بعثت کے آغاز سے ہی خداوند عالم نے پیغمبر کو صبر کا حکم دیا ہے؛ سورۂ مدثر میں: وَ لِرَبِّکَ فَاصبِر (سورۂ مدثر، آيت 7، اور اے رسول! اپنے رب کے لیے صبر کیجیے۔) سورۂ مزّمّل میں: وَاصبِر عَلیٰ ما یَقولون (سورۂ مزمل، آيت 10، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، اس پر صبر کیجیے۔) یہ دونوں، ان ابتدائي سوروں میں سے ہیں جو پیغمبر پر نازل ہوئے - پہلے ہی قدم پر خداوند متعال پیغمبر سے کہتا کہ صبر سے کام لیں۔ میں نے یہاں نوٹ کیا ہے کہ تقریبا بیس جگہوں پر پیغمبر سے خطاب کرتے ہوئے انھیں صبر کا حکم دیا گيا ہے: فَاصبِر لِحُکمِ رَبِّک (سورۂ قلم، آيت 48، تو اپنے پروردگار کے حکم (کی تعمیل) میں صبر سے کام لیجیے۔) اور اسی طرح کی دوسری آیتیں۔ صبر کا کیا مطلب ہے؟ صبر کا مطلب ہے استقامت۔ مشہور ہے اور متعدد روایات میں بھی آيا ہے کہ صبر تقسیم ہوتا ہے، صبر عن المعصیۃ، صبر علی الطاعۃ اور حادثات کے مقابلے میں صبر (اصول کافی، جلد 2، صفحہ 91) تو صبر کا مطلب ہے استقامت، گناہ کی خواہش کے مقابلے میں انسان استقامت کرے؛ بے دلی، بے بے عملی اور اپنی ذمہ داری کی ادائيگي کے سلسلے میں تساہلی کے مقابلے میں انسان استقامت کرے؛ دشمن کے مقابلے میں استقامت کرے، مختلف مصیبتوں کے مقابلے میں اپنا تحفظ کرے، اپنے نفس کی حفاظت کرے، استقامت کرے؛ یہ صبر کے معنی ہیں؛ صبر یعنی پائيداری۔ آج ہمیں ہر چیز سے زیادہ استقامت کی ضرورت ہے۔

امام خامنہ ای

24/10/2021