطی

(4) شیخ زین ‌الدّین بن علی بن احمد عاملی جبعی

(5) ماہرین اسمبلی کے رکن ماموستا محمد شیخ الاسلام جو ستمبر 2009 میں رمضان المبارک کی ستائيسویں تاریخ کو زرخرید دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

(6) اسلامی علوم کے ایک شعبے اصول فقہ کا ماہر

(7) بوشہر صوبے کے دو ہزار شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقدہ سیمینار کی منتظمہ کمیٹی کے ارکان سے خطاب
13/1/2020