اس موقع پر اپنے خطاب میں رہبر انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم، امت مسلمہ اور دنیا کے تمام آزاد منش اور حریت پسند لوگوں کو عید بعثت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے، بعثت سے سبق لینے والے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے مہینے بہمن سے اس عید کے ملاپ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ پیغمبر کی بعثت، انسانی تاریخ کے سب سے بڑے اور سب سے برتر واقعات میں سے ایک ہے کیونکہ اس نے عظیم فکری و ادراکی تغیر وجود میں لاتے ہوئے اُس زمانے کے اور اُس کے بعد کے زمانوں کے لوگوں میں ایک بڑی اور بے مثال تبدیلی پیدا کی۔
انھوں نے موجودہ زمانے میں مزاحمتی محاذ کو بعثت نبوی کی ہی ایک کرن بتایا جو ایران کے اسلامی انقلاب سے شروع ہوئي ہے۔ انھوں نے غزہ کی حیرت انگيز فتح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس چھوٹے سے اور محددو علاقے نے سر سے پیر تک مسلح اور امریکا کی مکمل حمایت یافتہ صیہونی حکومت کو دھول چٹانے میں کامیابی حاصل کی اور یہ فتح عقل اور ایمان، اللہ سے لو لگانے اور اللہ کی طاقت پر بھروسے کے سبب حاصل ہوئي ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے شہید حسن نصر اللہ کو گنوانے جیسے نقصان کے باوجود سرفراز حزب اللہ کی استقامت کو عصر حاضر میں مزاحمت کے شاندار کارناموں کی ایک اور مثال بتایا اور کہا کہ دنیا میں حسن نصر اللہ جیسی قدروقیمت والے کتنے عظیم انسان ہیں؟ ایسی شخصیت کو کھونے اور دوست اور دشمن کے یہ سوچنے کے باوجود کہ حزب اللہ کا کام تمام ہو گيا ہے، حزب اللہ نے دکھا دیا کہ نہ صرف یہ کہ وہ ختم نہیں ہوئي ہے بلکہ بعض مواقع پر اس نے زیادہ مضبوط جذبے کے ساتھ صیہونی حکومت کا مقابلہ کیا۔
انھوں نے سبھی خاص طور پر ملک کے عہدیداروں کے لیے دنیا کے آج کے واقعات پر عاقلانہ نظر رکھنے کو ضروری بتایا اور انسانی معاشروں کو لوٹنے کے لیے سامراج کے رویے کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ سامراج کی تاریخ تین مرحلے دکھاتی ہے، قوموں کے قدرتی ذخائر کی لوٹ مار، ثقافتی لوٹ مار اور اصیل ثقافتوں کی تباہی اور قومی و مذہبی تشخص کی لوٹ مار اور اس وقت دنیا کی طاقتور اور شیطانی مشینریز، اقوام پر سامراج کے یہ تینوں مرحلے مسلط کر رہی ہیں۔
رہبر انقلاب نے امریکی حکومت کو سامراجی طاقتوں کا سرغنہ اور مالی لحاظ سے دنیا کے طاقتور لوگوں کا پٹھو بتایا اور کہا کہ بڑے بڑے مالی کارٹلز ہر دن ایک نئے طریقے سے اقوام کے تشخص اور مفادات کو تبدیل کرنے اور اپنے سامراجی اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے سازشیں تیار کرتے رہتے ہیں اور قرآن مجید کے بقول تم جتنا زیادہ مشکل میں رہو، اتنا انھیں پسند ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کی کچھ آيتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن میں اسلام کے دشمن کے بغض و کینے کو، ان کی زبان اور عمل سے پتہ چلنے والے بغض و کینے سے زیادہ بڑا بتایا گيا ہے، کہا کہ یہ جو امریکی کانگریس کے اراکین ہزاروں بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے قاتل اور قتل کا حکم دینے والے کے لیے تالیاں بجاتے ہیں یا ایران کے مسافر بردار طیارے کو تین سو افراد کے ساتھ مار گرانے والے امریکی بیڑے کے کپتان کو میڈل دیتے ہیں، ان سے ان کے خبیث باطن، دشمنی اور کینے کا پتہ چلتا ہے جو ان کی سفارتی مسکراہٹوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے عالمی معاملات میں ہوشیاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سفارتی تبسم کے پیچھے، دشمنی، کینہ اور باطنی خباثت پنہاں ہے۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہیے اور ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کس سے سودا کر رہے ہیں اور کس سے بات کر رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں کہا کہ تمام مسلم حکومتوں اور قوموں کے لیے بعثت نبوی کا ایک اہم پیغام، اس حقیقت پر ایمان رکھنا ہے کہ عزت، خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہمیں عزت الہی حاصل ہو تو پھر کوئي بھی دشمن اور اجنبی ایجنٹ ہماری روح اور ہمارے جسم پر کسی بھی طرح کا منفی اثر نہیں ڈال سکے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ انسانی معاشروں میں تغیر کے لیے پیغمبروں کا وسیلہ، عقل اور ایمان جیسے دو عنصر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پیغمبر، انسانوں کے اندر موجود عقل اور ایمان کو بیدا کر کے، انسان کو ترقی کی راہ اور سیدھے راستے تک پہنچنے میں مدد کرتے ہیں اور قرآن مجید میں تفکر، تعقل اور تدیر یعنی غور و فکر اور سوچنے پر جو بار بار تاکید کی گئي ہے، اس کی وجہ یہی ہے۔