بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین.

آپ کا بہت بہت خیر مقدم ہے۔ آٹھ فروری کی یہ ملاقات، ہر سال ہماری سب سے شیریں ملاقاتوں میں سے ایک ہوتی ہے، یہ آپ کے لیے بھی شیریں ہے، اس اہم تاریخی واقعے کو یاد کرنے کے لیے اور میرے لیے بھی زیادہ شیریں ہے کہ میں نے اس واقعے کو قریب سے دیکھا ہے اور فضائیہ اور فوج کے عمل کو آج تک دیکھتا رہا ہوں۔ ان شاء اللہ، خدا آپ کو توفیق عطا کرے، کامیاب کرے۔

یہ جو رپورٹیں دی گئيں، یہ بہت اہم ہیں۔ ان میں سے ہر ایک قیمتی ہے، آپریشنل ویلیو بھی ہے اور وقار بڑھانے کے لحاظ سے بھی قیمتی ہے۔ اس طرح کے کام، فوج کو عزت عطا کرتے ہیں اور پورے اسلامی جمہوری نظام کو عزت عطا کرتے ہیں۔ پہلے یہ چیزیں نہیں تھیں، انھیں آپ نے، ہمارے جوانوں نے، فورس میں اور فوج میں آپ نے شروع کیا ہے۔ جو نغمہ تیار کیا گيا تھا، اس کے لیے بھی میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس کے اشعار بہت اچھے تھے، آہنگ اچھا تھا اور بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا گيا۔

آج میں یہاں تشریف رکھنے والے آپ عزیزوں سے 19 بہمن (8 فروری 1979 کے واقعے) کے بارے میں اور فوج کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا، انقلاب کے مجموعی مسائل کے بارے میں بھی کچھ باتیں اختصار سے عرض کروں گا۔

19 بہمن (8 فروری کے واقعے) کے بارے میں ہم نے بہت باتیں کی ہیں، میں نے ہر سال اس اہم اور بڑے واقعے کے بارے میں ایک تجزیہ، ایک تشریح، محترم حاضرین کے سامنے پیش کی ہے۔ جو چیز میں اس سال عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ یہ واقعہ، تحریک کی کامیابی اور عملی اور حقیقی طور پر انقلاب کے سامنے آنے کی ایک مؤثر تمہید تھا۔ یہ واقعہ صرف اتنا نہیں تھا کہ مثال کے طور پر فضائیہ کے جوانوں کا ایک گروہ آ کر اس وقت کے انقلاب کے اہم رہبر کو سیلیوٹ کرے! نہیں، یہ ایک ایسا اقدام تھا جو خود انقلاب کی کامیابی پر اثر انداز ہوا، کیوں؟ اس لیے کہ اس نے لہر پیدا کر دی۔ لہر پیدا ہونے کا سبب یہ تھا کہ اس واقعے کی خبر بڑی تیزی سے پھیل گئي۔ اس واقعے کے تقریبا تین چار گھنٹے کے بعد، اس وقت کے تہران کے شام کے اخبار(2) نے واقعے کی تصویر شائع کر دی اور اچانک ہی حالات بہت زیادہ بدل گئے، میں یہ نہیں کہتا کہ ایک سو اسی ڈگری لیکن حالات بہت زیادہ بدل گئے۔ دوسری طرف عوام کو بھی حوصلہ ملا۔ انھیں سمجھ میں آ گیا کہ فوج ان کے خلاف نہیں ہے کیونکہ حقیر اور ظالم پہلوی حکومت کا واحد حربہ یہی تھا کہ فوج کے ذریعے عوام کی سرکوبی کرے۔ لوگوں نے دیکھا کہ نہیں، فوج تو ان کی طرف، عوام کی طرف اور انقلاب کی طرف ہے۔ اس سے انھیں حوصلہ مل گيا۔ وہاں فریق مقابل حوصلہ ہار گيا، فوج کے کمانڈر، مسلح فورسز کے کمانڈر، ان کے حامی، امریکی جنرل، جنرل ہائزر(3) جیسے افراد نے جب یہ واقعہ دیکھا کہ جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، وہاں سے انھیں چوٹ پہنچی ہے، وہ حوصلہ ہار گئے۔ انقلابیوں کو حوصلہ ملنے اور انقلاب مخالف افراد کے حوصلہ ہارنے اور شکست کے احساس کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ اسی رات اور اس کی اگلی رات، جب سڑک پر فضائیہ اور شاہی گارڈ کے درمیان وہ عجیب ٹکراؤ ہوا تو لوگ فورا فضائيہ کی مدد کے لئے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے، مطلب یہ کہ خوف وغیرہ درکنار ہو گئے، یہ بہت اہم مسئلہ ہے، یہ بہت عجیب چیز ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 19 بہمن (8 فروری) کا دن گزشتہ برسوں کے دوران بھی، پچھلے کچھ عشروں سے لے کر آج تک ایسا ہی رہا ہے، یعنی یہ دن ہمیشہ 22 بہمن (11 فروری) کا ہراول دستہ رہا ہے، یعنی آج کی طرح کہ آپ لوگ اکٹھا ہوتے ہیں اور اس کی خبر پھیل جاتی ہے۔ یہ چیز اس دن کی یاد دلا کر لوگوں میں جوش و جذبہ پیدا کر دیتی ہے اور 11 فروری کا دن ایرانی قوم کی عظمت کا دن ہے، ایرانی قوم کی عزت کے اظہار کا دن ہے۔ ان چالیس پینتالیس برسوں میں ہر سال 22 بہمن نے عوام کی عظمت کو نمایاں کیا ہے۔ ان برسوں میں 8 فروری کا دن بھی ایسا ہی رہا ہے، یعنی وہ پھر 11 فروری کا ہراول دستہ اور اس دن کی گہری تاثیر کا پیش خیمہ بنا ہے۔ یعنی اُس سال کا یہ پرشکوہ دن لوگوں کو یاد آ جاتا ہے اور جوش و جذبے میں اضافہ کر دیتا ہے۔

حادثات و واقعات عام طور پر کچھ حقائق کے حامل ہوتے ہیں۔ مختلف حادثات و واقعات کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے، قدرتی حادثات کو بھی اور انسانی واقعات کو بھی۔ جو بھی واقعہ ہوتا ہے، اس کا ایک پیغام ہوتا ہے، وہ ہمیں ایک حقیقت دکھاتا ہے، یہ واقعہ بھی ایسا ہی ہے، 8 فروری 1979 کے اس واقعے نے بھی کچھ حقائق دکھائے جن میں سے سب سے اہم یہ تھا کہ اس نے نئے نظام میں تشکیل پانے والی نئي فوج کی ماہیت اور حقیقت کو عیاں کر دیا۔ 8 فروری کے دن نے سبھی کو دکھا دیا کہ مستقبل کی فوج، انقلاب کی فوج اور نئے نظام کی فوج کس طرح کی ہے، اس کی ماہیت کیا ہے، اس کے اجزاء کیا ہیں، یہ چیزیں اس دن ہی پتہ چل گئيں۔

8 فروری کے دن نے دکھایا کہ نئي فوج ایک ایسی فوج ہے جو ایک تو پوری طرح سے عوامی ہے۔ عوامی ہی تو تھی، یہ لوگ وہیں گئے جہاں روزانہ ہزاروں لوگ جاتے تھے اور امام خمینی سے بیعت کرتے تھے، یہ لوگ بھی وہیں گئے اور امام خمینی سے بیعت کی۔ تو اس نے دکھایا کہ فوج عوامی ہے، انقلابی ہے کیونکہ وہ رہبر کے سامنے کھڑی ہوئي اور انھیں سیلیوٹ کیا، اطاعت کا اظہار کیا۔ اس نے دکھایا کہ فوج مومن ہے، ان لوگوں میں روحانیت پر ایمان اور اسلام پر ایمان کی علامتیں بالکل نمایاں دکھائي دے رہی تھیں۔ اس نے دکھا دیا کہ مستقبل کی فوج، ایک مومن فوج ہوگي۔

اس نے دکھایا کہ وہ ایک ایسی فوج ہے جو ڈسپلن کی پابند ہے - آپ دیکھیے، اس تصویر میں پوری طرح ڈسپلن ہے - اور خطروں سے کھیلنے والی ہے، اس دن پتہ نہیں تھا کہ انقلاب کا انجام کیا ہوگا؟ اس وقت تک کچھ بھی واضح نہیں تھا۔ فوجیوں کو ڈیوٹی پر بلانے کا حکم انہی دنوں کا ہے، وہ مسلسل ڈیوٹی پر تھے۔ اس وقت کرفیو لگا ہوا تھا، مطلب یہ کہ کچھ بھی واضح نہیں تھا کہ نتیجہ کیا ہوگا، ممکن تھا کہ وہی حالات ایک مہینے بعد تک، دو مہینے بعد تک جاری رہتے، اس صورت میں ان لوگوں کا برا حال کر دیا جاتا۔ ان لوگوں کو نہیں پتہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے، لیکن انھوں نے خطرہ مول لیا، شجاعت دکھائي اور امام خمینی کے پاس آ گئے۔ اس چیز نے دکھا دیا کہ مستقبل کی فوج، خطرہ مول لینے والی ہے اور انصاف سے کہا جائے تو ان پچھلے تمام برسوں میں فوج نے خطرے مول لیے ہیں۔ ان چیزوں نے دکھایا کہ فوج جارح کے مقابلے میں پوری طرح متحد قوت ہے، البتہ اس وقت جارح، امریکا کے پٹھو تھے، پہلوی حکومت کے پٹھو تھے، بعد میں دوسرے جارحین بھی سامنے آئے، فوج ان سب کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوئي۔

تو اُس دن کی اِس تصویر کو -جو پوری وضاحت کے ساتھ آپ کے ذہن میں ہے، میرے بھی ذہن میں ہے- صحیح طریقے سے اپنے ذہن میں مجسم کیجیے،  وہی تصویر جو اس دن اخبارات میں شائع ہوئي تھی اور ان برسوں کے دوران سبھی نے اس تصویر کو دیکھا ہے۔ امام خمینی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں، قوت و طاقت کے مظہر، وقار کے مظہر، غیر متزلزل ایمان کے مظہر، پوری طرح سے واضح ہے، ایک پہاڑ کی طرح، کوہ دماوند کی چوٹی کی طرح، یہ امام خمینی ہیں۔ اسی عظیم، مضبوط اور باوقار انسان کی نگاہیں، شاہی دور کی فوج سے وابستہ جوانوں پر ہیں اور وہ شفقت بھری نظروں سے ایک باپ کی طرح انھیں دیکھ رہے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت تک، پہلوی فوج کا ہی حصہ تھے لیکن ان جوانوں کو امام خمینی پدرانہ شفقت کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، پوری عطوفت و محبت کے ساتھ، مکمل اعتماد کے ساتھ۔ اس دن ایک شخص نے بھی یہ نہیں سوچا کہ ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کے درمیان کوئي ایسا ہو جو بری نیت سے آيا ہو۔ نہیں، امام خمینی نے پورے اعتماد اور مکمل یقین کے ساتھ ان لوگوں کو دیکھا، ایک طرح سے ان لوگوں سے سلامی لی اور ان سے بات کی۔ تو یہ نئي فوج کا ایک آئيڈیل بنا، یعنی پتہ چل گيا کہ نئي فوج اس طرح کی ہوگي۔

تمام دیکھنے والوں کے ذہن میں یہ بات واضح ہو گئي کہ مستقبل میں صورتحال یہ ہوگي۔ عزم کے ساتھ، صحیح فیصلے کے ساتھ، خطرے مول لے کر، ایمان کے ساتھ اور طاقت و عزت کے اس محور سے دلبستگي کے ساتھ فوج تشکیل پائے گي اور ایسا ہی ہوا، فوج کو امام خمینی کے ساتھ کھڑا ہونا تھا اور وہ کھڑی ہوئي اور انقلابی بنی رہی۔

ایک بات، جس پر حقیر ہمیشہ تاکید کرتا ہے، "انقلابی باقی رہنا" ہے۔ بعض لوگ انقلابی ہیں لیکن انقلابی باقی نہیں رہتے، انقلابی بن جاتے ہیں لیکن انقلابی رہ نہیں پاتے، فوج انقلابی بنی رہی۔ میں آپ سے عرض کروں کہ انقلاب کے پہلے دن سے میں فوج میں تھا، انقلاب کے ایک دم شروع کے دنوں سے میں فوج میں تھا، فوج کے مختلف شعبوں میں میری آمد و رفت رہتی تھی، سبھی سے میرا رابطہ تھا۔ آج ہماری فوج - اسلامی جمہوریہ کی فوج - ان ابتدائي دنوں سے کہیں زیادہ انقلابی ہے، جوش و ہیجان والے دنوں سے زیادہ مومن ہے، زیادہ باایمان ہے، زیادہ تیار ہے، جتنا وقت گزرتا گيا ہے، فوج زیادہ خالص ہوتی گئی ہے۔ اُس وقت انھوں نے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھی تھی، وہ جوان جو مدرسۂ علوی میں امام خمینی کی خدمت میں پہنچے تھے اور انھیں سیلیوٹ کیا تھا، انھوں نے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھی تھی، اس کے بعد بھی فوج نے اپنی جان اپنی ہتھیلی پر رکھی، ملک کی تقسیم کی سازش کے مسئلے میں - آپ جانتے ہی ہیں، ملک کے مغرب میں، ملک کے مشرق میں، شمال میں تقسیم کی سازش تھی - فوج میدان میں آ گئي، اس نے بہت سختیاں بھی برداشت کیں، بہت قربانیاں بھی دیں لیکن ڈٹی رہی۔

مقدس دفاع کے معاملے میں بھی ایسا ہی تھا۔ مقدس دفاع کے دوران فوج کے سلسلے میں میری بہت سی یادیں ہیں، بیان بھی کر چکا ہوں، اسی وقت، جن چیزوں کو میں نے قریب سے دیکھا تھا، انھیں آ کر نماز جمعہ میں عوام کو بتاتا تھا۔ فوج ڈٹ گئي، عوام کے ساتھ کھڑی ہو گئي، شجاعت کے ساتھ ڈٹ گئي، ایثار کے ساتھ ڈٹ گئي۔ جہاں بھی ضرورت ہوئي، فوج نے اپنا کردار ادا کیا۔ مقدس دفاع کے بعد بھی ایسا ہی تھا۔ جب بھی ضروری ہوا، جہاں بھی ضروری ہوا، فوج نے کردار ادا کیا۔

میں یہیں پر یہ بات بھی کہتا چلوں کہ فوج میں جو تبدیلی آئي ہے اس کے مدنظر، آج کی فوج، اسلامی جمہوریہ کی فوج کا پہلوی دور کی فوج سے موازنہ، ہمارے انقلاب کی حقیقت اور تشخص کا تعارف کرانے والے عناصر میں سے ایک ہے۔ آپ اِس فوج کا اُس فوج سے موازنہ کیجیے، موازنے کی کسوٹیاں موجود ہیں، سب کی نظروں کے سامنے ہیں اور کوئي پوشیدہ چیز نہیں ہے۔ یہ موازنہ بتاتا ہے کہ انقلاب کیا ہے اور انقلاب کیا کر سکتا ہے، انقلاب کیا عظیم الشان اکسیر ہے جو کسی بھی تشخص کو اس طرح اعلی مدارج کی طرف بڑھا سکتا ہے۔

تو انقلاب سے پہلے کی فوج، پہلوی دور کی فوج بڑے طمطراق والی فوج تھی، آپ میں سے بعض کو تو شاید یاد ہو لیکن اکثر کو پتہ نہیں ہوگا کیونکہ آپ نے وہ دن دیکھے نہیں ہیں جب فوج، ایک بڑے طمطراق والی، بڑی مہنگی اور بڑی گھمنڈی تھی لیکن یہی گھمنڈی فوج، اکتوبر 1941 کے واقعے میں، جب ملک پر حملہ ہوا تھا، کچھ گھنٹوں سے زیادہ ٹک نہیں پائي تھی، بڑے بڑے دعوے کرنے والی طمطراق والی فوج، تباہ ہو گئي۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ اس سے پہلے، ایک ایسا شخص ملک کا سربراہ تھا جو خود فوجی تھا - رضا خان فوجی ہی تو تھا - اور جتنی بھی اس کی طاقت تھی، فوج پر کام کرتا تھا، کوشش کرتا تھا، اپنی طاقت نافذ کرتا تھا۔ یہی فوج، جو رضا خان کے زیر نگرانی تھی، اکتوبر 1941 میں کچھ گھنٹے سے زیادہ ٹک نہیں پائي، استقامت نہیں کر پائي، وہ استقامت بھی ان لوگوں نے کی، جن لوگوں نے ذاتی طور کوشش کی تھی۔ ان کچھ گھنٹوں میں، ملک کے مغرب میں، کرمانشاہ اور اس کے آس پاس کچھ مزاحمت ہوئي، وہاں کا کمانڈر، اچھا کمانڈر تھا، ایثار پیشہ تھا، ان لوگوں نے اپنی جان دے دی، ان لوگوں نے دو تین گھنٹے استقامت کی لیکن شہید ہو گئے۔ اس طرح کی بھی کچھ مثالیں تھیں لیکن بہت کم تھیں۔ فوج پوری طرح تباہ ہو گئي۔ وہ طمطراق والی، بڑے بڑے دعوے کرنے والی اور گھمنڈی فوج استقامت نہیں دکھا سکی۔

اس کے بعد محمد رضا کے دور میں ایک بار پھر فوج کی عمارت تعمیر کرنے اور اس کی تقویت کی کوشش کی گئي۔ انھوں نے ایک ایسی فوج تیار کی جس نے 19 اگست 1953 کو امریکی اور انگریز جاسوسوں کے ساتھ مل کر عوامی تحریک کے خلاف قیام کیا اور لوگوں کی سرکوبی کی۔ اس وقت کی فوج ایسی تھی، تشخص سے عاری فوج، اغیار کے تسلط کے سامنے مغلوب فوج۔ اس وقت کی فوج کے کسی بریگیڈیئر جنرل میں، امریکا کے معمولی سے فوجی افسر کے سامنے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ یہ برادران، جو انقلاب کے اوائل میں پہلوی دور کے جنرل اور کرنل کی رینک کے تھے - جیسے مرحوم ظہیر نژاد اور مرحوم سلیمی وغیرہ، یہ دیندار لوگ تھے اور ہمارے دوست بن گئے تھے - ایران کے اعلی فوجی افسران، جنرلوں اور بریگيڈیئر جنرلوں کے ساتھ امریکیوں کے رویے کے بارے میں کچھ واقعات بیان کرتے تھے کہ وہ کتنا حقارت آمیز سلوک کر تے تھے۔

بے تحاشا پیسے دے کر امریکیوں سے جنگي طیارہ خریدتے تھے، فضائيہ کے تکنیکی افسر یا اس وقت کی فضائیہ کے 'ہمافر دستے' (شاہ کی فضائیہ کے مخصوص دستے) کے افسر کو طیارے کے پرزے کھولنے، دیکھنے اور پہچاننے کا حق نہیں تھا، اس لیے کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھ جائے کہ کیا ہو رہا ہے۔ طیارے کے پیسے دیے ہیں، خریدا ہے، ان کا اپنا ہے، قوم کا پیسہ ہے لیکن اس افسر کو اسے کھول کر دیکھنے کا حق نہیں تھا۔ یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ اس پرزے کو طیارے کے اندر رکھتے تھے اور امریکا لے جاتے تھے، جو ان کا دل چاہتا تھا کرتے تھے، اس کے بدلے میں ایک دوسرا پرزہ لے کر آتے تھے اور پھر اس کے بدلے میں دوبارہ بے حساب پیسے لیتے تھے، ان کا تسلط اس طرح کا تھا۔ اس وقت فوج، اس طرح کی تھی، مار کھانے والی، مغلوب، اغیار کے حملوں کا نشانہ۔

آئيے اب آج کی فوج کو دیکھتے ہیں، آج فوج خودمختاری اور ثبات و قوت کا مظہر ہے۔ آج فوج کا وقار ہے، عوام کی نظروں میں بھی پر وقار ہے اور حکام کی نظروں میں بھی پر وقار ہے۔ قابل اعتماد ہے، عوام بھی فوج پر بھروسہ کرتے ہیں اور حکام بھی اس پر اعتماد کرتے ہیں، اُس وقت ایسا نہیں تھا۔ اس وقت وہ حکام تک، جنھوں نے فوج کو اوپر اٹھایا تھا، بدگمانی کے ساتھ اسے دیکھتے تھے۔ اس وقت فوج کو عوام سے کوئي مطلب نہیں تھا، آج فوج عوام کے ساتھ ہے اور ان کے ساتھ کھڑی ہے، عوام کا حصہ ہے۔ ایسے تمام واقعات میں جہاں عوام کی موجودگي ہے، انسان دیکھتا ہے کہ وہاں فوج بھی موجود ہے۔

آج فوج، امریکیوں سے بھاری قیمت پر خریدے گئے جنگي طیارے کے کسی پرزے کو دیکھنے اور ہاتھ لگانے کا حق نہ رکھنے کے بجائے خود ہی وہ جنگي طیارہ بنا رہی ہے اور اسے بنانا آتا ہے۔ آج فوج کل پرزے بنانے میں، بڑے بڑے کام انجام دینے میں، حیرت انگیز کام کرنے میں، جیسے یہی کام جو کل ٹیلی ویژن پر دکھایا گيا(4) اور جناب بریگیڈیئر جنرل موسوی(5) اور دیگر عہدیداران وہاں موجود تھے، عوام کے لیے مسرت اور عزت کے احساس کا باعث ہے۔ فوج آج تعمیر کرنے والی ہے، موجد ہے، نئی ایجادات کرنے والی ہے، وہ بھی پابندیوں کے ماحول میں جو بہت اہم ہے،  نہ تو پیسے جانے دیتے ہیں اور نہ ہی مال آنے دیتے ہیں، فوج اس طرح کے عظیم کارنامے انجام دے رہی ہے۔ فوج بھی اور سپاہ پاسداران بھی اور کل ملا کر ہماری مسلح فورسز، سبھی بڑے بڑے کام کر رہی ہیں۔ فوج آج ان چیزوں کا مظہر ہے، وہ کام جو آج ہمارے جوان انجام دے رہے ہیں، وہ ہر دیکھنے والے کو مبہوت کر دیتے ہیں، آج فوج کے جوان بیٹھ کر بڑے کاموں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، چاہے وہ ساز و سامان کے لحاظ سے ہو یا آرگنائز کرنے کے لحاظ سے ہو۔

00000

ان کا ایک روحانی نتیجہ بھی ہے جو ان سب سے بڑا ہے۔ مطلب یہ کہ جب آپ کام کرتے ہیں، کوشش کرتے ہیں، مزاحمت کرتے ہیں، استقامت کرتے ہیں تو ان میں سے ہر چیز اقدار کا حصہ ہے، لیکن جب یہ ساری اقدار اکٹھا ہو جاتی ہیں تو پھر "اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذینَ یُقاتِلونَ فی سَبیلِہِ صَفًّا کَاَنَّھُم بُنیانٌ مَرصوص"(6) بن جاتی ہیں۔ آپ خدا کے پسندیدہ بن جاتے ہیں۔ خدا کا محبوب ہونا، ان تمام چیزوں سے بالاتر ہے جن کا میں نے ذکر کیا۔ آپ نے یہ کر دکھایا یعنی فوج، اس طرح کے عظیم کام کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

خیر تو قوم بھی فوج کی قدر سمجھتی ہے اور حکام و عہدیدار بھی، آپ بھی اپنے ادارے کی قدر سمجھیے۔ فوج والوں کو فوج کے ادارے کی قدر سمجھنی چاہیے۔ آپ کے اچھے مضبوط پہلو ہیں، ان میں اضافہ کیجیے۔ کچھ کمزور پہلو بھی ہیں، ان کمزور پہلوؤں کو پہچانیے، انھیں کم کیجیے اور مضبوط پہلوؤں کو بڑھائيے، فوج کے ادارے کی قدردانی یہ ہے۔ فخر محسوس کیجیے، فخر کیجیے کہ آپ اسلامی جمہوریہ کی فوج کا حصہ ہیں۔ واقعی یہ قابل فخر ہے۔ خدا شہید قرنی کو غریق رحمت کرے، انقلاب سے پہلے، آخری دنوں میں ہم سے ان کا رابطہ ہوا تھا۔ پھر جب انقلاب آ گيا اور انھیں ذمہ داری سونپی گئي - میں بھی انقلابی کونسل کا رکن تھا اور ہم ایک دوسرے سے ملتے رہتے تھے - تو میں نے ان سے کہا کہ میں فوج میں آنے کے لیے تیار ہوں - اس وقت میں بھی جوان تھا - میں نے کہا کہ میں فوج کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوں، مجھے رینک بھی نہیں چاہیے، زیادہ نہیں بس ایک اسٹار! انھوں نے کہا کہ تم آؤ، میں تھمیں کرنل کی رینک دوں گا جو اس وقت سب سے بڑی رینک تھی۔ مطلب یہ کہ انسان کو فخر ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسی فوج کا حصہ ہو، ایک ایسے عسکری ادارے کا حصہ ہو۔ خیر تو یہ کچھ باتیں تھیں جو میں نے فوج کے بارے میں اور 19 بہمن (8 فروری) کے بارے میں عرض کیں۔

انقلاب کے بارے میں، میں بہت ہی اختصار سے عرض کروں گا۔ 22 بہمن (11 فروری) آ ہی گئي ہے۔ دو تین دن کے بعد 11 فروری ہے۔ 11 فروری ایرانی قوم کی تحریک اور افتخار کا عروج ہے۔ اس سال کی 11 فروری، پچھلے برسوں کی 11 فروری کی طرح ایرانی قوم کی شناختہ شدہ تاریخ کے سب سے پرشکوہ دن کی یاد دلانے والی ہے۔ یعنی ہم اپنی طویل تاریخ میں، جہاں تک ہم جانتے اور پہچانتے ہیں، ایرانی قوم کے لیے کوئي بھی دن 11 فروری سے زیادہ افتخار آمیز نہیں ہے۔ البتہ ہماری تاریخ میں پرافتخار دن رہے ہیں لیکن ان میں سے کوئي بھی 11 فروری جیسا اور 11 فروری کی عظمت والا نہیں ہے جس میں ایرانی قوم اپنی عزت کو، اپنی طاقت کو، اپنی توانائي کو، اپنے عزم مصمم کو اس طرح حاصل کر سکے۔ اگلے برسوں کی 11 فروری بھی اسی دن کی یاد دلانے والی ہے۔  11 فروری کو زندہ رکھا گيا ہے، اسے زندہ رہنا ہی چاہیے۔ انقلاب اس وقت زندہ رہتا ہے جب وہ اپنی زینتوں کو زندہ باقی رکھے۔ زندہ انقلاب وہ انقلاب ہے جو ہر زمانے میں اپنی ضرورتوں کو پہچانے، اپنے سامنے موجود خطروں کو پہچانے، ان ضرورتوں کو پورا کرنے کا راستہ تلاش کرے، ان خطروں کو ناکام بنانے کی راہ تلاش کرے، ایسا انقلاب زندہ رہتا ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ تاریخ کے بڑے انقلاب زندہ نہیں رہ پائے، جیسے فرانس کا انقلاب کبیر، روس کا انقلاب کبیر زندہ نہیں بچے، ختم ہو گئے، تلخ، سخت اور عجیب و غریب آمریت میں تبدیل ہو گئے یا پھر پہلے کی حالت پر لوٹ گئے - جیسے فرانس میں انقلاب آنے کے بعد، ان سارے واقعات و حادثات کے بعد، اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے مارے جانے اور اتنی زیادہ پریشانیوں کے بعد، نیپولیئن برسر اقتدار آیا جو ایک بادشاہ تھا، آمر تھا، اس نے تو پھر بھی فرانس کے لیے کچھ کارنامے کیے لیکن اس کے بعد وہی سلسلۂ حکومت دوبارہ اقتدار میں آ گيا جسے انقلاب کے ذریعے ختم کیا گيا تھا، وہی لوگ جنھیں انقلابیوں نے ملک سے باہر نکال دیا تھا، دوبارہ لوٹ آئے اور تخت سلطنت پر براجمان ہو گئے اور دسیوں برس تک انھوں نے حکومت کی۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے انقلاب کی ضرورتوں کو، انقلاب کو لاحق خطرات کو، انقلاب کے تقاضوں کو نہیں سمجھا، ان پر توجہ نہیں دی، اپنے ذاتی جھگڑوں اور مسائل میں الجھے رہے، جس دن فرانس کا انقلاب کامیاب ہوا، اس دن سے لے کر نیپولیئن کے دوبارہ اقتدار میں آنے تک تقریبا دس گيارہ سال کا وقت لگا، حکمراں کمیٹی نے تین بار تشدد اور طاقت کے بل پر تبدیلیاں کیں اور ان میں سے جو بھی برسر اقتدار آيا، اس نے پچھلے والوں کو قتل کر دیا، قلع قمع کر دیا، اپنے ذاتی مسائل کے لیے، فضول کی سوچ کی وجہ سے، اس طرح کی صورتحال تھی۔

زندہ انقلاب، وہ انقلاب ہے جو اپنے آپ کو ان مصیبتوں سے محفوظ رکھ سکے۔ اسلامی جمہوریہ کے انقلاب نے اپنے آپ کو محفوظ رکھا۔ جی ہاں، ہمارے سامنے بھی کچھ مشکلات تھیں، ان چالیس پینتالیس برسوں میں حوصلہ اور کوشش ایک جیسی نہیں تھی، کچھ حکومتوں کا حوصلہ زیادہ بہتر اور بھرپور تھا، بعض کا کچھ کم تھا، بعض کی تشخیص زیادہ صحیح تھی، بعض کی اتنی صحیح نہیں تھی، مختلف حالات اور مختلف صورتحال تھی لیکن سفر بہرحال تسلسل کے ساتھ چوٹی کی جانب جاری تھا، پیشرفت کی جانب سفر جاری تھی، مادی پیشرفت کی طرف بھی اور روحانی پیشرفت کی طرف تھی۔ آپ نے دیکھا کہ سنہ دو ہزار کے عشرے میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں کس قدر استہزائيہ لطیفے بنائے گئے، رپورٹوں میں بتایا گيا ہے کہ اس سال کے اعتکاف میں سنہ دو ہزار کے عشرے میں پیدا ہونے والے نوجوانوں کی تعداد تقریبا ستّر فیصدی تھی۔ ایرانی قوم نے روحانی لحاظ سے بھی پیشرفت کی ہے اور مادی لحاظ سے بھی۔ میں نے فوج کی طرف اشارہ کیا، اس سے دسیوں گنا زیادہ غیر فوجی اور مختلف اداروں میں پیشرفت ہوئي ہے۔ جدت عمل، پیشرفت، خلّاقیت، بھرپور صلاحیت، مضبوط بیانیہ، ہر جگہ پھیلی ہوئي ہے، یہ انقلاب کی پیشرفت ہے۔ یہ انقلاب زندہ ہے۔ زندہ ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ وہ ان ضرورتوں کو پورا کرے اور انھیں عملی جامہ پہنائے۔

تو ہم نے عرض کیا کہ یہ ضروریات، ان پچھلے کچھ عشروں میں بڑی حد تک - عوام کی جانب سے تو زیادہ بہتر اور حکام کی جانب سے بھی کافی حد تک - پوری ہوئي ہیں، البتہ ہم تمام ذمہ داروں کو، ہم چاہے جہاں بھی ہوں، اس سے زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ خیر، یہ ضرورت آج بھی ہے، آج ضرورتیں زیادہ ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان میں سے ایک پر توجہ دیجیے اور میں ان میں سے ایک ضرورت کو تاکید کے ساتھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہے، 'قومی اتحاد'۔ ہماری آج کی ضرورتوں میں سے ایک قومی اتحاد ہے۔ قومی اتحاد، دشمن کے مقابلے میں ایک باندھ ہے، ایک فلک بوس سیسہ پلائي ہوئي دیوار ہے۔ قومی اتحاد وہی چیز ہے جس نے انقلاب کی کامیابی میں اور بعد میں انقلاب کی پیشرفت میں بڑا عظیم کردار نبھایا ہے۔ آج ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ اس اتحاد کو جتنا زیادہ ممکن ہو بڑھائيں، دشمن اس کے ٹھیک مقابلے میں کام کر رہا ہے۔ دشمن کی چال ہمارے لیے پوری طرح عیاں ہے، یعنی ہمیں دشمن کی چال میں کوئي شک یا ابہام نہیں ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں دشمن کی سازش کو سمجھنا چاہیے، اس کا تجزیہ کرنا چاہیے، اس کے لیے چارہ جوئي کرنی چاہیے۔ خیر، ہم دشمن کی چال کو سمجھتے ہیں۔

اس کا کچھ حصہ تو خود دشمن نے ہی فاش کر دیا، کچھ حصہ یہاں اس کے بے عقل پٹھوؤں نے فاش  کر دیا، کچھ حصہ، ان اداروں کی رپورٹوں نے واضح کر دیا جو یہ رپورٹیں تیار کرتے ہیں، دشمن کی چال واضح ہے۔

اس کا ایک ہدف ہے، ایک اسٹریٹیجی ہے اور کچھ ٹیکٹکس۔ دشمن کا ہدف، انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کو گھٹنوں پر لانا ہے۔ البتہ وہ اس سلسلے میں جھوٹ بولتے ہیں۔ دس پندرہ سال پہلے امریکا کے صدر(7) نے مجھے ایک خط لکھا۔ خط میں انھوں نے صاف صاف لکھا تھا کہ ہم آپ کے نظام کو بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتے، اسی وقت ہمارے پاس ایسی رپورٹیں تھی کہ وہ لوگ اپنے خصوصی مراکز میں یہ غور کر رہے تھے کہ کس طرح اسلامی نظام کو، اسلامی جمہوریہ کو پلٹا اور ختم کیا جا سکتا ہے! تو وہ جھوٹ بولتے ہیں، ان کا ہدف یہ ہے۔ وہ کیوں اسلامی جمہوریہ کو گھٹنے پر لانا اور ختم کرنا چاہتے ہیں؟ اس کے کئي اسباب ہیں۔ بھئي اسلامی جمہوریہ نے اس اہم، اسٹریٹیجک، فائدے سے بھرے ہوئے اور قدرتی اور انسانی لحاظ سے مالامال علاقے کو ان کے چنگل سے باہر نکال لیا ہے، ایک وجہ یہ ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس اسلامی جمہوریہ نے خودمختار رہنے اور غنڈہ ٹیکس نہ دینے کی آواز اٹھائي ہے۔ غور کیجیے! وہ لوگ جو امریکا اور عالمی سامراج سے الگ اور خودمختار رہنا چاہتے ہیں، صرف ہم نہیں ہیں، دوسرے ممالک بھی ہیں جو خودمختار رہنا چاہتے ہیں، وہ ان کے تابع فرمان نہیں رہنا چاہتے، فرق یہ ہے کہ یہ ان کے لیے ایک پالیسی ہے، ہمارے لیے ایمان اور مذہبی عقیدہ ہے، یہ اہم ہے، دشمن کے لیے جو چیز اہم ہے، وہ یہ ہے۔

جی ہاں! ملکوں کی پالیسی یہ ہے کہ امریکا کے تابع فرمان نہ رہیں لیکن لین دین سے، بات چیت سے، مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے، شاید میز کے نیچے کچھ (رشوت) دینے سے مثال کے طور پر کچھ بااثر افراد کو میز کے نیچے سے کچھ دینے سے یہ پالیسی بدل جاتی ہے۔ کیا آپ دنیا میں یہ نہیں دیکھتے؟ آج کسی بات کا اعلان کرتے ہیں، کل اس کے بالکل برخلاف بات کا اعلان کرتے ہیں! جی ہاں! خودمختاری کی پالیسی ہے، غنڈہ ٹیکس نہ دینے کی پالیسی ہے، لیکن پالیسی اٹل نہیں ہے، اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ یہاں ایسا نہیں ہے، یہاں خودمختاری اور غنڈہ ٹیکس نہ دینا، ایمان ہے۔ دین کی تعلیم ہے۔ وَ لا تَرکَنوا اِلَى الَّذینَ ظَلَموا فَتَمَسَّکُمُ النّار(8) بھروسہ نہ کرو، اعتماد نہ کرو تُسِرّونَ اِلَیھِم بِالمَوَدَّۃ(9) اِنَّما یَنھاکُمُ اللَہُ عَنِ الَّذینَ قاتَلوکُم فِی الدّینِ وَ اَخرَجوکُم مِن دِیارِکُم(10) یہ قرآن کی آیتیں ہیں۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ اس مستکبر پر، اس ظالم پر، اس ظالم حکومت پر اعتماد نہ کرو۔ یہ ایمان قابل خرید و فروخت نہیں ہے۔ جو اپنے اس ایمان کی حد پار کر جانے کے لیے تیار ہے وہ اس نظام میں خدمت کرنے کی اپنی اہلیت کو کھو دیتا ہے، فرق اس بات میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ اسلامی جمہوریہ پر توجہ دے رہے ہیں، سب سے زیادہ ہم سے دشمنی کر رہے ہیں، وہ اپنی طاقت کا دائرہ دوسروں تک بھی بڑھانا چاہتے ہیں لیکن یہاں کے لیے ان کی یہ نیت کئي گنا زیادہ ہے، اسی وجہ سے ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کی جو خصوصیات ہیں، قدرتی خصوصیات، انسانی صلاحیتیں، جغرافیائي امتیازات، موسمی خصوصیات، ساری چیزیں، ان کے علاوہ یہ اہم خصوصیت بھی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ایک خودمختار حکومت رہے، کسی کے تابع فرمان نہ رہے، غنڈہ ٹیکس نہ دے، منہ زوری برداشت نہ کرے، یہ چیزیں ایمان سے حاصل ہوتی ہیں، اس لیے ان کا ہدف یہ ہے۔ بنابریں دشمن کا ہدف، اسلامی جمہوریہ کو گھٹنوں پر لانا ہے، ہدف یہ ہے۔

اسٹریٹیجی کیا ہے؟ اختلاف پیدا کرنا، عدم اعتماد پیدا کرنا، سیاسی حلقوں کے درمیان ایک دوسرے کے سلسلے میں عدم اعتماد پیدا کرنا، عوامی گروہوں کے درمیان ایک دوسرے سے بدگمانی پیدا کرنا، حکومت سے عوام کا اور عوام سے حکومت کا عدم اعتماد، اِس پر اُس کا اعتماد نہ کرنا، یہ ادارہ، اس ادارے پر اعتماد نہ کرے، ایک دوسرے سے بدگمان رہیں۔ جب عدم اعتماد پیدا ہو جائے گا اور مستقبل کے سلسلے میں امید بھی ختم ہو جائے گي۔ فطری طور پر کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں، ان اختلافات کو خلیج میں نہیں بدلنے دینا چاہیے۔ کبھی عورت کے بارے میں بحث چھیڑ دیتے ہیں، کبھی شیعہ سنی اختلافات کی بات کرتے ہیں، کبھی جنریشن گيپ کا مسئلہ اٹھاتے ہیں، کبھی کچھ دوسرے مسائل پیش کرتے ہیں تاکہ اختلاف پیدا کر سکیں، دشمن کی اسٹریٹیجی اختلاف پیدا کرنا ہے۔ البتہ اس کے لیے ٹیکٹکس مختلف ہیں، ہمیشہ ایک الگ ٹیکٹک استعمال کرتے ہیں، ان کی سب سے اہم ٹیکٹک جھوٹ بولنا اور افواہ پھیلانا ہے، وہ یہ کام کرتے ہیں تاکہ اختلاف پیدا کر سکیں۔ تو جب ہم دیکھتے ہیں کہ دشمن نے اتحاد کو اپنے حملوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے تو ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اس اتحاد کو، اس وحدت کو محفوظ رکھیں، دشمن کو اس کی اس پلید خواہش میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ یہ اس چیز کے نمونے ہیں جو پائي جاتی ہے۔

اللہ کی توفیق سے اس سال 11 فروری عوام کی موجودگي، عوام کی عزت اور ایک دوسرے پر عوام کے اعتماد کی مظہر ہے، قومی اتحاد کی مظہر ہے۔ تمام عزیز عوام سے میری سفارش یہ ہے کہ کوشش کریں کہ اس جلوس کو، اس بڑے دن کو، اس پرشکوہ اقدام کو قومی اتحاد و وحدت کا مظہر قرار دیں اور دشمن کو یہ واضح پیغام دے دیں کہ قومی اتحاد کو ختم کرنے کی اس کی سازش، ناکام ہو چکی ہیں اور وہ عوام کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا، عوام کو نظام سے دور نہیں کر سکتا، نظام کو عوام سے بدگمانی میں مبتلا نہیں کر سکتا، مختلف عوامی گروہوں کو ایک دوسرے سے لڑنے کے لئے نہیں ورغلا سکتا۔ معاشرے میں سیاسی اختلاف، نظریاتی اختلاف اور فطری اختلاف میں کوئي حرج نہیں ہے لیکن اسے ٹکراؤ، الزام تراشی وغیرہ پر منتج نہیں ہونا چاہیے۔ یہ وہ اسٹریٹیجی ہے جو ہمیں دشمن کی اسٹریٹیجی کے مقابلے میں اختیار کرنی چاہیے۔ اگر ہم عزم کریں، نیت کریں تو خداوند عالم بھی ان شاء اللہ  مدد کرے گا۔

میری باتیں ختم ہوئیں، شام اور ترکی میں اپنے مصیبت زدہ بھائيوں کے لیے ہم دکھی ہیں۔(11) اور اللہ تعالی سے ان کے مرحومین کے لئے رحمت و مغفرت اور ان کے سوگواروں کے لئے صبر کی دعا کرتے ہیں۔ ہم خود بھی (زلزلے کا) شکار ہو چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ جب زلزلہ آتا ہے اور جب کچھ خانوادے اپنے عزیزوں کو کھو دیتے ہیں تو یہ کتنا سنگین اور کتنا تلخ ہوتا ہے۔ ہم ان کے درد کو محسوس کرتے ہیں اور اللہ تعالی سے ان کے لیے صبر اور روحانی سکون کی دعا کرتے ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے عہدیداران نے ترکیہ اور شام کی کچھ مدد کی ہے اور مزید مدد کریں گے۔

خداوند عالم امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پاکیزہ روح کو مسرور کرے، وہی ہمیں اس راہ پر لے کر آئے، ہماری رہنمائي کی اور ان شاء اللہ، خداوند عالم مرحومین اور شہدا کے درجے بلند کرے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائيہ کے کمانڈر جنرل حمید واحدی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) روزنامہ کیہان

(3) جنرل ہائزر امریکی فضائیہ کا ایک جنرل تھا جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کو روکنے کے لیے بغاوت اور شاہی فوج کی قیادت سنبھالنے کی غرض سے جنوری 1979 میں ایران آيا تھا اور ایک مہینے بعد بغاوت کی سازش کی ناکامی کے ساتھ ایران سے بھاگ نکلا۔

(4) عقاب-44 کے نام سے موسوم اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائيہ کی پہلی انڈرگراؤنڈ بیس کی رونمائي

(5) اسلامی جمہوریہ ایران کے آرمی چیف، بريگيڈیر جنرل سید عبدالرحیم موسوی

(6) سورۂ صف، آیت 4، بےشک خدا ان (مجاہدوں) کو دوست رکھتا ہے جو اس کی راہ میں یوں صف بستہ ہو کر جنگ کرتے ہیں کہ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں۔

(7) باراک اوباما

(8) سورۂ ہود، آیت 113، اور خبردار! ظالموں کی طرف مائل نہ ہونا ورنہ (ان کی طرح) تمھیں بھی آتشِ دوزخ چھوئے گی۔

(9) سورۂ ممتحنہ، آیت 1، تم چھپ کر ان کو دوستی کا پیغام بھیجتے ہو۔

(10) سورۂ ممتحنہ، آیت 9، اللہ تو صرف تمھیں ان لوگوں سے دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنھوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے باہر نکالا ہے۔

(11) پیر 6/2/2023 کی صبح شام اور ترکیہ میں آنے والے دو خطرناک زلزلوں نے ان ملکوں کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچایا ہے۔