بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

عزیز بھائيو اور بہنو! آپ کا بہت بہت خیر مقدم ہے۔ آپ نے اس ٹھنڈے موسم میں اتنا لمبا راستہ طے کیا اور ہماری امام بارگاہ کو محبت، ایمان اور حمیت کی حرارت عطا کی۔ ہم بھی ہمیشہ کی طرح آپ لوگوں؛ تبریز کے لوگوں، آذربائيجان کے لوگوں سے ملاقات کے بہت زیادہ مشتاق رہتے ہیں۔ میں واقعی آذربائيجان کے لوگوں، تبریز کے لوگوں اور 18 فروری 1978 کا عظیم اور ناقابل فراموش کارنامہ انجام دینے والوں کو سلام کرتا ہوں۔

آج میں تبریز اور آذربائيجان کے سلسلے میں ایک بات عرض کروں گا، آذربائيجان کا جو گرانقدر اور درخشاں ماضی ہے وہ ان چند الفاظ میں سمٹ نہیں سکتا ہے۔ ہم نے بھی تبریز اور آذربائيجان کے بارے میں بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن اس سلسلے میں باتیں اب بھی باقی ہیں، آج بھی میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس کے بعد ملک کے مسائل کے بارے میں بھی کچھ باتیں عرض کروں گا۔

اپنی گفتگو شروع کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایرانی قوم کی عظمت کو سلام کروں، اس سال 22 بہمن (11 فروری، انقلاب کی سالگرہ) کے دن قوم ‏نے جو گرانقدر کارنامہ انجام دیا، اس کی خاطر۔ اس سال، یہ سنیچر جو گزرا ہے -11 فروری کا ‏سنیچر- ایک تاریخی سنیچر تھا، ایک تاریخی 22 بہمن تھی۔ پورے ملک میں عوام نے حقیقی معنی ‏عظیم کارنامہ انجام دیا۔ اتنا زیادہ پروپیگنڈہ، مخالفین، روز مرہ کے اتنے مسائل جنھیں لوگ اپنے ‏جسم و جان سے محسوس کر رہے ہیں، دشمنوں کے بہکاوے، کڑاکے کی ٹھنڈ، ملک کے بعض ‏حصوں میں درجۂ حرارت صفر سے نیچے، یہ سارے عوامل ایرانی عوام کے ایمان اور بصیرت کی ‏حرارت کے سامنے بے معنی ہو کر رہ گئے، لوگ اتنے زبردست طریقے سے جلوسوں میں آئے۔ عوام ‏کی اس شرکت نے بہت سے حقائق کو بیان کیا، میں اس سال کی 11 فروری کے بارے میں آگے چل کر کچھ جملے عرض کروں گا۔ فی الحال ایرانی قوم سے عقیدت کا اظہار (کرنا چاہتا ہوں): ہر جگہ، ملک ‏کے مشرقی کونے سے لے کر مغربی کونے تک،  ملک کے شمال سے جنوب تک، دور دراز کے ‏شہروں میں، صوبوں کے مراکز میں، بڑے شہروں میں، جیسے تبریز، اصفہان، مشہد اور دوسری ‏جگہوں پر، دیہاتوں تک، سبھی نے، پوری ایرانی قوم نے مل کر آواز اٹھائي، یہ چیزیں بہت قیمتی ‏ہیں۔ ملت ایران! شکر اللہ سعیکم (اللہ آپ کی کوشش کی قدردانی کرے)۔ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ شکریہ ادا کروں۔ اس کی قدردانی اللہ ہی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالی شکر ادا کرنے والا ہے: اِنَّ رَبَّنا لَغَفورٌ شَکور(2)

آپ کے ہر کام کا، آپ کے ہر اظہار خیال کا، آپ کی زبان پر آنے والے ہر لفظ کا، آپ کے ہر قدم کا، خداوند عالم شاکر ہے، حالانکہ آپ کا کام، فرض ہے۔ جو کچھ ہم کرتے ہیں، وہ خدا کے شکر کا ایک گوشہ ہے لیکن 'تَشکُرُ مَن شَکَرَکَ وَ اَنتَ اَلھَمتَہُ شُکرَک' (3) تو بھی اس کا شکریہ ادا کرتا ہے جو تیرا شکر کرتا ہے۔ ان شاء اللہ میں گفتگو میں آگے چل کر 22 بہمن (11 فروری) کے بارے میں کچھ باتیں کروں گا۔

جہاں تک تبریز کے 18 فروری 1978 (کے واقعے) کی بات ہے تو میرے خیال میں کہا جا سکتا ہے کہ 18 فروری 1978 کے دن ایران کی تاریخ کا ایک ورق پلٹ گيا، یعنی وہ دن ایک تاریخی اور فیصلہ کن دن تھا۔ اسی سال 9 جنوری 1978 کو قم میں عوام (ظالم حکومت کے خلاف) اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ بلاشبہہ قم کے لوگوں کا کام بڑا عظیم تھا اور انھوں نے پرچم اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا، 9 جنوری 1978 کو قم کا واقعہ ہو چکا تھا لیکن اسے فراموش کر دیا گيا تھا۔ 5 جون 1963 کو وہ قتل عام ہوا اور تہران، قم اور بعض دوسرے شہروں میں عظیم رد عمل سامنے آیا اور لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ جان دی، خون دیا، مرنے والوں کی تعداد بھی کافی تھی لیکن اس واقعے کو بھلا دیا گيا، وہ ختم ہو گيا۔ آمریت اور سامراج کی پالیسی یہ ہے کہ ان اہم واقعات کو، جو لوگوں کے حق میں ہیں، پروپیگنڈے کے ذریعے، مختلف طرح کے حربوں کے ذریعے، طاقت کے بل پر طاق نسیاں کی زینت بنا دیں، اگر تبریز والوں کا یہ کارنامہ نہ ہوتا تو، قم کا 9 جنوری کا واقعہ بھلا دیا جاتا۔

تبریز والوں نے کیا کیا؟ تبریز والوں نے قم کے قیام کو قومی قیام میں بدل دیا، ایک عوامی تحریک میں بدل دیا، حالانکہ قم میں سختی زیادہ تھی، حکومت کی جانب سے شدت زیادہ تھی، سڑکوں پر ٹینک لے آئے تھے، فریق مقابل کون تھا؟ عوام، علماء اور مساجد۔ علماء نے عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ قم کے لوگوں کے چہلم کے پروگرام میں شرکت کریں، فریق یہ لوگ تھی، مسلح افراد نہیں تھے لیکن حکومتی مشنری اتنا بوکھلا گئي تھی کہ وہ سڑکوں پر ٹینک لے آئي اور قتل عام کر دیا، لوگوں کو قتل کیا۔ مگر تبریز کے لوگ پیچھے نہیں ہٹے۔ انھوں نے جان دی، خون دیا، ڈٹے رہے، نعرے لگائے اور قیام کو قومی تحریک بنا دیا۔ ان کی فداکاری کی آواز پورے ملک تک پہنچ گئي۔ تبریز کے عوام کا چہلم کئی جگہ منایا گيا، اس کا مطلب یہ تھا کہ تبریز والوں کی آواز پورے ایران تک پہنچ گئي لہذا وہ ہمہ گير ہو گئي۔ ایک سال سے کم وقت میں سلطنتی آمریت والی حکومت کی بساط لپٹ گئي، تاریخ رقم کرنا یہی ہے، تاریخی موڑ یہی ہے۔

تبریز (صوبہ مشرقی آذربائیجان کا مرکز) نے اپنی مزاحمت سے، اپنی استقامت سے، اپنی شجاعت سے پچھلے تجربات کو دوہرانے نہیں دیا، ایران کی آزادی کا پرچم تبریزیوں کے ہاتھ میں ہے، اس میں کوئي تعجب نہیں ہے، آذربائيجان نے دوسرے مواقع پر بھی اس طرح کے اقدامات سے، اس طرح کے عظیم کارنامے دکھائے ہیں۔ ہمیں اس تاریخ کو جاننا چاہیے، اس تاریخ کو فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ایک دوسرے موقع پر، صفوی دور حکومت کے عروج کے زمانے میں، اسی آذربائيجان نے یعنی اسی تبریز، اردبیل اور آذربائيجان کے شہروں نے ایران کو تفرقے، ملوک الطوائفی اور اغیار کے طویل تسلط سے نجات دینے میں کامیابی حاصل کی تھی، آذربائيجان ہی تو تھا، اردبیل تھا، تبریز تھا، یہی تھے جنھوں نے ایران کو متحد کیا۔ ایران کے اتحاد سے پہلے اور ایران کی خودمختار حکومت سے پہلے، جو آج تک جاری ہے، ملک میں ملوک الطوائفی تھی۔ تیموریوں اور ان سے پہلے منگولوں اور ان کے بعد والوں کے دور میں، ملک کا ہر گوشہ، کسی ایک طائفے کے ہاتھ میں، کسی ایک  گروہ کے ہاتھ میں تھا، مشرقی علاقہ ایک طرح سے، مغربی علاقہ دوسری طرح سے، جنوب، کسی دوسری طرح سے اور شمال کسی اور طرح سے۔ آذربائیجان سے جو تحریک شروع ہوئي اس نے ایران کو متحد کر دیا۔ ایران کے اتحاد کا پرچم، آذربائيجان کے ہاتھ میں ہے، یہ حقائق ہیں، یہ تکلفات نہیں ہیں۔ آذربائيجان کی تاریخ کو صحیح طور پر بیان کرنا، اسلامی تاریخ نویسی کی ضروریات کا حصہ ہے اور سب کا فرض ہے کہ اس کام کو انجام دیں، اس کے اہل فن اور ماہر حضرات کو یہ کام انجام دینا چاہیے۔

بعد کے واقعات میں بھی ایسا ہی ہوا۔ تمباکو (کی تحریم) کے مسئلے میں بھی مرحوم الحاج میرزا جواد آقا تبریزی – الحاج میرزا جواد مجتہد – سمیت جن علاقوں کے علماء نے میرزا شیرازی کی جانب سے تمباکو کو حرام قرار دیے جانے کے معاملے میں ساتھ دیا تھا، ان میں سے ایک تبریز تھا۔ مشروطہ (آئينی) تحریک میں بھی تبریز کا کردار اہم تھا، مشروطہ تحریک کی ابتداء میں بھی جہاں ستار خان اور باقر خان وغیرہ نے کردار ادا کیا اور روس کے حملے جیسے بعد کے مختلف مسائل میں بھی، جن میں شیخ محمد خیابانی، آقا میرزا اسماعیل نوبری اور دوسروں نے کردار ادا کیا تھا، یہی لوگ تھے جنھوں نے مختلف واقعات اور معاملات میں ایران کی استقامت و مزاحمت کی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ انقلاب میں بھی ایسا ہی تھا، مقدس دفاع میں بھی ایسا ہی تھا، دفاع مقدس کے بعد سے لے کر اب تک کے واقعات میں بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ جناب آل ہاشم صاحب نے فرمایا، ان حالیہ واقعات میں بھی ایسا ہی تھا۔ تو یہ قومی طاقت کے اظہار کے پہلو سے کچھ باتیں تھیں۔

ثقافتی پہلو کے لحاظ سے بھی ایسا ہی ہے۔ آذربائيجان، مغرب میں ملک کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا مرکز ہے۔ خراسان کی طرح جو مشرق میں ملک کی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا مرکز ہے۔ ملک کی ثقافت، ایران کی روایات اور ایرانی تمدن جو پوری تاریخ میں، مغرب میں عثمانی حکومت کے زیر نگیں دور دراز علاقوں تک اور مشرق میں بابری ہندوستان (مغلوں کے زیر فرمان ہندوستان) کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچا ہے، وہ ان دو مراکز سے، آذربائيجان سے اور خراسان سے نکلا ہے۔ ایران کو ہمیشہ آذربائيجان کی اپنی علمی و ثقافتی شخصیات پر فخر رہا ہے۔ خاقانی آذربائيجانی ہیں، نظامی آذربائيجانی ہیں، بعد کے ادوار میں دیکھا جائے تو شمس تبریزی، قطران تبریزی، شیخ محمود شبستری، پھر صائب تبریزی اور یہ سلسلہ ہمارے زمانے تک پہنچتا ہے، مرحوم شہریار اور ان سے پہلے محترمہ پروین اعتصامی، یہ سب آذربائيجان کے ہیں۔ ان لوگوں نے ملک کے ادب اور ملک کے کلچر کی جو عظیم خدمات انجام دی ہیں، انھیں شمار نہیں کیا جا سکتا، وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کہ ان کے بارے میں کچھ کہا جا سکے۔

خیر تو 29 بہمن (18 فروری 1978) کے واقعے کے آگے اور پیچھے یہ واقعات ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 18 فروری کا واقعہ، ایسا واقعہ تھا جس نے تشخص پیدا کیا، ہمیں تو سبق حاصل کرنا ہے، ہم ایک دوسرے کو قصہ کہانی تو نہیں سنا رہے ہیں، ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے مستبقل کی تعمیر کے لیے اپنے ماضی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آج ہم آگے بڑھ رہے ہیں، قوم آگے بڑھ رہی ہے، ایران آگے بڑھ رہا ہے، ہمیں سبق کی ضرورت ہے، ہمیں تجربے کی ضرورت ہے، یہ سب ہمارے لیے سبق ہے۔ 18 فروری 1978 کا واقعہ، تشخص پیدا کرنے والا واقعہ تھا۔

ہر قوم مزاحمت و استقامت کے سائے میں تشخص حاصل کرتی ہے۔ جو چیز اقوام کو پہچان اور تشخص عطا کرتی ہے، شخصیت عطا کرتی ہے، عظمت عطا کرتی ہے، خود اقوام اور ان کی ثقافت کی حفاظت میں مدد کرتی ہے، وہ ان کی استقامت اور مزاحمت ہے۔ استقامت و مزاحمت کا مطلب کیا ہے؟ استقامت کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیدھا راستہ جو انسان نے تلاش کیا ہے، اس پر چلنا جاری رکھے، اس میں کجی نہ آنے دے، اقوام کی مشکل، سیدھے راستے سے ہٹ جانا ہے۔ اقوام ایک راستے پر چلنا شروع کرتی ہیں، کچھ دور اس پر چلتی ہیں، پھر یا تو تھک جاتی ہیں یا دنیا کی کششیں انھیں اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں اور وہ اس راستے سے منحرف ہو جاتی ہیں۔ ابتدا میں انحراف کا زاویہ بہت معمولی سا ہوتا ہے لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتی جاتی ہیں، انحراف کا زاویہ بھی بڑھتا جاتا ہے اور وہ اصل راستے سے، حقیقی راستے سے پوری طرح جدا ہو جاتی ہیں، مسئلہ یہ ہے۔ ہمیں اپنے ملک میں، اپنے انقلاب میں اس مشکل کا سامنا رہا ہے۔ بعض لوگ انقلاب کے ساتھ تھے لیکن پھر دھیرے دھیرے انقلاب کے راستے سے منحرف ہو گئے۔ اس کے مختلف اسباب و علل ہیں۔ کبھی کبھی خود ان لوگوں کی غلطی بھی نہیں ہوتی تھی، حکومت کی غلطی ہوتی تھی، مختلف عناصر کی غلطی ہوتی تھی، باہر والوں کی غلطی ہوتی تھی، بہرحال کسی بھی وجہ سے وہ اصل راستے سے ہٹ گئے تھے۔ انحراف کا یہ زاویہ بڑھتا چلا گيا، یہاں تک کہ وہ خود انقلاب کے، اس کے اہداف کے، اس کے اس عظیم محرّک کے، جو انھیں اس راستے پر لایا تھا، مخالف ہو گئے۔ اس راستے سے، دوسرے راستے پر چلے گئے، کبھی کبھی تو وہ ایک سو اسّی ڈگری کے زاویے پر چلے گئے، یعنی پوری طرح تبدیل ہو گئے۔ اس طرح کے لوگ بھی تھے، اس طرح کے لوگ بھی ہیں۔ استقامت ایسا نہیں ہونے دیتی، وہ تشخص کی حفاظت کرتی ہے۔ ایک قوم کو، ایک اجتماع کو تشخص عطا کرتی ہے۔ تھکنا نہیں چاہیے، مایوس نہیں ہونا چاہیے، دشمن کی رجز خوانیوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ عزیز بھائيو! عزیز بہنو! ڈٹے رہنے کا راز یہ ہے۔

یہ بھی واضح ہے کہ دشمن بے کار نہیں بیٹھے گا، یا تو وہ وار کرے گا اور اگر وار نہیں کر سکے گا تو دھمکی دے گا اور اگر دھمکی کا اثر نہ ہوا تو رجز خوانی کرے گا تاکہ آپ کو میدان سے باہر نکال دے، اگر آپ میدان سے باہر نہیں گئے تو یہ دشمن کی شکست ہے، اگر آپ نے استقامت جاری رکھی تو پیشرفت کریں گے۔ تبریز کے عوام نے 18 فروری کو قم کے عوام کا قیام دیکھا تھا، قم میں قتل عام ہوا تھا، عوام کی سرکوبی کی گئي تھی، یہ بات لوگوں کو معلوم تھی، تبریز کے لوگ جانتے تھے کہ حکومت کے سامنے کھڑے ہونے پر قتل ہونا پڑے گا، جان دینی ہوگي لیکن وہ ڈٹ گئے، انھوں نے استقامت دکھائي، خدا نے برکت عطا کی۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ تبریز کے عوام کے اقدام کی برکت سے 18 فروری کو تاریخ کا ورق پلٹ گيا، خدا نے اس کام کو جو یہ برکت عطا کی وہ اس لیے تھی کہ انھوں نے استقامت دکھائي: وَ اَن لَوِ استَقاموا عَلَى الطَّریقَۃِ لَاَسقَیناھُم ماءً غَدَقًا(4)، استقامت!

اس سال کی 22 بہمن (11 فروری) بھی اسی استقامت کی ایک مصداق ہے۔ ہم اس سوچ کے ساتھ، اس نظر کے ساتھ مسئلے کو دیکھیں اور اس کا تجزیہ کریں۔ صرف یہی کہ لوگ سڑکوں پر آ گئے، یہ اچھا کام ہے، کبھی کبھی سڑکوں پر آنے کے مختلف محرکات ہوتے ہیں۔ اس سے بھی اہم یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس "آنے" کا مطلب استقامت دکھانا تھا، دشمن کے سامنے ڈٹ جانا تھا۔ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ ہم راستہ بھول جائيں، راستے کو دیکھنے نہ پائيں، اس کی کوشش یہ ہے۔ ملک کے اندر بھی کچھ لوگ اسی بات کی ترویج کر رہے ہیں، ایسے لوگ بھی ہیں۔ ہم اس بات کا دعوی نہیں کرتے کہ ملک کے اندر مخالف نہیں ہیں، انقلاب کا کوئي مخالف نہیں ہے، ہمارے مخالفین نہیں ہیں، کیوں نہیں؟! ایسے لوگ ہیں جو مخالفت کرتے ہیں، وہ لوگ بھی دشمن کے اسی ہدف کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ ملک کے اندر بھی ہمیں ایسی حرکتوں کا سامنا تھا جنھوں نے ایرانی قوم کے ٹھوس عزم کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا تھا۔ تہران اور بعض دوسری جگہوں پر موسم خزاں میں ہونے والے ان ہنگاموں ایک اہم ہدف یہ تھا کہ اسی 11 فروری کی یاد کو لوگوں کے ذہنوں سے مٹا دیں، لوگ انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ پر دسیوں لاکھ کی تعداد میں باہر نہ آئيں، وہ بھول جائيں۔ ملک کے اندر بھی کچھ لوگوں نے غلط تجزیوں کے ذریعے، فضول دلیلوں کے ذریعے یہی بات اخبارات میں، سائبر اسپیس میں، اپنے بیانوں میں، تقریروں میں دوہرائي اور لوگوں کو بائيس بہمن کے جلوسوں میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن لوگوں نے کیا کیا؟ لوگوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا، وہ آئے اور انھوں نے ان لوگوں کی باتوں کے برخلاف کام کیا۔ اس لیے یہ "آنا" استقامت تھا اور اس استقامت میں برکتیں ہیں۔

لوگ جلوس میں اس سال تجزیے کے ساتھ شامل ہوئے تھے، جب ایک صاحب رائے تجزیہ کرتا ہے تو تمہید اور دلیل وغیرہ کے ساتھ کرتا ہے لیکن جب ایک انقلابی سے، جو زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے لیکن تجزیہ کر سکتا ہے، یہ پوچھا جاتا ہے کہ "تم نے اس جلوس میں کیوں شرکت کی ہے؟" تو وہ کہتا ہے کہ "چونکہ میں سمجھ گيا ہوں کہ امریکا نہیں چاہتا کہ میں آؤں، اسی لیے میں آیا ہوں!" دیکھیے! وہ تجزیے کے ساتھ آيا ہے، یہ تجزیہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ دشمن اس کے آنے سے خائف اور ہراساں ہے، دشمن جانتا ہے کہ اس کے آنے سے یہ راستہ مضبوط ہوگا، یہ شاہراہ وسیع ہوگي، اس سے اس پر چلنے کا سلسلہ بڑھتا رہے گا، اسی لیے دشمن نہیں چاہتا۔ چونکہ دشمن نہیں چاہتا، وہ آيا ہے تاکہ یہ راستہ چلتا رہے، لوگ تجزیے کے ساتھ آئے۔ وہ آئے تاکہ آج کے ایران کے جوش و جذبے کا مظاہرہ کریں، آج کے ایران کا ولولہ دکھائيں۔

اس سال کا 11 فروری کا جلوس بڑا پرجوش تھا، مسرّت بخش تھا، جو نعرے لگائے گئے، وہ معنی خیز تھے، اہم مفاہیم پر مبنی تھے، موقف کی  ترجمانی کر رہے تھے۔ دشمن چاہتا تھا کہ ایرانی قوم کی آواز دنیا کے کانوں تک نہ پہنچے۔ دشمن یہ چاہتا تھا۔ ایرانی قوم نے سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کے اتنے ہنگامے اور ٹی وی چینلوں کے اتنے پروپیگنڈوں کے باوجود اپنی آواز اونچی کی اور سبھی کے کانوں تک پہنچا دی۔ جی ہاں! ممکن ہے کہ بعض لوگ نہ سنیں کیونکہ وہ چھپاتے ہیں، خاموش رہتے ہیں، عالمی میڈیا میں کوریج نہیں دیتے ہیں، ہو سکتا ہے کہ دوسرے ملکوں کے لوگوں کے کانوں تک یہ آواز نہ پہنچے لیکن جن کے کانوں تک یہ آواز پہنچنی چاہیے تھی، ان لوگوں نے ایرانی قوم کی آواز سن لی ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں پالیسی ساز اداروں، دنیا میں سازش تیار کرنے والے مقامات، ملکوں کی جاسوسی تنظیموں نے - جو پوری طرح چوکنا ہیں - ایرانی قوم کی آواز اس سال 11 فروری کو سن لی ہے۔ جنھیں سننا چاہیے، انھوں نے سن لی ہے۔

اس 11 فروری کو ایرانی قوم کا پیغام، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کی مکمل حمایت کا پیغام تھا، یہ آواز سب سے اونچی تھی۔ البتہ مخالف آوازیں بھی موجود ہیں اور موجود تھیں اور دشمن، دنیا کا 'میڈیا سامراج' جو صیہونیوں اور امریکیوں کے ہاتھ میں ہے، کوشش کرتا ہے کہ ان کی آواز کو غالب کر دے لیکن وہ ایسا کر نہیں پایا بلکہ ایرانی قوم کی آواز، دوسروں کی آوازوں پر غالب آ گئي۔ دوسروں نے اپنی کوشش کی، مخالفین اور دشمنوں نے بھی اپنی اپنی زحمت کی، کبھی انھوں نے کہا کہ انقلاب اور اسلامی جمہوریہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے، حقیقت کے بالکل برخلاف۔ ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں؟ ہم ہر میدان میں اللہ کی توفیق سے، اللہ کے فضل و کرم سے، اللہ کی طاقت سے آگے کی طرف جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے سامنے مشکلات نہیں ہیں، میں اس بارے میں عرض کروں گا، مشکلات کم بھی نہیں ہیں، لیکن ملک آج، بیس سال پہلے سے، تیس سال پہلے سے اور چالیس سال پہلے سے بہت زیادہ بدل چکا ہے۔ تمام میدانوں میں ہم کافی آگے بڑھ چکے ہیں، مادی میدانوں میں بھی اور روحانی میدانوں میں بھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ملک پیچھے کی طرف جا رہا ہے! کیسے پیچھے جا رہا ہے؟ کیوں؟ بعض لوگوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ بند گلی میں پہنچ گئي ہے، اگر ہم بند گلی میں پہنچ گئے ہیں تو دشمن ہمیں شکست دینے کے لیے اتنے پیسے کیوں خرچ کر رہا ہے؟ جو قوم اور جو حکومت بند گلی میں پہنچ گئي ہے اسے ہرانے کے لیے اتنے پیسے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، وہ خود ہی گر جائے گي۔ دنیا میں اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں! بہت سے ممالک جن کے پاس پیسے ہیں، دولت ہے اور وہ ایرانی قوم کی سمت کے خلاف چل رہے ہیں وہ پیسے خرچ کر رہے ہیں تاکہ اسلامی جمہوریہ کو منحرف کر سکیں۔ وہ اس بات کا زبان سے اعتراف بھی کرتے ہیں، کھل کر کہتے ہیں۔ وہ یہ کام کیوں کرتے ہیں؟ اگر ہم بند گلی میں پہنچ گئے ہوتے، اگر ہم گر رہے ہوتے - جیسا کہ بعض لوگ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں - تو اتنے زیادہ پیسے خرچ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

کبھی کبھی وہ ہماری ترقی و پیشرفت کو مشکوک بنانے کے لیے کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی پوری کوشش ہتھیاروں، ڈرون، میزائل وغیرہ پر ہی کیوں مرکوز کر رکھی ہے؟ کچھ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ یہ ضروری ہے، جس ملک کے دشمن ہوں اسے اپنی فکر ہونی چاہیے۔ انقلاب کے ابتدائي دنوں میں بعض لوگ ہمارے ان ایف-14 طیاروں کو بیچنا چاہتے تھے، میں نے انھیں ایسا نہیں کرنے دیا، مجھے جیسے ہی پتہ چلا ویسے ہی میں نے یہ بات عام کر دی۔ ہم مشہد میں تھے – زیارت کے لیے گئے تھے یا کوئي کام تھا – مجھے وہاں پتہ چلا، میں نے دیر نہیں ہونے دی، جیسے ہی مجھے پتہ چلا، ویسے ہی میں نے ایک رپورٹر کو بلایا اور اسے خبر دی اور وہ خبر نشر ہو گئي، وہ لوگ ڈر گئے، انھوں نے ارادہ ترک کر دیا، مخالفوں اور دشمنوں کی پالیسیاں ایسی ہیں۔ ہمارے دشمن ہیں، اس لیے ہمیں اپنے دفاعی پہلوؤں کو مضبوط کرنا چاہیے، یہ عقل کا تقاضا ہے، شریعت کا بھی حکم ہے کہ وَ اَعِدُّوا لَھُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّۃٍ وَ مِن رِباطِ الخَیل(5) کہا گيا ہے: "مَا استَطَعتُم" جہاں تک تم سے ممکن ہو، جتنا تم سے ممکن ہو، ہم نے بھی اسی پر عمل کیا ہے، ان شاء اللہ جتنا ہم سے ہو سکے گا، ملک کی دفاعی قوت کو مضبوط بنائيں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کیا دوسرے میدانوں میں، دفاعی شعبے سے کم کام ہوا ہے؟ دفاعی شعبے سے کئي گنا زیادہ صنعت کے میدان میں کام ہوا ہے، انفراسٹرکچر کے شعبے میں کام ہوا ہے، سڑکوں اور ڈیم وغیرہ کی تعمیر کے میدان میں کام ہوا ہے، ان سب میدانوں میں کام ہوا ہے۔ دفاعی میدان کے مسائل فطری طور پر ایسے ہیں کہ دشمن بھی اپنے خاص مقاصد کے تحت مسلسل ان کا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ ایران کے پاس ڈرون تھے، اس نے انھیں فلاں جگہ بیچا، فلاں جگہ دیا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن صنعتی پیشرفت کے سلسلے میں تو ان کا ایسا کوئي محرک نہیں ہے کہ وہ اس کا پروپیگنڈہ کریں بلکہ صنعتی پیشرفت کو چھپانے کا محرک ہے اور وہ چھپاتے بھی ہیں۔ ہم نے دوسرے شعبوں میں بھی بہت زیادہ پیشرفت کی ہے۔ البتہ قوم نے ان کے ان وسوسوں پر بالکل بھی توجہ نہیں دی، قوم نے ادھر ادھر سے اٹھنے والی آوازوں کو توجہ کے لائق ہی نہیں سمجھا، ان شاء اللہ آئندہ بھی وہ ان آوازوں کو اہمیت نہیں دے گي۔

یہی چیزیں ہیں جو ہمارے دشمنوں کو چراغ پا کر دیتی ہیں، یہی ترقی و پیشرفت ہے جو دشمن کو برہم کر دیتی ہے، طیش میں لے آتی ہے۔ قرآن مجید نے فرمایا ہے: قُل موتوا بِغَیظِکُم(6) اسی بات کا ترجمہ ہمارے عزیز شہید بہشتی نے کیا اور کہا: (اے امریکا!) تو اپنے اس غصے سے مر جا! یہ، قرآن مجید کی اسی آیت کا ترجمہ ہے: موتوا بِغَیظِکُم۔ دشمن طیش میں آتا ہے، غصے سے بلبلاتا ہے، ہمارے دشمنوں کے کام طیش میں آ  کر کیے جانے والے کام ہیں، ان کی باتیں، غصے میں کہی جانے والی باتیں ہیں۔ جو چیز بھی ایران کو مضبوط بناتی ہے، اس سے انھیں طیش آتا ہے، کیوں؟ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اگر ایران مضبوط ہو گيا تو اس کے خلاف کی جانے والی سازشیں، بےکار ہو جائيں گي، اسی لیے وہ نہیں چاہتے کہ ایران مضبوط ہو۔ ہر وہ چیز جو ہمیں مضبوط بناتی ہے، وہ انھیں طیش دلاتی ہے، غصہ دلاتی ہے۔ (7) ان شاء اللہ، خداوند عالم کی توفیق سے ایسا ہی ہے۔ تحریک کا مطلب آگے بڑھنا ہے، انقلاب کا مطلب آگے بڑھنا ہے، انقلاب میں جمود نہیں ہے، اسے آگے بڑھتے رہنا ہے اور اللہ کی توفیق سے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ان شاء اللہ وہ آگے ہی بڑھتا رہے گا۔ تو ملک کو مضبوط بننا چاہیے۔ میں نے بارہا کہا ہے، عرض کیا ہے – آگے پھر اشارہ کروں گا – کہ سبھی کو کوشش کرنی چاہیے، ملک کو مضبوط بنانا چاہیے۔

ہم نے کہا کہ ہم نے پیشرفت کی ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔ ممکن ہے کہ عوام میں بعض لوگوں کو ہماری پیشرفت کی اطلاع نہ ہو، ہم پروپیگنڈے وغیرہ میں کمزور ہیں، یہ بھی ہمیں جاننا چاہیے۔ پروپیگنڈے میں، میڈیا کے کاموں میں ہم میں ابھی وہ  ضروری مہارت پیدا نہیں ہوئي ہے، اس معاملے میں ہم کسی حد تک کمزور ہیں۔ اسی لیے بہت سی پیشرفتوں کے بارے میں کچھ بتایا نہیں جاتا، وہ دکھائي نہیں دیتیں، سمجھ میں نہیں آتیں۔  جو لوگ جاتے ہیں اور نمائش وغیرہ کا معائنہ کرتے ہیں، دوسری جگہوں پر جا کر دیکھتے ہیں وہ خوش ہو جاتے ہیں، بعض تو بہت زیادہ متحیر ہو جاتے ہیں۔ جو غیر ملکی یہاں آتے ہیں ان میں سے بعض کو کبھی کبھی جا کر کچھ جگہیں دکھائي جاتی ہیں، وہ متعجب ہو جاتے ہیں اور کہتے کہ آپ نے پابندیوں کے عالم میں یہ چیزیں تیار کی ہیں؟ میں نے کبھی کہا تھا(8) کئي سال پہلے ہمارے جوانوں نے ایک میزائل بنایا تھا، اس کا تجربہ کیا تھا۔ سیٹیلائٹس تصویر لیتے رہتے ہیں، صیہونی، امریکی اور دوسرے سمجھ گئے کہ ہم نے یہ میزائل بنایا ہے۔ میزائل کے شعبے کے ایک ماہر صیہونی کمانڈر(9) نے اس وقت ایک بات کہی تھی جو کئي جگہ نشر بھی ہوئي، وہ بات ہم تک بھی پہنچی، میں نے اس کا حوالہ دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ میں ایران کا دشمن ہوں لیکن یہ کام جو ایرانیوں نے کیا ہے –پابندیوں کے حالات میں یہ میزائل جو بنایا ہے– اس کے لیے میں احتراما اپنا سر خم کرتا ہوں۔

خیر تو ہم نے کہا کہ ہم نے پیشرفت کی ہے لیکن کیا اس پیشرفت کے باوجود ہم میں کچھ کمزوریاں اور کمیاں نہیں ہیں؟ کیوں نہیں! کافی کمزوریاں ہیں، بہت زیادہ کمیاں ہیں، اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ہماری کمیاں اور کمزوریاں کم نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ کو لوگ محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں، مہنگائي ہے، افراط زر ہے، قومی کرنسی کی قدر میں کمی ہے، یہ سب کمزوریاں ہیں، یہ ہمارے یہاں ہیں۔ مختلف شعبوں میں، دفتری شعبوں وغیرہ میں کچھ دوسری کمزوریاں بھی ہیں، تو کمزوریاں اور کمیاں ہیں لیکن ہم اس مسئلے کو دو طرح سے دیکھ سکتے ہیں۔

توجہ دیجیے! خاص کر کے ہمارے عزیز جوان توجہ دیں! ایک طرف پیشرفت، کامیابیاں اور کارنامے ہیں، دوسری طرف کمزوریاں ہیں۔ اسے دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے: ایک زاویہ یہ ہے کہ ہم کارناموں کو دیکھیں، سمجھیں کہ ہم میں توانائي ہے اور کہیں کہ ٹھیک ہے، جس عزم اور حوصلے سے ہم نے انھیں حاصل کیا ہے، اسی عزم اور حوصلے سے ان کمیوں اور کمزوریوں کو بھی دور کریں گے، یہ دیکھنے کا ایک طریقہ ہوا۔ یہ انقلابی طریقہ اور انقلابی سوچ ہے۔ دیکھنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم کمیوں اور کمزوریوں کو دیکھیں اور کہیں کہ نہیں جناب! کوئي فائدہ نہیں ہے، دیکھیے، ہماری کتنی کمزوریاں ہیں، کوئي فائدہ نہیں ہے، کچھ نہیں ہو سکتا۔ یا تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں یا پھر بڑبڑاتے رہیں اور موجودہ صورتحال کے خلاف یا کمیوں کے خلاف زور زور سے چلائيں، کمیوں کو کئي گنا بڑا کرکے پیش کریں، یہ طریقہ اور سوچ، رجعت پسندانہ ہے۔ جی ہاں! کمزوریاں ہیں لیکن آپ انقلابی سوچ کے ساتھ کمیوں کو دیکھیے، رجعت پسندانہ نظر سے کیوں دیکھتے ہیں؟

بعض لوگ جب کمیوں اور کمزوریوں کو دیکھتے ہیں تو اسلامی جمہوریہ کا ہی انکار کر دیتے ہیں، انقلاب کا ہی انکار کر دیتے ہیں! کیوں؟ اگر کسی قوم میں کوئي کمزوری ہو تو کیا اس کے کارناموں کو بھلا دینا چاہیے؟ کس قوم میں کمزوری اور کمی نہیں ہے؟ دنیا کی دولتمند اقوام، جو سائنسی لحاظ سے زیادہ پیشرفتہ ہیں، کیا ان میں کمی نہیں ہے؟ ان کی کمیاں اور کمزوریاں زیادہ بڑی ہیں۔ اگر میں انھیں گنوانا چاہوں تو ایک صفحہ تو صرف ان کمیوں کے عناوین ہی ہو جائيں گے جو امریکا میں ہیں، برطانیہ میں ہیں، فرانس میں ہیں، پیشرفتہ ممالک میں ہیں۔ ہماری کمیوں سے زیادہ بڑی، زیادہ اہم، زیادہ سخت کمیاں اور کمزوریاں غربت کی ہمہ گيری، بیماریوں کی ہمہ گيری، نسلی امتیاز کی ہمہ گیری، سماجی انصاف کا فقدان، اس طرح کی کمیاں وہاں بہت زیادہ ہیں، ہم سے کئي گنا زیادہ۔ کمی ہر جگہ ہوتی ہے لیکن ہمیں اسے دور کرنے کا عزم کرنا چاہیے، راہ حل یہ ہے۔ راہ حل یہ نہیں ہے کہ جب ہم یہ دیکھیں کہ کوئي کمی یا کمزوری ہے تو فورا بنیاد اور جڑ کو ہی ختم کرنا شروع کر دیں۔

میرا پرزور طریقے سے کہنا ہے کہ وہ پہلا راستہ صحیح ہے: انقلابی راستہ، یعنی جب ہم نظر ڈالیں اور اپنی کمزوریوں کو دیکھیں تو کہیں کہ ہم نے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں اور میرے خیال میں یہ کارنامے ناممکن تھے لہذا ہمیں عزم اور حوصلہ دکھانا چاہیے۔ دیکھیے میرے عزیزو! چالیس سال سے اس ملک میں میرے پاس ذمہ داری ہے، مختلف طرح کی ذمہ داریاں، صدارت سے پہلے سے لے کر صدارت تک اور صدارت کے بعد تک۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ ہمیں اس بات پر یقین نہیں تھا کہ ہم کسی دن ایسی ترقی اور پیشرفت کر لیں گے۔ اگر میں ان پیشرفتوں کو شمار کروں تو آپ کو تعجب ہوگا۔ مثال کے طور پر اسٹیل کی پیداوار ملین ٹن میں پہنچ جائے گي، یہ بات ہمارا ذہن قبول ہی نہیں کر سکتا تھا، جو چیز ہمارے ذہن میں آتی تھی وہ یہ تھی کہ اسٹیل کا پروڈکشن اس وقت پانچ ہزار ٹن ہے، دس ہزار ٹن تک پہنچ جائے گا! آج جو کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے، اس کا ہم تصور تک نہیں کرتے تھے لیکن قوم نے عزم اور حوصلہ دکھایا، جوانوں نے ہمت دکھائي، اس دوران اچھے عہدیدار رہے جنھوں نے عزم و حوصلہ دکھایا اور ملک کو یہاں تک پہنچا دیا۔ یہ عزم اور حوصلہ آج بھی ہے، ہمیں کمیوں کو برطرف کرنے کا عزم کرنا چاہیے، یہ میری سفارش ہے۔

سبھی کو کام کرنا چاہیے۔ پہلے مرحلے میں عہدیداران کو کام کرنا چاہیے، ہر کسی کو اپنی قانونی ذمہ داری کے مطابق۔ ذمہ داران الگ الگ ہیں، کوئي پروگرامنگ اور ڈیزائننگ کا ذمہ دار ہے، کوئي اجرائی کاموں کا ذمہ دار ہے، کسی کے ذمے نگرانی کا کام ہے،  کسی کے ذمے قانون بنانے کا کام ہے، کوئي پالیسی تیار کرنے کا ذمہ دار ہے، مختلف شعبے، مختلف کام، مختلف ذمہ داریاں، سبھی کے لیے قانون ہے۔ سبھی کوشش کریں، جہادی کام کریں، دن رات کام کریں، لگے رہیں، وہ ذمہ دار ہیں۔

جو کچھ مجھے سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آج ہمارے سب سے اہم کاموں میں، معاشی کام ہیں۔ کچھ دن پہلے اسی امام بارگاہ میں، ملک کے کچھ کامیاب انٹرپرینیورز اور پروڈکشن کے شعبے میں کام کرنے والے اکٹھا تھے، میں نے ان سے بھی کہا(10) کہ ملک کو معاشی ترقی کرنی چاہیے،  بغیر معاشی ترقی کے کام آگے نہیں بڑھے گا۔ تو اگر معاشی ترقی کرنی ہے، پروڈکشن کو بڑھانا ہے تو معاشی استحکام ہونا چاہیے، افراط زر کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ آج ملک کے عہدیداران، براہ راست ذمہ داران یا بالواسطہ ذمہ داران، حکومت، عدلیہ اور مقننہ، مختلف اداروں اور انتظامی اداروں کے ذمے جو ایک بنیادی کام ہے وہ یہ ہے کہ مشکلات کا علاج کریں۔ یہ قابل علاج مسائل ہیں، ایسا نہیں ہے کہ یہ لاعلاج ہیں، علاج کے راستے ہیں، اس کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ افراط زر کا علاج کریں، یہ معاشی استحکام اور قیمتوں میں ٹھہراؤ ملک کو آگے لے جائے گا۔ تو سوچ یہ ہونی چاہیے۔

عوام کو بھی کام کرنا چاہیے۔ عہدیداران کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن عوام کو بھی کام کرنا ہوگا۔ یونیورسٹی کا طالب علم کام کر سکتا ہے، پروفیسر کام کر سکتا ہے، مزدور کام کر سکتا ہے، دکاندار کام کر سکتا ہے، کسان کوشش کر سکتا ہے، کارخانوں کے مالک، پولٹری فارم چلانے والے، علمائے دین، یہ سبھی کام کر سکتے ہیں، ہر کوئي اپنے خاص طریقے سے۔ مثال کے طور پر عالم دین، آپ نے دیکھا کہ جناب آل ہاشم نے یہاں بتایا کہ وہ چل پڑتے ہیں، صنعتی مراکز لوگوں کو دکھاتے ہیں، یا معائنہ کرتے ہیں، ٹھیک ہے یہ بھی ایک کام ہے، یہ بڑا کام ہے۔ یہ معیشت کو فعال کر دیتا ہے، اس طرح کے کام بابرکت ہیں۔ سیاسی کارکن کام کر سکتا ہے، وہ لوگوں کے سامنے حقائق پیش کرے۔ سیاسی کام صرف یہ نہیں ہے کہ انسان بیٹھ کر حکومت یا دوسرے اداروں کے کاموں میں کیڑے نکالے اور سوشل میڈیا پر ان کاموں کا مذاق اڑائے، توہین کرے، انھیں بڑھا چڑھا کر دکھائے، یہ سیاسی سرگرمی تو نہیں ہے۔ سیاسی سرگرمی یہ ہے کہ آپ دنیا کے سیاسی ماحول کو، خطے کے سیاسی ماحول کو، دشمنوں کے اہداف کو، دوستوں کے موقف کو دیکھیے اور انھیں لوگوں کو، ان لوگوں کو جن سے آپ کی معلومات زیادہ ہیں، آپ ان سے زیادہ سمجھتے ہیں، بتائيے، ان کے سامنے تشریح کیجیے، یہ سیاسی سرگرمی ہے۔

یا سماجی کارکن، سروسز کے شعبے میں کام کرنے والے بھی اسی طرح۔ ہم نے بارہا عوام کے ذریعے بڑی بڑی کمیوں کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں سے ایک تو یہی کورونا کی وبا ہے۔ کورونا کی وبا آتے ہی عوام میدان میں آ گئے، انھوں نے کام کیا، بہت سے ایسے کام جنھیں اداروں کو کرنا چاہیے تھا، عوام نے انجام دیا، وہ میدان میں آ گئے۔ ایک دم شروع سے ہی عوام میدان میں آ گئے اور انھوں نے مومنانہ امداد کی۔ خدمت رسانی کے بے شمار مختلف کام، عوام نے انجام دیے۔ غدیر کے بڑے جشن کا کام تہران میں عوام نے کیا، لوگوں نے اپنی مرضی اور شوق سے انجام دیا۔ لوگ کر سکتے ہیں۔ سماجی سرگرمیاں، قوم کو نشاط عطا کرتی ہیں، ملک میں ترقی و پیشرفت کو یقینی بناتی ہیں، ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں، سہارا دیتی ہیں۔

ملک میں مضبوطی پیدا کرنے میں اور ملک کو مضبوط بنانے میں جو چیزیں مؤثر ہیں، ان میں سے ایک قومی اتحاد ہے۔ چھوٹی اور معمولی چیزوں پر تنازعہ نہیں ہونا چاہیے، البتہ اختلاف رائے ہوتا ہے، اس اختلاف رائے میں بحث اچھی چیز ہے، مباحثہ اچھا ہے لیکن تنازعہ اچھا نہیں ہے۔ مباحثہ کریں، بات کریں، بحث کریں، یونیورسٹی میں، اعلی دینی تعلیمی مراکز میں، ذرائع ابلاغ عامہ میں، ادب کے ساتھ، دوسروں کا احترام کرتے ہوئے اپنی دلیل پیش کریں، یہ اچھا ہے لیکن تنازعہ اچھا نہیں ہے، دشمنی اچھی نہیں ہے، زبان کو نازیبا الفاظ سے آلودہ کرنا اچھا نہیں ہے، یہ چیزیں اچھی نہیں ہیں۔ اتحاد مدد کرتا ہے۔

خیر تو ایرانی قوم کا عمومی رجحان، انقلاب کی طرف ہے۔ ہم نے اعداد و شمار نہیں لیے ہیں کہ کہہ سکیں کہ مثال کے طور پر فلاں سیاسی مسئلے میں کتنے فیصد کی رائے، عمومی رائے کے خلاف ہے یا عہدیداران کی رائے کے خلاف ہے، ہم یہ نہیں جانتے لیکن مجموعی طور پر یہ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ ہیں جن کی رائے الگ ہے، مخالف رائے رکھتے ہیں۔ ایرانی قوم کے فریق یہ لوگ نہیں ہیں، ایرانی قوم کا حریف سامراج ہے۔ سبھی اس بات کی طرف سے چوکنا رہیں کہ سامراج کی مدد نہ کریں، سبھی اس بات کی طرف سے ہوشیار رہیں کہ انقلاب کے مقابلے میں، اسلام کے مقابلے میں اور ایران عزیز کے مقابلے میں دشمن کا حربہ نہ بن جائیں۔

ہمیشہ کی طرح میں مستقبل کو روشن دیکھتا ہوں۔ بحمد اللہ جب بھی ہمارے سامنے کوئي روشن افق رہا ہے، ہم نے کچھ عرصے بعد اس افق تک رسائي حاصل کر لی ہے۔ قوم کی صلاحیتیں بہت زیادہ ہیں، ملک میں بہت استعداد ہے، ملک کی گنجائشیں بہت زیادہ ہیں اور ان شاء اللہ یہ قوم اور بھی بڑے بڑے کارنامے انجام دے گي۔

خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس راستے پر ثابت قدم رکھے۔ خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو جنھوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے۔ خداوند عالم سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے عزیز شہیدوں کو صدر اسلام کے دور کے شہیدوں اور شہدائے کربلا کے ساتھ محشور کرے اور ہمیں بھی ان سے ملحق کر دے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں صوبۂ مشرقی آذربائيجان میں نمائندۂ ولی فقیہ اور تبریز کے امام جمعہ آيت اللہ سید محمد علی آل ہاشم نے کچھ باتیں بیان کیں۔

(2) سورۂ فاطر، آيت 34، بےشک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا اور بڑا قدر دان ہے۔

(3) صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 45

(4) سورۂ جن، آيت 16، اگر یہ لوگ راہِ راست پر ثابت قدم رہتے تو ہم انھیں خوب سیراب کرتے۔

(5) سورۂ انفال، آيت 60، (اے مسلمانو!) جس قدر استطاعت رکھتے ہو، قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو۔

(6) سورۂ آل عمران، آيت 119، ان سے کہہ دیجیے کہ اپنے غم و غصے سے مر جاؤ۔

(7) حاضرین کا نعرہ: "انقلاب مہدی تک، تحریک رہے گي جاری"

(8) "بسیجیوں کی خدمات" کے اجلاس میں رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب (4/10/2018)

(9) صیہونی حکومت کے میزائل ادارے کا سربراہ، یوزی رابن

(10) صنعتکاروں، انٹرپرینیورز اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالکان سے خطاب (2023/01/30)