انھوں نے شہیدوں اور مقامات مقدسہ کے دفاع کے شہیدوں کے بلند مقام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر شہیدوں کا پاکیزہ خون نہ ہوتا تو آج کوئي بھی مقدس مقام محفوظ نہ ہوتا۔
رہبر انقلاب نے شہید قاسم سلیمانی کو ایک عظیم مجاہد اور اپنی عزیز شخصیت اور گہرا دوست بتایا اور میدان میں شجاعانہ، فوری اور بروقت موجودگي کو ان کی اہم خصوصیات شمار کیا۔
انھوں نے سنہ 2000 کے عشرے میں افغانستان اور عراق میں امریکا کی شر انگیزیوں سے مقابلے کے میدان میں جنرل قاسم سلیمانی کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان دو ملکوں پر قبضہ کرنے میں امریکا کا اصل ہدف، ایران کا محاصرہ کرنا تھا لیکن جنرل سلیمانی امریکا کے ظاہری رعب و دبدبے سے ڈرے بغیر میدان میں آ گئے اور آخرکار وہ قبضہ امریکا کی شکست اور اس بڑی سازش کی ناکامی پر منتج ہوا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے امریکی قابضوں کے حملے کے وقت امیر المومنین علیہ السلام کے روضۂ اقدس میں بعض نہتے عراقی جوانوں کے دفاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سلیمانی نے ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے بالکل شروع میں ہی بڑی تیزی سے ان جوانوں سے رابطہ کیا اور انھیں نجات دلائی، البتہ اس مسئلے میں مرجعیت نے بھی ایک غیر معمولی اور مؤثر اقدام کیا۔
انھوں نے عراق پر قبضہ کرنے میں امریکیوں کا مقصد، کسی کو صدام کا جانشین بنانا بتایا اور کہا کہ امریکی وہاں رکنے کے لیے آئے تھے لیکن جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے ایک سخت، پیچيدہ اور طویل عمل کے تحت اور ایک سیاسی، فوجی، تشہیراتی اور ثقافتی جنگ میں اپنے مستقبل پر عراقی عوام کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی راہ میں بنیادی تعاون کیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کی ایک اور سازش یعنی داعش کی شکست کو، میدان میں الحاج قاسم سلیمانی کی موجودگی کا ایک دوسرا نتیجہ بتایا اور کہا کہ تکفیری دہشت گردی کے مقابلے میں عراقی جوان، حقیقی معنی میں درخشاں کردار کے حامل رہے لیکن اس سازش کو ناکام بنانے میں، جس سے خطے کی موت اور حیات وابستہ تھی، قاسم سلیمانی نے اپنی جدت طرازی، شجاعت، طاقت سے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر بے مثال کردار ادا کیا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے داعش کے مقابلے میں کھڑے ہو جانے کی ضرورت کے بارے میں مرجعیت کے فتوے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم فتوے کی وجہ سے ہزاروں جوان میدان میں آ گئے لیکن ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے اور وہ منظم بھی نہیں تھے، لہذا جنرل سلیمانی نے عراق کے بڑے مجاہدوں خاص طور پر شہید ابو مہدی کی مدد سے، جو ایک عظیم اور گرانقدر انسان تھے، ان جوانوں کو منظم کیا اور انھیں ہتھیار اور ٹریننگ دی۔
انھوں نے مزاحمتی محاذ کے احیا کو جہادی سرگرمیوں میں جنرل سلیمانی کی دائمی اسٹریٹیجی بتایا اور کہا کہ ان کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ وہ شام، لبنان اور عراق کے آمادہ جوانوں اور قومی فورسز سے مزاحمت کے احیا کے لیے بہترین استفادہ کرتے تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مقدس مقامات کے دفاع کو جنرل قاسم سلیمانی کے جہاد اور مقابلے کے پورے عرصے کا اٹل اصول بتایا اور کہا کہ مقدس مقامات، حضرت زینب کے روضۂ اطہر اور شام و عراق میں امیر المومنین کے اصحاب کے مزارات اور خاص طور پر عالم اسلام کے سب سے بڑے حرم کے طور پر مسجد الاقصیٰ کا دفاع بہت اہم اصول تھا اور اسی وجہ سے شہید اسماعیل ہنیہ نے جنرل سلیمانی کے جلوس جنازہ کے پروگرام میں انھیں شہید قدس کا لقب دیا تھا۔
انھوں نے اسلام کے دفاع کی راہ میں اپنی جان قربان کرنے کے لیے دسیوں لاکھ ایرانی جوانوں کو تیار کرنے کی اہم کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دفاع حرم کے مجاہدن نے دکھا دیا کہ بدخواہوں کی بہت زیادہ سرمایہ کاری کے باوجود، مزاحمت کا پرچم بدستور لہرا رہا ہے اور دشمن، لبنان، فلسطین، شام، عراق اور ایران سے مزاحمت کے پرچم کو نہ تو اتار پایا اور نہ ہی کبھی اتار پائے گا۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے طاقت کے عناصر کی حفاظت کو کسی بھی ملک کی قومی استقامت و قوت کو جاری رکھنے کے لیے ضروری بتایا اور کہا کہ مومن اور فداکاری کے لیے تیار جوان، کسی بھی ملک کے استحکام و قوت کے سب سے اہم عناصر ہیں اور اس طرح کے جوانوں کو میدان سے باہر نہیں نکالنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ میدان سے مومن اور فداکار جوانوں کے باہر نکل جانے سے شام جیسے حالات اور افراتفری اور امریکا، صیہونی حکومت اور بعض دیگر جارح ملکوں کے ہاتھوں اس ملک کے علاقوں پر قبضے جیسی صورتحال پیدا ہو جائے گي۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شام میں جارح قابضوں کی موجودگي جاری رہنے کو ناممکن بتایا اور کہا کہ شام، شام کے لوگوں کا ہے اور شام کی سرزمین پر جارحیت کرنے والے یقینی طور پر ایک دن شام کے غیور نوجوانوں کی طاقت کے مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہو جائیں گے۔
انھوں نے شام میں پے در پے امریکی ٹھکانے بنائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جارح کو، ایک قوم کی سرزمین سے نکلنا ہی ہوگا ورنہ اسے نکال باہر کیا جائے گا، بنابریں امریکی اڈے بھی یقینی طور پر شام کے جوانوں کے پیروں تلے روند دیے جائیں گے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حتمی اور آخری فتح، ایمان والوں کی ہی ہوگي، کہا کہ لبنان، مزاحمت کا مظہر ہے اور اگرچہ اس نے زخم کھایا ہے لیکن وہ جھکا نہیں ہے اور آخر میں وہی فتحیاب ہوگا، اسی طرح یمن بھی مزاحمت کا مظہر ہے اور وہ بھی فتحیاب ہوگا اور ان شاء اللہ جارح دشمن، جن میں سب سے اوپر لالچی اور مجرم امریکا ہے، خطے کے لوگوں کو چھوڑنے اور ذلت کے ساتھ علاقے سے باہر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں، مکتب سلیمانی کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ مکتب، اسلام اور قرآن کا ہی مکتب ہے جس کی پابندی کرتے ہوئے شہید سلیمانی، کسوٹی، مرکز اور محور میں تبدیل ہو گئے اور اگر ہم میں بھی وہی ایمان اور عمل صالح ہو تو ہم بھی سلیمانی بن سکتے ہیں اور خدا کا لطف ہمارے بھی شامل حال ہو سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دفاع حرم کے اہم موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جس کے لیے بہت زیادہ پاکیزہ خون بہایا گيا ہے، کہا کہ بعض لوگ سمجھ کی کمی اور مسائل کے صحیح تجزیے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سوچتے اور کہتے ہیں کہ خطے کے حالیہ واقعات کی وجہ سے دفاع حرم کی راہ میں بہایا گيا خون رائيگاں چلا گيا جبکہ یہ سوچ اور اس طرح کا بیان، بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ اگر الحاج قاسم سلیمانی اور دفاع حرم کے مجاہدین کا شجاعانہ جہاد نہ ہوتا تو آج مقامات مقدسہ چاہے وہ زینبیہ ہو اور چاہے کربلا و نجف ہو، محفوظ نہ رہتے۔
انھوں نے کہا کہ کسی وقت سامرا میں کچھ غفلت برتی گئی اور تکفیریوں نے امریکا کی مدد سے امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے روضے کے گنبد اور ضریح کو تباہ کر دیا اور اگر جاں بکف مومن جوان نہ ہوتے تو دیگر مقدس مقامات کا بھی اسی طرح کا افسوس ناک انجام ہوتا۔
آيت اللہ خامنہ ای نے دفاع حرم کی حقیقت کو اس مقدس مقام کے دفاع کے علاوہ اس مقام پر دفن شخصیت اور ائمہ علیہم السلام کے مکتب کا دفاع بتایا اور کہا کہ قرآنی ثقافت میں جہاں بھی جو بھی خون راہ حق میں بہتا ہے، چاہے فتح حاصل نہ بھی ہو، تب بھی وہ رائيگاں نہیں جاتا اور خداوند عالم کے نزدیک وہ گرانقدر ہے، جیسا کہ جنگ احد میں حضرت حمزہ کا خون اور سب سے بڑھ کر کربلا میں سید الشہداء علیہ السلام کا خون رائيگاں نہیں گیا۔
انھوں نے کہا کہ البتہ فتح بھی یقینی ہے اور باطل کی موجودہ جولانی کو اہمیت نہیں دینی چاہیے۔