بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم.

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابي القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللّہ في الارضین۔

آپ برادران و خواہران محترم کو خیر مقدم عرض کرتا ہوں۔ آپ اصفہان کے عزیز عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں جو واقعی قابل تعریف ہیں۔ جیسا کہ جناب طباطبائي نژاد نے بالکل بجا فرمایا اور میں اس بات پر بہت خوش ہوں کہ اس امام بارگاہ میں آپ سے ایک بار پھر ملاقات کی توفیق حاصل ہوئي، خاص طور پر شہیدوں کے معزز اہل خانہ اور دفاع وطن کے لئے لڑنے والے قدیمی سپاہیوں سے جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، میں یہیں سے اصفہان کے سارے عوام کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہوں اور ان کی زحمات، ان کے ایمان، ان کے جہاد اور ان کی 'اصفہانی صفات' کے لیے ان پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔

 آج سولہ نومبر کے واقعے(2) کی مناسبت سے یہ نشست تشکیل پائي ہے۔ میں اس انتہائی اہم واقعے اور جہاد کے مسئلے میں اصفہانیوں کے تعاون کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ ایک بات، ایران اور سامراج کی محاذ آرائي پر ہماری، انقلاب کی اور ملک کی کلی نظر کے بارے میں ہے۔ اس کی وجہ کے بارے میں ایک کلی نگاہ اور اس تقابل اور ٹکراؤ کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ پھر ملک میں جاری حالات اور ہنگاموں وغیرہ کے بارے میں بھی کچھ باتیں اختصار سے عرض کروں گا۔

جہاں تک اصفہان کی بات ہے تو اصفہان کی خصوصیات ایک دو نہیں ہیں۔ اصفہان علم کا شہر ہے، فن و ہنر کا شہر ہے، جہاد کا شہر ہے، زندہ شہر ہے۔ علم کے بارے میں بات کی جائے تو شاید پچھلے چار سو برس میں اصفہان میں ایسے ایسے جید علماء پیدا ہوئے ہیں جن کی اہمیت، قدر و قیمت اور شہرت صرف اصفہان تک محدود نہیں ہے، بعض کی شہرت پورے عالم اسلام تک پھیلی، بعض کی شہرت پورے ایران میں پھیلی، اگر فقہ میں، فلسفے میں، حدیث میں، تفسیر میں اور دوسرے علوم میں ہم نام ہی گنوانے لگیں تو ایک موٹی کتاب تیار ہو جائے گي، اگر صرف ان کا نام لکھیں تو۔ ہمارے معاصر دور تک  بزرگ علماء جیسے مرحوم آقائے نائینی، مرحوم سید ابو الحسن اصفہانی، مرحوم شیخ محمد حسین اصفہانی یہ سب مختلف زمانوں کے بڑے بڑے عالم ہیں، ان سے پہلے تقریبا چار سو سال تک بڑے بڑے اصفہانی علماء گزرے ہیں۔ یہ علم کا شہر ہے، یعنی پرورش کرنے والا ہے، صرف فقہ میں ہی نہیں، فلسفے میں بھی، بعض علماء اصفہانی نہیں ہیں لیکن انھوں نے اصفہان میں ارتقائی سفر طے کیا، اصفہان میں سامنے آئے ہیں، اصفہان انھیں سامنے لے کر آيا ہے۔ یہ  اصفہان کی خصوصیت ہے۔

یہ ایمان اور اہلبیت سے محبت کا شہر ہے، یہ ان خصوصیات میں سے ہے جن پر کم توجہ دی گئي ہے، میں کافی پہلے سے، سنہ پچاس اور ساٹھ کے عشرے کے اواخر سے اصفہان میں بہت آمد و رفت کیا کرتا تھا، اس بات نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرائی کہ اصفہان کے لوگ، توسل والے ہیں، اللہ کے حضور رونے اور گڑگڑانے والے ہیں، اللہ پر توجہ مرکوز رکھنے والے ہیں، یہ چیز ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ ان برسوں میں ہمارے مشہد میں ایک دعائے کمیل منعقد ہوتی تھی اور اتفاق سے اسے بھی ایک اصفہانی عالم دین منعقد کیا کرتے تھے، مرحوم کلباسی مشہد میں تھے، ان کی دعائے کمیل میں جو لوگ شرکت کرتے تھے ان کی تعداد بیس تک بھی نہیں پہنچتی تھی، میں احتیاط کرتے ہوئے بیس کہہ رہا ہوں ورنہ شاید آٹھ، نو یا دس لوگ دعائے کمیل پڑھتے تھے۔ اسی وقت اصفہان میں مرحوم الحاج مہدی مظاہری کی دعائے کمیل میں مسجد سید، پوری طرح سے بھر جاتی تھی، یہ مشہد اور اصفہان کا موازنہ ہے۔ ائمہ علیہم السلام کی عزاداری کے بارے میں بات کی جائے تو انسان جتنا بھی کہے وہ واقعی کم ہے، یہ ایمان کا شہر ہے۔

تو اصفہان علم کا بھی شہر ہے، ایمان کا بھی شہر ہے، فن و ہنر کا بھی شہر ہے، طرح طرح کے ایرانی فنون اصفہان میں ہیں۔ یہ ہنر کے گراں بہا ورثوں کا شہر ہے۔ فن و ہنر کے جتنے ورثے اصفہان میں ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ کسی بھی دوسری جگہ پر ہوں گے، یعنی مجھے یاد نہیں آتا کہ اس طرح کے ورثے موجود ہوں گے۔ یہ سب اصفہان کے عوام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ مکمل ایرانی و اسلامی تشخص والا ایک شہر، ایرانی اور اسلامی شناخت رکھنے والا ایک شہر۔ میرے خیال میں ان چیزوں سے – اور اس مختصر بیان سے جو میں بعد میں عرض کروں گا – ہمارے اچھے ڈاکیومینٹری بنانے والے، جن کی تعداد بحمد اللہ کافی زیادہ ہے، اصفہان کے بارے میں کئي ڈاکیومینٹری فلمیں بنا سکتے ہیں جو سبھی دلچسپ اور دلنواز ہوں گي۔

اب بات کرتے ہیں انقلابی شناخت کی، علمی، ایمانی اور آرٹ سے متعلق شناخت کے بارے میں کچھ باتیں ہم نے عرض کیں، اب انقلابی شناخت کے بارے میں چند جملے۔ ہمارے ملک کے بہت سے شہروں میں انقلاب سے پہلے، انقلابی کوششیں جاری تھیں، اچھی کوششیں تھیں، مضبوط بھی تھیں لیکن اصفہان کو برتری حاصل تھی، اگر یہ نہ کہا جائے کہ وہ سب سے برتر شہر تھا تو کم از کم اتنا تو تھا ہی کہ وہ سب سے زیادہ انقلابی شہروں میں سے ایک تھا، کم از کم سب سے برتر شہروں میں سے ایک تو تھا ہی۔ طاغوتی حکومت کے زمانے میں جس شہر میں سب سے پہلے مارشل لا لگایا گيا وہ اصفہان تھا، اصفہان سے پہلے کسی بھی جگہ پر مارشل لا نہیں لگا تھا، اصفہان میں مارشل لا لگا۔ اس سے اس بات کی عکاسی ہوئي تھی کہ وہاں کے لوگ دوسروں سے زیادہ سرگرم عمل ہیں۔ مقدس دفاع میں دو بڑی مشہور اور دلیر ڈویژنز تھیں: امام حسین (علیہ السلام) ڈویژن کہ جس کے مشہور کمانڈر شہید خرازی تھے اور نجف ڈویژن جس کے معروف کمانڈر، شہید احمد کاظمی تھے۔ خرازی کی شہادت کے بعد اور نجف ڈویژن سے شہید کاظمی کے دوسری جگہ چلے جانے کے بعد دوسرے نمایاں کمانڈروں نے ان دونوں ڈویژنز کی کمان سنبھالی، واقعی بڑے دلاور اور بہادر لوگ تھے جن میں سے اکثر کو ہم نے قریب سے دیکھا اور انھیں قریب سے جانتے تھے۔ تو صوبۂ اصفہان نے انہی مجاہدتوں کی وجہ سے تقریبا چوبیس ہزار شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا، جن میں سے تقریبا ساڑھے سات ہزار، اصفہان شہر کے گلستان شہداء میں دفن ہیں۔ یہ کافی بڑی تعداد ہے، یہ ایک بڑی نشانی ہے، جنگ میں زخمی ہونے اور اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے والے دسیوں ہزار افراد، عراق کی جیلوں میں عرصے تک رہنے والے کئي ہزار جنگي قیدی، یہ سب اصفہان کے افتخار کے دستاویز ہیں۔ یہ چیزیں آپ کے لیے ذمہ داریاں پیدا کرتی ہیں، ہم صرف تعریف و توصیف نہیں کرنا چاہتے، ان عظمتوں اور ان عظیم نشانیوں کو باقی اور محفوظ رکھنا، ہر باضمیر انسان کا فرض ہے۔

اب 16 نومبر 1982 کی مناسبت کے بارے میں کچھ بات کرتے ہیں۔ اصفہان میں 16 نومبر 1982 کو تقریبا 360 لوگوں کا جلوس جنازہ نکالا گيا۔ اسے کوئي شہر کس طرح برداشت کر سکتا ہے؟ 360 شہید! جن کمانڈروں کے سامنے یہ شہداء، شہید ہوئے تھے خود انھیں سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کس طرح ان شہیدوں کو اصفہان لائیں اور ان کے جنازوں کی آخری رسومات ادا کریں، یہ واقعہ اس قدر بڑا اور عجیب تھا! میرے خیال میں دنیا کی کسی بھی جگہ اگر ایک دن میں خون میں لت پت 360 جوانوں کو لایا جائے اور لوگوں کے درمیان ان کی آخری رسومات ادا کی جائيں تو اس دن وہ پورا شہر مفلوج ہو جائے گا، سنبھل نہیں سکے گا، لیکن اصفہان مفلوج نہیں ہوا۔ ہمارے پاس جو مصدقہ خبریں اور باوثوق رپورٹیں ہیں ان کے مطابق اسی دن شام کو بڑی تعداد میں جوان اور اگلے دنوں میں اور بھی زیادہ لوگ، محاذوں کی طرف روانہ ہوئے، اسی رات شہیدوں کی پشت پناہی اور رصد کا ایک بڑا کارواں اصفہان سے چل پڑا۔ اگر آج  360 شہیدوں کو لایا گيا ہے تو لوگ بیٹھ کر غم منائيں، اب ان کی توجہ محاذ کی طرف نہ رہے، جی نہیں! اسی دن اور اس کے بعد کے دنوں میں بڑی تعداد میں لوگ روانہ ہو گئے۔ اس جذبے کو دیکھیے، اس محرک کو دیکھیے! دو شہیدوں والے گھرانے، تین شہیدوں والے گھرانے، چار شہیدوں والے گھرانے، پانچ شہیدوں والے کئي گھرانے، چھے شہیدوں والے کئي گھرانے، سات شہیدوں والا ایک گھرانہ! یہ سب اصفہان کے ہیں۔ یہ ہمارے سامنے اصفہان کے انقلابی اور جہادی تشخص کی تشریح کرتے ہیں، یہ اصفہان کی بے نظیر خصوصیات کا ایک حصہ ہیں، اصفہان کے بارے میں کہنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ باتیں ہیں۔ ان چار عشروں میں بھی، جب بھی ضرورت ہوئي، اصفہان سینہ تان کر سامنے آیا، اصفہان کے لوگ، کسی بھی معاملے میں پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ کچھ واقعات مجھے خاص طور پر یاد ہیں لیکن میں انھیں دوہرانا یا ان کا نام نہیں لینا چاہتا۔ اصفہان کے لوگ اتنے بیدار ہیں کہ ایک اشارے اور ایک یاد دہانی پر بارہا میدان میں آ گئے اور فتنے کو دبا دیا۔

البتہ اصفہان کے عوام کی ان خصوصیات کا، اصفہانیوں کے شکوے سے کوئي تعلق نہیں ہے۔ یہ بات جو طباطبائي صاحب نے کہی، بالکل صحیح ہے، وہ حق بجانب ہیں، اصفہان کے پانی کا مسئلہ، اہم مسئلہ ہے۔ میں بھی اس معاملے کو دیکھتا رہا ہوں، متعدد دوستوں نے خط لکھے، ہم نے بھی انھیں متعلقہ افراد تک بھیج دیا، پھر ان کے بارے میں پوچھتے رہے، حال ہی میں، میں نے پھر اس سلسلے میں معلوم کیا، بحمد اللہ کام ہو رہا ہے، مطلب یہ کہ اچھے کام ہو رہے ہیں، پانچ چھے اقدامات ہیں، جن میں سے بعض کو طویل المیعاد کہا جا سکتا ہے، ٹھیک ہے لیکن کام ہو رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے اور ان شاء اللہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں محترم سرکاری عہدیداروں کو بھی، جو واقعی کام کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں، سفارش کروں گا کہ اس معاملے میں ہر ممکن کوشش کی جائے، جتنی جلدی ہو سکے کام پورا کیا جائے، مطلب یہ کہ واقعی اصفہان کے لوگ اس بات کے حقدار ہیں کہ ہم ان کی دن رات خدمت کریں۔

خیر تو یہ اصفہان کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔ ملک کے دیگر شہروں نے بھی اپنے اپنے طور پر گرانقدر خدمات انجام دی ہیں، میں صرف اصفہان کی ہی بات نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن سب ایک طرح کے نہیں تھے، سب ایک سطح کے نہیں تھے، کچھ شہر زیادہ آگے تھے، اصفہان، سب سے آگے والے شہروں میں سے ایک تھا۔ دوسری جگہوں پر بھی اچھی کوششیں ہوئي ہیں۔ پورے ملک میں لوگوں کی یہ ہمہ گير کوششیں اس بات کا سبب بنیں کہ ہم ایک بڑے سخت امتحان میں کامیاب ہو جائيں۔ آٹھ سالہ دفاع کوئي چھوٹا امتحان نہیں تھا، بہت بڑا واقعہ تھا، ہمارے بہت سے نوجوانوں کو پتہ نہیں ہے کہ کیا ہوا تھا۔ آٹھ سال تک دنیا کی ساری طاقتیں ایک طرف اور ایران دوسری طرف! بعض جگہوں پر کچھ واقعات ہوتے ہیں اور کسی ملک پر حملے ہوتے ہیں لیکن پہلی بات تو یہ کہ یہ حملے اتنے وسیع اور ہمہ گیر نہیں ہوتے اور دوسرے یہ کہ بہرحال کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اس کی بھی مدد کرتے ہیں، ہماری کوئي بھی مدد نہیں کر رہا تھا۔ نیٹو صدام کے ساتھ تھا، امریکا خاص طور پر صدام کے ساتھ تھا، سابق سوویت یونین صدام کے ساتھ تھا، بعض یورپی ملک بھی، جو سوویت یونین سے چنداں وابستہ نہیں تھے، امریکا سے وابستہ نہیں تھے، صدام کے ساتھ تھے، جیسے یوگوسلاویہ، میں نے قریب سے جا کر دیکھا ہے(3) یہ لوگ بھی صدام کے ساتھ تھے، مطلب یہ کہ پوری دنیا ایک طرف تھی اور اسلامی جمہوریہ دوسری طرف۔ اس جنگ میں، عوام کے انہی اقدامات سے، عوام کے انہی جذبات سے، وہ بھی خالی ہاتھ، ایران فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ آٹھ سالہ جنگ میں ہمیں ایک بھرپور اور شاندار فتح حاصل ہوئي۔ ہم فاتح رہے لیکن معاملہ ختم نہیں ہوا۔ میں یہاں اس دوسرے موضوع پر کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں: مستکبرین، سامراجی مشنری اور سامراجی دنیا سے ایران کے ٹکراؤ پر کلی نظر۔

براہ کرم اس بات پر توجہ دیجیے! سامراجی محاذ کی نظر میں بڑی پرابلم یہ ہے، اسلامی جمہوریہ سے سامراج کو سب سے زیادہ تکلیف یہ ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ، یہ نظام پیشرفت کرے، آگے بڑھے اور دنیا میں بلندی حاصل کر لے تو مغربی دنیا کی لبرل ڈیموکریسی کا فلسفہ غلط ثابت ہو جائے گا۔ اتفاق سے یہ بات میں نے ایک بار اصفہان میں ہی کہی تھی، اصفہان کے بڑے سرکل پر ایک بڑے عوامی اجتماع میں، میں نے اس موضوع کی طرف اشارہ کیا تھا۔(4) مغرب والوں نے لبرل ڈیموکریسی کے فلسفے کے ذریعے تقریبا تین صدی تک پوری دنیا کو لوٹا۔ کہیں انھوں نے کہا کہ یہاں آزادی نہیں ہے، وہاں گھس گئے، کہیں کہا کہ ڈیموکریسی نہیں ہے، وہاں گھس گئے۔ ڈیموکریسی قائم کرنے کے بہانے اور اسی طرح کے دوسرے بہانوں سے اس ملک کے اثاثوں، اس ملک کے خزانوں، اس ملک کے وسائل کو خوب لوٹا۔ تہی دست یورپ، ہندوستان جیسے امیر ملکوں کو مٹی میں ملا کر مالامال ہو گيا۔ ہندوستان کو انھوں نے تباہ کر دیا، اگر آپ نہرو کی اس کتاب – تاریخ عالم کی جھلکیاں (Glimpses of World History) کو پڑھیں اور پوری توجہ سے پڑھیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کیا ہوا تھا۔ بہت سے دوسرے ملکوں کو بھی انھوں نے لوٹا، چین کو لوٹا، دوسری جگہوں کو تباہ کر دیا۔ اگرچہ ایران براہ راست نوآبادی نہیں بنا لیکن یہاں بھی ان سے جو بن پڑا، انھوں نے کیا، لبرل ڈیموکریسی کے فلسفے سے، یعنی انھوں نے کہا آزادی اور جمہوریت، آزادی اور عوامی حکومت، ان نعروں سے ملکوں پر قبضہ کیا، آزادی کے بھی خلاف اور ملکوں کی جمہوریت کے بھی خلاف ان سے جو کچھ بن پڑا، انھوں نے کیا۔

بالکل سامنے کی ایک مثال یہی افغانستان ہے۔ اب سے اکیس سال پہلے وہ افغانستان میں گھسے تاکہ اس حکومت کو شکست دے سکیں جس کے لیے وہ دعوی کرتے تھے کہ وہ عوامی نہیں ہے اور اس میں آزادی نہیں ہے، امریکی آئے اور انھوں نے افغانستان میں بیس سال تک جرائم کیے، طرح طرح کے جرائم کا ارتکاب کیا، جو کچھ لوٹ سکتے تھے، لوٹا، لے گئے، کھا گئے، لوگوں کو قتل کیا، تباہ کیا، گھرانوں کو ختم کر دیا، اخلاقیات کو خراب کر دیا، پھر بیس سال کے بعد، وہی حکومت افغانستان میں دوبارہ برسر اقتدار آ گئي جس کے خلاف یہ لوگ وہاں گھسے تھے، انھوں نے افغانستان اسی کو سونپ دیا اور اتنی ذلت کے ساتھ باہر نکل گئے! یہ ایک مثال ہے جو آج آپ جوانوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔

یورپ والوں نے اور پھر امریکیوں نے تین سو سال تک لبرل ڈیموکریسی کے فلسفے کے ساتھ کام کیا۔ اب اگر دنیا میں ایسی کوئي حکومت یا ایسا کوئي نظام وجود میں آ جائے جو لبرل ڈیموکریسی کے فلسفے کو مسترد کر دے اور ایک حقیقی فلسفے کے ذریعے اپنے ملک کے عوام کو تشخص عطا کرے، انھیں زندہ کرے، انھیں بیدار کرے، انھیں مضبوط بنائے اور لبرل ڈیموکریسی کے سامنے کھڑا ہو جائے اور اس لبرل ڈیموکریسی کے فلسفے پر خط بطلان کھینچ رہا ہے تو وہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ لبرل ڈیموکریسی، مذہب کی نفی کی بنیاد پر استوار تھی اور اسلامی جمہوریہ دین پر استوار ہے، وہ عوامی ہونے کے دعویدار ہیں اور اسلامی جمہوریہ حقیقی معنی میں ایک عوامی نظام ہے۔

البتہ یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں، اپنے ٹیلی ویژن چینلوں پر انکار کرتے ہیں، لیکن وہ اسے مانتے ہیں، وہ خود جانتے ہیں۔ اور یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آزادی نہیں ہے، عوامی حکمرانی نہیں ہے اور اسی طرح کی دوسری باتیں کرتے ہیں، وہ ان کا ڈکٹیشن دوہراتے ہیں ورنہ آزادی ہونے کی ایک بڑی دلیل تو خود یہی ہے کہ یہ لوگ خود نظام کے خلاف اپنی بات کہہ رہے ہیں اور کوئي انھیں روک نہیں رہا ہے۔ عوامی ہونے کی دلیل یہ ہے کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی وفات کے بعد سے آج تک، جتنی بھی حکومتیں آئي ہیں، ان میں سے کوئي بھی دو حکومتیں فکری و نظریاتی لحاظ سے ایک جیسی نہیں تھیں۔ کوئي حکومت آئي، اگلی حکومت ایک دوسرے نظریے اور افکار کے ساتھ اقتدار میں آئي، تو یہ بات واضح ہے کہ فکری آزادی ہے۔ لوگ آزاد ہیں، انتخاب کرتے ہیں، کبھی کسی کو منتخب کرتے ہیں، کبھی کسی اور کو منتخب کرتے ہیں۔

تو اسلامی جمہوریہ سے مغرب کو یہ تکلیف ہے کہ وہ پیشرفت کر رہی ہے، اسے رونق حاصل ہو رہی ہے اور اس کی ترقی و پیشرفت کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے، اس کا اعتراف کر رہی ہے، یہ چیز مغرب کے لیے ناقابل برداشت ہے، وہ اسے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اصل مسئلہ یہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایران ترقی کر رہا ہے۔ اگر ہم نے ترقی نہ کی ہوتی، اگر ہم خطے میں اپنے طاقتور کردار کا مظاہرہ نہ کرتے، اگر امریکا اور سامراج کے سامنے ہماری آواز کانپنے لگتی، ہم ان کی منہ زوری اور غنڈہ گردی کے سامنے جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے تو یہ دباؤ کم ہو جاتا۔ البتہ وہ آتے اور تسلط  قائم کر لیتے لیکن پابندیاں، یہ دباؤ اور اس طرح کے مسائل اس طرح کم ہو جاتے۔ جب بھی اسلامی جہموریہ کی مضبوطی منظر عام پر آئی ہے – کیونکہ ان برسوں میں حالات مختلف رہے ہیں، آپ جانتے ہی ہیں – تو اسلامی جمہوریہ کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن کی کوشش میں زیادہ شدت آئي ہے۔

تو آج ملک میں ہمارے لیے بنیادی چیلنج، پیشرفت، ٹھہراؤ، ایک جگہ جم جانے کا ہے یا دوسرے لفظوں میں پیشرفت اور رجعت پسندی کا چیلنج ہے۔ رکنے کا مطلب پیچھے ہٹنا ہے اور جو بھی رک جاتا ہے درحقیقت وہ پیچھے ہٹتا ہے۔ کیونکہ دنیا آگے بڑھ رہی ہے، اگر آپ رک گئے تو پیچھے ہو جائيں گے۔ مسئلہ یہ ہے: ہم پیشرفت کر رہے ہیں اور پیشرفت کی کوشش میں ہیں۔ وہ  چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو۔ دنیا کی سبھی سامراجی طاقتیں جن میں بنیادی طور پر امریکا اور یورپ شامل ہیں، اسلامی جمہوریہ کی اس پیشرفت سے طیش اور اضطراب میں آجاتی ہیں اور پیچ و تاب کھانے لگتی ہیں، اسی لیے میدان میں آ جاتی ہیں اور ان سے جو کچھ بن پڑتا ہے، کرتی ہیں لیکن وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، اب تک تو وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائی ہیں، آئندہ بھی کچھ نہیں بگاڑ پائيں گی۔

اس جنگ میں، دشمن کی فرنٹ لائن پر امریکا ہے، یہ جو ہم امریکا کا نام لیتے ہیں اور اس کا نام لینے پر مصر ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا، فرنٹ لائن پر ہے، دوسرے بھی ہیں، لیکن وہ امریکا کے پیچھے کھڑے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے بعد کے ان عشروں میں سبھی امریکی سربراہان مملکت، اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں فرنٹ لائن پر آ کر لڑے لیکن اب وہ کہاں ہیں؟ کچھ تو ختم ہو گئے، مر گئے اور کچھ دوسرے تاریخ کے کوڑے دان میں چلے گئے، چاہے زندہ ہی کیوں نہ ہوں، ڈیموکریٹ کارٹر، کلنٹن اور اوباما سے لے کر ریپبلیکن ریگن اور بش اور اس پچھلے احمق(5) اور اس موجودہ بے چارے بدحواس اور ہونق (6) تک جو ایران کو آزاد کرانے کا متمنی ہے، ایرانی عوام کو نجات دینا چاہتا ہے، یہ سب کے سب اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں کھڑے ہوئے اور ہر کسی نے اپنے دوستوں سے مدد بھی حاصل کی۔ خاص طور پر صیہونی حکومت کو اکسایا، اس کی مدد کی۔ کہا جاتا ہے کہ صیہونی حکومت، غاصب حکومت انھیں اکساتی ہے، ٹھیک ہے، ممکن ہے کہ بعض موقعوں پر ایسا ہی رہا ہو لیکن صیہونی حکومت ان کا پالتو کتا ہے، خطے میں ان کا کٹکھنا کتا ہے۔ اسے ذمہ داری دی گئي ہے کہ خطے میں فساد پھیلائے، دباؤ ڈالے، افسوس کہ خطے کی بعض دوسری حکومتوں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ البتہ انھوں نے چوٹ بھی پہنچائي، ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ لیکن کل ملا کر وہ ناکام رہے، اسلامی جمہوریہ کو روک نہیں سکے۔ ان کی کوئي بھی چال کامیاب نہیں ہوئي یعنی وہ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے، ہاں انھوں نے مشکلات پیدا کیں لیکن اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے، نہ تو پابندیاں، نہ سائنسدانوں کا قتل، نہ بعض لوگوں کو دی گئي رشوت کہ وہ ملک کے اندر اسلامی جمہوریہ کے خلاف بولیں، نہ طرح طرح کے سیاسی اور سیکورٹی حربے، ان میں سے کچھ بھی ایرانی قوم کی استقامت اور آگے بڑھنے کے جذبے کو ختم نہیں کر سکا۔

تو ہمارے سامنے اس طرح کی صورتحال ہے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ ہم سب کی – ملک کے تمام عہدیداروں کی بھی، عوام کی بھی، سماج کے روشن خیال افراد کی بھی، معاشرے کے جوانوں اور انٹلیکچولز کی بھی، علمی و سائنسی حلقوں کی بھی، چاہے وہ اعلی دینی تعلیمی مراکز ہوں یا یونیورسٹیاں ہو – ذمہ داری یہ ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ ہمیں پیشرفت حاصل کرنی ہے۔ پیشرفت ہماری آج کی ذمہ داری ہے، تمام میدانوں میں۔ ہمیں پیشرفت حاصل کرنی ہوگي، ہم سائنسی پیشرفت کریں، آرٹ کے میدان میں پیشرفت کریں، معاشی پیشرفت کریں، سیاسی پیشرفت کریں، یہ ترقی نظام کو مضبوط بناتی ہے، نظام کو طاقت عطا کرتی ہے۔ جب آپ کو طاقت حاصل ہو جائے گي تو دشمن آپ کو ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھ سکتا۔ دشمن کا ہدف یہ ہے کہ، طاقت کی بنیادوں کو ہلا دے، آپ دیکھ ہی رہے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ اسلامی نظام طاقتور رہے۔ ہم سب کو ترقی و پیشرفت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کیونکہ پیشرفت ہمیں طاقتور بناتی ہے، ہمیں خود کفیل بناتی ہے، ہمیں مستحکم کرتی ہے۔ اگر یہ ترقی – سائنسی پیشرفت بھی، روحانی و اخلاقی ترقی بھی، معاشی ترقی بھی، سیاسی پیشرفت بھی – جاری رہی، اور بحمد اللہ اب تک تو ایسا ہی رہا ہے تو دشمن مضطرب ہو جائے گا، دشمن اس سے ہراساں ہے اور ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔

اب سوال یہ ہے کہ پیشرفت کیسے حاصل کریں؟ ترقی و پیشرفت کے وسائل بہت ہیں، مختلف وسائل ہیں، میں صرف ایک چیز کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ امید ہے۔ امید، پیشرفت کا سب سے بڑا وسیلہ ہے اور دشمن نے اسی پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے، دشمن مایوسی اور تعطل کا احساس پھیلانے کے لیے اپنی پوری طاقت اور توانائي استعمال کر رہا ہے۔ ایک نوجوان جو دنیا کے مسائل سے آگاہ نہیں ہے، آپ کبھی دیکھتے ہیں کہ وہ بھی متاثر ہو جاتا ہے، وہ بھی مایوس ہو جاتا ہے، جب مایوس ہو جاتا ہے تو کام نہیں کرتا۔ ترقی و پیشرفت کے لیے امید کی ضرورت ہے۔ دشمن نے ایرانی قوم کی امید کو نشانہ بنا رکھا ہے۔ دشمن نے یہ جو بے انتہا وسائل استعمال کیے ہیں، یہ میڈیا، یہ سیٹیلائٹ، یہ عجیب و غریب سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا، یہ بکے ہوئے اور زرخرید ٹی وی چینل، یہ سب اس لیے ہیں کہ لوگوں کے اندر امید کو مار دیں۔ بحمد اللہ امید زندہ ہے – میں اس کی طرف اشارہ کروں گا – لیکن وہ ہمارے نوجوانوں کو پرامید نہیں رہنے دینا چاہتے، عہدیداروں کو پرامید نہیں رہنے دینا چاہتے، ان لوگوں نے عہدیداروں پر بھی نظریں لگا رکھی ہیں کہ ان سے بھی امید چھین لیں۔ افسوس کہ ملک کے اندر بھی ان کے رابطے ہیں، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں۔ انسان کا دل نہیں چاہتا کہ یہ بات سچ ہو لیکن ہے، ملک کے اندر ان کے رابطے ہیں۔ اور یہ سلسلے ناامیدی پھیلانے کے لئے ہیں، مایوسی پھیلانے کے لئے ہیں کہ "کوئي فائدہ نہیں ہے"، " کچھ حاصل نہیں ہوگا"، "ہم کیا کر لیں گے"،  اس طرح کی باتیں آپ سنتے رہتے ہیں۔ افسوس کہ ملک کے اندر بھی کوئی اخبار، یا کوئی سوشل میڈیا ورکر، اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، یہ بھی وہی سلسلہ ہے۔

خیر، ان کی جانب سے مایوسی پھیلانے کو کوشش کے مقابلے میں ایک زمینی حقیقیت پائي جاتی ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہم ترقی کر رہے ہیں، بے شک ہمارے معاشی مسائل ہیں -میں معاشی مسائل کا انکار نہیں کرنا چاہتا، یہ مسائل بھی ان شاء اللہ حل ہو جائيں گے- لیکن دوسرے مختلف میدانوں میں بحمد اللہ ہم مسلسل پیشرفت کر رہے ہیں، ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ، خاص طور پر جوان نسل ہماری اس ترقی و پیشرفت سے مطلع ہو، لہذا وہ انھیں چھپاتے ہیں، ان کے رابطے میں رہنے والے داخلی عناصر بھی، جیسا کہ میں نے کہا، یہی کرتے ہیں۔ ہماری بہت سی پیشرفتوں کو یا تو چھپا دیا جاتا ہے یا انھیں بالکل معمولی ظاہر کیا جاتا ہے۔

 میں نے آپ کو بتانے کے لیے کچھ چیزیں نوٹ کی ہیں، جو یہ ہیں: انہی پچھلے کچھ ہفتوں میں جب کچھ سڑکوں پر مٹھی بھر شیطان صفت یا فریب خوردہ لوگوں نے ہنگامے کئے، انہی ہنگاموں کے دوران بہت سے بڑے کام انجام پائے ہیں اور اگر ہم ان کا دوسرے ہفتوں اور مہینوں سے موازنہ کریں تو ایک بڑا نتیجہ حاصل ہوگا، انہی کچھ ہفتوں میں جو بڑے کام ہوئے ہیں، میں انھیں گناتا ہوں:

بلڈ کینسر کے علاج کے لیے ایک نئی روش تک ایرانی سائنسدانوں کی رسائی، یہ پیشرفت ہے اور بڑی اہم پیشرفت ہے، کوئي چھوٹی چیز نہیں ہے۔

تیل اور گيس کے کنوؤں کے لیے ایک بڑی اہم اور پیشرفتہ مشین کی مقامی طور پر تیاری۔ ہماری ایک اہم قدرتی ثروت، تیل اور گيس ہے، تیل اور گيس نکالنے کے لیے ہمیں نئی ایجادات کی ضرورت ہے اور یہ ایجادات سامنے آ رہی ہیں، کچھ ہی ہفتے پہلے اس کام کے لئے ایک اہم قدم اٹھایا گيا ہے، یہ ایک بڑا کام ہے۔

سیستان و بلوچستان کے ایک اہم حصے میں ریلوے لائن کا افتتاح ہوا، یہ ریلوے لائن کافی طویل عرصے سے یعنی انقلاب کے اوائل سے - انقلاب سے پہلے تو یہ زیر غور بھی نہیں تھی- ایک اہم آرزو یہ تھی کہ ہم شمال سے جنوب کی جانب ایک ریلوے لائن بچھائیں، بلوچستان کی ریلوے لائن بھی اسی کا حصہ ہے اور شمال سے جنوب کی جانب ریلوے نیٹ ورک میں شامل ہے، یعنی ہم ریلوے لائن کے ذریعے ملک کے شمالی حصے کو خلیج فارس اور بحیرۂ عمان سے جوڑ دیں جو بلوچستان سے گزرتی ہے۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے اس ریلوے لائن کے ایک اہم حصے کا افتتاح ہوا۔ یہ بہت بڑا کام ہوا ہے، یہ پیشرفت ہے۔

انہی کچھ ہفتوں میں کئي بڑے کارخانوں کا افتتاح ہوا، ملک سے باہر پہلی ریفائنری کا افتتاح ہوا، چھے بجلی گھروں کا افتتاح ہوا، جس کے شہروں کے ناموں کی رپورٹ میرے پاس بھیجی گئي ہے، میں اس وقت ایک ایک شہر کا نام نہیں لینا چاہتا۔ دنیا کے سب سے بڑے ٹیلی اسکوپس میں سے ایک کی انہی دنوں میں رونمائي ہوئي، دنیا کا ایک سب سے بڑا ٹیلی اسکوپ انہی دنوں میں تیار ہو کر پورا ہوا اور اس کی رونمائي ہوئي۔ سیٹیلائٹ کیرئیر راکٹ کی رونمائي ہوئي، ایک نئے میزائل کی رونمائي ہوئي اور اسی طرح کے دوسرے کئي کام ہوئے۔ یہ سب انہی کچھ ہفتوں میں ہوئے اور ہنگاموں کے دوران ہوئے۔ اگر کوئي انھیں ایک ایک کر کے گنانا چاہے تو فہرست لمبی ہو جائے گی۔ وہ ان باتوں کو عوام تک نہیں پہنچنے دینا چاہتے، وہ نہیں چاہتے کہ جوان نسل ان سے آگاہ ہو، انھیں معمولی بنا کر پیش کرتے ہیں، ان کی تحقیر کرتے ہیں، انکار کرتے ہیں۔ ہم نے دفاعی وسائل کے میدان میں بہت پیشرفت کی تھی، وہ انکار کرتے تھے، تصویر دکھا کر کہتے تھے کہ یہ فوٹو شاپ سے تیار کی ہوئي تصویر ہے، یہ اصلی نہیں ہے، خیر بعد میں وہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے، اعتراف کے علاوہ ان کے پاس کوئي چارہ نہیں بچا۔

جن کاموں کی طرف میں نے اشارہ کیا، وہ خود کام کے لحاظ سے بھی اہم ہیں اور اس پہلو سے بھی اہم ہیں کہ یہ معاشرے میں تحرک کی علامت ہیں، یعنی سماج منجمد نہیں ہے، ٹھہرا ہوا نہیں ہے، حرکت کر رہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے، یہ بات بڑی اہم ہے کہ معاشرہ پیشرفت کی حالت میں ہو۔ ایرانی نوجوان زندہ ہے، جوش سے بھرا ہوا ہے اور وہ بھی دشمن کی شرانگیزی کے دنوں میں، تو اگر آپ ایران کو چاہتے ہیں تو اس چاہنے کی ایک نشانی اور ایران سے دوستی کا ایک پیمانہ یہ ہے کہ آپ امید پیدا کریں، اگر آپ نے مایوسی پیدا کی تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ ایران کو چاہتے ہیں۔ ایران دشمنی کا سب سے اہم انڈیکیٹر، مایوسی پیدا کرنا ہے، امید ختم کرنا ہے، عدم صلاحیت کا خیال دل میں ڈالنا ہے، تعطل کا احساس پیدا کرنا ہے، یہ ایران دشمنی کی کسوٹیاں ہیں۔ جو لوگ ایران کو چاہتے ہیں، وہ اس چیز کے برخلاف کام کرتے ہیں۔ جو لوگ ایران کے دشمن ہیں، انھیں قومی مفادات کے دفاع کے نام پر، بھیس بدلنے نہ دیجیے، چہرے پر نقاب نہ ڈالنے دیجیے، اس طرح کے کام نہ کرنے دیجیے، یعنی ان کسوٹیوں کو نظروں کے سامنے رکھیے۔ آپ مصنف، آپ شاعر، آپ عالم، آپ عالم دین، ایران سے محبت کرتے ہیں، اسلامی ایران کو چاہتے ہیں، بہت خوب، امید آفرینی کیجیے، اگر اس کے برخلاف ہوا تو آپ کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

لہذا مسئلہ، پیشرفت کا ہے۔ میں بات کو سمیٹتا ہوں۔ عالمی سامراج سے ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہہیں اور پیشرفت کرنے کا عزم رکھتے ہیں، وہ ہماری پیشرفت کو اپنے لیے نقصان دہ سمجھتا ہے، یہ ہمارا اصل مسئلہ اور چیلنج ہے۔ امریکا کے حساب سے، سامراجی حکومتوں وغیرہ کے حساب سے اسلامی ایران کو پیشرفت نہیں کرنی چاہیے، ان کے جواب میں ہم کہتے ہیں: اسلامی ایران کو کلمۂ اسلام کو بلند کرنے کے لیے ضرور پیشرفت کرنی چاہیے۔

اور اب وہ تیسرا موضوع، میں نے کہا تھا کہ ہنگاموں کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ حالیہ ہنگاموں کی اسکرپٹ لکھنے والے، جو پس منظر میں ہیں - ان لوگوں کے علاوہ جو سڑکوں پر آتے ہیں، جو لوگ پس  منظر میں رہ کر اپنے اشاروں پر کام کروا رہے ہیں -  چاہتے تھے کہ عوام کو میدان میں لے آئيں اور اب جب وہ ایسا نہیں کر سکے تو شر انگیزی پر اتر آئے ہیں تاکہ ملک کے عہدیداروں اور حکومت کو تھکا دیں۔ یہ ان کی غلط فہمی ہے، یہ شر انگیزیاں اس بات کا سبب بنیں گي کہ عوام تھک جائيں، ان سے مزید بیزار ہو جائيں اور ان سے مزید نفرت کرنے لگیں۔ لوگ ان -شر انگيزی کرنے والوں- سے نفرت تو کرتے ہی ہیں، اگر یہ کام جاری رہتا ہے تو عوام کی نفرت اور بھی بڑھ جائے گي۔

پہلی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات، عوام کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں: سڑک پر اپنی دکان بند کرو! اپنی گاڑی روک دو!  اسی طرح کے دوسرے کام کرو! مسائل پیدا کرتے ہیں، جرائم بھی انجام دیتے ہیں، تخریب کاری بھی کرتے ہیں، اس طرح کے کام کرتے ہیں لیکن یہ لوگ بھی جو سامنے ہیں اور وہ لوگ بھی جو پس پردہ ہیں، ان کی یہ اوقات نہیں ہے کہ اسلامی نظام کو نقصان پہنچا سکیں۔ بلاشبہ ان شر انگيزیوں کی بساط لپیٹ دی جائے گي، پھر ایرانی قوم زیادہ مضبوطی کے ساتھ، نئے جذبے کے ساتھ پیشرفت کے میدان میں قدم بڑھاتی رہے گي۔ یہ کام کی فطرت ہے، ایک باایمان قوم کی فطرت یہی ہے۔ جی ہاں، اسے حادثہ درپیش آ سکتا ہے لیکن وہ اس حادثے سے، جو ممکن ہے پر خطر ہو، اپنے لیے موقع تیار کر لیتی ہے، وہ حادثے سے، خطرے سے اپنے لیے موقع تیار کر لیتی ہے۔ اب تک ایسا ہی ہوا ہے، اسلام کے آغاز سے ایسا ہی رہا ہے۔

یہی آیت مبارکہ جس کی ہمارے بھائي نے تلاوت کی: "وَ لَمّا رَاَءَا المُؤمِنونَ الاَحزابَ قالوا ھٰذا ما وَعَدَنَا اللَہُ وَرَسولُہُ وَ صَدَقَ اللَہُ وَرَسولُہ." جنگ احزاب کوئي چھوٹی جنگ نہیں تھی، قریش، طائف، مکے اور تمام دوسری جگہوں کے سبھی عرب قبائل اکٹھا ہوئے اور کچھ ہزار کی آبادی والے شہر، مدینہ سے جنگ کے لیے آ گئے۔ احزاب کی جنگ تھی، اسے دلوں کو لرزا دینا چاہیے تھا، لیکن جب مومنین نے اسے دیکھا تو "قالوا ھٰذا ما وَعَدَنَا اللَہُ وَرَسولُہُ" کہا: یہ کوئي نئي چیز نہیں ہے، خدا نے کہا تھا کہ یہ آئيں گے، تمھارے دشمن ہیں، تمھارے دشمن تمھارے سامنے آئیں گے، آ گئے، "وَ صَدَقَ اللَہُ وَرَسولُہُ وَ ما زادَھُم اِلّا ایمانًا وَ تَسلیما"(7) یہ "وَ ما زادَھُم اِلّا ایمانًا وَ تَسلیما" وہی موقع ہے، خطرہ تھا، اس خطرے سے فائدہ اٹھایا، ان کے ایمان میں اضافہ ہو گيا، یعنی ایمان میں اضافے کے لیے ایک موقع تیار ہو گيا۔ صدر اسلام میں اور ہمیشہ ایسا ہی تھا۔

مقدس دفاع کے معاملے میں ایسا ہی ہے، مقدس دفاع بھی ایک جنگ احزاب تھی،  اس میں بھی ہر طرف سے حملے کیے گئے۔ ایرانی قوم نے اس خطرے کو موقع میں بدل دیا، وہ موقع کیا تھا؟ وہ موقع یہ تھا کہ اس نے پوری دنیا کو دکھا دیا کہ ایرانی قوم شکست کھانے والی نہیں ہے۔ سبھی اس جنگ میں شامل تھے، امریکا نے صدام کی پشت پناہی کی، یورپ نے پشت پناہی کی، نیٹو نے پشت پناہی کی، اس وقت کے وارسا نے – وارسا پیکٹ کمیونسٹوں کا تھا – پشپ پناہی کی، سبھی نے پشت پناہی کی لیکن ایران ہارا نہیں، ایرانی قوم ہاری نہیں، یہ چیز ایک مثال بن گئي، یہ موقع ہے۔ عالمی طاقتیں جب بھی اس سوچ میں ہوتی ہیں کہ بقول خود ان کے، ہر چیز میز پر ہے، تمام نئے آپشن میز پر ہیں – ان میں سے ایک آپشن، فوجی حملے کا ہے – جب بھی وہ اس سوچ میں پڑتی ہیں، انھیں آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ یاد آ جاتی ہے، وہ جانتی ہیں کہ ایرانی قوم ہارے گي نہیں۔ ایرانی قوم نے بارہا اپنے مخالفین سے، امریکا سے، دوسروں سے کہا ہے کہ یہاں آنا تمھارے اختیار میں ہے لیکن واپس جانا تمھارے ہاتھ میں نہیں! ممکن ہے کہ تم آگے آ جاؤ، لیکن پھنس جاؤگے، تمھیں چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا! ایرانی قوم نے، مسلط کردہ جنگ سے یہ فائدہ اٹھایا۔ اصفہانی عوام کے اسی 16 نومبر 1982 کے کارنامے سے فائدہ اٹھایا، اس طرح فائدہ اٹھایا کہ اس سے ان کے محرکات میں اضافہ ہوا، جیسا کہ میں نے کہا، محاذ کی جانب اصفہان کے دلیر جوانوں کی روانگي میں اضافہ ہو گيا۔

حالیہ ہنگاموں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ان ہنگاموں میں بھی اس نام نہاد خطرے سے – انھوں نے اسے ایرانی قوم کے لیے ایک خطرہ بتایا– ایرانی قوم نے استفادہ کیا۔ اس نے کیا کیا؟ اس نے اپنی حقیقت اور اپنے موقف کا مظاہرہ کر دیا۔ کہاں؟ 4 نومبر کو۔ اس سال کا 4 نومبر، پچھلے ہر سال سے الگ تھا۔ معدودے کچھ لوگ امریکا کے کہنے پر سڑکوں پر آ گئے لیکن عظیم ایرانی قوم نے 4 نومبر کو امریکا کے خلاف نعرے لگائے۔ ایک مثال 4 نومبر کی ہے۔ ایک دوسری مثال ان شہیدوں کے جلوس جنازہ کی ہے۔ ان دنوں ایک عزیز شہید اور ایک جوان شہادت کو پہنچتا ہے – انہی سیکورٹی کے شہیدوں میں سے، شہید ہونے والے بسیجیوں میں سے، پولیس کے شہیدوں میں سے، عام لوگوں میں – مثال کے طور پر شہید روح اللہ عجمیان، جو ایک غیر مشہور جوان ہیں، لیکن شہادت کے بعد ان کے جلوس جنازہ میں ایک بہت بڑا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے! عوام کا ردعمل یہ ہے۔ اس خطرے سے موقع پیدا کر رہے ہیں، یعنی لوگ اپنے آپ کو ظاہر کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ ہم اس طرح کے ہیں۔ تم ہمارے جوانوں کو قتل کر رہے ہو، ہم سبھی ان جوانوں کی پشت پر ہیں۔ یہ چیز اس بات کے بالکل برعکس ہے جو دشمن دکھانا چاہتا ہے کہ ایرانی قوم سڑک پر آ گئي، ایرانی قوم فلاں کے خلاف ہے، ایرانی قوم نے ایسا کر دیا، ویسا کر دیا لیکن قوم نے خود کو دکھا دیا ہے۔ اس خطرے سے فائدہ اٹھایا اور اسے موقع میں بدل دیا۔

ایک اور موقع جو تیار کیا گيا وہ یہ ہے کہ (ان ہنگاموں کی) اسکرپٹ لکھنے والوں اور ہدایتکاروں کا چہرہ بے نقاب ہو گيا۔ یہ لوگ خود کو ایرانی قوم کا حامی ظاہر کرتے ہیں لیکن انھوں نے ایرانی قوم کے تمام مطالبات اور مقدسات سے دشمنی کی، اسلام سے دشمنی کی،  مسجد جلائي، قرآن کو نذر آتش کیا، ایران سے دشمنی کی، ایران کے پرچم کو نذر آتش کیا، ایران کے قومی ترانے کی اہانت کی، ا ن کے حقیقی چہرے سامنے آ گئے۔ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ایرانی قوم کے حامی ہیں تو ایرانی قوم، مسلمان قوم ہے، ملت قرآن ہے، ملت امام حسین ہے، تم امام حسین کی توہین کرتے ہو، بدزبانی کرتے ہو، بے حیائي کرتے ہو، تم ایرانی قوم کے حامی ہو؟ تم اربعین کی توہین کرتے ہو، اربعین کے ملین مارچ کی اہانت کرتے ہیں، تم ایرانی قوم کے حامی ہو؟  تو ان ہنگاموں کی اسکرپٹ لکھنے والوں اور اصل ہدایتکاروں کے چہرے بھی بے نقاب ہو گئے۔ بنابریں ان ہنگاموں کے معاملے میں جو باتیں کہی جا سکتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایرانی قوم نے اس خطرے سے اپنے لیے متعدد مواقع تیار کر لیے۔

دوسری بات ان ہنگاموں کو گائڈ کرنے والے عناصر سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں ہے۔ ایک گروہ منصوبہ سازوں کا ہے اور ایک گروہ فریب خوردہ افراد کا ہے، ایک حصہ پیسے لیکر ہنگامے کرنے والوں کا ہے، بعض نے جرائم کیے ہیں۔ یہ سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ وہ جو فریب خوردہ ہے اور اس نے کوئي جرم نہیں کیا ہے، اسے متنبہ کرنا چاہیے، نصیحت کرنی چاہیے، ہدایت کرنی چاہیے – چاہے وہ اسٹوڈنٹ ہو یا کوئي دوسرا ہو، چاہے سڑک پر ہو چاہے یونیورسٹی میں ہو – اس سے پوچھنا چاہیے:  تمھارا یہ کام، ایران کی پیشرفت میں معاون ہے یا پیشرفت کے خلاف ہے؟ اسے سوچنے پر مجبور کرنا چاہیے۔ یہ فریب خوردہ لوگوں کے لیے ہے۔ اسے سوچنے پر مجبور کیجیے۔ جو دشمن کی خواہش پر توجہ دیے بغیر اس کا ساتھ دے رہا ہے، اس بیدار کرنا چاہیے، اس سے کہنا چاہیے: "دشمن وہاں ہے، دھیان رہے کہ دشمن کی ہاں میں ہاں نہ ملاؤ۔" امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے بقول: "جتنا چیخنا ہے، امریکا پر چیخو۔"(8) تو یہ اس فریب خوردہ جوان کی بات ہوئي۔

جو شخص جرم کا ارتکاب کرے یا قتل کرے، تخریب کاری کرے اور دھمکی دے – دکاندار کو دھمکی دے کہ دکان بند کرو ورنہ تمھاری دکان کو آگ لگا دیں گے یا گاڑی والے کو دھمکی دے کہ رک جاؤ یا رک جاؤ اور ہارن بجاؤ یا اسی طرح کے دوسرے کام کرو ورنہ تمھاری گاڑی کو ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے، دھمکی دینے والا – ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے، ان کے جرم کے تناسب سے انھیں سزا دی جائے۔ قتل کرنے والے کو ایک طرح سے، تخریب کاری کرنے والے کو دوسری طرح سے، اسے الگ طریقے سے جو ان لوگوں کو پروپیگنڈے کے ذریعے ان کاموں کی ترغیب دلاتا ہے، ان میں سے ہر ایک کو ان کے جرم کے لحاظ سے سزا دی جائے۔ البتہ یہیں پر میں یہ بھی عرض کر دوں کہ سزا، عدلیہ کے توسط سے ہونی چاہیے، کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں ہے کہ خودسرانہ طور پر کسی کو سزا دے! نہیں! عدلیہ ہے، طاقتور ہے، بحمد اللہ مستحکم، زندہ اور پرجوش بھی ہے، وہ انھیں سزا دے۔ تو نصیحت بھی ہے، سزا بھی ہے۔ پیغمبر کی طرح، رسول اللہ کی روش کی طرح۔ امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں فرماتے ہیں: "طَبیبٌ دَوّارٌ بِطِبِّہِ قَد اَحکَمَ مَراھِمَہُ وَ اَحمىٰ مَواسِمَہ."(9) انھوں نے زخم پر لگانے کے لیے اس کا مرہم بھی تیار کیا اور داغنے کے آلات بھی۔ پرانے زمانے میں جو زخم ٹھیک نہیں ہوتے تھے، انھیں داغا جاتا تھا، لوہے کے ایک ٹکڑے کو آگ میں رکھا جاتا تھا اور جب وہ لال ہو جاتا تھا تو اسے زخم پر رکھ دیا جاتا تھا تاکہ وہ ٹھیک ہو جائے۔ امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ پیغمبر نے مرہم بھی تیار کیا اور لوہے کو بھی گرم کیا، دونوں تیار ہیں۔ سعدی کے بقول: درشتی و نرمی بہ ھم در بہ است  ----  چو رگ‌ زن کہ جرّاح و مرھم ‌نہ است(10) (سخت گیری اور نرم خوئي دونوں ایک ساتھ اچھے ہیں، اس رگ کاٹنے والے کی طرح جو جراح بھی ہے اور مرہم رکھنے والا بھی ہے) جراحی بھی کرتا ہے اور مرہم بھی رکھتا ہے، دونوں کام انجام پانے چاہیے۔ یہ دوسری بات ہوئي۔

ایک اور بات یہ کہ بحمد اللہ اس وقت تک تو دشمن نے منہ کی کھائي ہے۔ دشمن کا ارادہ یہ تھا کہ عوام کو میدان میں لے آئے، عوام نے دکھا دیا کہ وہ دشمن کے ساتھ نہیں ہیں۔ البتہ دشمن، میڈیا میں بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے، جھوٹی بھیڑ، جعلی مجمع، آپ دشمن کے مختلف ذرائع ابلاغ میں دیکھتے ہی ہیں، وہ اس طرح ظاہر کرتا ہے کہ غافل اور بے خبر انسان محسوس کرتا ہے کہ واقعی کچھ ہو رہا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جو چیز نمایاں اور عظیم ہے وہ انقلاب کی خدمت میں اور انقلابی میدانوں میں عوام کی موجودگي ہے۔ یہ صحیح ہے، یہ بہت عظیم ہے لیکن وہ نہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ عوام کو میدان میں لے آئیں لیکن عوام نے انھیں زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔ البتہ میں عرض کروں کہ دشمن کی ہر دن ایک چال ہوتی ہے، ایک نیا حربہ ہوتا ہے، یہاں پر شکست ہو گئي لیکن یہ طے نہیں ہے کہ وہ بات ختم کر دے گا، نہیں وہ دوسری جگہ جائے گا، عوامی طبقوں کو ورغلائے گا، مزدوروں کو ورغلائے گا، خواتین کو ورغلائے گا، البتہ ہماری معزز خواتین اور معزز مزدوروں کی شان اس سے کہیں بالاتر ہے کہ وہ دشمن کے سامنے جھک جائيں اور دشمن سے فریب کھا جائيں، یہ مسلمہ بات ہے۔

بنابریں دشمن کا ہدف وہ چیز تھی، جسے وہ حاصل نہیں کر سکا لیکن جو چیز سماج کی حقیقت ہے، وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے مسائل ہیں، مشکلات ہیں۔ فوری طور پر آج کی سب سے اہم مشکل، معاشی مشکل ہے۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میں کئي سال سے، سال کا نعرہ ایک معاشی موضوع کو قرار دیتا ہوں اور عہدیداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش کریں اور جو نعرہ دیا گيا ہے اسے عملی جامہ پہنائيں۔ سنہ 2010 کا عشرہ معاشی لحاظ سے ہمارے لیے اچھا عشرہ نہیں تھا۔ ہمارے لیے کچھ مسائل پیدا ہوئے۔ اگر انہی نصیحتوں کو، انہی کاموں کو، جنھیں انجام دینا ہے، ان شاء اللہ انجام دیں اور انجام دیتے رہے تو، اسی وقت انجام دیا ہوتا تو آج ہماری صورتحال بہتر ہوتی۔ بہرحال پابندی کا اثر پڑتا ہے، بعض تدبیریں مؤثر ہیں، مینجمنٹ مؤثر ہے، یہ سب مؤثر ہیں۔ میں دیکھتا ہوں – انسان جو کچھ دیکھتا اور مشاہدہ کرتا ہے -  کہ عہدیدار واقعی کوشش کر رہے ہیں، پوری سنجیدگي سے کوشش کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، بہت سے معاملوں میں ان کے کام مؤثر ہیں، اسی معاشی صورتحال میں بھی مؤثر ہیں، لیکن بہرحال معاشی مسئلہ ہے۔ البتہ اس وقت دنیا کے مختلف ملکوں کو بھی معاشی مشکل کا سامنا ہے، ہمیں بھی ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان شاء اللہ اس مشکل کو برطرف کر دیں۔ یہ چیز، عہدیداروں سے عوام کے تعاون، حکومت سے قوم کے تعاون، ہمدلی، ہاتھ بٹانے اور یکجہتی سے حاصل ہوگي اور معاشی میدان میں بھی، اللہ کی توفیق سے ہماری قوم دشمن کے منہ پر طمانچہ رسید کرے گي۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم آپ عزیزوں کو اپنی رحمت و برکت عطا کرے۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ اصفہان کے لوگ روز بروز زیادہ آرام و سکون سے رہیں گے، زیادہ پرنشاط ہوں گے، زیادہ تیار ہوں گے اور انقلاب کی پہلی صفوں میں زیادہ فعال رہیں گے۔ ہمیں امید ہے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پاکیزہ روح ہم سے اور آپ سے راضی رہے گي، ہم بھی ان عزیز لوگوں، خدمتگار عوام کے تئيں ہماری جو ذمہ داری ہے، اسے انجام دے پائيں، ان شاء اللہ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں اصفہان کے امام جمعہ اور ولی فقیہ کے نمائندے حجۃ الاسلام و المسلمین سید یوسف طباطبائي نژاد نے تقریر کی۔

(2) 16 نومبر 1982 کو محرم آپریشن میں شہید ہونے والے اصفہان کے 370 جوانوں کا جلوس جنازہ نکالا گيا تھا جس میں کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی تھی۔

(3) مارچ 1989 میں رہبر انقلاب کے صدر کی حیثیت سے یوگوسلاویہ کے دورے کی طرف اشارہ

(4) اصفہان کے مختلف طبقوں کے لوگوں سے ملاقات میں تقریر،  30/10/2001

(5) ڈونلڈ ٹرمپ

(6) جو بائيڈن

(7) سورۂ احزاب، آيت 22 اور (سچے) اہلِ ایمان والوں نے جب لشکروں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ ہے وہ (لشکر) جس کا خدا اور رسول نے وعدہ کیا تھا اور خدا اور رسول نے سچ فرمایا تھا اور اس (بات) نے ان کے ایمان اور (جذبۂ) تسلیم میں مزید اضافہ کر دیا۔

(8) صحیفۂ امام، جلد 11، صفحہ 121

(9) نہج البلاغہ، خطبہ 108، رسول اللہ ایسے طبیب تھے جو اپنی طبابت کے ساتھ چکر لگا رہا ہو اور اس نے اپنے مرہم کو تیار کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو بھی تپا لیا ہو۔

(10) گلستان سعدی، باب ہشتم