بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ رب العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
آپ سبھی حاضرین محترم، ایرانی عوام اور پوری امت اسلامیہ نیز دنیا کے سبھی حریت پسندوں کی خدمت میں، عید بعثت پیغمبر اکرم کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ بعثت پیغمبر اکرم در حقیقت دنیا کے حریت پسندوں کے لئےعید ہے۔ اس سال عید بعثت کامیابیوں کی بہار کے ساتھ آئی ہے۔ امید ہے کہ تحریک بہمن ( بہمن ایرانی کیلینڈر کا گیارہوان مہینہ ہے جس میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ وطن واپس آئے اور 22 بہمن مطابق 11 فروی 1979 کو اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا) تحریک انقلاب اسلامی اور وہ تحریک جو ہمارے پاس ہے اور اس تحریک کے بانی (امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کا قصد پیغمبر( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپ کی بعثت کی پیروی کرنا تھا، ان شاء اللہ اسی طرح جاری اور اپنی راہ پر گامزن رہے گی۔
صدر محترم کی بہت اچھی اور مفید تقریر کا شکریہ ادا کرتا ہوں، امید ہے کہ جن باتوں کی طرف موصوف نے اشارہ کیا ہے، ان شاء اللہ توفیق الہی سے ہم ان پر عمل کریں گے۔ میں چند جملے بعثت کے بارے میں عرض کروں گا اور اس کے بعد اپنے گرد و پیش کے مسائل پر گفتگو کروں گا۔
بعثت، عالم خلقت اور تاریخ بشریت کا مبارک ترین اور عظیم ترین واقعہ ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ تاریخ بشریت کے اعلی ترین واقعات میں ہے۔ ویسے تو عظیم واقعات مختلف انفرادی اور اجتماعی شعبوں میں بہت زیادہ اثرات مرتب کرتے ہيں لیکن اپنے مخاطبین میں فکر و ادراک کا انقلاب برپا کر دینا اس عظیم واقعے کی عظیم ترین تاثیر قرار دیا جا سکتا ہے۔ کوئی بھی بڑا واقعہ اور عظیم تغیر عوام کی زندگی پر اس وقت اثر انداز اور جاودانی ہو سکتا ہے، جب اپنے مخاطبین میں فکری انقلاب لا سکے۔ فکر صحیح ہو جائے تو عمل بھی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اہم یہ ہے کہ نظام زندگی اس فکر پر استوار ہوتا ہے جو اس نظام کے چلانے والوں میں پیدا ہوتی ہے۔ جب انسانوں میں اور معاشروں میں عالم وجود کے بارے میں فہم و ادراک اور فکری انقلاب پیدا ہو جائے تو پھر سیاسی، اقتصادی، اخلاقی اور سماجی نظام بھی اسی بنیاد پر وجود میں آئے گا اور تشکیل پائے گا۔
اس لحاظ سے بعثت پیغمبر اکرم ممتاز ہے۔ (البتہ) دیگر تغیرات و واقعات سے اس کے ممتاز ہونے کے پہلو متعدد ہیں جو اس وقت ہماری بحث کا موضوع نہیں ہے، لیکن اس خصوصیت کے اعتبار سے بھی بعثت پیغمبر اکرم غیر معمولی ہے: جو انقلاب اس نے پیدا کیا، کیسے لوگوں اور کن افکار کا اس کو سامنا کرنا پڑا، کیسے معاشرے سے یہ دوچار ہوئی اور اس نے انہیں کیسے انسانوں، کیسے معاشرے اور کیسے لوگوں میں تبدیل کر دیا۔ اپنے زمانے میں بھی اور طول تاریخ میں بھی۔
اس تغیر کا عامل کیا ہے؟ یعنی سبھی پیغمبران، منجملہ ہمارے پیغمبر عظیم الشان، جب یہ تغیر لانا چاہتے ہیں، تو ان کا وسیلہ کیا ہے؟ وہ عامل جو یہ تغیر پیدا کرتا ہے، کیا ہے؟ دو چیزیں ہیں: عقل اور ایمان۔ عقل ایک خصوصی قوت ہے جو خداوند عالم نے سبھی انسانوں کو عطا فرمائی ہے۔ بعض انسان اس کو فعال کرتے ہیں اور اس سے کام لیتے ہیں اور بہت سے اس کو فعال نہیں کرتے۔ ایمان بھی عقل کی طرح ہے۔ سبھی انسانوں کی فطرت میں حقیقت اور خدا پر ایمان موجود ہوتا ہے۔ لیکن انسان اس کو فراموش کر دیتے ہیں۔ پیغمبران خدا عقل انسان کو بیدار کرتے ہیں تاکہ اس کو اپنا ایمان یاد آ جائے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ قرآن کریم میں "ذکر" یعنی یاد کرنے کی کتنی تکرار کی گئی ہے۔ ہم میں اور آپ میں یہ ایمان موجود ہے۔ اس کو یاد کرنے کی ضرورت ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اس کی جانب متوجہ کیا جائے۔ جب عقل اور ایمان زندہ ہو جائے تو زندگی آگے بڑھتی ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہے۔ جب انسان کے اندر عقل اور ایمان کی قوت پیدا ہو جائے تو وہ راہ زندگی اور صراط مستقیم پر چلنے پر قادر ہو جاتا ہے۔
اب اگر قرآن کریم سے عقل کے شواہد پیش کرنا چاہیں تو اس کی دسیوں بار تکرار ہوئی کہ " افلا یعقلون (2) تعلّکم تعقلون(3)، لعلّھم یتفکّرون (4) افلا یتدبّرون (5) و قالوا لو کنّا نسمع او نعقل (6) یعنی عقل کا مسئلہ، عقل پر توجہ اور عقل سے کام لینا قرآن کریم کی ممتاز ترین تعلیمات ميں ہے۔ جو بھی مسلمان ہے اس کو جان لینا چاہئے کہ اس کا سروکار عقل سے ہونا چاہئے، عقل سے کام کرنا چاہئے، عقل سے کام لینا چاہئے اور اس کو اپنی عقل بڑھانا چاہئے اور اس کو پروان چڑھانا چاہئے۔
ایمان کے سلسلے میں بھی سبھی انبیا نے سب سے پہلے جس چیز کی دعوت دی ہے اور اس کی بات کی ہے، وہ توحید ہے۔ توحید صرف اس بات پر معمولی اعتقاد نہيں ہے کہ خدا ہے اور وہ واحد ہے، بلکہ توحید دنیا کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ تشکیل دیتی ہے۔ دنیا کے بارے میں اسلامی نقطہ نگاہ کو جس پہلو سے بھی دیکھیں گے توحید تک پہنچیں گے۔ چنانچہ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ سورہ اعراف ميں جہاں پیغمبران خدا اور ان کی دعوت کا ذکر ہوتا ہے، حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح وغیرہ کی بات ہوتی ہے وہاں ان کی پہلی بات یہ ہے کہ "یا قوم اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ" یہ توحید ہے۔ البتہ توحید کے ساتھ معاد کی بحث کی جاتی ہے۔ اسی آیہ شریفہ ميں: یا قوم اعبدوا اللہ ما لکم من الہ غیرہ انّی اخاف علیکم عذاب یوم عظیم (7) وہ یوم عظیم قیامت ہے۔ یا سورہ شعرا میں بھی اسی طرح جہاں ایک ایک کرکے پیغمبروں کے نام آتے ہیں، وہاں ان کی پہلی بات یہ ہے "فاتّقوا اللہ و اطیعون" (8) تقوائے الہی۔ پیغمبر کی اطاعت بھی اس لئے ہے کہ خدا نے پغمبر کو بھیجا ہے، وہ عقل انسان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ خطا نہ کرے، غلطی نہ کرے، غلط نہ دیکھے، سراب کو پانی نہ سمجھے۔ انبیا کا کام یہ ہے۔ لہذا اس کے بعد "اطیعون" بھی آتا ہے تاکہ انسان کے پاس ایک رہنما ہو جو اس کی مدد کرے۔
امیر المومنین (سلام اللہ علیہ) فرماتے ہیں: " وَ واتَرَ اِلیھم اَنبیاءَه لِیَستادوھم میثاقَ فِطرَتہ وَ یُذَکِّروھم مَنسِیَّ نِعمَتہ وَ یَحتَجّوا عَلَیھم بِالتَّبلیغِ وَ یُثیروا لھم دَفائِنَ العُقول " (9) خداوند عالم نے پیغمبروں کو ان کاموں کے لئے ان اہداف کے لئے مبعوث فرمایا ہے کہ میثاق فطرت اور بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائيں اور اسی کے ساتھ وَ یُثیروا لھم دَفائِنَ العُقول عقلوں کے دفینوں کو باہر لائيں۔ اب یہ دفینہ کس معنی میں ہے؟ خزانے کے معنی میں ہے، جیسے عام طور پر ہم جب دفینہ کہتے ہيں تو ہماری مراد خزانہ ہوتا ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کا مطلب دفن شدہ عقلیں ہیں جو خرافات، توہمات، باطل خیالات و تصورات اور گوناگوں باتوں اور مختلف مکاتب وغیرہ میں دفن ہو گئی ہیں۔ یہ بات صحیح ہے۔ یہی حقیقت ہے۔ کلمہ لا الہ اللہ جو صحیح ہے بعض اوقات دفن ہو جاتا ہے۔ وہ عاقلانہ فہم بعض اوقات، باطل باتوں میں دفن ہو جاتی ہے، فراموش ہو جاتی ہے۔ آپ یعنی امیر المومنین علیہ السلام کی مراد انہیں دونوں باتوں میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے۔ پیغمبران خدا اس عقل کے استخراج، اس کو باہر نکالنے کے لئے آتے ہیں۔ یہ کچھ باتیں بعثت کے حوالے سے۔
ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ یہ عرض کروں کہ میری نظر میں بعثت یکبارگی رونما ہونے والا کوئی واقعہ نہيں ہے۔ جیسے کبھی بجلی چمکتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ بعثت اس طرح نہیں ہے۔ البتہ منافقین کے لئے اسی طرح ہے: "ذَھب اللہ بنورھم و ترکھم فی ظلمات لا یبصرون" (10) جو دل کی گہرائيوں سے ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے لئے ایک بجلی چمکتی ہے، روشنی کا ایک جھماکا ہوتا ہے اور پھر خواہشات، ہوائے نفسانی، فراموشیوں، غفلتوں اور دیگر برائیوں میں وہ روشنی چھپ جاتی ہے۔ لیکن جو منافق نہیں ہے، اس کے لئے عالم کی فطری رفتار میں، پوری بعثت ایک تحریک ہے، ایک ہمیشہ جاری رہنے والا امر ہے، کسی خاص زمانے اور کسی خاص دن سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ دائمی ہے۔ صرف بعثت رسول اکرم ہی نہیں بلکہ سبھی انبیاء کی بعثت۔ انبیا کی بنیادیں باتیں ہمیشہ کے لئے ہیں۔ قرآن کریم کفار سے کہتا ہے کہ "تم جو دعویدار ہو تو ایک کتاب لاؤ جو ان دو کتابوں سے زیادہ ہدایت کرنے والی ہو۔" (11) دو کتاب یعنی ایک قرآن اور دوسری توریت۔ ہم انبیا پر ایمان رکھتے ہیں، سبھی انبیا پر ایمان رکھتے ہیں۔ بعد میں آنے والا نبی بھی اپنے پہلے آنے والے نبی کی باتوں کی تکمیل کرتا ہے۔ لہذا اس کی (پہلےآنے والے نبی کی) بات منسوخ ہو جاتی ہے۔ نسخ کا مطلب یہ ہے۔ اس کی بات کی تکمیل کرتا ہے، کچھ چیزیں بدل دیتا ہے اور بعض چیزوں کی زمانے کی مناسبت سے تکمیل کرتا ہے۔ بنابریں یہ تحریک، تحریک دین اور تحریک بعثت جاری اور ہمیشگی ہے۔
ہمیشگی ہے کا مطلب کیا ہے؟ یعنی ہر دور میں بعثت کی برکات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ یعنی وہی تغیر جو ابتدائے بعثت میں وجود میں آیا اور خود نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سینہ سپر ہوئے، میدان میں آئے، ناقابل توصیف محنتوں سے امور انجام دیے، یہ تغیر ہر زمانے میں، زمانے کی مناسبت سے اور انسانوں کے تناسب سے، ہم میں اور اس عظیم بلندیوں میں جو فرق ہے، اس (فرق) کے ساتھ ممکن ہے۔ لیکن اس کی شرط کیا ہے؟ شرط یہ ہے کہ وہ دو عوامل جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس تھے اور آپ نے ان سے کام لیا، یعنی عقل اور ایمان ، ہم بھی ان سے کام لیں۔ اگر ہم عقل اور ایمان سے کام لیں تو تحریک بعثت وجود میں آئے گی، وہی جوش و ولولہ اور تغیر وجود میں آئے گا۔ ذہن میں تغیر آئے گا اور زندگی کے حقائق بدل جائيں گے، مشکلات برطرف ہو جائيں گی اور امور کی اصلاح ہوگی۔ بعثت سے ہمیں جو درس لینا ہے وہ یہ ہے۔
آج یہ باتیں خود ہمارے لئے، مسلم حکومتوں اور مسلم اقوام کے لئے ہیں۔ ہم سب کے لئے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اگر ہم دنیا میں کچھ چاہتے ہیں، یا آخرت میں لطف الہی کی امید رکھتے ہیں، تو بعثت کے مفہوم، بعثت کے تقاضوں اور بعثت کی تحریک سے متمسک ہونا ہوگا۔ مَن کانَ یُریدُ العِزَّة فَلِلہ العِزَّة جَمیعًا (12) عزت وہاں ہے۔ عزت اس حالت کو کہتے ہیں کہ کوئی بھی دوسرا عامل اس پر برا اثر نہ ڈال سکے۔ یہ عزت ہے۔ اِنَّ العِزَّة للہ جَمیعا (13) اگر عزت ہو تو نہ کوئی دشمن، نہ گوناگوں فکری، روحانی، بیرونی، جسمانی عوامل، کسی بھی قسم کے عوامل اس پر اثرانداز نہیں ہو سکتے۔ اور دوسری آیہ شریفہ میں فرماتا ہے: "وَ لا تھنوا وَ لا تَحزَنوا وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنین(14) اگر ایمان ہو تو آپ برتر ہیں سب سے بالاتر ہیں۔
آج ہم دنیا میں عقل کی کارکردگی کا مشاہدہ کریں اور عقل سے کام لیں۔ اگر عقل سے کام لیں تو ہم دنیا کی بہت سی باتیں سمجھ سکتے ہیں۔ دعا میں کہا گیا ہے کہ «اَللَھمَّ اَعطِنی نَصراً فی دینِکَ وَ قُوَّة فی عِبادَتِکَ وَ فھماً فی خَلقِک» (15) انسانی معاشرے کے حقائق کا ادراک، ان حقائق کو سمجھیں۔ ہم اسلامی جمہوریہ کے عنوان سے، ایران اسلامی کے عنوان سے، ایک اہم اور بڑے ملک کے عنوان سے، ہمارا ملک واقعی مختلف پہلوؤں سے ایک منفرد ملک ہے، اس کے اعلی سیاسی عہدیداروں کے عنوان سے ہمیں دنیا کے حقائق پر توجہ دینا اور انہیں سمجھنا چاہئے۔ ظالم طاقتوں کا استعمار، پہلے درجے اور پہلے مرحلے میں، ذخائر کی لوٹ مار سے شروع ہوا۔ آپ سامراج کی تاریخ پڑھیں، پہلی چیز جس کو انھوں نے اپنی لوٹ مار کا نشانہ بنایا وہ، قدرتی وسائل تھے۔ ان کا پہلا مرحلہ یہاں سے شروع ہوا۔ یہ ایک مرحلہ ہے۔ اس کے بعد کا مرحلہ، اقوام کی خالص تہذیب وثقافت کی تخریب ہے۔ یہ داستان بہت تلخ ہے۔ یعنی اس کی تشریح کے وقت واقعی رونا آتا ہے کہ انھوں نے اقوام اور تہذیبوں کے ساتھ کیا کیا ہے! اسی افریقا میں جو آپ دیکھتے ہیں، اس کی اپنی تہذیبیں اور ثقافتیں تھیں۔ یہ آئے اور انھوں نے سب کچھ برباد کر دیا، خراب کر دیا، درحقیقت تخریبکاری کی۔ یہاں بھی لوٹ مار کی۔ ثقافتی غارتگری کی۔ اور اس کے بعد اقوام کے دینی اور ملی تشخص کو نشانہ بنایا تاکہ ان پر اپنا تسلط جما سکیں۔
آج ہم استعمار کے ان تینوں مرحلے سے دوچار ہیں۔ آج دنیا کی خودسر شیطانی طاقتوں کی نگاہیں ملکوں اور اقوام کے قدرتی ذخائر پر لگی ہوئی ہیں۔ ان کی بری نگاہیں ان ذخائر پر جمی ہوئی ہیں، ان کی حقیقی تہذیب و ثقافت بھی ان کے نشانے پر ہے اور ان کے ملی اور اسلامی تشخص پر بھی ان کی نگاہیں ہیں۔ وہ انہيں برباد کرنے کی فکر میں ہیں اور ان اقوام پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیں۔ البتہ سبھی ایک طرح کی نہیں ہیں، ان کا سرغنہ امریکا ہے۔ آج ہم استعمار اور استکبار کی جو تعریف کرتے ہیں اس کا مکمل اطلاق امریکی حکومت پر ہوتا ہے جو دنیا کی مالی طاقتوں کے تسلط میں ہے۔ یعنی آج دنیا کی درجہ ایک کی مالی طاقتوں نے، بعض مغربی حکومتوں اور شاید ان میں سب سے زیادہ امریکی حکومت کو اپنے تسلط میں لے رکھا ہے۔ ان کی اپنی رائج اصطلاح میں، ٹرسٹ اور کارٹلز وغیرہ ان حکومتوں پر مسلط ہیں اور استعمار کے تینوں مرحلوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسانی، جنسی اور مالی شعبوں ميں ہر روز ایک نیا عملی تحفہ سامنے آ رہا ہے، وہ ان کی اسی منصوبہ بندی کی دین ہے۔ یعنی یہی اقوام کے تشخص کی تبدیلی، اقوام کی مصلحتوں کا تغیر اور انہيں اپنی طرف کھینچنے کی کوشش۔
قرآن اس سلسلے میں واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے "ودّوا ما عنتّم' ہر وہ چیز جو تمہیں مشکل میں ڈالتی ہے وہ تمہارے دشمنوں، کفار، شیطان کی اطاعت کرنے والوں اور شیطانی حرکتیں کرنے والوں کو اچھی لگتی ہیں۔ قَد بَدَتِ البَغضاءُ مِن اَفواھھم وَ ما تُخفی صُدورُھم اَکبَر' (16) ان کی دشمنی ان کی زبان سے بھی ظاہر ہے۔ بولتے ہیں اور بات کرتے ہیں تو اس میں بھی اپنی دشمنی دکھا دیتے ہیں۔ حرکت کرتے ہیں تو دشمنی ظاہر کرتے ہیں، لیکن یہ دشمنی ان کے دل میں زیادہ ہے۔ بعض اوقات، بعض معاملات میں ان کی دشمنیاں آشکارا طور پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔ یعنی بعض معاملات میں وہ خود اپنے ضمیر کی خباثت ظاہر کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں بچوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے پر امریکی کانگریس کے اراکین کھڑے ہوکر قاتل کے لئے تالیاں بجاتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں! یہ وہی "و ما تخفی صدورھم اکبر" ہے جو یہاں ظاہر ہوتا ہے، یہاں وہ خود ظاہر کر دیتے ہیں۔
کئی ہزار بچے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے ہیں اور یہ قاتل کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں! یا امریکی جنگی بحری جہاز ونسنس کا کپتان، تین سو مسافروں سے بھرا مسافربردار طیارہ مار گراتا ہے ، اس کے سارے مسافرین کا قتل عام کر دیتا ہے اور میڈل دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ (17) "ماتخفی صدورھم" یہاں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ ڈپلومیٹک مسکراہٹ کے پيچھے پوشیدہ رہتا ہے۔ ڈپلومیٹک مسکراہٹ کے پیچھے یہ دشمنیاں، یہ کینے اور یہ باطن کی خباثت چھپی ہوئی ہے۔ ہم اپنی آنکھیں کھولیں: وفھما فی خلقک۔ اپنی آنکھیں کھولیں؛ "تسّرون الیھم بالمودّۃ" (18) نہ ہوں۔ اس بات کی طرف متوجہ رہیں کہ کس سے ہمارا سامنا ہے، ہم کس سے ڈیل کر رہے ہیں، کس سے بات کر رہے ہیں۔ اگر انسان اپنے فریق مقابل کو پہچان لے تو اس سے کوئی ڈیل کرے گا تو اس کو معلوم ہوگا کیا کرنا چاہئے۔ اسے پہچانیں اور جانیں!
میری نظر میں ہمارا موجودہ دور، یہ تحریک استقامت، یہ مزاحمتی تحریک، اسی بعثت کی ایک جھلک ہے۔ ایران اسلامی سے جو استقامت شروع ہوئی، اس نے مسلم اقوام کو بیدار کر دیا۔ بعض مسلم اقوام کو میدان میں لائی۔ عام طور پر مسلم اقوام کو بیدار کیا لیکن بہت سے غیر مسلموں کے ضمیروں کو بھی بیدار کیا۔ اس نے تسلط پسند نظام کو پہچنوا دیا۔ تسلط پسند نظام پہچان لیا گیا۔ بہت سی اقوام تسلط پسند نظام کو نہیں پہچانتی تھیں۔
آپ غزہ پر نظر ڈالیں! اس غزہ نے جو ایک محدود علاقے میں ہے، سرتا پا مسلح صیہونی حکومت کو جس کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل تھی، جھکا دیا! یہ مذاق ہے؟ یہ وہی بعثت کی جھلک ہے۔ یہ وہی ایمان و عقل ہے۔ یہ وہی تلاوت آیات قرآن ہے۔ یہ وہی خدا سے لو لگانا ہے۔ یہ وہی "انّ العزۃ للہ جمیعا" پر اعتقاد ہے۔ حزب اللہ کو جو سربلند ہے، سید حسن نصراللہ جیسی شخصیت کو کھونا پڑتا ہے، یہ مذاق نہیں ہے! دنیا میں سید حسن نصراللہ (رضوان اللہ علیہ) جیسی قد آور، اس عظیم شہید کے برابر کتنی شخصیات پائی جاتی ہیں؟ حزب اللہ اتنی عظیم شخصیت سے محروم ہو گئی۔ دوست ودشمن سمجھ رہے تھے کہ حزب اللہ ختم ہو گئی۔ حزب اللہ نے دکھا دیا کہ نہ صرف یہ کہ ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کا جوش و جذبہ بڑھ گیا اور وہ ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹی رہی۔ یہ وہی بعثت کی جھلک ہے۔ یہ مسلمانوں کے حصے میں ہے۔
غیر مسلموں میں، ضمیرجھنجھوڑ دئے گئے۔ جو اعداد و شمار مجھے دیے گئے ہیں، ان کے مطابق تقریبا 30 ہزار صیہونیت مخالف مظاہرے، اس مدت میں 30 ہزار صیہونیت مخالف مظاہرے دنیا کے 619 شہروں میں انجام پائے! عوام بیدار ہو گئے۔ ضمیر جاگ اٹھے۔ یہ استقامت ہے۔ یہ مزاحمت بعث کی ایک جھلک ہے۔ خود امریکا میں لوگ جمع ہوئے، یہ خود امریکی تھے، انھوں نے کہا: "امریکا مردہ باد" خود امریکا کے اندر! یہ وہی ادراک کا انقلاب ہے۔ یہ وہی امر ہے جس کا بیڑا انبیائے کرام نے اٹھایا اور اس سلسلے کا عظیم ترین، اہم ترین اور حیرت انگیز ترین کارنامہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے زمانے اور رہتی دنیا تک کے لئے انجام دیا اور آج مزاحمت اسی کو (دنیا کو) دکھا رہی ہے۔ بنابریں ہماری پوری توجہ ان حقائق پر ہونی چاہئے اور ہم قرآن کریم کی اس آیہ شریفہ کو یاد رکھیں کہ "وَ لا تھنوا وَ لا تَحزَنوا وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنین۔"
و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس جلسے کے شروع میں صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے تقریر کی۔
1۔ سورہ یاسین آیت نمبر 68 " ۔۔۔۔۔ کیا وہ فکر نہیں کرتے؟۔"
3۔ سورہ بقرہ، آیت نمبر242 " ۔۔۔۔ شاید تم غورفکر کرو۔"
4۔سورہ اعراف، آیت نمبر 174"۔۔۔۔ شاید وہ غوروفکر کریں۔"
5۔ سورہ نساء آیت نمبر 82" کیا قران کے معانی پرغوروفکر نہیں کرتے۔"
6۔ سورہ ملک، آیت نمبر10 " اور کہیں اگر ہم نے سنا ہوتا (اور قبول کیا ہوتا) یا اس پر غوروفکر کیا ہوتا۔۔۔۔"
7۔ سورہ اعراف آیت نمبر 59 '۔۔۔۔۔۔ اے میری قوم والو! خدا کی پرستش کرو کیونکہ اس کے علاوہ تمھارا کوئی معبود نہیں ہے، مجھے تمھارے حوالے سے یوم عظیم (قیامت) کا خوف ہے"
8۔ سورہ شعرا، آیت نمبر 108 " خدا کو یاد رکھو اور میری اطاعت کرو"
9۔ نہج البلاغہ پہلا خطبہ" تو اس نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا اور ایک کے بعد دوسرا پیغمبر بھیجا، تاکہ وہ خدا سے کئے گئے وعدے پر عمل کا جو انسان کی فطرت میں ہے، حکم دیں اور اس نعمت کی یاد دہانی کرائيں جو فراموش کر دی گئی ہے اور دلیل اور حجت کے ذریعے انہیں راستے پر لائیں اور علم و دانش کے چھپے ہوئے خزانے کو باہر لائیں۔
10۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 17" ۔۔۔۔ خدا نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں اس تاریکی میں چھوڑ دیا جہاں انہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا"
11۔ سورہ قصص آیت نمبر 49 " قُل فَأتوا بِکِتابٍ مِن عِندِ اللہ ھو اھدی منھما اتّبعہ"
12۔ سورہ فاطر، آیت نمبر 10 " جو بھی عزت چاہتا ہے، (جان لے کہ) عزت صرف خدا کے اختیار میں ہے۔
13۔ سورہ یونس آیت نمبر 64 " ۔۔۔۔ عزت سب کی سب، خدا کی طرف سے ہے ۔۔۔۔"
14۔ سورہ آل عمران ، آیت نمبر 139 " اور اگر مومن ہو تو سست نہ پڑو اور غم نہ کرو، اس لئے کہ تم برتر ہو"
15۔ کافی، جلد 2 صفحہ 586
16۔ سورہ آل عمران ، آیت نمبر 118 " ۔۔۔۔ ان کی آرزو ہے کہ تم تکلیف میں مبتلا ہو جاؤ۔ ان کی باتوں اور لحن سے دشمنی آشکارا ہے اور وہ زیادہ ہے جو ان کے سینوں ميں چھپا ہوا ہے۔
17۔ تین جولائی 1988 کو ایران کا ایک مسافر طیارہ بندرعباس سے دبئی جا رہا تھا کہ خلیج فارس ميں امریکا کے ونسنس جنگی بحری جہاز نے ایک میزائل سے اس کو نشانہ بناکر تباہ کر دیا۔ اس حملے میں مسافر طیارے کے 290 مسافر شہید ہو گئے جن میں 66 بچے اور 53 خواتین شامل تھیں۔ اس کے کچھ دن بعد ونسنس جنگی بحری جہاز کے کپتان کو نشان شجاعت دیا گیا!
18۔ سورہ ممتحنہ، آیت نمبر1 "۔۔۔۔۔ تم خفیہ طور پر ان سے دوستانہ روابط برقرار کرتے ہو۔۔۔۔"