اول: مخاصمتوں اور دشمنیوں کا سامنا ہونے پر امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کا رد عمل بہت شجاعانہ اور فعالانہ ہوتا تھا۔ کبھی کمزوری اور پسپائی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ کبھی گھبراتے نہیں تھے، نہ کمزوری کا احساس کرتے تھے، نہ کبھی کمزوری ظاہر کرتے تھے۔ دشمنوں کے مد مقابل بڑے مقتدرانہ اور سرگرم انداز میں ڈٹ جاتے تھے۔

دوم: امام (خمینی رحمۃ اللہ علیہ) کبھی بھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے تھے۔ الگ الگ حالات میں کبھی بھی وہ مضطرب اور ہیجان زدہ نہیں ہوتے تھے، کبھی بھی عقل و منطق سے عاری جذبات کی بنیاد پر کام نہیں کرتے تھے۔ آپ کے فیصلے ہمیشہ شجاعانہ اور محکم جذبات پر مبنی ہوتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ عقلی تخمینوں پر استوار ہوتے تھے۔

سوم: امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ ترجیحات کی ترتیب کا خیال رکھتے تھے۔ ہمیشہ ترجیحات پر زور دیتے تھے۔ مثال کے طور پر انقلابی تحریک کے زمانے مین آپ کا مقابلہ سلطنتی نظام سے تھا تو کبھی بھی فروعی مسائل کو کام کے میدان میں نہیں آنے دیتے تھے۔ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں آپ کی ترجیح جنگ تھی تو آپ نے یہ بات بارہا کہی کہ تمام امور میں جنگ سر فہرست ہے، مقدس دفاع سر فہرست ہے اور امر واقعہ بھی یہی تھا۔ ہمیشہ ترجیحی مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے تھے اور فروعی مسائل کو اپنی توجہ کے دائرے میں نہیں آنے دیتے تھے۔

چہارم: عوام الناس کی توانائیوں پر اعتماد۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ ایرانی قوم کو بہت عظیم، آگاہ اور توانا قوم مانتے تھے۔ اس پر انھیں بھرپور اعتماد تھا۔ عوام کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے خاص طور پر نوجوانوں کے بارے میں۔ آپ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمودات میں دیکھئے کہ آپ کس قدر عوام کی طرف سے پرامید رہتے تھے، نوجوانوں کے بارے میں کتنے پرامید نظر آتے تھے۔

پنجم: دشمن پر عدم اعتماد۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی نظام کے سربراہ کی حیثیت سے گزارے گئے اپنے دس سال کے عرصے میں ایک لمحے کے لئے بھی دشمن پر اعتماد نہیں کیا۔ دشمن کی تجاویز کو ہمیشہ مشکوک نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کے دکھاوے پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ دشمن کو حقیقی معنی میں دشمن سمجھتے تھے اور اس پر کبھی اعتماد نہیں کرتے تھے۔

ششم: عوام کی یکجہتی اور اتحاد پر توجہ۔ اس دشمنی کے مقابلے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی روش کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں ہر وہ چیز مسترد کر دینے کے قابل تھی جو عوام کے درمیان تفرقہ پیدا کرے اور عوام کو دو حصوں میں تقسیم کر دے۔

ہفتم: نصرت خداوندی اور وعدہ پروردگار پر گہرا یقین و ایمان۔ یہ بھی بڑا بنیادی نکتہ تھا۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نصرت خداوندی پر تکیہ کرتے تھے۔ وہ جی جان سے محنت کرتے تھے، اپنے پورے وجود سے میدان میں سرگرم عمل رہتے تھے لیکن ساری امیدیں نصرت خداوندی اور قدرت پروردگار سے وابستہ رکھتے اور قوت الہیہ پر تکیہ کرتے تھے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا 'اِحدی‌ الحُسنَیین' پر گہرا ایقان تھا۔ ما لنا الّا اِحدی الحُسنَیین ان کا یہ نظریہ تھا کہ اگر اللہ کے لئے کام کیا جائے تو نقصان اور خسارے کے سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اگر کام اللہ کی خاطر انجام دیا جائے تو اس میں نقصان کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ یا تو اس میں پیشرفت حاصل ہوگی اور اگر پیشرفت حاصل نہ ہوئی تب بھی ہم نے اپنا جو فریضہ تھا اسے پورا کر دیا، بنابریں بارگاہ خداوندی میں ہم سرخرو ہیں۔

امام خامنہ ای

4 جون 2018