گيارہ ستمبر کے حملوں کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکا دہشت گردی سے مقابلے کے بہانے، مغربی ایشیا کے علاقے پر ٹوٹ پڑا۔ اس وقت امریکی حکام اور بریجینسکی جیسے بہت سے امریکی مفکرین نے 'عظیم مشرق وسطی' (Greater Middle East)   یا 'جدید مشرق وسطی' جیسے مختلف منصوبوں اور سازشوں کا عندیہ دیا تھا۔ مثال کے طور پر سنہ 2006 میں اور لبنان کی 33 روزہ جنگ کے زمانے میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے ایک اہم تقریر میں کہا تھا کہ جو کچھ ہم وہاں دیکھ رہے ہیں وہ ایک نئے مشرق وسطی کا درد زہ ہے۔ ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ہم اس مشرق وسطی کی جانب قدم بڑھا رہے نہ کہ پچھلے مشرق وسطی کی جانب واپسی کرنا چاہتے ہیں۔ (1) ان کی یہ بات، مغربی ایشیا کے تعلق سے اس وقت کی امریکی حکومت کے منصوبوں کی بخوبی عکاسی کرتی ہے۔ اصل میں امریکا کی کوشش تھی کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر پہلے تو خطے کے ممالک کو اسرائیل کی مرکزیت میں ایک آزاد معاشی نظام والے بلاک میں تبدیل کر دے اور دوسرے لبرل ڈیموکریسی کے نمونے کو علاقائي ممالک کی سطح پر پھیلا دے۔ یہ وہ موضوع ہے جس کا امریکی صدر نے بھی صدام حسین کا تختہ الٹ جانے کے بعد کی اپنی تقریر میں کھل کر اعتراف کیا تھا۔ جارج بش نے سنہ 2003 میں کہا تھا: عراقی ڈیموکریسی کامیاب ہوگي اور اس کامیابی کی خبر دمشق سے تہران تک پہنچے گي۔ یہ آزادی مستقبل میں ہر قوم میں ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطی کے مرکز میں ایک آزاد عراق کا سیاسی و قانونی ڈھانچہ، دنیا کے ڈیموکریٹک انقلابوں کی تاریخ میں ایک نیا موڑ ہوگا۔(2) اُسی وقت امریکا کے نائب صدر ڈک چنی نے ڈیووس اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران اعلان کیا تھا کہ امریکی حکومت، پورے مشرق وسطی اور اس سے آگے تک جمہوریت کے فروغ کے لیے پابند عہد ہے۔(3)

البتہ یہ منصوبہ بھی امریکی حکومت کے دوسرے بہت سے پروگراموں کی طرح، بے تحاشا پیسے خرچ کرنے کے باوجود ناکام رہا اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔ ان جنگوں کے خاتمے کو بیس سال گزر جانے کے بعد، آج عراق اور افغانستان کی سیاسی صورتحال اس بات کا بہترین ثبوت ہے۔ ان جنگوں نے، جنھوں نے امریکی معیشت پر کئي ٹریلین ڈالر کا بوجھ لاد دیا(4)، علاقائي اقوام کا بہت زیادہ جانی نقصان بھی کرایا۔ براؤن یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2001 کے بعد سے امریکا کی جنگوں کی وجہ سے 9 لاکھ سے زیادہ انسان مارے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان جنگوں کی وجہ سے صرف افغانستان میں ہی 70 ہزار عام شہری(5) اور عراق میں قریب 3 لاکھ غیر فوجی افراد مارے گئے۔(6)

مغربی حکومتوں کی جانب سے خطے میں دہشت گرد اور تکفیری گروہوں کی حمایت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔(7) داعش جیسے دہشت گرد گروہ، جو ڈونلڈ ٹرمپ کے صریحی اعلان کے مطابق، امریکی حکومت کے ذریعے پیدا کیے گئے تھے، خطے میں عدم استحکام پیدا کر کے مغربی ایشیا کے علاقے میں تیس سالہ مسلکی جنگ شروع کرانے کی اسٹریٹیجی کا حصہ تھے۔

البتہ مغربی حکومتوں نے اپنے اندازوں میں جس بات کو بالکل بھی مدنظر نہیں رکھا تھا، وہ شہید قاسم سلیمانی کی ذات تھی جنھوں نے ان کے منصوبوں اور سازشوں پر پانی پھیر دیا اور خطے میں ان کی تباہ کن موجودگي کو ختم کر دیا۔

لبنان کی جنگ، سامراجی محاذ سے شہید قاسم سلیمانی کا پہلا سنجیدہ ٹکراؤ تھا۔ یہاں 33 روزہ جنگ میں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کی شکست اور اس کے نتیجے میں مشرق وسطی عظمی (Greater Middle East) کے منصوبے کی ناکامی میں انہوں نے انتہائي اہم کردار نبھایا۔ '33 روزہ جنگ کی ان کہی باتیں' نامی کتاب کے مترجم صفاء الدین تبرائيان اس جنگ میں حزب اللہ کی فتح میں شہید قاسم سلیمانی کے کردار کے بارے میں کہتے ہیں: میں نے خود سید حسن نصر اللہ سے سنا کہ جنگ میں ہماری فتح میں الحاج قاسم سلیمانی کا رول، عماد مغنیہ کے رول سے بھی زیادہ تھا۔(8) فلسطین میں استقامتی محاذ کو مسلح کرنے اور اس کی تقویت میں بھی شہید قاسم سلیمانی کا بنیادی کردار تھا۔ فلسطین کی جہاد اسلامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل زیاد النخالہ نے کچھ سال پہلے اس سلسلے میں کہا تھا: آج غزہ نے جو طاقت اور جو وسائل حاصل کر لیے ہیں، وہ شہید سلیمانی کی بے تحاشا کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ جنرل قاسم سلیمانی کا اسٹریٹیجک منصوبہ، غزہ پٹی کو میزائل اور ہتھیار بھیجنے سے شروع ہوا اور یہ چیز ایک معجزے کی طرح تھی ۔ جنرل سلیمانی نے ذاتی طور پر اس سلسلے میں کوشش کی، کئي ملکوں کا دورہ کیا اور اس عسکری صلاحیت کے حصول کے لیے پروگرام بنایا اور ضروری اقدامات کیے۔(9) یہاں تک کہ آج بہت سے لوگوں کے لیے اس بات کا تصور بھی مشکل ہے کہ غزہ کی انڈر گراؤنڈ سرنگ، جو اس وقت 360 کیلو میٹر تک ہو چکی ہے، شہید سلیمانی اور شہید مغنیہ کا آئيڈیا تھی۔(10)

دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے میں استقامت کے محاذ کی منصوبہ بندی، سامراجی محاذ کی سازشوں کے مقابلے میں ان کا سب سے بنیادی کام تھا۔ وہ شجرۂ خبیثہ جس کی جڑوں کو شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نے کاٹ ڈالا اور علاقائي اقوام تک امن و سلامتی کو لوٹایا، یہ کام داعش کی نابودی میں شہید سلیمانی کے کردار جتنا ہی اہم اور کلیدی تھا جس کا اعتراف پچھلے برسوں میں نیوز ویک(11)، بزنس انسائڈر(12)، دی ویک(13) وغیرہ نے بارہا کھل کر کیا ہے۔ جب جب بعض امریکی حکام نے داعش کی نابودی کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی، تب تب انھیں عالمی میدان کے ماہرین اور پروفیسروں کے دنداں شکن جواب کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر لندن یونیورسٹی کے پروفیسر ادیب مقدم نے داعش کے خاتمے کا کریڈٹ لینے کی ٹرمپ کی کوششوں کے جواب میں کہا تھا: یہ ایران اور روس کی ائير فورس تھی جس نے داعش پر اصلی اور کاری ضربیں لگائي تھیں اور قاسم سلیمانی ان اقدامات کے ماسٹر مائنڈ تھے۔(14)

آج مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا اور سامراج کے زوال کی باتیں عام ہیں اور حقیقت پر مبنی ہیں۔ یہ تبدیلی اور خطے کے ملکوں کی صورتحال اور ان کے عوام کی سوچ میں بدلاؤ، بڑی حد تک عالمی سامراج کے خلاف استقامتی محاذ کی مرہون منت ہے اور بلاشبہ استقامتی محاذ کی سب سے نمایاں شخصیات میں سے ایک، شہید جنرل قاسم سلیمانی ہیں اور رہیں گے۔

 

[1] https://www.aljazeera.com/news/2006/7/22/rice-sees-bombs-as-birth-pangs

2 https://www.nytimes.com/2003/11/06/politics/in-bushs-words-iraqi-democracy-will-succeed.html

3 https://georgewbush-whitehouse.archives.gov/news/releases/2004/01/20040124-1.html

4 https://www.vox.com/22654167/cost-deaths-war-on-terror-afghanistan-iraq-911

5 https://watson.brown.edu/costsofwar/costs/human/civilians/afghan

6 https://watson.brown.edu/costsofwar/costs/human/civilians/iraqi

7 https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=39272

8 https://irdc.ir/fa/news/7777

9 https://www.tasnimnews.com/fa/news/1399/10/29/2435105/

10 https://www.alef.ir/news/4001011109.html

11 https://www.newsweek.com/iranian-military-mastermind-leading-battle-recapture-tikrit-isis-311516

12 https://www.businessinsider.com/how-iran-soleimani-shaped-isis-fight-according-to-aid-worker-2020-1

13 https://consent.yahoo.com/v2/collectConsent?sessionId=3_cc-session_64db2126-da26-47d6-9eda-ffb366a87485

14 https://www.ozy.com/true-and-stories/not-so-long-ago-soleimani-and-the-u-s-worked-together-to-beat-isis/262477/