سنہ انیس سو اٹھائیس کے موسم گرما میں نہرو کی بیٹی، اندرا گاندھی، جو اس وقت دس سال کی تھیں، اپنے والد سے دور ایک ہل اسٹیشن میں رہتی تھی۔ اس موسم گرما میں نہرو نے اپنی بیٹی کو سلسلے وار طریقے سے کچھ خطوط لکھے جن میں انھوں نے آسان اور سلیس زبان میں زمین کی خلقت، زندگي کے وجود میں آنے اور اولیں انسانی قبائل اور اجتماعات کی تشکیل کی داستان بیان کی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے ان خطوط کو جن کی مجموعی تعداد تیس تھی، ایک کتاب کی صورت میں شائع کیا۔ نہرو کی سماجی اور سیاسی زندگي کے  نشیب و فراز نے کہ جن کے سر میں بلند انقلابی اہداف کا سودا سمایا ہوا تھا، انھیں بارہا سلاخوں کے پیچھے پہنچایا۔ سن انیس سو تیس میں، جب نہرو ایک بار پھر جیل پہنچ گئے تھے، انھوں نے موقع سے فائدہ اٹھانے اور جیل میں ملنے والے فارغ وقت سے استفادہ کر کے اپنی بیٹی کو نئے خطوط لکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ نئے خطوط اکتوبر انیس سو تیس سے لے کر اگست انیس سو تینتیس تک، تقریبا تین سال کے عرصے میں لکھے گئے اور ان میں عالمی تاریخ کے ایک دور پر نظر ڈالی گئي۔ سنہ انیس سو تینتیس کے اواخر میں، جب نہرو کی جیل کی مدت ختم ہوئي، انھوں نے اپنے خطوط پر نظر ثانی کی اور انھیں طباعت کے لیے تیار کر دیا لیکن چونکہ جلد ہی یعنی بارہ فروری انیس سو چونتیس کو انھیں ایک بار پھر جیل میں ڈال دیا گيا، اس لیے ان کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے، ان خطوط کو ایک کتاب کی صورت میں مرتب کیا اور اس کا نام 'تاریخ عالم کی جھلکیاں' (Glimpses of World History) رکھا اور اسے دو جلدوں میں شائع کیا۔

glimpses_of_world_history_book_cover.jpeg

 

یہ کتاب اتنی مقبول ہوئي کہ سنہ انیس سو اڑتیس میں پوری طرح سے نایاب ہو گئي۔ پنڈت نہرو نے ایک بار پھر اپنی تحریروں پر نئے ایڈیشن کے لیے نظر ثانی کی اور ان میں کچھ اصلاحات کرنے کے ساتھ ہی ایک نئے باب کا اضافہ بھی کیا۔ اس طرح یہ کتاب دوبارہ منظر عام پر آئي اور اس کو وہ پذیرائي اور حیثیت حاصل ہوئي کہ پچھتر سال گزرنے کے بعد آج بھی یہ تاریخ کی اچھی کتابوں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے۔

جواہر لال نہرو اس کتاب کی ابتدا میں لکھتے ہیں:

"یہاں (جیل میں) قیدیوں کے لیے نہ کوئي کتب خانہ ہوتا ہے اور نہ حوالے کی کتابیں دستیاب ہو سکتی ہیں۔ ایسی حالت میں کسی چیز پر خصوصا تاریخ کے موضوع پر کچھ لکھنا بڑی جرات کا کام ہے۔ مجھے کچھ کتابیں ملیں لیکن میرے پاس رہ نہیں سکیں، بس آئيں اور چلی گئيں۔ چنانچہ اسی وقت سے یہ عادت ڈالی کہ جو کتابیں پڑھتا تھا، ان کے نوٹ لے لیتا تھا۔ اس طرح میرے پاس بہت سی بیاضیں جمع ہو گئيں اور اس کتاب کو لکھتے وقت بہت کام آئيں۔ حوالے کی کتابوں کے نہ ہونے سے بڑی دقت تھی اور اس کی وجہ سے اکثر سلسلۂ بیان ٹوٹ جاتا تھا یا بعض خاص دور بیچ میں چھوڑنے پڑتے تھے۔یہ خطوط ذاتی ہیں اور ان میں بعض نج کی باتیں ہیں جن کا تعلق صرف میری لڑکی سے ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کو کیا کروں، اس لیے کہ ان کو ڈھونڈھ ڈھونڈ کر نکالنے میں تو بڑا جھگڑا ہے۔" نہرو لکھتے ہیں: "اس کتاب کا انداز بیان ویسا بے لاگ نہیں ہوگا جیسا مؤرخ کا ہونا چاہیے۔ یہ دعوی بھی نہیں کہ میں مؤرخ ہوں۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس میں دو چیزیں گڈمڈ ہو گئی ہیں۔ کہیں تو بچوں کے قابل سیدھی سادھی تحریر ہیں اور کہیں ان کے خیالات کی بحث، جنھیں صرف بڑے ہی سمجھ سکتے ہیں۔"

اس کتاب کا اصل محور، ہندوستان کی سرزمین ہے۔ یعنی 'تاریخ عالم کی جھلکیاں' میں مصنف ہندوستان میں بیٹھا ہوا ہے۔ وہ پہلے دور کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتا ہے اور پھر وقت کے دوش پر سوار ہو کر رفتہ رفتہ اپنے زمانے تک پہنچتا ہے۔ تاریخ کے اس طرح کے بیان اور تجزیے میں، جو نہرو نے انجام دیا ہے، واقعات کے جغرافیا پر بھی خاص توجہ دی گئي ہے۔ لہذا ایشیا اور مشرق و مغرب کا تاریخی ٹکراؤ بھی اس کتاب کا ایک اصل محور ہے۔ اس کتاب کی ایک اور اہم خصوصیت عالمی واقعات کا تسلسل سے بیان اور ان کا ایک دوسرے سے ربط ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد، تاریخ سے سبق حاصل کرنا ہے اور مصنف نے کہیں بھی غیر جانبداری کا دعوی نہیں کیا ہے۔ وہ ایک پکا ہندوستانی ہے جس نے اپنے ملک اور دنیا کی تاریخ بیان کرتے ہوئے شروع سے ہی سامراج کے خلاف خاص حساسیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ 'تاریخ عالم کی جھلکیاں' ضبط تحریر میں آنے والی سب سے سچی تاریخوں میں سے ایک ہے، ان لوگوں کی زبانی بیان ہونے والی تاریخ جنھیں عادت پڑ چکی تھی کہ ان کی تاریخ بھی مغرب والے لکھیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کہتے ہیں:'' جواہر لال نہرو کی یہ کتاب، 'تاریخ عالم کی جھلکیاں' پڑھیے، کتاب کے جس حصے میں وہ ہندوستان میں انگریز کی مداخلت اور دراندازی کو بیان کرتے ہیں، اس کی تصویر کشی کرتے ہیں، تشریح کرتے ہیں وہ ایک ایسے انسان ہیں جو باخبر بھی ہیں اور امانت دار بھی وہاں کہتے ہیں کہ ہندوستان میں جو صنعت تھی، ہندوستان میں جو علم و دانش تھا وہ یورپ، برطانیہ اور مغرب سے کم نہیں تھا بلکہ زیادہ تھا۔ انگریز جب ہندوستان میں گھسے تو ان کا ایک پروگرام یہ تھا کہ مقامی صنعت کے فروغ کو روک دیں۔ پھر ہندوستان کی نوبت یہاں تک پہنچ گئي کہ وہاں اس وقت دسیوں لاکھ اور بعد میں کروڑوں لوگ حقیقی معنی میں غریب، فقیر اور فٹ پاتھ پر سونے والے ہو گئے۔