تمام مسلمان، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اولیائے خدا سے مروی معتبر احادیث کی بنیاد پر مہدئ موعود کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت، عالم اسلام میں کہیں بھی ہماری قوم اور شیعوں کی طرح اتنی نمایاں نہیں ہے اور اس کا ایسا درخشاں چہرہ اور ایسی دھڑکتی ہوئي اور پرامید روح بھی کہیں اور نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی متواتر روایات کی برکت سے، مہدئ موعود کو ان کی خصوصیات کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ ہمارے لوگ، اللہ کے اس عظیم الشان ولی اور زمین پر اس کے جانشین کو اور اسی طرح اہلبیت پیغمبر کے دوسرے افراد کو ان کے نام اور خصوصیات سے پہچانتے ہیں، جذباتی اور فکری لحاظ سے امام زمانہ سے رابطہ قائم کرتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں، گلے شکوے کرتے ہیں، ان سے مانگتے ہیں اور اس آئيڈیل زمانے – انسانی زندگي پر اللہ کے اعلی اقدار کی حکمرانی کے زمانے– کا انتظار کرتے ہیں، اس انتظار کی بہت زیادہ قدروقیمت ہے۔ اس انتظار کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ظلم و ستم کا وجود، انتظار کرنے والوں کے دلوں سے امید ختم نہیں کر پاتا۔ اگر اجتماعی زندگي میں یہ امید کا مرکز نہ ہو تو انسان کے پاس اس بات کے علاوہ کوئي دوسرا چارہ نہیں ہے کہ وہ انسانیت کے مستقبل کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا رہے۔

امام خامنہ ای
9/12/1992