امام (خمینی رحمۃ اللہ ‏علیہ) نے اس عظیم ہنرمندی کا مظاہرہ کیا اور یہ عظیم کارنامہ انجام دیا کہ سماج کے افراد کو اور خاص طور پر نوجوانوں ‏کو میدان میں اتارا اور انھیں میدان میں باقی رکھا۔ امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کو یہ توانائی کہاں سے حاصل ہوئی۔ یہ وہ نکتہ ‏ہے جس پر میں خاص طور پر توجہ مبذول کرانا چاہوں گا اور یہ آج ہمارے اور آپ کے لئے سبق آموز ہے۔ امام خمینی کی ‏شخصیت میں بھی ایک خاص کشش تھی اور آپ کے نعروں میں بھی الگ کشش تھی، یہ کشش اتنی قوی تھی کہ مختلف ‏عوامی طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوان میدان عمل میں اتر پڑے۔ حالانکہ جدوجہد کے دور میں بھی اور انقلاب کی فتح ‏کے بعد پہلے عشرے میں بھی نوجوانوں کے سامنے الگ الگ رجحانات، الگ الگ نظریات و افکار تھے۔ بائیں بازو کے ‏رجحانات تھے، سرمایہ داری نظام سے تعلق رکھنے والے نظریات بھی تھے، یہ حلقے بھی رنگ برنگی باتیں کرتے تھے، ‏گوناگوں باتیں کرتے تھے۔

اس کے علاوہ عام زندگی کی کشش بھی نوجوانوں کے سامنے موجود تھی۔ نوجوان ان راستوں کا ‏بھی انتخاب کر سکتے تھے۔ مگر نوجوانوں نے امام کا انتخاب کیا، امام کے راستے کے انتخاب کیا، ‏تحریک کا، جدوجہد کا اور انقلاب کا انتخاب کیا۔ کیوں؟ اسی مقناطیسیت کی وجہ سے جو امام کے اندر ‏تھی۔ کچھ مقناطیسی خصوصیات خود امام کی شخصیت سے تعلق رکھتی تھیں۔ امام خمینی رحمۃ اللہ ‏علیہ بڑی مستحکم اور توانا شخصیت کے مالک تھے، دشواریوں کا سامنا کرنے والے منفرد جذبہ استقامت کے مالک تھے۔ امام ‏خمینی دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہتے تھے اور صداقت کا پیکر تھے، ہمیشہ سچ بات کہتے تھے۔ ہر سننے والا شخص امام ‏خمینی کی باتوں میں سچائی کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ یہ سب امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پرکشش خصوصیات تھیں۔ ‏امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا اللہ پر ایمان اور توکل آپ کے عمل اور بیان میں مساوی طور پر نمایاں تھا۔ ان کا عمل اور ان کا ‏قول دونوں ہی اللہ تعالی پر ان کے ایمان اور توکل کا آئینہ تھے۔ یہ امام کی مقناطیسی خصوصیات ‏تھیں۔

ان خصوصیات کے علاوہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی کشش کا ایک حصہ ان اصولوں سے متعلق تھا جو آپ نے ‏متعارف کرائے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے عوام کے سامنے جو چیزیں پیش کیں ان میں ایک اسلام تھا، خالص محمدی اسلام۔ ‏خالص اسلام یعنی وہ اسلام جو نہ تو رجعت پسندی کا اسیر ہے اور نہ خوشہ چینی میں مبتلا ہے۔ امام خمینی نے ایسے دور ‏میں جب رجعت پسندی بھی تھی اور خوشہ چینی کا سلسلہ بھی  تھا، حقیقی اسلام پیش کیا۔ یہ چیز مسلم نوجوانوں کے لئے ‏پرکشش تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعلانیہ اصولوں میں خود مختاری، آزادی، سماجی انصاف، اقتصادی مساوات تھی۔ ‏یہ امام کے اصول تھے جنھیں وہ برملا بیان کرتے تے۔ امام کا ایک اصول ‏امریکی تسلط کے چنگل سے رہائی پر تاکید تھی۔ یہ امام خمینی کے اصول تھے، یہ سب پرکشش اصول ہیں۔ یہ ایرانی نوجوان ‏کے لئے پرکشش اصول تھے اور میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ آج بھی امریکی تسلط اور بالادستی سے باہر نکل جانا، ان ‏ملکوں کے نوجوانوں کے لئے بھی پرکشش ہے جنھوں نے امریکہ کی فرماں برداری کے طویل المیعاد معاہدے کئے ہیں۔ مثلا ‏سعودی عرب جیسے ملک میں جو امریکی مفادات کی خدمت پر خود کو مامور سمجھتا ہے، آپ اگر نوجوانوں سے پوچھئے ‏تو آپ دیکھیں گے کہ سارے نوجوان امریکہ کی غلامی سے متنفر ہیں اور اس ظالمانہ تسلط سے نجات کے خواہش مند ہیں، ‏اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے۔ ‏

امام نے جو اصول اور جو نعرے متعارف کرائے ان میں سے ایک عوامی بالادستی تھی۔ یعنی ملکی ‏اقتدار عوام کے ہاتھوں میں رہے؛ عوام انتخاب کریں، وہ اپنی مرضی سے طے کریں، زندگی کے تمام شعبوں میں عوام اپنے ‏ارادے کے مطابق عمل کریں۔ ‏

امام کا ایک اور نعرہ ملت کی خود اعتمادی تھی۔ یعنی وہ عوام کو تلقین کرتے تھے اور بار بار دہراتے ‏تھے کہ آپ کے اندر توانائی ہے، آپ کے اندر صلاحیت ہے۔ علم کے میدان میں، صنعت کے میدان میں، بنیادی کاموں کے ‏شعبے میں، ملک کے انتظام و انصرام میں، ملک کے اہم اور حساس شعبوں کے مینیجمنٹ میں، معیشت وغیرہ جیسے میدانوں ‏میں آپ حود اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی توانائی رکھتے ہیں۔

امام خامنہ ای

4 جون 2017