بسم اللہ الرّحمن الرّحیم. و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.(1)

آپ سب کو بہت بہت خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ ہماری لیبر سوسائٹی، جس کا چھوٹا سا نمونہ آپ لوگ ہیں، اس گلستان کا گلدستہ ہیں، ہمیشہ خدا کے لطف و کرم آپ کے شامل حال رہے اور آپ ملک کو روز بروز فیضیاب کرتے  رہیں۔ اگر لیبر سوسائٹی پیشرفت کرے، اس کے مسائل حل ہو جائيں، وہ علمی، فکری اور روزگاری پیشرفت حاصل کر لے تو یقینا ملک کو ترقی حاصل ہوگي اور قوم کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گي۔

محترم وزیر کی باتیں اہم تھیں، ان کے بیان میں، بعد میں کیے جانے والے کاموں سے متعلق جو حصہ تھا، ان شاء اللہ اس کے بارے میں کوشش کریں، انھیں دیکھتے رہیں، یقینا نتیجہ خیز ہوں گے، ان شاء اللہ۔ جس حصے میں انھوں نے کہا کہ کام انجام پا چکے ہیں، اس میں اہم نکات تھے میں نے  توجہ سے سنا۔ میں مرتضوی صاحب سے جس چیز کی درخواست کرنا چاہتا ہوں – چونکہ ان کے کام کا ریکارڈ اچھا ہے، پہلے جن جگہوں پر انھوں نے کام کیا تھا، وہاں اچھا کام کیا تھا – یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار پر گہری توجہ رکھیں، خاص طور پر بعض اہم شعبوں پر، جیسے روزگار کی فراہمی کا مسئلہ۔ مختلف حکومتوں میں کچھ کام ہوتے تھے، اعداد و شمار پیش کیے جاتے تھے، پھر جب انسان ان پر غور کرتا تھا تو ان میں تساہلی نظر آتی تھی، یہ کوشش کریں کہ ایسا نہ ہو، جیسے انشورنس کا مسئلہ، روزگار کا مسئلہ، ہاؤسنگ کا مسئلہ، جن چیزوں کا انھوں نے ذکر کیا وہ واقعی بہت اہم ہیں، کافی اہم ہیں۔ دھیان رکھیں کہ اعداد و شمار ایک دم صحیح ہوں،  کیونکہ خود عہدیدار، خود وزیر تو ایک ایک کام نہیں دیکھ سکتا بلکہ اسے رپورٹ دی جاتی ہے۔ توجہ رکھیں کہ اعداد و شمار بالکل صحیح ہوں۔ جن کاموں کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ انجام پائے ہیں، اگر وہ واقعی انجام پائے ہیں تو بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں اور واقعی یہ غنیمت ہے۔ ایسا کام کیجیے کہ ملک کے مزدوروں کی یہ بڑی تعداد، یہ ہمارے عزیز بھائي اور عزیز بہنیں، خوش ہو جائیں، ان کی حوصلہ افزائي ہو۔

اب آتے ہیں اس چیز کی طرف جو میں نے عرض کرنے کے لیے تیار کی ہے۔ یہ نشست جو ہر سال تشکیل پاتی ہے، اول تو یہ اس لیے ہے کہ سماج میں مزدور کی قدر و قیمت کو اونچی آواز سے بتایا جائے، جس چز کا ہمارا دل چاہتا ہے، وہ یہ ہے کہ مزدور کی قدر و قیمت کا پتہ چل جائے۔ البتہ مزدور کا مفہوم ایک بہت ہی وسیع مفہوم ہے، اس وقت میری مراد صنعتی، زرعی اور سروس کمنپیوں وغیرہ میں کام کرنے والے یہی مزدور ہیں – مجھے محققین اور یونیورسٹی کے پروفیسروں کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہنا ہے، وہ بھی ایک طرح سے مزدور ہیں لیکن فی الحال وہ میرے مدنظر نہیں ہین – یہی آپ لوگ اور ملک کی لیبر سوسائٹی میرے مدنظر ہے۔ اس سوسائٹی کی قدر سمجھی جانی چاہیے۔ میرا اصرار ہے کہ یہ کام ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ ہمارے ذہن میں کچھ باتیں اور نصیحتیں آتی ہیں جنھیں ہم عہدیداران سے بھی اور خود عزیز مزدوروں سے بھی عرض کرنا چاہتے ہیں تاکہ ان شاء اللہ لیبر سوسائٹی کو آگے لے جا سکیں۔

 روزگار، مزدور اور مزدوروں کے سلسلے میں ہم سب کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کے بارے میں کچھ باتیں  میں عرض کروں گا۔

سب سے پہلے تو یہ کہ ہم مزدور کی اہمیت کس طرح سے سمجھیں؟ کام کی اہمیت سے۔ معاشرے میں کام کی کیا اہمیت ہے؟ کام کی اہمیت سے مزدور کی اہمیت بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ کام، معاشرے کی حیات ہے، کام، لوگوں کی زندگي کی ریڑھ کی ہڈی ہے، کام نہ ہو تو کچھ بھی نہیں ہے۔ جو کھانا ہم کھاتے ہیں، جو لباس ہم پہنتے ہیں، وہ وسائل جنھیں ہم اپنی زندگي میں استعمال کرتے ہیں اور ہماری زندگي ان سے  وابستہ ہے، ان سب کا سرچشمہ کام ہے۔ کام کون کرتا ہے؟ مزدور۔ تو مزدور کی اہمیت کیا ہے؟ مزدور کی اہمیت، معاشرے کی حیات کی اہمیت جتنی ہے، لوگوں کی زندگي جتنی ہے، یہ بات سبھی جان لیں، یہ بات سبھی سمجھ لیں۔ خود مزدور بھی اس نکتے پر توجہ دیں،  اپنی قدر و قیمت سمجھیے میں اپنی گفتگو کے آخر میں اس قدردانی کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔   

    اگر معاشرے میں کام نہ ہو تو یہ پورے کا پورا قومی سرمایہ ٹھپ پڑا رہے گا۔ ہمارے یہاں کانیں ہیں، وسائل ہیں، زمین ہے، پانی ہے، اگر کام ہو تو یہ ساری چیزیں برکت کا سر چشمہ ہوں گي، کانوں سے معدنیات نکالی جائيں گي، پانی اور مٹی کو استعمال کیا جائے گا، زندگي آگے بڑھتی رہے گي۔ اگر کام نہ ہوا تو یہ ساری صلاحتیں مردہ اور بےکار رہ جائيں گي۔ کام، صلاحیتوں کو نکھارتا ہے، یہ  کام کی اہمیت ہے۔ جب ہم نے کام کی اہمیت کو سمجھ لیا  تو یہ واضح ہو جائے گا کہ مزدور کی کتنی اہمیت ہے۔ یہ ایک بات ہوئي۔ پہلے مرحلے میں ہم سب کو اپنے بارے میں، مزدور کے بارے میں اور لیبر سوسائٹی کے بارے میں یہ شناخت ہونی چاہیے۔

جب ہم کام پیدا کرنے اور روزگار پیدا کرنے کی اہمیت کو سمجھ گئے، جسے روزگار کہا جاتا ہے، یعنی واقعی کام، بعض روزگار ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر واقعی کام نہیں ہوتا، جب اسے صرف کیا جاتا ہے تو مفید کام سامنے نہیں آتا، وہ مدنظر نہیں ہے، اگر ہم آٹھ گھنٹے، سات گھنٹے، پانچ گھنٹے، کچھ کم یا کچھ زیادہ فلاں مرکز میں جاتے اور آتے ہیں تو واقعی پانچ گھنٹے کام ہونا چاہیے، سات گھنٹے کام ہونا چاہیے، ہمیں کام پیدا کرنا چاہیے۔ کام کی پیداوار مختلف پہلوؤں سے اہم ہے: سب سے پہلے تو یہ کہ ملک کو کام کی ضرورت ہے، معاشرے کو کام کی ضرورت ہے اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اگر کام نہ ہو تو زندگي نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ مزدور کو اپنی زندگي چلانے کے لیے کام کی ضرورت ہے۔ تیسرے یہ کہ مزدور کو کام کی ایک روحانی اور نفسیاتی ضرورت ہے، خداوند عالم نے انسان کو اس طرح خلق کیا ہے کہ بے روزگاری اسے کاہل بنا دیتی ہے اور کام اسے نشاط عطا کرتا ہے۔ابریں کام کی ضرورت صرف زندگي گزارنے کے لیے نہیں ہے، روحانی لحاظ سے بھی ہمیں کام کی ضرورت ہے، انسان کو کام کی ضرورت ہے۔ چوتھے یہ کہ کام، بدعنوانی کو روکتا ہے، بے روزگاری بدعنوانی کی جڑ ہے۔

بہت سی بدعنوانیاں، بے روزگاری کی وجہ سے سامنے آتی  ہیں۔

ہم نے آج سے کچھ سال پہلے، تین چار سال پہلے، اس وقت کی حکومت کے ساتھ سماجی مسائل کی شناخت کے لیے ایک کام شروع کیا تھا۔ یہاں تک کہ میں خود نشستوں میں شرکت کرتا تھا – کئي کئي گھنٹے کی نشستیں ہوتی تھیں – تاکہ سماجی مسائل کے بارے میں کام ہو سکے، سوچا جا سکے۔ میں خود جس نتیجے پر پہنچا، وہ یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے مسائل، بے روزگاری کی وجہ سے ہیں؛ نشے کی لت بے روزگاری کی وجہ سے ہے، بدعنوانی کی وجہ بے روزگاری ہے، چوری، بے روزگاری کی وجہ سے ہوتی ہے، طلاق اور گھرانے کے بکھراؤ کی وجہ بے روزگاری ہے۔  دیکھیے، وہ ادارے، جن پر کام پیدا کرنے کی ذمہ داری ہے – لیبر منسٹری پر کام پیدا کرنے کی ذمہ داری نہیں ہے، زیادہ تر دوسری وزارتوں پر کام پیدا کرنے کی ذمہ داری ہے – جان لیں کہ کام پیدا کرنا، روزگار پیدا کرنا، حقیقی معنی میں معاشرے کے لیے کتنا اہم ہے، وہ سرمایہ کاری کریں۔ یہ ایک بات ہوئي۔

ایک دوسری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ  آمدنی اور کام کے درمیان ایک براہ راست رابطہ ہو، یعنی ہمارے اس عزیز قاری نے جو یہ آیت پڑھی اس کے مطابق: لَیسَ لِلاِنسانِ اِلّا ما سَعیٰ(2) آمدنی، کوشش اور محنت سے ہونی چاہیے، کام سے ہونی چاہیے، سعی و جدوجہد سے ہونی چاہیے۔ معاشرے کو اس طرح پروان چڑھانا چاہیے، یہ بہت سخت کام ہے، اس کا کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ بہت سی بے حساب ثروت و مال و دولت کے حصول کا طریقہ غلط ہے۔ ہمیں ملک میں بغیر محنت کے حاصل ہونے والی کثیر رقم کے کلچر کو روکنا ہوگا۔ میں نے عرض کیا کہ یہ کام طویل المدت اور سخت ہے لیکن اسے انجام پانا چاہیے۔ بہت سے یہ واسطے، بہت سے یہ معاملات، بہت سی یہ دلالیاں، بعض جگہوں پر یہ رشوت دینا اور رشوت لینا، ملک کے بعض معاشی شعبوں میں یہ سود خوری، یہ وی آئي پی سسٹم کہ فلاں شخص سے تعلق اس بات کا سبب بنے کہ ایک بہت ہی آسان اور بغیر کام کیے ہوئے آمدنی انسان کو حاصل ہونے لگے، یہ سب معاشرے کے لیے نقصان دہ ہیں۔ آمدنی کا کام کے ساتھ سیدھا رابطہ ہونا چاہیے۔ میں نے جو کہا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کل آپ، یا سرکاری ادارے یا میں خود، یہ کام انجام دے سکیں، میں چاہتا ہوں کہ سماج میں یہ کلچر فروغ پائے: کام سے آمدنی کے رابطے کا کلچر۔ بہت سے امتیازی سلوک، بہت سے تعیش پسندانہ کام، بہت سی یہ مضر دولت و ثروت – جس کی برائي کے اثرات انسان سماج میں دیکھتا ہے اور جو لوگ سماج میں مترفین(3) کا مصداق ہیں، جس کا قرآن میں ذکر ہوا ہے(4) – ان میں سے بہت سی چیزیں اس وجہ سے ہیں کہ کام سے آمدنی اور فائدے کا رابطہ کٹ گيا ہے، کام نہیں ہے لیکن آمدنی ہے، یہ نہیں ہو سکتا۔ آمدنی، کام کے سبب ہونی چاہیے۔

اگر ہم نے بدعنوانی سے جنگ کی تو ہم اس کلچر کو پھیلا سکیں گے۔ بدعنوانی سے جنگ کا مسئلہ اہم ہے۔ بدعنوانی کیا ہے؟ بدعنوانی، رشوت ہے، بدعنوانی، وی آئي پی کے نام پر کھانا ہے، بدعنوانی، سود ہے، یہ سب بدعنوانیاں ہیں، برائياں ہیں۔ ان سے جنگ میں جو بھی قدم اٹھایا جائے گا، وہ اس کلچر کے فروغ کی راہ میں ایک حقیقی قدم ہوگا، جسے میں نے عرض کیا۔ البتہ میں نے تقریبا بیس سال پہلے، بدعنوانی سے مقابلے کے سلسلے میں ایک تفصیلی تحریر لکھی تھی، سنہ دو ہزار یا دو ہزار ایک کی بات ہوگي(5) اس میں بھی میں نے کہا تھا کہ بدعنوانی سے مقابلے میں تسلسل چاہیے، ان قصے کہانیوں کے الفاظ میں کہیں تو بدعنوانی سات سروں والے ایک اژدہےکی طرح ہے کہ اگر آپ نے اس کا ایک سر کاٹ دیا تب بھی اس کے چھے سر زندہ باقی رہتے ہیں، حککام کرتے رہتے ہیں۔ یہ مقابلہ ہمہ گير ہونا چاہیے۔ اگر اسی وقت،  محترم حکومتوں اور محترم عہدیداران نے اس سلسلے میں سنجیدگي سے کام کیا ہوتا تو بلاشبہہ آج ہماری پوزیشن بہتر ہوتی۔ بحمد اللہ اس بات کی امید ہے کہ عوامی حکومت اور انقلابی پارلیمنٹ، بدعنوانی سے مقابلے کے اس کام کو سنجیدگي سے آگے بڑھائے گي۔

میری عرض ہے کہ اگر ایک عہدیدار میں، داخلی بدعنوانی سے مقابلے کی ہمت نہیں ہوگي تو پھر اس میں غیر ملکی بدعنوانی سے مقابلے کی ہمت تو بالکل ہی نہیں ہوگي۔ مثال کے طور پر فلاں شخص، اجارہ داری والی تجارت سے غلط فائدہ اٹھا رہا ہے، تو اسے روکا جانا چاہیے، سخت ہے۔ فلاں شخص، بینک کے کریڈٹ سے غلط فائدہ حاصل کر رہا ہے، فلاں شخص بینک کے قرضے نہیں لوٹا رہا ہے، اس سے مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ اگر آپ یہاں مقابلہ نہیں کر سکے تو، وہاں جہاں امریکا جیسی یا کوئي دوسری منہ زور حکومت، جب اس بات پر اَڑ جائے گي کہ ایٹمی توانائي کے معاملے میں آپ کو ایسا کرنا ہوگا اور ویسا نہیں کرنا ہوگا تو آپ مقابلہ نہیں کر پائيں گے۔ جب آپ کے پاس یہاں مقابلے کی طاقت نہیں ہے تو وہاں بھی مقابلے کی طاقت نہیں ہوگي۔ بات یہ ہے۔

ایک دوسری بات، مزدور کے سلسلے میں ذمہ داریوں سے متعلق ہے۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں: یہ باتیں جو وزیر صاحب نے یہاں کہی ہیں، بہت اچھی ہیں، یہ بڑے اہم کام ہیں لیکن اس بات پر پوری توجہ رہے کہ یہ کام تمام تر جزئيات اور تفصیلات کے ساتھ انجام پانے چاہیے۔ مزدور کے سلسلے میں ذمہ داریاں، اکثر یہی ہیں جن کا ذکر کیا گيا۔ میں ایک اشارہ کرتا چلوں۔ ہم سبھی مزدوروں کی تعریف کرتے ہیں۔ مزدور کی تعریف اچھی بات ہے اور یہ لوگوں کو مزدور کے مرتبے سے آگاہ کرتی ہے لیکن زبانی تعریف کافی نہیں ہے۔ بقول شاعر: "قربان تعارف زبانیت شوم"(6) کام کرنا چاہیے، کوشش کرنی چاہیے، مدد کرنی چاہیے۔

ایک بات جسے سبھی کو جاننا چاہیے، سرکاری عہدیداروں کو بھی، انٹرپرینیورز اور سرمایہ کاروں کو بھی کہ بہت سے کام ان کے پیسے اور ان کے وسائل پر منحصر ہیں، سبھی کو جان لینا چاہیے کہ اگر اس بات کی کوشش کی گئي کہ مزدور کی زندگي کی سطح بہتر ہو تو ملک کی صورتحال بہتر ہوگي۔ جب مزدور کو ذہنی فکر لاحق نہیں ہوگي، وہ اپنے کام کی طرف سے آسودہ خاطر ہوگا، اسے سکون حاصل ہوگا اور اس کی زندگي آرام سے گزر رہی ہوگي تو کام کا معیار اوپر جائے گا، پروڈکٹ کی کوالٹی اوپر جائے گی۔ عالمی تجارت بلکہ داخلی تجارت میں بھی ہماری ایک مشکل، پروڈکٹ کی کوالٹی ہے۔ اگر مزدور خوش ہوگا اور وہ یہ جان لے گا کہ اس کی زندگي آسانی سے گزرے گي، وہ یہ جان  لے گا کہ اسے کام کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے، اسے سکون حاصل ہوگا تو ا س کا کام بہتر ہوگا، کام کا معیار بہتر ہوگا، کام کی سطح اوپر جائے گي، یہ بات سبھی کو جان لینی چاہیے۔ بنابریں مزدور کی زندگي کو بہتر بنانے کے لیے کی جانے والی ہر کوشش دراصل، کام کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے، پروڈکٹ کی کوالٹی بہتر بنانے کی کوشش ہے، ملک کی ترقی کے لیے کی جانے والی کوشش ہے، یعنی سرمایہ کاری ہے۔ اگر ہم لیبر سوسائٹی کے مسائل کو دور کرنے کے لیے کوشش کریں تو درحقیقت ہم نے سرمایہ کاری کی ہے، یہ خرچ نہیں ہے، یہ سرمایہ کاری ہے۔ یہ بات سبھی جان لیں، عہدیداران بھی جان لیں ان کاموں کے بارے میں جو ملک سے متعلق ہیں چاہے وہ سرکاری ہوں یا غیر سرکاری اور اسی طرح کارخانوں کے مالکان، سرمایہ کار، انٹرپرینیورز وغیرہ بھی جان لیں۔

خیر، پیداوار ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے یعنی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی پروڈکشن ہے اور پروڈکشن کی ریڑھ کی ہڈی مزدور ہے۔ ہمیں مزدور یعنی اس ریڑھ کی ہڈی کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے۔ ہم نے اس سال، سال کے نعرے میں کہا: پیداوار میں پیشرفت۔ تو پروڈکشن میں پیشرفت کیسے ہوتی ہے؟ پروڈکشن میں پیشرفت کا ایک اہم حصہ، مزدوروں سے متعلق ہے۔ اگر وہ خوشی اور دلچسپی کے ساتھ کام کریں تو ایسا ہوتا ہے۔ بنابریں اس نکتے پر توجہ دیں، محترم عہدیداران بھی اور سرمایہ کاری کرنے والے، روزگار پیدا کرنے والے اور ورکشاپس وغیرہ بنانے والے بھی توجہ دیں کہ پروڈکشن میں پیشرفت کے لیے، صورتحال بہتر بنانے کے لیے انھیں مزدور کی زندگي کو بہتر بنانے کو ایک اہم اور بنیادی اصول سمجھنا چاہیے۔

ایک دوسری بات کام کی آمدنی کی منصفانہ تقسیم ہے کہ ہم نے مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں میں اس سلسلے میں ایک شق رکھی تھی اور اس پر بحث کی تھی، کافی پہلے اس بات پر بحث و تمحیص ہو چکی ہے۔ انسانی سرمائے کی حیثیت سے مزدور کے حصے پر، جو کہ ایک انسانی ذخیرہ ہے، انسانی سرمایہ ہے جس کا اثر مادی سرمائے سے زیادہ ہے، کام کے نتیجے یعنی پروڈکٹ کی قدر و قیمت طے کرنے میں، توجہ دی جانی چاہیے۔ میں یہیں پر اس بات سے ایک نتیجہ نکالنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پروڈکٹ کی قدر و قیمت میں مزدور کا حصہ زیادہ ہو تو ہمیں مزدور کی تعلیم، مہارت اور تجربے کو بڑھانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور یہ بات وزیر محترم کی گفتگو میں بھی تھی، اسے بہت سنجیدگي سے لینا چاہیے۔ کسی کام کے نتیجے کی قدر و قیمت طے کرنے میں ماہر، تجربہ کار، تعلیم یافتہ اور خلاقیت رکھنے والے مزدور کا حصہ، کافی زیادہ ہوتا ہے، اسی تناسب سے آمدنی میں اس کا حصہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اب اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم سرمایہ کار وغیرہ کے مقابلے میں محاذ کھڑا کرنا چاہتے ہیں، نہیں، میں کسی بھی صورت میں اس کی سفارش نہیں کروں گا۔ سرمایہ کار، انٹرپرینیور اور مزدور، ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اگر یہ نہ ہو تو وہ کچھ نہیں کر سکتا، وہ نہ ہو تو یہ کچھ نہیں کر سکتا، دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ جو چیز اس منصفانہ حصے کو یقینی بنا سکتی ہے وہ انصاف اور انصاف کا ماحول ہے، اس چیز کے برخلاف جس کا نعرہ کمیونسٹ لگاتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے، وہ جھوٹ بولتے تھے۔ وہ جنگ کے ماحول، ٹکراؤ کے ماحول اور ایسی ہی باتوں کی ترویج کرتے تھے، عملی طور پر یہ ثابت ہو گيا کہ انھیں غلط فہمی تھی، بہت بڑی غلطی تھی، انھیں کوئي نتیجہ بھی حاصل نہیں ہوا، عملی طور پر وہ اپنے نعروں کے پابند بھی نہیں تھے۔ انصاف کے ماحول، تعاون کے ماحول، یکجہتی کے ماحول، خدا کو حاضر و ناظر سمجھنے کے ماحول کی حکمرانی ہونی چاہیے تاکہ کامیاب ہو سکیں۔ البتہ بعض مقامات پر سرمائے کا وسیلہ، ایک طرف مزدور کا حق پامال ہونے کا سبب بنتا ہے، اسے روکا جانا چاہیے۔ دوسری طرف بھی ممکن ہے کہ اس کے لیے کچھ محدودیت پائي جاتی ہو، اس پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہوا۔

ایک دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات جو میں نے کہی، اس سے میں یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ مزدور کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی راہ ہموار کرنا، ایک فریضہ ہے۔ ایک حدیث ہے جسے میں نے نوٹ کیا ہے، حدیث میں کہا گيا ہے: "مَن‌ ظَلَمَ‌ اَجیراً اَجرَہُ اَحبَطَ اللہُ عَمَلَہُ وَ حَرَّمَ عَلَیہِ ریحَ الجَنَّۃ" اگر کوئي کسی مزدور پر ظلم کرے، اس کی اجرت اور مزدوری کے سلسلے میں ظلم کرے تو اس کے سبھی نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں، حبط ہو جاتے ہیں – حبط یعنی تباہ ہو جانا، ختم ہو جانا – وَ حَرَّمَ عَلَیہِ ریحَ الجَنَّۃ اور خداوند عالم ایسے شخص کے لیے جنت کی خوشبو کو حرام کر دیتا ہے! مطلب یہ کام ایسا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ ظلم ہے کیا؟ کیا ظلم یہ ہے کہ صرف اس کی مزدوری نہ دیں؟ ہاں ٹھیک ہے، یہ ایک بڑا ظلم ہے لیکن صرف یہی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے کہ انشورینس، علاج معالجے، مہارت کی سطح کو اونچا اٹھانے،  تعلیم، جدت عمل کا موقع نہ دینا وغیرہ جیسے یہ سبھی مسائل ظلم ہیں۔ مطلب یہ کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ مزدور پر ظلم نہ ہو تو اس کی مہارت کی سطح کو اوپر اٹھانے کے وسائل فراہم کیجیے، راہ ہموار کیجیے، انشورینس کے مسئلے کو حل کیجیے، علاج معالجے کے مسئلے کو، فیملی کی صحت و سلامتی کے مسئلے کو، روزگار کی سیکورٹی کے مسئلے کو حل کیجیے، ان چیزوں کا نہ ہونا بھی ظلم ہے۔ خیر تو یہ بھی ایک بات ہوئي۔

ایک دوسرا نکتہ جو شاید ہمارے معروضات کی آخری بات ہو، یہ ہے کہ ہماری لیبر سوسائٹی آج تک انقلاب اور نظام کی وفادار رہی ہے۔ دیکھیے (لیبر سوسائٹی کے) یہ چودہ ہزار شہید، در حقیقت مزدوروں کے ہاتھ افتخار کے چودہ ہزار پرچم ہیں۔ یہ لوگ جو شہید ہوئے – چونکہ میں شہیدوں کے حالات زندگي کا مطالعہ کرتا ہوں، اس لیے جانتا ہوں کہ – ان میں سے بعض مزدور تھے، فیملی والے بھی تھے، ان کے دو، تین، چار بچے بھی تھے لیکن انھوں نے ذمہ داری محسوس کی، دیکھا کہ دشمن نے ملک، انقلاب اور نظام پر حملہ کیا ہے، انھوں نے اپنا فرض سمجھا اور بچوں کو خدا کی امید پر چھوڑ کر میدان جنگ میں گئے اور شہید ہو گئے۔ الحمد للہ ان سے کئي گنا زیادہ لوگ گئے تھے لیکن بحمد اللہ زندہ ہیں، شہید نہیں ہوئے لیکن بہرحال چودہ ہزار شہید! کوئي مذاق نہیں ہے۔

میرے خیال میں نظام سے لیبر سوسائٹی کی وفاداری کی سب سے اہم نشانی، ان عشروں کے دوران ان کا رویہ اور عمل رہا ہے۔ انقلاب کے اوائل میں کچھ گروپس کی کوشش تھی، ملک کے اندر کچھ گروپس کوشش کر رہے تھے اور ان کا ہدف تھا کہ مزدوروں کو سڑک پر لے آئیں، ورکشاپس اور کارخانے بند ہو جائيں اور انقلاب شکست سے دوچار ہو جائے، یہ ان گروہوں کی کوشش تھی۔ پھر رفتہ رفتہ وہ گروہ کنارے چلے گئے اور اس معاملے میں زیادہ تر غیر ملکی بدخواہ شامل ہو گئے، یہ سلسلہ آج تک جاری رہے، انھوں نے ورغلایا بھی اور لیبر سوسائٹی کو نظام کے سامنے لا کھڑا کرنے کے لیے سطحی اور غیر حقیقی نعروں کے ذریعے اقدامات بھی کیے۔ لیبر سوسائٹی نے ذہانت کا مظاہرہ کیا، ڈٹ گئي، یہ بہت اہم ہے۔ یہ کہ لیبر سوسائٹی ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ پر کیے جانے والے اتنے زیادہ پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہو، وہ کام نہ کرے جو دشمن چاہتے ہیں اور اسے پتہ ہو کہ وہ کیا کر رہی ہے، میرے خیال میں یہ لیبر سوسائٹی کا بڑا جہاد ہے، یہ بہت گرانقدر ہے، مزدوروں نے دشمن کی چالوں کے مقابلے میں ذہانت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا۔ لیبر سوسائٹی کو نظام کے مقابلے پر لانے کی بہت کوشش کی گئي لیکن اللہ کی مدد و نصرت سے دشمن ایسا نہ کر سکے، اس کے بعد بھی وہ کوشش کر رہے ہیں، اس وقت بھی کوشش کر رہے ہیں، اس وقت بھی اور مستقبل میں بھی اللہ کی مدد و نصرت سے وہ ایسا نہیں کر پائيں گے۔ البتہ مزدوروں کے کچھ اعتراضات تھے، جن میں سے کچھ، جہاں تک میری معلومات ہیں، صحیح اور بجا تھے۔ تنخواہ دیر سے ملنے پر اعتراض، غلط طریقے سے کام اور جگہ سپرد کیے جانے پر اعتراض۔ کبھی کسی جگہ کو، کسی اہم کام کے مقام کو غلط طریقے سے، برے طریقے اور بدعنوانی سے کسی کے حوالے کر دیتے ہیں، مزدور وہاں موجود ہے، وہ سب کچھ قریب سے دیکھ رہا ہے، اعتراض کرتا ہے، یہ حکومت کی مدد ہے، یہ سسٹم کی مدد ہے، یہ نظام کو مطلع کرنا ہے۔ اس طرح کے جس معاملے میں بھی عدلیہ جیسے ذمہ دار اداروں نے چھان بین کی تو انھوں نے پایا کہ مزدور صحیح کہہ رہے ہیں، ان حالیہ معاملوں میں – مجھے ان میں سے بعض معاملوں کے بارے میں قریب سے اطلاع تھی – لیبر سوسائٹی نے دشمن سے حدبندی کر لی تھی، مزدوروں نے فلاں معاملے اور فلاں جگہ کے اعتراض سے دشمن کو فائدہ نہیں اٹھانے دیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں اس کام پر اعتراض ہے لیکن ہم دشمن سے بھی بیزار ہیں، نظام کے دوست ہیں، ہمراہ ہیں۔ مزدوروں کا اقدام یہ ہے۔

ایک اور بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، جس کی طرف میں نے شروع میں اشارہ کیا تھا – کام پیدا کرنے کے مسئلے کے بارے میں، وہ یہ ہے کہ ملک کے عہدیداران کو تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے۔ ہمارے یہاں بڑی تعداد میں جوان ہیں، دو طرح کے نوجوان ہیں جن کے بارے میں سنجیدگي سے سوچنے کی ضرورت ہے: ایک وہ تعلیم یافتہ بے روزگار جوان ہیں جن کے پاس اپنی تعلیم کے لحاظ سے کام نہیں ہے، عوام سے رابطے کا ہمارا شعبہ کبھی کبھی فیمیلیز سے ملاقات کرتا ہے اور اس کی رپورٹ مجھے دی جاتی ہے، مجھے معلوم پڑتا ہے کہ مثال کے طور پر ایک سبجیکٹ کا تعلیم یافتہ جوان ہے، اس نے ڈپلومہ بھی کیا ہے لیکن اس وقت ایک بہت ہی معمولی کام کر رہا ہے، یعنی اپنے شایان شان کام نہیں کر رہا ہے، اس طرح کے بہت سے  نوجوان ہیں، ان کے بارے میں سوچا جانا چاہیے، یہ بہت اہم کام ہے۔ یہ  نوجوان، ملک کا سرمایہ ہیں، انھیں یوں ہی بے کار نہیں رہنا چاہیے۔ کچھ ایسے بھی نوجوان ہیں جو نہ پڑھنا چاہتے ہیں، نہ کام کرنا چاہتے ہیں، واقعی سیاسی، سماجی اور معاشی ماہرین اور صاحب رائے افراد کو بیٹھ کر ان کے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے، حکومت کی مدد کریں تاکہ ان کے لیے کچھ سوچا جا سکے۔ افسوس کہ ملک میں اس طرح کے نوجوان بھی ہیں، ایسے  نوجوان جن کے پاس کام نہیں ہے اور وہ کام کے متلاشی بھی نہیں ہیں، تعلیم حاصل نہیں کرتے اور تعلیم حاصل کرنا بھی نہیں چاہتے۔ ملک میں اس طرح کے  نوجوانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ یہ بھی سرمایہ ہے، اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ واقعی ان کے لیے بھی ضرور کچھ سوچا جانا چاہیے۔ یہ وہ کام ہے جسے معاشی اور انسانی امور کے ماہرین اور صاحب رائے افراد کو ضرور انجام دینا چاہیے۔

بہرحال لیبر سوسائٹی کے سلسلے میں میری رائے ایک طرف تحسین اور تعظیم کی ہے – ہم حقیقی معنی میں دل کی گہرائيوں سے آپ کا احترام کرتے ہیں اور آپ کی عظمت کو سمجھتے ہیں – ایک طرف ہمارا ماننا ہے کہ ملک میں مزدوروں کی زندگي کی سطح میں ایک زبردست تبدیلی آنی چاہیے، ان شاء اللہ جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان سے ضرور پیشرفت ہوگي، دوسری طرف دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہنے اور دشمن کے بہکاوے میں نہ آنے کی وجہ سے طرف لیبر سوسائٹی کو ہم دل سے سراہتے ہیں اور آپ کے لیے خیر و برکت کی امید اور آرزو رکھتے ہیں۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو محفوظ رکھے، سلامت رکھے اور حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مقدس اور امام خمینی کی پاکیزہ روح کو آپ سب سے راضی و خوشنود رکھے۔

و السّلام علیکم و‌ رحمۃ اللہ و‌ برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں کوآپریٹو، لیبر اور سوشل ویلفیئر کے امور کے وزیر جناب سید صولت مرتضوی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) سورۂ نجم، آيت 39، اور یہ کہ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔

(3) ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جنھیں نعمت کی کثرت، غافل، مغرور اور عیش و عشرت مست بنا کر بغاوت کے لیے ورغلاتی ہے۔

(4) منجملہ سورۂ واقعہ، آيت 45

(5) انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے نام، معاشی بدعنوانیوں کے سلسلے میں آٹھ نکاتی فرمان (30/4/2001)

(6) ہر چند بہ دل دوست نداری ما را   قربان محبت زبانیت شوم  (اگرچہ تو ہمیں دل سے پسند نہیں کرتا لیکن میں تیری زبانی محبت پر ہی قربان ہو جاؤں۔)