سادگی اور انکساری

چاہے ذاتی زندگي ہو یا جنگ کا میدان ہو، شہید قاسم سلیمانی اپنے پہناوے اور رہن سہن کے لحاظ سے بھی اور طرز سلوک کے لحاظ سے بھی بڑے متواضع اور منکسر المزاج انسان تھے۔ اپنے عہدے اور منصب کے برخلاف ان کی زندگي کے وسائل، ایک عام انسان کی طرح ہی تھے۔ زیادہ تر پروگراموں جیسے شہیدوں اور اپنے ساتھیوں کے جلوس جنازہ، شہیدوں کے اہل خانہ اور شہیدوں کے بچوں سے ملاقات، تقاریر اور عوامی ملاقاتوں میں وہ بغیر کسی پروٹوکول کے شریک ہوتے تھے۔ وہ اس بات سے بڑی شدت سے پرہیز کرتے تھے کہ پروگراموں یا اجلاسوں میں توجہ کا مرکز بنیں۔ یہاں تک کہ ایک بار کسی پروگرام میں طے پایا تھا کہ داعش کو شکست دینے پر اسلامی جمہوریہ ایران کی قدس فورس کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا، جنرل سلیمانی کو پتہ چل گيا کہ پروگرام کا اصل مقصد خود انھیں خراج تحسین پیش کرنا ہے، انھوں نے اس پروگرام میں شرکت ہی نہیں کی اور اپنی طرف سے ایک نمائندے کو بھیج دیا۔ ان کی یہ سادگی اور انکساری، جنگ کے میدان میں بھی اور ان کے ساتھیوں کے درمیان بھی بہت واضح تھی۔ سپاہیوں سے ان کا رشتہ کمانڈر اور سپاہی سے زیادہ باپ بیٹے یا دو بھائيوں والا تھا۔ ان کے ماتحت سپاہی، فوجی قانون اور ڈسپلن سے زیادہ ان سے محبت اور اپنی دلی خواہش کی بنا پر ان کے احکامات کی تعمیل کرتے تھے۔ ان کی سادگي اور انکساری کا سب سے اہم نمونہ یہ تھا کہ سبھی انھیں، ان کے نام سے پہچانتے تھے اور فوجی رینک کے بجائے ان کے نام سے پکارتے تھے اور کہتے تھے: حاج قاسم!

 

میدان جنگ تک میں اخلاقیات کی پاسداری

جنگي علاقوں میں، جہاں جنگي آلات کی فائرنگ کی آواز ہر طرف سے سنائي دیتی ہے، شہید حاج قاسم سلیمانی مختلف موقعوں پر خود کو داعش کے خلاف سخت آپریشنوں کے لیے تیار کرنے والے استقامت کے مجاہدوں کے لیے مختصر تقریر کیا کرتے تھے۔ جنگ کے حالات سے آشنا لوگوں کے لیے جنرل سلیمانی کی اخلاقی باتوں کے سلسلے میں شاید سب سے پہلا خیال یہ آئے کہ وہ اپنے لڑاکوں اور فورسز کو یہ نصیحت کر رہے ہوں گے کہ جنگي قیدیوں کے ساتھ برا برتاؤ نہ کریں یا عورتوں اور بچوں کے ساتھ برا سلوک نہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہید قاسم سلیمانی ایک سچے مسلمان سپاہی کی حیثیت سے ان ساری چیزوں کا بہت باریکی سے خیال تھے۔ ان کی اخلاقی رفعت کا ایک چھوٹا سا گوشہ ان کے اس کلام میں جھلکتا ہے: "ہمیں، جو یہاں (میدان جنگ میں) موجود ہیں، حلال اور حرام پر گہری نظر رکھنی چاہیے ... ہم لوگوں کے گھروں کو یونہی استعمال نہیں کر سکتے۔" جنگي علاقے میں موجود غیر فوجی افراد کے جسم اور روح کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچے، یہ تو شہید سلیمانی کے جنگي اخلاق کا بنیادی اصول تھا اور یہ اخلاق اسلام کی بنیادی تعلیمات اور اسلامی افکار پر مبنی تھا۔

ایک بار شام میں داعش کے ساتھ جاری جنگ میں کسی علاقے میں جنرل سلیمانی نے کسی ویران اور اجڑے ہوئے گھر میں نماز ادا کی تو نماز کے بعد ایک خط میں گھر کے مالک سے نماز پڑھنے کی اجازت مانگي اور اپنا پتہ اور ٹیلی فون نمبر تک اس گھر میں رکھ دیا تاکہ بعد میں گھر کے مالک کو اگر ان کے وہاں نماز پڑھنے پر کوئي اعتراض ہو یا کوئي مطالبہ ہو تو وہ  اسے پیش کر سکے۔

اسی طرح جنگ کی شدت کے دوران ایک جنگي علاقے کے معائنے کی جنرل سلیمانی کی ایک کلپ موجود ہے جس میں اچانک وہ ایک گھبرائي ہوئي گائے کو دیکھتے ہیں۔ وہ ڈرائیور سے گاڑی روکنے کے لیے کہتے ہیں اور اس گائے کے قریب جا کر کھانے پینے کی چیزیں اسے دیتے ہیں۔ شہید جنرل قاسم سلیمانی کے اخلاق کا دائرہ کبھی کبھی اتنا وسیع ہو جاتا تھا کہ اس میں ایران کے کوہستانی علاقے کے ہرن بھی سما جاتے تھے۔ عراق میں داعش کے ساتھ جنگ کے دوران، موسم سرما میں انھوں نے سپاہ کی کمان کے ہیڈکوارٹر سے رابطہ کیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ چھاؤنی کے قریب کے ہرنوں کے لیے، جو ساتھ کے پہاڑ میں زندگي گزارتے ہیں، چارہ رکھ دیں کیونکہ موسم سرما میں ان ہرنوں کے لیے چارہ تلاش کرنا بڑا دشوار ہوگا۔

جنرل سلیمانی کی شخصیت کا راز

شہید جنرل قاسم سلیمانی جہاں عسکری امور اور فوجی اسٹریٹیجیز کی شناخت میں اتنا عبور رکھتے تھے کہ سامراجی محاذ میں ان کے دشمن تک ان کی فوجی طاقت و صلاحیت کے معترف تھے، وہیں اخلاقی باریکیاں ان کے لیے اتنی اہم تھیں کہ اپنے انتہائي مشغول ذہن میں بھی وہ ان کے لیے مناسب سوچ اور اقدام کے لیے جگہ نکال ہی لیتے تھے۔ جنرل قاسم سلیمانی کی اتنی ہمہ گیر شخصیت میں اس کیفیت کا سبب اور جواب ان کے افکار و نظریات میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای جنرل سلیمانی کی شخصیت کی توصیف میں کہتے ہیں: "واقعی وہ سبھی کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتے تھے۔ دوسری طرف وہ روحانیت، اخلاص اور  آخرت کے لیے کام کرنے والے تھے، ان میں واقعی روحانیت پائي جاتی تھی اور دکھاوا بالکل نہیں کرتے تھے ... مختلف دشمنوں کے مقابلے میں وہ فلاں اور فلاں ملک کے بیابانوں میں اور پہاڑوں پر گئے ... وہ اسلام اور امام خمینی کے مکتب کے پروردہ افراد کا ممتاز نمونہ تھے، انھوں نے اپنی پوری عمر، اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے گزار دی۔ (16 دسمبر 2020)