قرآن کی روشنی میں

ہمارے مقدس دین اسلام میں، دوسروں کے سامنے گناہ کا اقرار کرنا ممنوع ہے۔ یہ جو بعض مذاہب میں ہے کہ عبادت خانوں میں جائيں، عالم دین کے پاس، پادری کے پاس بیٹھیں، گناہ کا اعتراف کریں، یہ اسلام میں نہیں ہے اور اس طرح کی چیز ممنوع ہے۔ اپنے رازوں کا پردہ چاک کرنا، اپنے گناہوں سے دوسروں کو مطلع کرنا، اپنے اندرونی رازوں اور اپنے گناہوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا منع ہے، اس کا کوئي فائدہ بھی نہیں ہے۔ ان خیالی اور تحریف شدہ مذاہب میں یہ جو کہا جاتا ہے کہ پادری گناہوں کو بخش دیتا ہے، نہیں! اسلام میں گناہوں کو بخشنے والا صرف خدا ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر بھی گناہوں کو نہیں بخش سکتے۔ آیت شریفہ میں کہا گيا ہے: "وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذ ظَّلَمُوا اَنفُسَھُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّہ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّہ تَوَّابًا رَّحِيمًا." (اور جب یہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کے پاس آ جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے، اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتے تو یقیناً اللہ کو بخشنے والا اور رحم کرنے والا پاتے۔ سورۂ نساء، آيت 64) جب انھوں نے کوئي گناہ کیا، اپنے آپ پر ظلم کیا تو اگر وہ آپ پیغمبر کے پاس آئيں، خداوند عالم سے مغفرت طلب کریں، معافی کی درخواست کریں اور آپ بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کریں تو اللہ ان کی توبہ قبول کر لے گا۔ یعنی پیغمبر ان کے لیے معافی کی درخواست کرتے ہیں، خود پیغمبر گناہ کو معاف نہیں کر سکتے؛ گناہ صرف اللہ تعالی بخشے گا۔ یہ استغفار ہے اور اس استغفار کا واقعی بڑا اہم مقام ہے۔

امام خامنہ ای

14 ستمبر 2007