بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین.(1)

میں واقعی خداوند عالم کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں کہ بحمد اللہ کورونا کی اس مشکل کے ہلکے ہو جانے کے بعد ایک بار پھر یہ پرانبساط، سرزندہ اور امید ا‌فزا نشست تشکیل پائي۔ واقعی آپ جوانوں، خاص طور پر غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل آپ جوانوں کی موجودگي، امید پیدا کرنے والی ہے، یعنی آپ جہاں کہیں بھی ہوتے ہیں، آپ کی موجودگي امید خلق کرتی ہے، امید پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ، جو ملک کی ترقی و پیشرفت کے حامی نہیں ہیں، وہ ان جگہوں پر آپ کی موجودگي کے، جہاں آپ کو ہونا چاہیے، مخالف ہیں۔ خیر الحمد للہ۔

دوستوں نے جو باتیں بیان کیں، میں ان کے بارے میں اختصار سے کچھ کہنا چاہتا ہوں: سب سے پہلے تو یہ کہ بہت اچھی باتیں بیان کی گئيں، میں واقعی بہرہ مند ہوا اور مجھے لگتا ہے کہ جو تجاویز دی گئي ہیں وہ صحیح ہیں اور ان میں زیادہ تر قابل عمل ہیں اور یہیں سے انسان اس حقیقت کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے کہ، ان گزرے برسوں میں ہمارے زیادہ تر مسائل، مینیجمنٹ سے متعلق تھے۔ راستے موجود تھے لیکن منتظمین نے ان راستوں پر عمل نہیں کیا، امید ہے کہ یہ موجودہ حکومت ان شاء اللہ پوری سنجیدگی سے اس سلسلے میں قدم اٹھائے گي اور اس کی نشانیاں دکھائي بھی دے رہی ہیں۔ یہاں پر کئي وزراء ہیں اور نائب صدر بھی ہیں، یہ لوگ ان باتوں کو حکومت میں پیش کریں، میں بھی ان باتوں کو پہنچاؤں گا، یعنی یہ چیزیں جو مجھے دی گئي ہیں، ان کا دفتر میں ایک جائزہ لیا جائے گا اور پھر ہم انھیں ان شاء اللہ خود صدر مملکت تک بھی اور دیگر سرکاری عہدیداروں تک بھی پہنچا دیں گے۔

میں نے آج جو بات عرض کرنے کی تیاری کی ہے، اس کے دو تین اہم ذیلی عنوانات ہیں، جنھیں میں اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ ایک، جینیئس اور ممتاز علمی لیاقت کے حامل فرد کے بارے میں ہے، اس کا عنوان، اس کا موضوع، اس سلسلے میں دو تین نکات عرض کروں گا، جینیئس کون ہے اور کیا کرتا ہے۔ دوسرا اہم ذیلی عنوان جینیئس سے توقعات کے بارے میں، جب ہم نے جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل شخص کو پہچان لیا کہ وہ کون ہے تو پھر اس سے اور ملک بھر کے جینیئس افراد سے ہماری کیا توقعات ہیں۔ اگلا اہم ذیلی عنوان یہ ہے کہ ہمیں جینیئس کی مدد کے لیے انتظامیہ سے کیا توقعات ہیں، کیونکہ جینیئس ایک جوان ہے، اسے مدد چاہیے، پشت پناہی چاہیے، حمایت چاہیے، یہ مدد اور حمایت کیسی ہو، یہ طے ہونا چاہیے۔ میں ان میں سے ہر ایک کو اختصار سے عرض کروں گا۔ ایک اور نکتہ میرے ذہن میں ہے جسے میں آخر میں عرض کروں گا۔

علمی اور سائنسی جینیئس اور (ہر طرح کے) جینیئس کے بارے میں، غیر معمولی صلاحیت کے حامل فرد کے بارے میں سب سے پہلے تو ہمیں جاننا چاہیے اور ہم جانتے ہیں – یعنی میں پوری سنجیدگي سے اس بات کا قائل ہوں کہ ہم سب کو یہ بات جاننی چاہیے – کہ جینیئس، ملک کے سب سے اہم انسانی سرمائے میں سے ایک ہے۔ جی ہاں، قدرتی ذخائر اہم ہیں، جغرافیائي پوزیشن اہم ہے، آب و ہوا کے لحاظ سے محل وقوع اہم ہے، یہ سب اہم ہیں لیکن سب سے اہم چیزوں میں سے ایک، غیر معمولی لیاقت کا حامل فرد ہے، جینیئس کو ایک عظیم ثروت سمجھنا چاہیے۔ جب ہم اسے ایک عظیم ثروت سمجھیں گے تو اس کی تیاری کے لیے کوشش کریں گے، یہ ایک بات ہوئي۔ اسے کھو دینے کو خسارہ سمجھیں گے اور اسے حتی المقدور روکنے کی کوشش کریں گے، اس کے ساتھ شفقت کا سلوک کریں گے، جب ہم یہ سمجھ جائيں گے کہ وہ ایک اہم اور بڑا سرمایہ ہے تو اسی کے حساب سے اس کے ساتھ ہمارا رویہ بھی ہوگا۔ بنابریں ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے، سبھی کو سمجھ لینا چاہیے، ملک کے ذمہ داروں اور ملک کے عمومی ماحول میں بااثر افراد کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔

علمی و سائنسی لحاظ سے غیر معمولی صلاحیت کا حامل شخص اور بنیادی طور پر یونیورسٹی، ملک کی ترقی و پیشرفت کے ارکان میں ہے، یعنی ملک کی پیشرفت کا ایک اہم ستون، یونیورسٹی ہے اور یونیورسٹی میں بھی علمی و سائنسی لحاظ سے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد ہیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف موقعوں پر، صرف کل پرسوں کی بات نہیں، مختلف موقعوں پر یونیورسٹیوں کو بند کرنے کی کوشش کی گئي ہے، کلاسوں میں چھٹی ہو جائے، بچے کلاسوں میں نہ جائيں، ٹیچر نہ جائے، ان سب کی وجہ یہی ہے کیونکہ یونیورسٹی کا بنیادی کردار ہے۔ وہ شخص جو پروفیسر کو ٹیلی فون پر دھمکی دے رہا ہے اگر آپ گئے تو ایسا ہوگا، ویسا ہوگا، پتہ نہیں وہ اصل آدمی ہے بھی یا نہیں، سب سے اہم وہ آدمی ہے جو پردے کے پیچھے ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ یونیورسٹی اہم ہے، ملک کی پیشرفت کے لیے یونیورسٹی، شہ رگ ہے۔یونیورسٹی کو جتنا روک سکیں، بند کر سکیں، اس میں تخریب کاری کر سکیں، اسے ناقص بنا سکیں، اتنا ملک اور ملک کی پیشرفت کے دشمنوں کے لیے غنیمت ہے۔ بنابریں یونیورسٹی، ملک کی پیشرفت کے ستونوں میں سے ایک ہے۔

یونیورسٹی سامراج کے تسلط کے مقابلے میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ہمیں یہ بات جان لینی چاہیے۔ دنیا کی بڑی منہ زور طاقتوں کا ہدف، تسلط جمانا ہے، کس چیز کے ذریعے؟ کبھی ہتھیار کے ذریعے، کبھی فریب کے ذریعے، کبھی علم و سائنس کے ذریعے۔ علم و سائنس کے ذریعے بھی وہ تسلط جماتے ہیں۔ یونیورسٹی، تسلط کو روکتی ہے، مطلب یہ کہ اگر آپ ملک کی علمی سطح کو اوپر اٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو آپ نے دشمن کے تسلط کے مقابلے میں ایک رکاوٹ کھڑی کر دی۔ تو یہ جینیئس اور علم و سائنس اور یونیورسٹی کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کے بارے میں ایک بات ہوئي۔

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جینیئس کے وجود میں آنے میں ایک عنصر اس کی فطری صلاحیت ہے، اچھی سوچ، اچھا ذہن، اچھا دماغ اور یہ خداداد عطیہ ہے، یہ کسی اور کا کام نہیں ہے، اسے خدا نے عطا کیا ہے، اب خدا نے کس وجہ سے عطا کیا ہے، یہ الگ بحث ہے۔ خداوند عالم نے اس جینیئس کو مضبوط دماغ، اچھی سوچ، ضروری تیاری، کھلی آنکھ عطا کی ہے، یہ ایک عنصر ہے، کسی کے جینیئس بننے کے لیے دوسرا عنصر، اس کی اپنی کوشش اور محنت ہے ورنہ بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس یہ خداداد صلاحیت ہے لیکن وہ کام نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، محنت نہیں کرتے اور کہیں نہیں پہنچ پاتے، نہ وہ خود ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی ملک کی مدد کرتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ کم نہیں تھے، اس وقت بھی ہیں، ماضی میں تو کہیں زیادہ تھے۔ تو جینیئس کے وجود میں آنے کا دوسرا عنصر، خود اس سے متعلق ہے، کام، کوشش، محنت، مسلسل کوشش وغیرہ۔ یہ دو عناصر ہوئے۔ ایک تیسرا عنصر بھی ہے جسے میں بعد میں عرض کروں گا، اپنی اسی تقریر میں بعد میں عرض کروں گا۔

خیر، ان عناصر سے تشکیل پانے والا یہ جینیئس اپنی ذاتی صلاحیت کو سامنے لائے اور کوشش کا موقع حاصل کرے، اس کے لیے ایک اہم چیز، راہ ہموار ہونا ہے، جینیئس کی کوشش کے لیے راہ ہموار ہونا، یہ بہت اہم ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئي جینیئس ہے، کام کے لیے تیاری بھی رکھتا ہے لیکن اس کے لیے راہ ہموار نہیں ہوتی۔ تو یہ جو راہ ہموار کرنے کی جو بات ہم نے کی وہ شاہی دور میں نہیں تھی، اگر تھی بھی تو طاغوتی حکومت کی پالیسیوں میں اسے چنداں حیثیت حاصل نہیں تھی، راہ ہموار نہیں تھی۔ اچھی صلاحیت اور لیاقت والے بہت سے لوگ تھی، کوشش کے لیے تیار بھی تھے، کوشش کرتے بھی تھے لیکن انھیں دبا دیا جاتا تھا، نہ صرف یہ کہ ان کے لیے راہ ہموار نہیں ہوتی تھی بلکہ انھیں دبانے کا کام بھی کیا جاتا تھا، طاغوتی حکومت کے دور میں ایسا ہی تھا۔ اسلامی انقلاب کی برکت سے راہ ہموار ہوئي۔ دیکھیے میں یہ بات کھل کر اور پوری صراحت کے ساتھ کہتا ہوں، یعنی یہ ایسی چیز ہے جس میں کسی طرح کا کوئي شک نہیں ہے، چونکہ میں انقلاب کے آغاز سے طلباء، یونیورسٹی کے طلباء، تہران یونیورسٹی اور دوسری یونیورسٹیوں کے ساتھ موجود رہا ہوں، پروفیسروں اور اسٹوڈینٹس وغیرہ کے ساتھ مسلسل میری نشست و برخاست رہی ہے، اس لیے میں پورے وثوق اور ٹھوس دلائل کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ اسلامی انقلاب نے جینیئس افراد کے پھلنے پھولنے کی راہ ہموار کی۔

سب سے پہلے تو یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافہ، آپ دیکھیے کہ اس وقت ملک کے کس حصے میں یونیورسٹی نہیں ہے۔ کچھ دوستوں نے گلہ کیا کہ کچھ جگہوں پر ضروری باتوں کے بغیر یونیورسٹی بنا دی گئي۔ ٹھیک ہے، کم از کم یونیورسٹی بنانے کا محرک تو موجود تھا، یہ بہت اہم ہے۔ ملک میں ہر جگہ یونیورسٹی ہے۔ بعض دور دراز کے شہروں کی یونیورسٹیاں، بڑی نمایاں یونیورسٹیاں ہیں، انسان اس بات کو سمجھ سکتا ہے، بڑے اچھے پروفیسر، نمایاں پروفیسر، فلاں دور دراز شہر کی یونیورسٹی میں ہیں۔ اس طرح کے افراد کو ہم جانتے ہیں۔ تو یہ یونیورسٹیوں کے پھیلاؤ کی بات ہوئي۔

اس کے بعد یونیورسٹیوں سے متعلق افراد کی تعداد میں اضافہ، چاہے وہ اسٹوڈینٹ ہوں یا پروفیسر۔ ملک میں یونیورسٹیوں کے طلباء کی تعداد - یہ بات میں نے بارہا کہی ہے لیکن اس وقت صحیح تعداد یاد نہیں ہے، جب میں نوٹ لکھ رہا تھا، اس وقت مآخذ میرے پاس نہیں تھے - تقریبا پچیس گنا بڑھ چکی ہے، یونیورسٹیوں کے اسٹوڈینٹس پچیس گنا بڑھ چکے ہیں، یہ بہت زیادہ ہے۔

پروفیسر، انقلاب کے ابتدائي برسوں میں - سن انیس سو ستر، اکہتر میں - جب ہم یونیورسٹی کے مسائل کے بارے میں بحث کرتے تھے، جیسا کہ میرے ذہن میں ہے، تقریبا پانچ ہزار پروفیسر، اکیڈمک بورڈ کے اراکین ملک میں تھے، اس وقت ایک لاکھ سے زیادہ ہیں، اس وقت ان کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ ملک کی آبادی دگنا سے کچھ زیادہ ہوئي ہے لیکن یہ تعداد بيس گنا ہو گئي ہے، یہ چیزیں اہم ہیں۔ یہ اعداد و شمار بہت کچھ کہتے ہیں، واضح طور پر کہتے ہیں۔ انقلاب نے کیا کیا ہے؟

ملک میں تحقیقی مراکز کی جو تعداد ہے، تھنک ٹینکس، انسٹی ٹیوٹ، ریسرچ سینٹر۔ ملک کی بہت سی جگہوں پر یہ ہے۔ ملک میں علم و سائنس کا یہ فروغ بہت گرانقدر چیز ہے۔ یہ جینیئس کو پروان چڑھانے کے راستے ہیں، جینیئس کو وجود میں لانے کی راہوں میں سے ایک یہ ہے۔ البتہ ہمیں یونیورسٹیوں کے متعلقین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، انھوں نے ہمیں مغرب والوں کا محتاج نہیں رہنے دیا کیونکہ جب کسی ملک میں یونیورسٹی ہو لیکن استاد نہ ہو تو جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ چلیں باہر سے پروفیسر لے آئيں لیکن ہماری یونیورسٹیوں کے لوگوں نے ایسا نہیں ہونے دیا، انھوں نے پروفیسر تیار کیے، اس وقت شاید آج کے نوے فیصد پروفیسر وہ ہیں جن کی ٹریننگ خود ہماری یونیورسٹیوں کے پروفیسروں نے ہی کی ہے، انھوں نے کام کیا، محنت کی۔ اسلامی جمہوریہ چاہتی تھی کہ یونیورسٹی وسعت والی ہو، مضبوط ہو اور بحمد اللہ یہ کام ہوا، یونیورسٹی نے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور خود کو فروغ دیا۔ یہ ایک بات ہوئي۔

ایک اور بات یہ ہے کہ ہمیں بغیر کسی مبالغے کے کہنا چاہیے کہ ہمارے یونیورسٹیوں کے غیر معمولی صلاحیت والے افراد، ایران کی سربلندی اور فخر کا باعث بن گئے۔ آپ جینیئس افراد کی جوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ سے پہلے بھی، آپ سے پہلے والی نسلوں میں بھی، ان چالیس برسوں میں بہت سے جینیئس رہے ہیں، جنھوں نے ملک کو سربلندی عطا کی۔ ہمارے سائنسداں اور دانشور جس میدان میں بھی اترے، اس میں انھوں نے ایسا کام کیا کہ دنیا کے علمی و سائنسی حلقوں نے ان کی تعریف کی۔ میں یہاں پر کچھ نمونوں کا ذکر کروں گا، البتہ آپ سب جانتے ہی ہیں۔

مثال کے طور پر رویان انسٹی ٹیوٹ کی تحقیقات اور کارنامے، صرف اسٹیم سیلز کے مسئلے میں ہی نہیں بلکہ زندہ جانور کی کلوننگ میں بھی، دنیا میں لگ بھگ بے نظیر چیز تھی، یہ کام ہوا۔ اس زندہ جانور کو خود میں نے دیکھا ہے، یہ سنی ہوئي بات نہیں ہے، میں نے جا کر کلوننگ سے وجود میں آنے والے اس جانور کو دیکھا۔ ایک ہی جانور نہیں تھا، کئي تھے، یہ ہم نے دیکھے ہیں۔ یہ کوئي چھوٹا موٹا کام نہیں تھا۔ خدا کاظمی آشتیانی(2) کو غریق رحمت کرے جنھوں نے اس چیز کی بنیاد رکھی اور پھر ان کے بعد وہ لوگ جو اب بھی ہیں اور جنھوں نے اس کام کو آگے بڑھایا اور یہاں تک پہنچایا۔ یہ ایک نمونہ۔

بایو کیمیسٹری میں پیشرفت اور اس موضوع میں یونیسکو کی سیٹ کا حصول، خود انھوں نے اعتراف کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ان عالمی سیٹوں کے سلسلے میں ہمارے دشمنوں کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ مداخلت کریں، دراندازی کریں، ایران کو سیٹ حاصل نہ کرنے دیں، اسے رکن نہ بننے دیں، اس کے باوجود ہمارے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد نے یہ کامیابی حاصل کی۔

یا ایک دوسرا نمونہ، خلا میں سیٹلائٹ لانچ کرنا ہے، یہ (صلاحیت) صرف کچھ ہی ملکوں کے پاس ہے، سبھی ملکوں کے پاس نہیں ہے۔ بہت سے ملکوں کے سیٹلائٹ خلا میں ہیں، لیکن خود ان کے نہیں ہے، خود انھوں نے لانچ نہیں کیے ہیں۔ جو ممالک خود لانچ کرتے ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے۔ ہاں ہم پیچھے تو ہیں لیکن ہم نے سیٹلائٹ لانچ کیا، ہم اس میں کامیاب رہے، ہمارے سائنسدانوں نے اس پرتوجہ مرکوز کی۔ تہران یونیورسٹی میں انسان نما روبوٹس، یہ بات اہم ہے۔ ہم انھیں کیوں نظر انداز کریں؟

ایٹمی صنعت میں اہم اور بنیادی کارنامے۔ اس ایٹمی صنعت کی داستان بڑی طویل ہے، اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں لیکن اس وقت انھیں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم نے ایٹمی صنعت میں بنیادی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں۔ ہم ہتھیار اور بم وغیرہ بنانے کے چکر میں نہیں ہیں لیکن خود اس صنعت کی بہت سی برکتیں ہیں جنھیں حاصل کرنے میں ہم کامیاب رہے ہیں۔ البتہ آج دنیا میں جن کے پاس ایٹمی صنعت ہے، پہلی بار بنانے والوں کے علاوہ، کہ ایٹمی صنعت ہٹلر کے زمانے میں جرمنی کی تھی، پھر امریکیوں نے ان سے حاصل کیا، بعض دیگر نے طرح طرح کی سائنسی چوریوں کے ذریعے امریکا سے حاصل کیا، پھر اس ملک نے اپنے ہم فکر ملک کو دیا، اس ملک نے کسی دوسرے ملک کو، جن کے پاس ایٹمی سائنس ہے، انھوں نے اسے اس طرح حاصل کیا ہے۔ ہم نے نہیں، البتہ وہ انتہائي ناقص ابتدائي بیک گراؤنڈ باہر کا تھا، وہ بہت ہی کم اہمیت والی چیز تھی لیکن جو کام انجام پایا ہے، وہ ایرانی جینیئس نے کیا ہے، ایرانی جینیئس نے طاقت اور امید کے ساتھ انجام دیا ہے۔

میزائیل اور ڈرون کے پیشرفتہ پارٹس کی تیاری، کہ اب سے کچھ سال پہلے تک یہ لوگ کہتے تھے کہ یہ فوٹو شاپڈ تصویریں ہیں! جب ان کی تصویریں شائع ہوتی تھیں تو یہ کہتے تھے کہ یہ فوٹو شاپ کا کمال ہے، اب کہتے ہیں کہ ایرانی ڈرون بہت خطرناک ہیں! کیوں فلاں کو بیچتے ہو، فلاں کو دیتے ہو۔ تو یہ وہ کام ہیں جو ایران کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد نے انجام دیے ہیں، یہ ملک کے لیے عزت و فخر ہیں۔ پيچیدہ ویکسینوں کی تیاری، خاص طور کورونا وغیرہ کی ویکیسین، یہ بھی ہمارے پاس کم نہیں ہیں۔ تو یہ بھی ایک نکتہ ہے کہ ایرانی جینیئس نے ملک کو عزت عطا کی ہے، فخر عطا کیا ہے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آپ لوگ جو غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہیں، اپنی قدر سمجھیں، جو لوگ باہر بیٹھے ہوئے ہیں، وہ آپ کی قدر سمجھیں، میں تو آپ کی بہت قدر سمجھتا ہوں، خدا کرے کہ ہم آپ کی کچھ مدد کر سکیں۔

اور اب وہ تیسرا عنصر: میں نے دو عناصر بیان کر دیے، میں نے شروع میں عرض کیا تھا کہ ایک تیسرا عنصر بھی ہے، جینیئس ہونے، جینیئس بننے اور جینیئس سمجھے جانے کے لیے وہ تیسرا عنصر کیا ہے؟ وہ ہے ہدایت الہی اور توفیق۔ یقینی طور پر آپ کو جینیئس بننے اور جینیئس قرار دیے جانے کے لیے اللہ کی توفیق اور ہدایت الہی کی ضرورت ہے۔ صرف یہ بات انسان کو جینیئس نہیں بناتی کہ اس میں غیر معمولی صلاحیت ہو اور وہ اس صلاحیت کو استعمال بھی کرے۔ ممکن ہے کہ کوئي بہت ہی ذہین اور چالاک انسان ہو اور اپنی اس چالاکی اور ذہانت کو مالی بدعنوانی کے لیے استعمال کرے! استعمال کرتے ہیں نا؟ یا پھر چوری کے لیے استعمال کرے، کیا یہ جینیئس ہے؟ نہیں، یہ چور ہے، یہ فراڈ ہے، یہ جینیئس نہیں ہے۔ جینیئس وہ ہوتا ہے جو حقیقی معنی میں برگزیدہ اور چنا ہوا ہو، جینیئس یعنی منتخب شدہ، جینیئس یعنی برگزیدہ اور ممتاز۔ یہ چالاک چور جو گاڑیوں کے مختلف طرح کے اور پیچیدہ تالے کھول لیتاہے اور گاڑی کو چرا کر لے جاتا ہے، کیا یہ ممتاز انسان ہے؟ نہیں، یہ چور ہے، یہ جینیئس نہیں ہے۔ غیر معمولی صلاحیت کا حامل جینیئس وہ ہے جو اللہ کی توفیق سے اپنا کام کرے اور ہدایت الہی کے ساتھ اسے آگے بڑھائے۔

میں اس چور اور فراڈ انسان کے مسئلے کو تھوڑا وضاحت سے بیان کروں، میں کہتا ہوں کہ جو شخص فزکس کے علم میں جینیئس بن جاتا ہے اور ایٹم بم تیار کرتا ہے، ایسا شخص ہماری نظر میں جینئس نہیں ہے۔ وہ شخص جو علم کیمیا کو استعمال کر کے مسٹرڈ گيس اور کیمیکل گيسیں بناتا ہے جو انسان کو عمر کے آخری حصے تک پریشان میں مبتلا رکھتی ہیں، وہ جینیئس نہیں ہے۔ جو شخص جو ریاضیات اور مثال کے طور پر پیشرفتہ انجینیرنگ کے ذریعے خلا کے ماحول پر قبضہ کر لیتا ہے - بہت اوپر کی فضا پر بھی اور لوگوں کی زندگي کے ماحول پر بھی - یعنی جب آپ اپنے گھر اندر بھی بات کر رہے ہیں تو آپ کو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کوئي اجنبی کان آپ کی باتیں سن رہا ہے، صرف موبائل فون ہی نہیں، بہت سے دوسرے طریقے بھی موجود ہیں۔ یہ جینیئس نہیں ہے، یہ جو علم و دانش سے اس طرح غلط فائدہ اٹھاتا ہے، یہ جینیئس نہیں ہے۔

سامراج کے دور میں، مغرب والوں نے - پہلے پرتگال اور اسپین وغیرہ سے شروع ہوا، پھر رفتہ رفتہ دوسری جگہوں تک پہنچ گيا جیسے ہالینڈ، بیلجیم، برطانیہ اور فرانس - دوسروں سے پہلے ہتھیار بنانے میں کامیابی حاصل کی، یعنی سترھویں اور اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب نے جو اولین کام کیے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ پیشرفتہ ہتھیار بنائے۔ ان پیشرفتہ ہتھیاروں سے ان لوگوں نے دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا۔ ہندوستان پر، اتنی عظمت والے اس ملک پر جس کا رقبہ جزیرۂ برطانیہ سے دسیوں گنا زیادہ تھا، البتہ صرف ہندوستان نہیں، آج کے ہندوستان، پاکستان اور بنگلادیش یعنی برصغیر ہند پر قبضہ کر لیا، اس کے اطراف کے ممالک جیسے یہی میانمار وغیرہ پر بھی قبضہ کر لیا، ان ممالک کی قومی صنعتوں کو تباہ کر دیا۔ آپ نہرو کی کتاب تاریخ عالم کی جھلکیاں کو پڑھیے۔ افسوس کہ آپ لوگ کتاب کم پڑھتے ہیں، کتاب، تاریخ عالم کی جھلکیاں، نہرو کی لکھی ہوئي ہے، انھوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح انگریز ہندوستان میں آئے اور انھوں نے کیا کام کیے۔

میں نے حال ہی میں ایک کتاب دیکھی ہے جسے ہمارے ہی مصنفین میں سے ایک(3) نے لکھا ہے، میں انھیں قریب سے نہیں جانتا، ان کتاب کا نام ہے، سامراج کی تاریخ، سو ڈیڑھ سو صفحوں کی پندرہ سولہ جلدیں ہیں، اس کتاب میں انھوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ سامراج کس طرح براعظم امریکا اور بر اعظم ایشیا میں ان ملکوں کی دولت و ثروت کو غارت کرنے اور خود کو مالدار بنانے میں کامیاب ہوا۔ برطانیہ مالدار نہیں تھا، فرانس مالدار نہیں تھا، یورپی ممالک مالدار نہیں تھے، انھوں نے دوسرے ملکوں کی دولت پر قبضہ کر لیا۔ تو ان ملکوں نے ہتھیار کے ذریعے یہ سارے کام کیے۔ صحیح بات ہے کہ ان کے ذہن تیز تھے، ا نھوں نے بہت کوشش بھی کی، رسک لینا جانتے تھے، یہ یورپ والوں کی اچھی خصوصیات ہیں لیکن ان خصوصیات سے انھوں نے کیا کیا؟ دنیا میں تسلط پسندانہ نظام کا قیام، تسلط پسندانہ نظام۔ آج دنیا کی بڑی بلاؤں میں سے ایک، جو ابھی ختم نہیں ہوئي ہے اور ان شاء اللہ ختم ہو کر رہے گي، تسلط پسندانہ نظام ہے۔ تسلط پسندانہ نظام یعنی دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، ایک وہ جو تسلط قائم کرے اور دوسرا وہ جس پر تسلط قائم کیا جائے، کچھ لوگ طاقت کے ذریعے پوری دنیا پر حکمرانی کریں اور کچھ دوسرے ممالک مختلف ناموں پر ان کی اطاعت کریں، یہ تسلط پسندانہ نظام ہے۔ اس تسلط پسندانہ نظام کو یورپ کی علمی و سائنسی ترقی نے وجود عطا کیا ہے۔ تو اس اخلاقی پیمانے کے اعتبار سے یہ لوگ جینیئس نہیں کہے جا سکتے۔

اخلاقی پیمانے کے اعتبار سے جینیئس، وہ باصلاحیت، محنت کرنے والا اور کوشش کرنے والا انسان ہے جو ہدایت الہی سے بہرہ مند ہو، کبھی اسے نہیں پتہ ہوتا کہ یہ ہدایت الہی ہے، لیکن وہ ہدایت الہی ہوتی ہے۔ وہ حیرت انگیز لمحات جن میں کسی حقیقت تک دنیا کے بڑے بڑے منکشفین کی رسائي ہوئي، وہ خدا کا کام ہے، یہی ہدایت الہی ہے، کوئي قوت کشش ثقل کا انکشاف کرتا ہے، کوئي جراثیم کا انکشاف کرتا ہے، یہی ہدایت الہی ہے۔

خیر، تو بحمد اللہ آپ عزیز نوجوانوں کے دل، آلودہ نہیں ہیں۔ آپ نوجوان ہیں، ہو سکتا ہے نوجوان سے کچھ خطائيں سرزد ہوئي ہوں لیکن آپ کے دل پاکیزہ ہیں، آپ کے ضمیر روشن ہیں، آپ اس ہدایت الہی کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ تو آپ حقیقی معنی میں جینیئس بن سکتے ہیں۔ یعنی باصلاحیت، کوشش اور محنت کرنے والے اور اللہ کی توفیق اور الہی ہدایت کے حامل اور یقینا "وَ مَن یُؤمِن بِاللَہِ یَھدِ قَلبَہ"(4) ایمان، اپنے ساتھ ہدایت لاتا ہے۔ تو یہ کچھ باتیں جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت کے حامل شخص کے بارے میں تھیں۔

جہاں تک جینیئس سے توقع کی بات ہے تو ہمیں آپ سے کچھ توقعات ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ جہاں تک ممکن ہو، اختصار سے عرض کروں۔ سب سے پہلی توقع یہ ہے کہ خداوند متعال نے آپ کو جو غیر معمولی صلاحیت عطا کی ہے - یہ صلاحیت آپ کی ذاتی استعداد ہے - اسے قومی صلاحیت میں تبدیل کر دیجیے۔ بحمد اللہ آپ کے بیانوں میں یہ بات تھی کہ جینیئس کو اپنی اس ذاتی صلاحیت کو قومی توانائي میں بدلنا چاہیے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ صلاحیت اور توانائي وہ ملک کے مسائل کے حل میں استعمال کرے۔ ہمارے بہت سے مسائل ہیں، یہاں آپ نے کچھ مسائل کا ذکر کیا، معدنیات کے بارے میں آپ نے کہا، نقل و حمل کے بارے میں بتایا، اسپیس کے بارے میں بتایا، یہ ملک کے اہم مسائل ہیں، اپنی صلاحیت کو ان مسائل کے حل کے لیے استعمال کیجیے۔ افسوس کہ کچھ لوگ یہ کام نہیں کرتے، بعض جینیئس - غیر معمولی صلاحیت کے لوگ، جو تشریح ہم نے کی، اس کے مطابق شاید ان کے لیے جینیئس لفظ کا استعمال صحیح بھی نہ ہو - یہاں پر پروان چڑھتے ہیں اور جب پھل دینے کا وقت آتا ہے تو جا کر دوسروں کو پھل دیتے ہیں، ستم بالائے ستم یہ کہ کبھی تو وہ دوسرا دشمن ہوتا ہے، دشمن کو پھل دیتے ہیں، کبھی جا کر دوسری اقوام پر قبضے اور اقوام سے دشمنی کے لیے عالمی سامراج کا ہتھکنڈہ بن جاتے ہیں، اس کا حربہ بن جاتے ہیں، مہرہ بن جاتے ہیں، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ ناشکری کرتے ہیں، البتہ آخر میں انھیں کچھ خاص حاصل بھی نہیں ہوتا، میرے خیال میں جو لوگ اس طرح اپنے لوگوں سے منہ موڑ لیتے ہیں، انھیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ جینیئس کو اپنے لوگوں کے ساتھ رہنا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دوسری جگہوں پر نہ جائيں، تعلیم حاصل نہ کریں، فلاں اچھی یونیورسٹی یا فلاں انسٹی ٹیوٹ میں نہ جائيں، نہیں! بے شک جائيں لیکن اپنے لوگوں کے لیے جائيں، واپس آ کر اپنے ملک کے لیے کام کرنے کے لیے جائيں، دوسروں کا مہرہ اور حربہ بننے کے لیے نہ جائيں۔ یہ بہت اہم بات ہے، ہمارے جینیئس لوگوں کو اپنے ضمیر اور خدا کو مد نظر رکھ کر اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔

جینیئس لوگوں سے ایک توقع یہ بھی ہے کہ وہ غفلت نہ کریں۔ یہاں دو طرح کی غفلت پائي جاتی ہے: ایک اپنی صلاحیتوں کی طرف سے غفلت ہے۔ اگر آپ اپنی صلاحیتوں کی طرف سے غفلت برتیں گے تو پھر کوشش اور محنت نہیں کریں گے۔ ہمارے بعض جینیئس جب ایک منزل تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر رک جاتے ہیں، یہ ناشکری ہے، یہ غفلت ہے۔ کوشش کیجیے، آگے بڑھیے، جتنا ممکن ہے، محنت جاری رکھیے، جس طرح سے بھی ممکن ہو، اپنی لیاقت سے، جو لامتناہی ہے، غفلت نہ کیجیے۔ صلاحیت اور لیاقت ختم نہیں ہوتی یعنی یہ اس طرح سے ہے کہ آپ اپنی اس غیر معمولی صلاحیت سے جتنا زیادہ استفادہ کریں گے، یہ چشمہ آپ کے اندر اتنا ہی زیادہ ابلے گا، آپ زیادہ جینیئس ہوتے جائيں گے، آپ جتنا زیادہ کام کریں گے، یہ اتنا ہی زیادہ ہوتی جائے گي، تھکیں نہیں، رکیں نہیں، نقصان دہ تفریحوں میں نہ پھنسیں۔ نقصان دہ تفریحات بھی پائي جاتی ہیں، یہ ایک غفلت ہے، چاہے سائبر اسپیس میں ہو یا کہیں اور، ان تفریحوں کے اسیر نہ بنیں۔

دوسری غفلت، ملک کی گنجائشوں کی طرف سے غفلت ہے۔ آپ حضرات آئے اور آپ میں سے ہر ایک نے اپنے سبجیکٹ اور کام کے بارے میں بتایا، بہت اچھی بات ہے، آپ کی معلومات بہت اچھی ہیں، ہم استفادہ کریں گے، لیکن کیا دوسرے سبجیکٹس کے بارے میں آپ کو معلوم ہے؟ کیا ملک کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد، ملک کی عظیم اور وسیع گنجائشوں سے مطلع ہیں؟ مجھے نہیں لگتا، یعنی میں جانتا ہوں کہ سب مطلع نہیں ہیں، اکثریت مطلع نہیں ہے۔

ایک دن کسی صاحب نے کہا تھا کہ ہم ہتھیاروں کے لحاظ سے امریکا کے مقابلے میں صفر ہیں، وہ مثال کے طور پر ایک گھنٹے میں ہمیں فلاں چوٹ پہنچا سکتا ہے۔(5) میں نے یہاں کہا تھا(6) کہ ایک ٹور آرگنائز کیجیے، یہ حضرات جا کر ہمارے فوجی ہتھیاروں کو دیکھیں، ہماری اسلحہ سازی کی صنعتوں کو دیکھیں تاکہ اس غلط فہمی سے باہر نکل آئيں، ایسا ٹور آپ سب کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اہم کاموں میں سے ایک یہ ہے۔

میرے خیال میں حکومت کے سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے کا ایک کام یہ بھی ہے۔ نوجوانوں کو ان چیزوں سے مطلع کیجیے جو ملک میں پائي جاتی ہیں، وہ گنجائشیں جو موجود ہیں اور وہ بے شمار کام جو انجام پا رہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ بہت سے لوگ ان سے مطلع نہیں ہیں، یہاں تک کہ بعض لوگ تو ان گنجائشوں کا انکار کرتے ہیں، اس احمق شاہ کی طرح، ایک شاہ کو بتایا گيا کہ تیل نام کا ایک منحوس کالا بدبودار مادہ کسی جگہ پر ابلنے لگا ہے، یہ بے چارے غیر ملکی، آکر اسے لے جانے کو تیار ہیں، انھیں لے جانے دیا جائے۔ اس نے بھی کہا: ٹھیک ہے، لے جائيں، ہماری جان چھوٹ جائے گی! اس وقت ہم سے بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک میں نیوکلیائي صنعت کے نام کی ایک مشکل اور انتہائي سخت چیز پائي جاتی ہے، اسے ختم کر کے لے جانے دیں، یہاں نہ رہنے پائے۔ یہ باتیں کہتے ہیں! جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ دنیا نیوکلیائي صنعت اور ایٹمی توانائي سے منہ موڑ چکی ہے، سفید جھوٹ! وہ لوگ روز بروز اپنے ایٹمی مراکز کو - فوجی مراکز کو نہیں بلکہ - صنعتی مراکز کو - بڑھاتے جا رہے ہیں، ان کی تعداد میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ ہمیں بھی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے ایٹمی صنعت کو اس وقت شروع نہیں کیا ہوتا جب ہم نے شروع کیا تھا - اب اسے برسوں گزر چکے ہیں - تو ہم دس سال بعد اس میدان میں داخل ہوتے اور تیس سال بعد نتیجہ حاصل کرتے، مطلب یہ کہ یہ کوئي ایسی چیز نہیں ہے جسے کوئي ملک نظر انداز کر سکے۔ خیر، یہ بھی ایک بات ہے۔

ایک دوسری غفلت، دشمن سے غفلت ہے۔ ہمارے غیر معمولی صلاحیت والے افراد کو دشمن کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ دشمن کبھی ایک علمی و سائنسی شخصیت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ مجھے خبر ہے، یہ جو میں کہہ رہا ہوں، اندازہ اور تجزیہ نہیں بلکہ ٹھوس اطلاعات ہیں۔ ہمارے پروفیسروں کو اور کبھی کبھی اسٹوڈینٹس کو جو علمی و سائنسی سینٹر دعوت دیتے ہیں، ان میں سے بہت سے مراکز اپنے اکیڈمک بورڈ میں جن ارکان کو گھساتے ہیں وہ سی آئي اے، موساد اور ایسی ہی ایجنسیوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں جو علمی و سائنسی چہرے کا ماسک لگا لیتے ہیں۔ وہ بیٹھتے ہیں، رابطہ قائم کرتے ہیں۔ اب یہ رابطہ آگے چل کر کہاں پہنچے گا، یہ تو خدا ہی جانتاہے، اس کا کم ترین نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کا ذہن بگاڑ دیتے ہیں۔ اگر وہ اسے اپنے ساتھ ملا نہ سکے، اس فریب نہ دے سکے تو کم از کم اتنا تو کر ہی دیتے ہیں کہ اس کا ذہن بگاڑ دیتے ہیں۔ دشمن اس طرح سے میدان میں آتا ہے۔ اپنے آپ کو باادب دکھاتے ہیں، ذہین ظاہر کرتے ہیں، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں فریب دے رہے تھے۔

متعلقہ اداروں سے جینیئس افراد کے سلسلے میں ہمیں جو توقعات ہیں، وہ بھی ایک ہم حصہ ہے۔ اگر ایک لفظ میں کہا جائے تو: حمایت۔ اداروں سے ہمیں توقع ہے کہ وہ غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی حمایت اور مدد کریں۔ یہ حمایت اور مدد ہمیشہ پیسے دینے کے معنی میں نہیں ہے۔ کبھی پیسے دینا نقصان دہ ہوتا ہے، حمایت عاقلانہ، منطقی اور مختلف پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہونی چاہیے۔

حمایت اور مدد کا ایک پہلو یہ ہے کہ چاہے وہ جینیئس ہو جس نے ایران میں تعلیم حاصل کی ہو اور چاہے وہ جینیئس ہو جس نے دوسرے ملک میں پڑھائي کی ہو - ایسے افراد ہیں اور کم تعداد میں ایسے جینیئس نہیں ہیں جنھوں نے غیر ممالک میں تعلیم حاصل کی، کوئي مقام حاصل کیا اور پھر ایران آ گئے - دو توقع رکھتے ہیں، ان کی ان دو توقعات کو پورا کریں: ان کی ایک توقع ان کے علم کے لحاظ سے انھیں روزگار فراہم کرنا ہے، ان کی دوسری توقع تحقیقات کو جاری رکھنے کا موقع فراہم کرنا ہے، دنیا کے علمی و سائنسی مراکز سے رابطہ، یہ ہمارے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی دو توقعات ہیں، کوئي بڑی توقع نہیں ہے۔ مجھے اطلاع ہے کہ کوئي جینیئس یونیورسٹی کے اکیڈمک بورڈ میں آنا چاہتا ہے لیکن مختلف طرح کے حیلوں بہانوں سے اسے روکا جاتا ہے اور اکیڈمک بورڈ میں نہیں آنے دیا جاتا، کیوں؟ کیوں آپ اس جینیئس سے فائدہ نہیں اٹھاتے؟ ہمارے بعض جینیئس افراد نے - بڑے اہم اور ممتاز افراد نے - بیرون ملک تعلیم حاصل کی ہے، وہ اس امید میں یہاں آئے کہ کام کریں گے لیکن اسی طرح کے برتاؤ کے سبب وہ واپس چلے گئے! انھوں نے دیکھا کہ یہاں تو زندگي گزارنا مشکل ہے۔ میں ایسے نوجوان سے کیا توقع رکھ سکتا ہوں؟ حمایت کرنی چاہیے، مدد کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ہم جتنا بھی خرچ کریں گے، وہ خرچ نہیں ہے، سرمایہ کاری ہے۔ محترم وزراء ضرور اس سلسلے میں کام کریں، غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو یونیورسٹی کی طرف سے مایوس نہ ہونے دیں، کم از کم اتنا تو کریں کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لے، اپنے لیے ایک پوزیشن بنا لے۔ بعض لوگ جینیئس افراد کے بارے میں کام کرنے کے بڑے دعوے کرتے ہیں، جینیئس جینیئس کا ورد کرتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر وہ جینیئس کو مایوس کر دیتے ہیں، ناامید کر دیتے ہیں، رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ میرے خیال میں دنیا کے علمی و سائنسی مراکز سے رابطے کے بارے میں وزارت خارجہ سرگرم ہو سکتی ہے، کافی اہم مدد کر سکتی ہے۔

ایک اور چیز جس کی توقع ہے، یہ ہے کہ ہم جینیئس کی پرفارمینس کی کسوٹی کی اصلاح کریں۔ آج پروفیسر اور جینیئس کی پرفارمینس کا معیار عام طور پر ریسرچ پیپرز ہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ البتہ میں یہ بات پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔(7) میں یہ بات بارہا دوہرا چکا ہوں، معیار، مسائل کے حل کو قرار دیں۔ مسئلہ پیش کریں، اسے حل کرنے کا مطالبہ کریں، یہ افراد، یہ جینیئس افراد کا گروہ، یہ جینیئس، یہ جینیئس استاد، متعلقہ اداروں کے لیے کسی مسئلے کو حل کرے، یہ پروموشن کا معیار ہو، یہ برتر رینک کی حیثیت سے قبول کیے جانے کی کسوٹی ہو۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہمارے جینیئس افراد کو روشن افق دکھایا جائے۔ بعض لوگ، غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کو مایوس کر دیتے ہیں، انھیں تاریک افق دکھاتے ہیں، یہ حقیقت کے برخلاف ہے، افق روشن ہے، اسے دکھایا جانا چاہیے، ان کی حوصلہ افزائي کی جانے چاہیے۔ پروفسیرز بھی، اعلی تعلیم کی انتظامیہ کے افراد بھی، میڈیا والے بھی - چاہے وہ قومی میڈیا ہو یا پریس ہو - اور صنعت اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالک بھی، جیسا کہ یہاں بھی بعض دوستوں نے کہا کہ غیر معمولی صلاحیت والوں کے لیے ماحول، اشتیاق انگيز بنایا جائے۔ آج جینیئس لوگوں کو مایوس کرنا اور انھیں مستقبل تاریک دکھانا، میرے خیال میں دشمن کی سافٹ وار کا ایک حصہ ہے۔ دشمن کی کوشش یہی ہے کہ ملک کے غیر معمولی صلاحیت والے افراد کو، مستقبل تاریک دکھایا جائے۔ میں یہ بھی عرض کر دوں کہ ملک میں کمزور نکات پائے جاتے ہیں، کمزوریوں کا انکار نہیں ہے، خامیاں کم نہیں ہیں، بہت ہیں لیکن ان مضبوط پہلوؤں کے ساتھ رکھ کر دیکھا جائے۔ دشمن کوشش کرتا ہے کہ ہماری کمزوروں کے بارے میں مبالغہ آرائي کرے اور ہمارے مضبوط پہلوؤں پر پردہ ڈال دے۔ ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے، ہمیں اس سلسلے میں دشمن کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔

یہ ہمارے معروضات کا آخری نکتہ ہے۔ میں مستقبل کو دیکھنے اور کس طرح اس دید کی اصلاح کی جانی چاہیے، اس سلسلے میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ انقلاب کے آغاز سے ہی مغرب والے اپنے پروپیگنڈوں میں یہ ظاہر کرتے تھے کہ اسلامی جمہوری نظام، جو انقلاب کی وجہ سے وجود میں آيا ہے، زوال کی طرف گامزن ہے، شروع دن سے وہ کہتے تھے کہ یہ نظام زوال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ دو مہینے بعد، کبھی کہتے تھے کہ ایک سال بعد، کبھی کہتے تھے پانچ سال بعد، وہ وقت طے کر دیتے تھے! افسوس کہ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ - یا غفلت کی وجہ سے اور کچھ لوگ دشمنی کی وجہ سے - اسی بات کا پرچار کرتے تھے۔ امام خمینی کے زمانے میں ایک اخبار نے، جس کا میں نام نہیں لوں گا، ایک تفصیلی مقالہ لکھا، میرے خیال میں سرخی بھی لگائي تھی - وہ بھی پہلے صفحے کی شہ سرخی - جس کا عنوان کچھ اس طرح کا تھا، صحیح سرخی یاد نہیں ہے کہ "نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے!" امام خمینی نے اس کا جواب دیا تھا، انھوں نے کہا: تم خود بکھر رہے ہو، نظام پوری مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ چونکہ امام خمینی زندہ تھے اور ان کی ہیبت کی وجہ سے نہیں کہا جاتا تھا، جی نہیں، ان کے زمانے میں بھی لوگ کہتے تھے۔

امام خمینی کی وفات کے بعد سن انیس سو نوے میں بعض لوگوں نے، جن میں کچھ اہم لوگ بھی تھے، نظام کے مشہور لوگ اور نظام میں رہ کر کام کر چکے لوگ بھی شامل تھے(8) ایک بیانیہ جاری کیا کہ نظام سقوط کے دہانے پر ہے، یعنی کچھ ہی دنوں میں کام تمام ہو جائے گا! کب؟ سنہ انیس سو نوے میں۔ سن دو ہزار تین میں کچھ اراکین پارلیمنٹ(9) نے حقیر کو خط لکھا، واقعی ایک غیر منصفانہ خط تھا، بہت غیر منصفانہ تھا۔ انھوں نے کچھ باتیں کہیں، ہم سے کچھ سوالات کیے، جن کا جواب خود ان ہی کو دینا چاہیے تھا، کیونکہ پارلیمنٹ ان ہی کے ہاتھ میں تھی لیکن انھوں نے سوال مجھ سے کیا تھا! اس خط کا مضمون اور خلاصہ یہ تھا کہ گھٹنے دیجیے ورنہ کام تمام ہو جائے گا! یہ سن دو ہزار تین کی بات ہے۔ ہم نے گھٹنے نہیں ٹیکے، ڈٹ گئے اور ان شاء اللہ ڈٹے رہیں گے۔ تو یہ ہمارے دشمنوں کا کام تھا اور وہ لگاتار یہ کام کرتے رہتے تھے۔

میرے خیال میں اس سلسلے میں ہمیں جس چیز کو دیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ حالات کے بارے میں ہمارا تجزیہ کیا ہے؟ صحیح تجزیہ کریں۔ دو تجزیاتی نظریے ہیں: ایک تجزیاتی نظریے یہ ہے کہ ہمہ گير عالمی قواعد کے بر خلاف کام کرنا فضول ہے، اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ کچھ عالمی قوا‏عد ہیں، جن کی بنیاد پر حکومتیں تشکیل پائي ہیں، انھیں اقتدار حاصل ہوا ہے، طاقتور اور دولتمند امریکا، ان ہی قواعد کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے، یورپ بھی اسی طرح، دوسرے بھی اسی طرح، ان قواعد کے مقابلے میں فضول میں مت کھڑے ہوں، آپ ختم ہو جائيں گے۔ یہ ایک تجزیہ ہے۔ صرف آج ہی یہ لوگ، یہ نہیں کہہ رہے ہیں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، چالیس سال سے یہ لوگ مسلسل یہی بات کہہ رہے ہیں۔ اور پھر جو لوگ یہ تجزیہ کرتے ہیں وہ دوسروں کو وہم میں مبتلا سمجھتے ہیں! کہتے ہیں انھیں وہم ہو گيا ہے - مثال کے طور میں حقیر، ان میں سب سے اوپر خود میں ہوں - کہتے ہیں، یہ لوگ وہم میں مبتلا ہیں اور سوچتے ہیں کہ کام آگے  بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک تجزیہ ہوا۔

دوسرا تجزیہ ایسا نہیں ہے، وہ حقیقت پسندانہ تجزیہ ہے۔ یہ تجزیہ حقائق کو دیکھتا ہے اور وہ بھی صرف اچھے حقائق کو نہیں بلکہ برے حقائق کو بھی دیکھتا ہے۔ ہم نے کبھی بھی منفی نقاط کا انکار نہیں کیا ہے۔ میں عہدیداران سے ملاقاتوں میں، ماہ رمضان میں ہونے والی ان نشستوں میں، سبھی کو دعوت دیتا ہوں کمزور نقاط کی سب سے زیادہ یاددہانی کراتا ہوں، انفرادی نشستوں میں تو بہت زیادہ۔ ان کمزور نقاط کی طرف توجہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ نہیں ہے، میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم پیچھے ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے، لیکن سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم نے قافلے کے آخر سے تیز رفتاری سے بڑھنا شروع کیا ہے، اب قافلے کے آگے چلنے والوں کے قریب پہنچ چکے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے۔ ابھی ہم پوری طرح سے آگے نہیں پہنچے ہیں لیکن بہت آگے آ چکے ہیں، ان شاء اللہ آگے بڑھتے رہیں گے۔ ہم نے ملک کے مختلف مسائل میں پیشرفت کی ہے، علم و سائنس میں پیشرفت کی ہے، مینیجمنٹ میں پیشرفت کی ہے، کمزوریاں اور کمیاں ہیں، ہمارے بعض عہدیداروں نے، بعض حکومتوں نے کوتاہیاں کی ہیں، یہ سب ہے لیکن ہمارے قدم انقلابی ہیں، ہماری پیشرفت انقلابی ہے۔

آپ دیکھیے کہ اسلامی جمہوریہ چالیس سال پہلے کہاں تھی اور آج کہاں ہے، بیس سال پہلے کہاں تھی اور آج کہاں ہے۔ چار عشرے گزر جانے کے بعد یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کون سا تجزیہ حقیقت  پسندانہ ہے، مغرب  پرستوں اور مغرب والوں کا تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے اور ہم وہم میں مبتلا ہیں، یا نہیں، انقلاب کا تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے اور وہ لوگ وہم میں مبتلا ہیں۔ حقیقت امر یہ ہے۔ انقلاب کا قدم، ٹھوس اور مستحکم ہے، آپ نوجوان، اس کی سب سے بڑی نشانیوں میں سے ایک ہیں۔ اس وقت آپ غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افراد کا ایک گروپ ہیں اور صرف آپ ہی نہیں ہیں، دوسرے جینیئس بھی ہیں، بڑے بڑے جینیئس، انقلاب پر اعتقاد رکھنے والے، اس راہ پر اعتقاد رکھنے والے، پوری سنجیدگي سے محنت اور کوشش کرنے والے، چار عشرے گزر جانے کے بعد اور اتنی زیادہ دشمنی اور اتنے  زیادہ پروپیگنڈے کے بعد، یہ ثابت کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئي دلیل ہوگي کہ وہ تجزیہ غلط ہے اور صحیح تجزیہ، انقلاب کا تجزیہ ہے؟

پالنے والے! ہمیں اپنی راہ پر ثابت قدم رکھ۔ پالنے والے! ہمیں اپنی ہدایت اور اپنی توفیق سے صحیح راہ پر پوری طرح سے گامزن رکھ۔ پالنے والے! ایرانی قوم کے دشمنوں کو ذلیل و خوار اور ایرانی قوم سے مغلوب کر دے۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں حکومت کے ادارۂ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ایکٹنگ وائس پریسیڈنٹ ڈاکٹر دہقانی فیروزآبادی اور ملک کے سات جینیئس اور غیر معمولی صلاحیت والے افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

(2) ڈاکٹر سعید کاظمی آشتیانی - رویان انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ اور ایران کی میڈیکل سائنس یونیورسٹی میں علمی و سائنسی جہاد تنظیم کے صدر

(3) جناب مہدی میر کیائي

(4) سورۂ تغابن، آيت 11، اور جو اللہ پر ایمان رکھے، اللہ اس کے دل کو صحیح راستہ دکھا دیتا ہے۔

(5) سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے تین دسمبر سنہ دو ہزار تیرہ کو تہران یونیورسٹی میں کہا تھا: "مغرب والے ہمارے چار ٹینکوں اور میزائلوں سے نہیں ڈرتے بلکہ وہ ایران کے عوام سے ڈرتے ہیں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ امریکا، ہمارے فوجی سسٹم کو تباہ نہیں کر سکتا؟ کیا واقعی آپ کو لگتا ہے کہ امریکا، ہمارے فوجی سسٹم سے ڈرتا ہے؟ کیا واقعی ہمارے فوجی سسٹم کی وجہ سے امریکا آگے نہیں آ رہا ہے؟"

(6) یونیورسٹیوں کے پروفیسروں سے ملاقات میں تقریر (2/7/2014)

(7) منجملہ، ملک کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل نوجوانوں کے آٹھویں قومی اجلاس کے شرکاء سے ملاقات میں تقریر (22/10/2014)

(8) سابق عبوری وزیر اعظم مہدی بازرگان سمیت تحریک آزادی پارٹی کے بعض اراکین اور نظام کے مخالف بعض دیگر افراد نے، ایسوسی ایشن برائے آزادی اور ایرانی قوم کے اقتدار اعلی کے دفاع کے نام سے اس بیانیے پر دستخط کیے تھے۔

(9) چھٹی پارلیمنٹ میں بعض اصلاح پسند اراکین پارلیمنٹ