قرآنی انذار اور انتباہ سے وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اسی کے دل پر اس انذار کا اثر ہو سکتا ہے اور یہ انذار اس کی دستگیری کر سکتا ہے، اسے آگے بڑھا سکتا ہے جس میں خوف خدا ہو ... سورۂ مبارکہ طہ میں ہے: "طہ، ماٰ اَنزَلنا عَلَیکَ القُرآنَ لِتَشقیٰ، اِلّا تَذکِرۃً لِمَن یَخشیٰ" (سورۂ طہ، آیات 1 سے 3، طہۤ، ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نہیں نازل کیا ہے کہ آپ اپنے کو زحمت میں ڈال دیں۔ یہ تو ان لوگوں کی یاد دہانی کے لیے ہے جن کے دلوں میں خوف خدا ہے۔) قرآن میں دوسری بھی کئی آیتیں ہیں جو اسی خوف خدا کے بارے میں ہیں۔ خوف خدا بھی متقین کی صفت ہے۔ یعنی اگر ہمارے پاس تقویٰ ہوگا تو ہمارے اندر خشیت الہی بھی پیدا ہو جائےگی۔ میں یہاں اس آیت کریمہ کو پیش کرنا چاہوں گا: "وَ لَقَد ءاتَینا موسیٰ وَ ھٰرونَ الفُرقانَ وَ ضِیاٰءً وَ ذِکرًا لِلمُتَّقین" (سورۂ انبیاء، آیت 48، اور ہم نے موسٰی علیہ السّلام اور ہارون علیہ السّلام کو حق و باطل میں فرق کرنے والی وہ کتاب عطا کی ہے جو ہدایت کی روشنی اور ان صاحبانِ تقویٰ کے لیے یاد الٰہی کا ذریعہ ہے۔) حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو جو چیز عطا کی گئی وہ متقین کے لیے ہدایت اور ذکر تھی۔ متقین سے مراد کون سے افراد ہیں؟ قرآن متقین کی تعریف بیان کرتا ہے: الَّذینَ یَخشَونَ رَبَّھُم بِالغَیب (سورۂ انبیاء، آیت 49، جو ازغیب اپنے پروردگار سے ڈرنے والے ہیں۔) بنابریں تقویٰ اور خشیت الہی یا تو ساتھ ساتھ ہیں، یا بنیادی طور پر وہ ایک دوسرے سے الگ ہیں ہی نہیں بلکہ ایک ہی مفہوم کے تحت آتے ہیں۔
امام خامنہ ای
13/4/2021