بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

تمام محترم حاضرین اور معزز  مہمانوں کا خیر مقدم ہے۔ یہ نشست واقعی بڑی نمایاں اور ممتاز نشست ہے۔ اس نشست میں انسان مسلمانوں کے ایک خاص گروہ کی عالمی سطح کی ہم آہنگی اور تعاون کی ایک جھلک دیکھ سکتا ہے۔

اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی ایک اہم مرکز ہے، ایک باعظمت مرکز ہے۔ یہ اہلبیت علیہم السلام سے وابستہ مرکز ہے اور اہلبیت کو عالم اسلام میں ایک لاثانی عظمت، عقیدت اور مقبولیت حاصل ہے۔ یعنی عالم اسلام میں کوئي بھی ایسی شخصیت تلاش نہیں کی جا سکتی جسے اہلبیت پیغمبر علیہم الصلاۃ  و السلام کی طرح متفقہ طور پر اتنی محبوبیت اور مقبولیت حاصل ہو۔ یہ عقیدت، یہ عظمت، یہ روحانی جلال و شکوہ فطری طور پر آپ کے اس مرکز کی طرف منتقل ہوتا ہے جو اہلبیت اطہار کے نام پر تشکیل پایا ہے۔ تو اسے یہاں سے اہمیت حاصل ہو جاتی ہے، عظمت حاصل ہو جاتی ہے اور اس عظمت سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ عنوانات اور نام وسیلہ ہوتے ہیں، سبب ہوتے ہیں، اصل چیز یہ ہے کہ نتیجے تک پہنچا جائے، نتیجہ کیا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ یہ مرکز، تمام مسلمانوں کی توجہ کا مرکز اور الہام حاصل کرنے کا سرچشمہ بن جائے۔ آپ کی ہنرمندی یہ ہے کہ آپ اس اہم مرکز کو یعنی اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کو عالم اسلام اور پوری دنیائے اسلام کے مشتاق افراد کے قلب و  روح کے لیے ایک الہام بخش مرکز بنا دیں۔

اسی سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس اسمبلی کے ارکان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔ ا‏‏ئمہ علیہم السلام کا یہ مشہور جملہ جس میں انھوں نے فرمایا ہے: "کونوا لَنا زَینا"(2) جس کا خطاب ہم سب سے ہے اور ہم سب کو اس کا خیال رکھنا چاہیے، آپ لوگوں کے سلسلے میں اس جملے کی تاکید زیادہ ہے، آپ کے کام کی اہمیت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس جملے "کونوا لَنا زَینا" کو اس اسمبلی، اس میں کام کرنے والے افراد اور اس سے متعلق افراد کے بارے میں زیادہ توجہ سے عملی جامہ پہنایا جائے۔ تو اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ عملی جامہ پہنے تو ہمیں اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات و معارف کو ہر جگہ پھیلانے کے لیے اس اسمبلی کو ایک چھاؤنی سمجھنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اہلبیت کی تعلیمات اور معارف زندگي کے مسائل کے کسی ایک حصے سے مخصوص نہیں ہیں، جو بھی اہلبیت کے الفاظ پر غور کرے گا وہ اس بات کی تصدیق کرے گا کہ اہلبیت کی تعلیمات اور معارف، تمام بنیادی مسائل، الہی تعلیمات، توحید، عرفان، روحانیت، اخلاقیات، انفرادی ذمہ داریوں، گھریلو ذمہ داریوں، سماجی ذمہ داریوں سے لیکر ملک کا انتظام چلانے اور تمدن سازی کی ذمہ داریوں تک کے امور کا ایک عظیم مجموعہ ہے، مطلب یہ کہ اہلبیت علیہم السلام کے معارف ان تمام امور پر محیط ہیں۔

آج اسلامی معاشروں کو ان سب کی ضرورت ہے۔ آج اسلامی ممالک میں سے جس ملک کو بھی دیکھیں آپ کو پتہ چلے گا کہ اسے معرفتی مسائل کی بھی ضرورت ہے اور عملی مسائل کی بھی ضرورت ہے، چاہے وہ انفرادی میدان میں ہو، چاہے چھوٹے سماجوں کے میدان میں ہو، یا پھر تمدن اور سیاست جیسے بڑے میدانوں میں ہو، ان سب میں اہلبیت کی تعلیمات کی ضرورت ہے۔ آج عالم اسلام کو ان کی ضرورت ہے، وہ ان تعلیمات کا ضرورتمند ہے، یہ ایک خلا ہے۔ آپ بنیادی قسم کے صحیح پروگرام بنا کر اور عالمی سطح پر سنجیدہ کوششیں کرکے، معقول طریقوں سے – آج کل تو مؤثر ذرائع بھی بہت ہیں – اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کو مختلف معاشروں تک منتقل کیجیے، غیر معمولی شخصیات تک بھی اور عام لوگوں تک بھی۔ یہ ایک بات ہوئي، یہ بہت بھاری ذمہ داری ہے جو میرے خیال میں اس اسمبلی کے کندھوں پر ہے۔

اگلی بات یہ ہے کہ اہلبیت کے پیروکاروں کو اس بات پر فخر ہے کہ سامراجی نظام اور تسلط پسند نظام کے مقابلے میں سب سے اہم قدم انھوں نے اٹھایا ہے۔ نعرے تو بہت لگائے جاتے ہیں لیکن جو کچھ زمینی سطح پر عملی شکل میں انجام پایا ہے وہ ایک واضح اور معین چیز ہے اور وہ ہے اسلامی جمہوریہ کا پرچم۔ شیعہ کو اس بات پر فخر ہے کہ وہ تسلط پسندانہ نظام کے سامنے ڈٹ گيا، سینہ تان کر کھڑا ہوا، اس نے  ملکوں، حکومتوں اور اقوام کی زندگی کے تمام معاملات میں ظالمانہ اور جابرانہ طریقے سے مداخلت کرنے والے سات سروں والے اژدہا (ڈریگن) کو لگام لگائی۔ آج خود وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی بہت سی خواہشیں اسلامی جمہوریہ کے ذریعے روک دی گئيں اور ناکام بنا دی گئيں، یہ اسلامی جمہوری نظام کے افتخارات میں سے ایک ہے اور یہ شیعوں کا افتخار ہے۔ یہ چیز ائمۂ ہدی علیہم السلام اور اہلبیت پیغیمبر کے بیانوں سے الہام حاصل کیے بغیر ممکن نہیں تھی۔ وہی لوگ تھے جنھوں نے ہمیں قرآن مجید میں تدبر اور غور و فکر کرنے اور قرآن مجید سے الہام حاصل کرنے کی ترغیب دلائي، حوصلہ افزائی کی، وہی لوگ تھے جنھوں نے ہمارے لیے قرآنی تعلیمات و معارف کی تشریح کی، وہی لوگ تھے جنھوں نے اپنی عملی سیرت کے ذریعے ہمیں یہ سمجھایا کہ کس طرح سے کام کرنا چاہیے، امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام سے لیکر حضرت امام حسن عسکری علیہ الصلاۃ و السلام تک۔

تو اسلامی جمہوریہ کا یہ پرچم عدل و روحانیت کا پرچم ہے، مطلب یہ کہ یہاں کچھ بھی مبہم نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا پرچم وہی پرچم ہے جو انبیاء نے بلند کیا تھا، ائمہ نے بلند کیا تھا۔ آپ کئي زیارتوں میں، چاہے وہ امام حسین علیہ السلا کی زیارت ہو یا امام رضا علیہ السلام کی زیارت ہو، انبیاء سے ان عظیم شخصیات کو ملنے والی وراثت کے بارے میں اس طرح سے کہتے ہیں: اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وارِثَ اِبراہیمَ خَلیلِ ‌اللّہِ اَلسَّلامُ عَلَیکَ یا وارِثَ موسیٰ کَلیمِ ‌اللَّہ(3) (سلام ہو آپ پر اے ابراہیم خلیل اللہ کے وارث!، سلام ہو آپ پر اے موسی کلیم اللہ کے وارث!) یہ وہی پرچم ہے، ائمہ کا پرچم ہے، انبیاء کا پرچم ہے اور اس پرچم پر جو لکھا ہے وہ یہی دو لفظ ہیں: انصاف اور روحانیت۔

توجہ فرمائيے! جب آپ عدل و معنویت کا پرچم بلند کریں گے تو بڑی ظاہر سی بات ہے کہ اس دنیا میں جس کا مزاج ظلم و ناانصافی ہے اور جس کی سوچ، مادہ پرستی پر مبنی ہے – یعنی ٹھیک عدل کے مقابلے میں اور روحانیت کے مقابلے میں – اس کی مخالفت ہوگی۔ کچھ لوگ ہم سے کہتے ہیں: "آپ نے اپنی فلاں بات سے، فلاں کام سے، فلاں فیصلے سے، اپنے لیے دشمن تیار کر لیے۔" نہیں! ہم نے اسلامی جمہوریہ کا پرچم لہرایا، اس لیے لوگ دشمن بن گئے، ہم نے احکام الہی کو پیش کیا، اس لیے لوگ دشمن بن گئے۔ جب آپ عدل و انصاف کو پیش کرتے ہیں تو تسلط و سامراج پر مبنی تمدن اور دنیا، ضرور آپ کی مخالف ہو جائے گي۔ جب آپ روحانیت کی بات پیش کریں گے تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ مادی دنیا، جس کا سب کچھ مادیت پر مبنی ہے اور جو دنیا کے تمام مفاہیم کو صرف پیسوں سے تولتی ہے، آپ کی مخالفت کرے گي، یہ فطری بات ہے۔ بنابریں اسلامی جمہوریہ سے سامراجی دنیا اور تسلط پسندانہ نظام کا تصادم اور ٹکراؤ، ایک فطری بات ہے۔ آج تسلط پسند دنیا کا سرغنہ امریکا ہے، کوئي دوسری چیز نہیں ہے، اس بنیاد پر امریکا کے سلسلے میں ہر ایک کی ذمہ داری واضح ہو جاتی ہے۔ آج سرگرم دشمن اور دشمن محاذ میں سب سے آگے، امریکا ہے۔ یہ دوسری بات ہوئي۔

یہ جو دوسری بات ہم نے عرض کی، اس سلسلے میں ایک اور نکتہ ہے اور وہ یہ کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے سبھی کو یہ سکھا دیا کہ اسلامی معاشروں کے درمیان موجود فاصلہ پیدا کرنے والی لائنوں کو حاشئے پر رکھ دیں، فاصلے کی صرف ایک لائن پائي جاتی ہے اور وہ ہے، ایمان و اسلام اور کفر و سامراج کے درمیان کی لائن۔ یہ بات امام خمینی نے سب کو سکھا دی۔ انھوں نے ہمیں فاصلہ پیدا کرنے والی جن لائنوں کو الگ رکھ دینا سکھایا وہ فرقہ واریت کی لائن ہے، قوم پرستی کی لائن ہے، نسل پرستی کی لائن ہے، پارٹی وغیرہ کی لائن ہے، آپ نے کہا کہ انھیں الگ رکھ دیجیے۔ فاصلہ پیدا کرنے والی صرف ایک لائن ہے اور وہ ہے امریکا کی زیر سرپرستی تسلط پسندانہ نظام اور اسلام، اسلامی نظام اور سیاسی اسلام کی عملی تصویر کے درمیان کی لائن۔ یہ وہ لائن ہے جو نمایاں ہونی چاہیے۔ امام خمینی نے اسے پہلے دن سے واضح رکھا، اسلامی انقلاب کے پہلے دن سے نہیں بلکہ تحریک کے پہلے دن سے، یعنی اس دن سے جب امام خمینی نے یہ تحریک شروع کی، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پندرہ سال پہلے۔ امام خمینی کا یہ عمل قرآنی آيات پر استوار ہے: "قَد کانَت لَکُم اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ فی اِبراھیمَ وَ الُّذینَ مَعَہُ اِذ قالوا لِقَومِھِم اِنّا بُرَآءُ مِنکُم وَ مِمّا تَعبُدونَ مِن دونِ اللَّہِ کَفَرنا بِکُم وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَۃُ وَ البَغضاءُ اَبَدًا حَتّىٰ تُؤمِنوا بِاللَّہِ وَحدَہ"(4) قرآن کی اس آيت پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی عقیدے میں ہمارے خلاف ہے، ہماری اس سے دشمنی ہے، نہیں۔ ایک دوسری آيت میں کہ یہ آیت بھی سورۂ ممتحنہ میں ہی ہے، کہا گيا ہے: لا یَنھاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذینَ لَم یُقاتِلوکُم فِی الدّینِ وَ لَم یُخرِجوکُم مِن دِیارِکُم اَن تَبَرّوھُم" (5) خداوند متعال نے کہا ہے: "اِنَّما یَنھاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذینَ قاتَلوکُم فِی الدّینِ وَ اَخرَجوکُم مِن دِیـارِکُم ... اَن تَوَلَّوھُم" تک(6) تو امام خمینی کی سفارش اور ان کی سیرت، قرآنی آیات اور قرآنی احکام پر مبنی ہے، اس میں کوئي شک نہیں۔ ایک سرحد اور فاصلے کی لائن، نمایاں ہے اور وہ ہے، عالم اسلام اور عالم کفر و استکبار کے درمیان مقابلہ، دوسری سرحدوں اور فاصلے کی لائنوں کو بے رنگ بنا دینا چاہیے، نظر انداز کر دینا چاہیے، سنی، شیعہ، ایران، فلاں ملک، عرب، عجم، جلد کا رنگ، ایسی نسل، ویسی نسل اور اسی طرح کی دوسری باتوں پر توجہ نہیں دینی چاہیے۔

اسی وجہ سے آپ نے دیکھا کہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائي دنوں سے ہی ہمارے ملک میں فلسطین کا مسئلہ بہت اہم اور نمایاں ہو گيا۔ مسئلۂ فلسطین بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گيا۔ میں موازنہ نہیں کرنا چاہتا لیکن ہم نے عالم اسلام میں کچھ ایسے لوگ بھی دیکھے جو اسلام کے نام پر آگے بڑھے، قیام کیا مگر انھوں نے نہ صرف یہ کہ خبیث صیہونیوں سے مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان سے دوستی کا اظہار بھی کیا اور فورا انھیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ اسلامی جمہوریہ نے یہ غلطی نہیں کی، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ غلطی نہیں کی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بالکل شروعاتی دنوں میں ہی، یہیں پر موہوم صیہونی حکومت کے سفارتخانے کے طور پر موجود جگہ کو اس سے لے کر فلسطینیوں کو دے دیا گيا اور امام خمینی اپنے پورے وجود سے مسئلۂ فلسطین کے لئے ڈٹ گئے۔ امام خمینی کے لیے لبنان میں مجاہدت میں مصروف شیعہ حزب اللہ اور اس مجاہد فلسطینی گروہ میں جو اسرائیل سے لڑ رہا تھا، کوئي فرق نہ تھا، مطلب یہ کہ وہ دونوں ہی کو اللہ کی راہ میں لڑنے والے اور جہاد کرنے والے گروہ کی نظر سے دیکھتے تھے۔ جو بھی جس مقدار میں اسلامی جمہوریہ سے، ہمارے عمل سے، ہمارے رویے سے، ہمارے موقف سے زیادہ قریب ہے، وہ ہم سے زیادہ قریب ہے، یہ بہت اہم ہے۔ اس کی وجہ سے اس وقت ایرانی قوم اور پورے عالم اسلام کی مسلم اقوام کے درمیان ایک بے نظیر یگانگت اور ہمدلی پیدا ہو گئي ہے۔ اس وقت عالم اسلام کے مشرق میں، عالم اسلام کے مغرب میں، ایشیا کے آخری حصے سے لے کر افریقا کے دور دراز تک کے علاقوں میں اقوام، ایرانی قوم سے خوش ہیں، ہمیں حکومتوں سے مطلب نہیں ہے، حکومت کی صورتحال الگ ہوتی ہے؛ اقوام کی بات ہو رہی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ فاصلہ پیدا کرنے والے خطوط کو امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے باضابطہ طور پر کنارے کر دیے جانے کا اعلان کیا گيا۔

آج بھی اسلامی جمہوریہ امام خمینی کے سیاسی مطمح نظر کے زیر اثر کام کرتی ہے۔ انھوں نے اسلامی نظام کے لیے اس سیاسی مطمح نظر کا خاکہ تیار کیا تھا۔ ہم آج بھی اسی پر چل رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ امام خمینی کے مطمح نظر کی بنیاد "اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَھُم"(7) ہے۔ ہم نے کبھی بھی دوسرے ملکوں سے نہیں کہا کہ آپ ہمارے سیاسی نظام کے آئیڈیل اور ڈھانچے کی پیروی کیجیے، نہیں! ہم نے کبھی بھی کسی بھی ملک سے یہ نہیں کہا اور نہ ہی کبھی کہیں گے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ اسلامی اصولوں پر عمل کیجیے۔ وہی آيت جس کی میں نے تلاوت کی اور سورۂ فتح کی "اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَھُم" والی آیت، اسی طرح کی ہے، یہ اسلامی اصول ہیں۔ ان شاء اللہ ہم مستقبل میں بھی تفرقوں کے سامنے ڈٹے رہیں گے، آج تک تو ڈٹے ہی ہوئے ہیں۔

ایک اور بات یہ ہے کہ جب ہم ان لائنوں کو، فاصلے کے خطوط کو عالم اسلام کے عظیم مجموعے– آگے چل کر میں اس سلسلے میں ایک مختصر سی وضاحت پیش کروں گا – اور تسلط پسند اور سامراجی دنیا کے بیچ واضح کرتے ہیں تو لازمی طور پر اس کا ردعمل سامنے آئے گا، ان کے لیے یہ بات بہت ناگوار ہے۔ سامراجی دنیا کو اس بات کی عادت پڑ چکی ہے کہ وہ منہ زوری کرے اور کوئي بھی اس کی منہ زوری کے مقابلے میں کوئي ٹھوس جواب نہ دے۔ یہ دنیا، جسے شاید ایک صدی یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے منہ زوری، دھونس اور اقوام کے خلاف جارحیت کی لت پڑ چکی ہے، اب دیکھ رہی ہے کہ دنیا کے ایک ایسے حساس علاقے میں، اس اہم جغرافیائي پوزیشن میں ایک قوم، سینہ تان کر کھڑی ہو گئي ہے اور اپنے طرز عمل سے، اپنی باتوں سے مسلمانوں کو اس کے مقابلے میں، سامراج کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی ترغیب دلا رہی ہے، فطری طور پر یہ بات ان کے لیے ناقابل قبول ہے، وہ دشمنی کر رہے ہیں کیونکہ یہ چیز ان کے لیے بہت ناگوار ہے۔ اسلامی جہوریہ کے ذریعے مختلف ملکوں میں امریکا کی مجرمانہ سازشوں کو ناکام بنا دیا جائے، یہ بات انھیں غصہ دلاتی ہے، اس کی ایک مثال داعش ہے۔ داعش کو امریکا نے وجود عطا کیا تھا، اس کا اعتراف انھوں نے خود کیا ہے۔ تو جب اسلامی جمہوریہ ایران میدان میں آ جاتا ہے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ اس سازش اور اس چال کے سامنے ڈٹ جاتا ہے تو یہ ان کے لیے ناقابل برداشت ہے، اسی لیے وہ ردعمل دکھانا شروع کرتے ہیں۔ ایرانوفوبیا اور شیعہ فوبیا کے تمام پروپیگنڈوں اور اس ملک اور اس ملک میں مداخلت کی ایران کے خلاف الزام تراشی کی اصلی وجہ امریکا کی سازشوں کی ناکامی پر اس کی یہی ناراضگی اور جھلاہٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہیں کہ جتنا بھی ان سے ممکن ہے، پروپیگنڈے کے مختلف طریقوں سے ایرانوفوبیا پھیلانے اور شیعہ فوبیا پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، الگ الگ۔ ان کی ایک بات یہ ہے کہ "ایران کیوں فلاں ملک اور فلاں ملک میں مداخلت کر رہا ہے؟!" کوئي مداخلت نہیں ہے۔

ہمارا موقف، تسلط پسندانہ نظام کے جرائم کے سامنے ڈٹ جانے کا ہے، یہ چیز انھیں طیش دلاتی ہے، اسی لیے وہ اسلامی جمہوریہ پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ سبھی اس بات کی طرف سے چوکنا رہیں کہ امریکا کی اس سامراجی سازش میں کہیں اس کا ساتھ نہ دینے لگیں۔ وہ لوگ جو بھی کام کرتے ہیں، ہماری نظر میں – یعنی میرا جو تجزیہ ہے اس کے مطابق – ان کی بے چارگي اور ناتوانی کی وجہ سے ہے۔ یہ جو قاتلانہ حملے کیے جاتے ہیں، یہ جو عجیب و غریب پروپیگنڈے کرتے ہیں، اس لیے ہیں کہ وہ لاچار ہیں، کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اصلی سچائی اسلامی جمہوریہ کی ترقی ہے، اصل سچائی اسلامی نظام کے نعروں کی نمایاں کامیابیاں ہیں، اصل سچائی یہی ہے، یہی تھی اور ہمیشہ یہی رہے گی اور انھیں قدم بہ قدم پسپائي اختیار کرنی پڑے گي۔ تو یہ اصلی سچائی ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ وہ اس کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہیں اس لیے قاتلانہ حملے کرتے ہیں، زہریلے پروپیگنڈے کرتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے کام کرتے ہیں، یہاں تک کہ کبھی صدام جیسے لوگوں کو حملے کی ترغیب دلاتے ہیں – انقلاب کی شروعات سے ہی ایسا رہا ہے – حقیر افراد کو عالم اسلامی کی نورانی شخصیات کے خلاف بدکلامی کی ترغیب دلاتے ہیں۔

ایک چیز جس کے بارے میں بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، یہ ہے کہ سامراج چاہتا ہے کہ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے جو یہ حد بندی کی ہے، اسے برعکس کر دے۔ یعنی عالم اسلام میں پائي جانے والی حدبندیوں کو شیعہ اور سنی کی جنگ، عرب اور عجم کی جنگ، کبھی شیعہ اور شیعہ کی جنگ اور سنی اور سنی کی جنگ کے ذریعے زیادہ ہوا دے۔ یہ چیز اس وقت آپ کی نظروں کے سامنے ہے اور آپ اسے مختلف ملکوں میں دیکھ رہے ہیں، ایک سنی دھڑے کی دوسرے سنی دھڑے سے جنگ، ایک شیعہ دھڑے کی دوسرے شیعہ دھڑے سے جنگ! یہ سب سامراج کا کام ہے، یہ امریکا کا کام ہے، وہ ورغلا رہا ہے، یہ اس کی سازش ہے جو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ موجود ہے، چوکنا رہنا چاہیے، یہ شیطان کی خواہش ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امریکا بڑا شیطان ہے(8) اور قرآن مجید کہتا ہے: "اِنَّما یُریدُ الشَّیطانُ اَن یُوقِعَ بَینَکُمُ العَداوَۃَ وَ البَغضاءَ فِی الخَمرِ وَ المَیسِر"(9) اس خمر و میسر (شراب اور جوئے) کی تخصیص نہیں ہے، یعنی شیطان چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان دشمنی اور کینہ پیدا کرے جس کے لیے اس کا ایک ہتھکنڈہ شراب اور جوا ہے؛ اگر وہ دوسرے ہتھکنڈوں سے دشمنی اور کینہ پیدا کر سکے تو وہ ضرور یہ کام کرے گا، یہ فطری بات ہے۔ تو جہاں بھی آپ دشمنی اور کینہ دیکھیں، آپ کو شیطان کا ہاتھ بھی وہاں دکھائي دینا چاہیے۔ اب رہا یہ سوال کہ اس کا کس طرح علاج کیا جا سکتا ہے؟ تو یہ ایک دوسری بحث ہے، ہر جگہ کسی ایک خاص طریقے سے علاج کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے سوچنا چاہیے اور علاج کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ ہمیں دشمن کی شیطانی سازشوں کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔

ہم، اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کو یکجہتی اور تعاون کا علمبردار ہونا چاہیے۔ پہلے دن سے ہم نے کہا کہ اہلبیت ورلڈ اسمبلی کی تشکیل کا مطلب، غیر شیعہ سے ٹکراؤ اور دشمنی نہیں ہے، یہ بات سبھی کے لیے واضح ہونی چاہیے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے شروع سے، ان افراد کا، جو شیعہ نہیں ہیں لیکن ایک اچھے راستے پر چل رہے ہیں، صحیح راستے پر چل رہے ہیں، ساتھ دیا ہے۔ عالم اسلام میں ایرانیوں جتنی، اسلامی جمہوریہ جتنی غزہ کے عوام اور فلسطین کے عوام کی مدد کس نے کی ہے؟ جو ممالک مسلکی اعتبار سے، ان کے جیسے ہیں انھوں نے ایران کے ذریعے کی گئی مدد کی ایک فیصد بھی ان کی مدد نہیں کی ہے، بلکہ کبھی نقصان بھی پہنچایا ہے، چوٹ بھی پہنچائي ہے۔

ایک بات اور عرض کروں۔ جب مقابلے اور ٹکراؤ کی بات آتی ہے تو ایک سوال پیش کیا جاتا ہے کہ کیا ہم یہ  کر سکتے ہیں؟ کیا ہم میں مقابلے کی طاقت ہے؟ میرا جواب یہ ہے کہ جی ہاں، بالکل، سو فیصد، ہاں ہم یہ کر سکتے ہیں۔ سامراج کو روکنے اور پھر سامراجی اور تسلط پسند دنیا کو پیچھے دھکیلنے کے لیے عالم اسلام کے وسائل بہت اچھے ہیں۔ سافٹ پاور بھی ہے اور ہارڈ پاور بھی ہے۔ ہماری سافٹ پاور میں ہمارے عقائد، تعلیمات و معارف ہیں، دنیا کے سلسلے میں ہمارا پرامید  نقطہ نظر ہے، تاریخ کے دھارے اور تاریخ کے سفر کے سلسلے میں ہماری سوچ، واضح ہے، امید بھری ہے۔ ہم ایک عظیم طاقت سے جڑے ہوئے ہیں جو ہمیں توانائي عطا کرتی ہے، ہمیں امید عطا کرتی ہے۔ ہم خدا پر توکل کرنے والے ہیں، جن لوگوں کے پاس یہ توکل نہیں ہے، یہ توسل نہیں ہے، وہ مایوس ہو جاتے ہیں، افسردہ اور اداس ہو جاتے ہیں، ناتواں رہ جاتے ہیں، بیچ میں ہی پھنس جاتے ہیں، بڑائي ظاہر کرتے ہیں لیکن وہ اندر سے کھوکھلے ہیں۔ آج مغربی دنیا، فکری و نظریاتی لحاظ سے تعطل کا شکار ہے، دنیا کے بہت سے مسائل ان کے فہم و ادراک سے پرے ہیں، ان کے لیے ناقابل فہم ہیں، ان کی جو لبرل- ڈیموکریٹک سوچ ہے، اس سے آج کی دنیا میں موجود بہت سی چیزیں میل نہیں کھاتیں لیکن ہمارے ساتھ ایسا نہیں ہے، ہمارے لیے ہر چیز قابل حل ہے۔ انسان کا کردار، اس کے ارادے کا کردار، خدا پر توکل کا کردار، تاریخ کے دھارے کا کردار، مہدویت کا عقیدہ، اسلام کے حتمی مستقبل کا مسئلہ، بہت سی چیزیں ہیں جو ہمارے لیے واضح ہیں لیکن ان کے لیے نہیں، ان کے پاس یہ ادراک نہیں ہے، ان کا ہاتھ خالی ہے۔ یہ سافٹ پاور کی بات ہوئی۔

ہارڈ پاور کے لحاظ سے بھی ہم مقابلہ کر سکتے ہیں۔ انھوں نے برسوں عالم اسلام کے ذخائر سے فائدہ اٹھایا ہے، ناجائز قبضے اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے لیکن ہنوز عالم اسلام کے پاس ترقی و پیشرفت کے لیے کافی وسائل ہیں۔ وسیع و عریض علاقے، غیر معمولی گرانقدر ذخائر، جن پر انسانی زندگي کا انحصار ہے۔ آج آپ تیل اور گيس کے مسئلے کو دیکھ ہی رہے ہیں کہ کتنا اہم ہے، یہ عالم اسلام کے پاس ہے، عالم اسلام ان سے بہترین طریقے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

ماضی میں بھی ہمارے پاس یہ وسائل رہے ہیں، ماضی میں نوآبادیاتی اور نیو کالونیلزم کے دور میں یہی وسائل موجود تھے لیکن جو چیز نہیں تھی، وہ ہے ٹھوس ارادہ، جو چیز نہیں تھی، وہ ہے دشمن کی شناخت۔ نوآبادیاتی اور سامراجی دور میں ہماری قومیں، دشمن کو نہیں پہچانتی تھیں، دشمن سے مقابلے کے لیے ان کا ٹھوس ارادہ نہیں تھا، ان کے پاس ہمارے امام خمینی جیسا کوئي انسان نہیں تھا جو ان کو راستہ دکھاتا، یہی وجہ تھی کہ وہ کچھ نہ کر سکیں۔ آج بحمد اللہ یہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ قوموں کے اندر ٹھوس ارادہ اور عزم مصمم بھی ہے، قومیں آج تیار ہیں، قوموں کی اہم شخصیات آج تیار ہیں۔ البتہ کچھ کمیاں بھی دکھائي دیتی ہیں جو ہماری کمزور کارکردگي کی وجہ سے ہیں۔ یہ جو میں عرض کر رہا ہوں کہ اہلبیت ورلڈ اسمبلی کی سنگین ذمہ داریاں ہیں، اس سلسلے میں جن اداروں کو کام کرنا چاہیے، ان میں سے ایک آپ کا ادارہ ہے اور البتہ دوسرے بہت سے ادارے، بلاشبہہ ہماری اسلامی حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ اگر کہیں کوئي کمی ہے تو وہ ہماری کمزور کارکردگي کی وجہ سے ہے ورنہ آج گنجائشیں بہت زیادہ ہیں، اسلامی ممالک کی غیر معمولی شخصیات تیار ہیں، حقیقی معنی میں تیار ہیں، عام لوگ بھی تیار ہیں۔ عالم اسلام کی عینی شکل، اسلامی جمہوری نظام ہے۔

اسلامی جمہوری نظام ایک حقیقت ہے جو زمینی سطح پر موجود ہے، وعدہ نہیں ہے کہ "ٹھیک ہے، ہم انجام دیں گے" نہیں، یہ وہ نظام ہے جو وجود میں آ چکا ہے اور میرے خیال میں اسلامی نظام کے وجود میں آنے سے زیادہ اہم، اسلامی نظام کی بقا ہے۔ اسلامی نظام، ان دشمنیوں، ان حملوں، ان مختلف ضربوں کے سامنے ڈٹا رہا، وہ ان سب کو جھیل سکا، استقامت کر سکا، باقی رہ سکا اور مضبوط بن سکا۔ آج اسلامی جمہوریہ، تیس سال پہلے اور چالیس سال پہلے کی اسلامی جمہوریہ نہیں ہے، آج بحمد اللہ وہ ننھا سا پودا ایک تناور درخت میں تبدیل ہو چکا ہے اور یہ ایک آئيڈیل ہے۔ البتہ ہم نے عرض کیا کہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ "اسلامی جمہوریہ ایک آئيڈیل ہے" اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام اسلامی ملکوں میں سیاسی ڈھانچہ، اسلامی جمہوری نظام کی طرح ہونا چاہیے، نہیں، سیاسی ڈھانچہ بدل سکتا ہے۔ خود ہم نے بعض مواقع پر اپنے سیاسی ڈھانچے کو تبدیل کیا ہے، ابتدا سے لے کر آج تک اس میں کچھ تبدیلیاں آئي ہیں، دوسری جگہوں پر بھی ممکن ہے کہ سیاسی ڈھانچے الگ ہوں۔ اصل چیز اصول ہے، اصل چیز بنیادی باتیں ہیں – جن بنیادی اصولوں کو امام خمینی نے اپنے بیانوں میں بیان کیا – اصل بات "اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّارِ رُحَماءُ بَینَھُم" ہے، اصل بات "وَ عَلَى اللَّہِ فَلیَتَوَکَّلِ المُؤمِنون"(10) ہے، اصل باتیں یہ ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔

بہرحال ان شاء اللہ مستقبل روشن ہے، ہم عالم اسلام کے مستقبل کو روشن دیکھتے ہیں اور دنیا کے شیعہ ادارے، مراکز اور مجموعے بڑا کردار ادا سکتے ہیں اور آپ شیعہ ورلڈ اسمبلی کی حیثیت سے بہت زیادہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خداوند عالم سے آپ کے لیے توفیقات کی دعا کرتے ہیں۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو خوش آمدید عرض کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں، ان شاء اللہ آپ سب کامیاب رہیں، آپ کو خداوند عالم کی تائيد حاصل رہے اور آپ یہ کام انجام دے سکیں اور آپ کا یہ سفر ان شاء اللہ اچھا رہے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں، جو اہلبیت علیہم السلام ورلڈ اسمبلی کے ساتویں اجلاس کے آخری دن انجام پائي، اس اسمبلی کے سیکریٹری جنرل حجۃ الاسلام و المسلمین رمضانی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) امالی صدوق، صفحہ 400، "ہمارے لیے زینت بنو۔"

(3) منجملہ کامل الزیارات، صفحہ 206

(4) سورۂ ممتحنہ، آیت 4، یقیناً تم لوگوں کے لیے ابراہیم اوران کے ساتھیوں میں (پیروی کا) ایک عمدہ نمونہ ہے جب انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سے بھی جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو ہم تمہارے (اور تمہارے دین کے) منکر ہیں اور ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض پیدا ہوگیا یہاں تک کہ تم خدائے واحد پر ایمان لاؤ۔

(5) سورۂ ممتحنہ، آیت 8، اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ جن لوگون نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ ہی تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی کرو۔

(6) سورۂ ممتحنہ، آیت 9، اللہ تو صرف تمھیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنھوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا۔

(7) سورۂ فتح، آيت 29، ... (پیغمبر کے ساتھ والے) کافروں پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں ...

(8) منجملہ صحیفۂ امام، جلد 16، صفحہ 154، اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کی سالگرہ کے موقع پر ایرانی قوم کے نام پیغام: "انھیں بڑی طاقتوں خاص طور پر بڑے شیطان امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی اور اب بھی ہے۔"

(9) سورۂ مائدہ، آيت 91، شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ تمھارے درمیان شراب اور جوئے کے ذریعے بغض و عداوت ڈالے۔

(10) منجملہ سورۂ آل عمران، آيت 122، اور ایمان والے تو بس اللہ ہی پر توکل کریں۔