بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
عزیز بھائیو اور بہنو! خوش آمدید۔ خاص طور پر شہیدوں کے قابل تعظیم و تکریم لواحقین اور اسی طرح حج کے عظیم فریضے اور عازمین حج کے خدمت گاروں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی شہادت کی مناسبت سے آپ سبھی محترم خواتین و حضرات کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔
مسئلہ حج میں سبھی کے لئے، حج کے امور کے تعلق سے بھی اور عازمین حج کی خدمت کے تعلق سے بھی ایک بنیادی اصول، حج کی اہمیت کو سمجھنا ہے۔ یہ کہ اسلامی نظام اور ان عبادتوں میں جو انسان انجام دیتا ہے، حج کیا اہمیت رکھا ہے، بہت اہم ہے۔ حج کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔ کبھی انسان کسی سفر پر جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سفر زیارت کا ہو، سیاحت کا ہو یا تجارت کا ہو۔ ممکن ہے کہ کبھی مسئلہ سفر سے ماورا ہو۔ مسئلہ، عالمی مسئلہ ہو، بین الاقوامی مسئلہ ہو، اسلامی تعلیمات میں تمدن کا مسئلہ ہو۔ حج کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
قرآن میں حج کے بارے میں متعدد آیات موجود ہیں، ان میں سے ہر ایک میں خاص نکتہ پایا جاتا ہے لیکن دو آیات جن میں حج کے فوائد بیان کئے گئے ہیں، میں نے نوٹ کی ہیں جنہیں بیان کروں گا۔ ایک سورہ مائدہ کی آیت ہے جس میں خدا فرماتا ہے: جَعَلَ اللهُ الکَعبَةَ البَیتَ الحَرامَ قیامًا لِلنّاس۔ (۲) خدا نے خانہ کعبہ کو معاشرے کی بقا اور استحکام کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ «قیامًا لِلنّاس».یعنی اگر حج کا وجود نہ ہو اور حج انجام نہ پائے تو امت اسلامیہ اور اسلامی معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ اسی وجہ سے فقہا کہتے ہیں کہ بعض مواقع پر حج واجب کفائی ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر آپ نے ایک دن دیکھا، خدا وہ دن کبھی نہ لائے، کہ کوئي عازم حج نہیں ہے، دنیا میں کہیں سے بھی کوئی حج کے لئے نہیں گيا، تو آپ پر واجب ہے کہ حج کے لئے جائيں چاہے اس سے پہلے دس بار حج کر چکے ہوں۔ اس گھر، اس اصلی مرکز ور اس بنیادی مرکز کو کبھی بھی خالی نہیں رہنا چاہئے۔ «قیامًا لِلنّاس»۔ یہ تعبیر بہت اہم ہے۔
دوسری سورہ حج کی آیت ہے: وَ اَذِّن فِی النّاسِ بِالحَجِّ یَأتوکَ رِجالاً وَ عَلیٰ کُلِّ ضامِرٍ یَأتینَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمیقٍ * لِیَشهَدوا مَنافِعَ لَهُم۔ (۳) قوم، امت اسلامیہ، عوام، دنیا کے گوشہ وکنار سے حج کے لئے آئیں، تاکہ اپنی آنکھوں سے اپنے فوائد کو دیکھیں: لِیَشهَدوا۔ مشاہدہ کریں، دیکھیں، فوائد کی آماجگاہ میں خود کھڑے ہوں۔ امام جعفر صادق علیہ الصلاۃ و السلام سے پوچھا کہ ان فوائد سے مراد اخروی فوائد ہیں؟ یعنی ثواب وغیرہ؟ آپ نے فرمایا دونوں۔ اخروی فوائد بھی ہیں اور دنیاوی فوائد بھی ہیں۔ حج میں امت اسلامیہ کے لئے ایسے فوائد ہیں جو حج اور اس بین الاقوامی میقات (وعدہ گاہ) کے علاوہ کسی دوسرے عامل کے ذریعے قابل حصول نہیں ہیں۔ ان کا حصول صرف اس عالمی وعدہ گاہ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ دنیاوی فوائد میں سے ایک -اسی تفاہم اور ہم آہنگی کی وجہ سے جو پیدا ہو جاتی ہے- اسلامی دنیا کے تمدن کا ارتقا ہے۔
بعض چیزیں بہت واضح ہوتی ہیں لیکن انسان کی آنکھ سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہی مسئلہ ہے۔ شارع مقدس (خالق شریعت) امت اسلامیہ کی ہر فرد کو مخاطب فرماتے ہیں: وَ اَذِّن فِی النّاسِ بِالحَج۔ اس لفظ 'ناس' (لوگوں) میں بھی بعض نکات پائے جاتے ہیں، جس کی بحث میں اس وقت نہیں پڑنا چاہتا۔ قران کریم کی چند آیات میں 'ناس' کی بات کی گئي، مومنین کی بات نہیں ہے۔ ان میں سے ایک یہی آیت ہے: وَ اَذِّن فِی النّاسِ بِالحَج۔ یہ سبھی لوگوں اور پوری بشریت کے لئے ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پوری بشریت کو آواز دی تھی۔ روایت میں ہے کہ جب خدا وند عالم نے ابراہیم (علیہ السلام) پر وحی نازل فرمائی کہ لوگوں کو دعوت دو، تو آپ کوہ ابو قبیس کے اوپر گئے اور کہا «اَیُّهَا النّاس» (۴) بات صرف ان کی نہیں ہے جو میرے اوپر اعتقاد رکھتے ہیں اور مجھے مانتے ہیں۔ پوری بشریت کو حج کی دعوت دی۔
پوری تاریخ میں، ہر زمانے میں، جب تک یہ دنیا ہے، حضرت ابراہیم کی یہ دعوت موجود ہے۔ کچھ مخصوص ایام میں، طے شدہ اور معینہ زمانے میں – جنہیں سورہ بقرہ میں «اَیّامٍ مَعدودات» (۵) اور سورہ حج میں «اَیّامٍ مَعلومات» (۶) کہا گیا ہے – اور ایک خاص جگہ پر سبھی افراد بشریت کو خداوندعالم نے بلایا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ دعوت وہی قبول کرتے ہیں جو اس دعوت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ آتے ہیں اور عمل کرتے ہیں، لہذا مومنین ہیں، اس کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ دوسرے جو اس کو نہیں مانتے، اس دعوت کا جواب نہیں دیتے، وہ محروم رہتے ہیں۔ یہ بات کہ دنیا کے گوشہ و کنار سے سبھی لوگ ایک معین دن، معینہ تاریخ میں ایک معینہ جگہ پر جمع ہوں، یہ اتفاقیہ نہیں ہے، یہ ایک طے شدہ امر ہے۔ ظاہر ہے کہ انہیں کسی کام کے لئے دعوت دی جاتی ہے۔ آپ ملاحظہ فرمائيں کہ اگر کوئی کال دی جائے کہ لوگوں کا فلاں گروہ، یا فلاں شہر کے لوگ، یا پورے ملک کے لوگ، فلاں روز، فلاں جگہ اور فلاں مقام پر جمع ہوں، تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اجتماع کا ایک خاص ہدف اور مقصد ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہاں آئيں اورچلے جائيں۔ نہیں (اس کا مطلب یہ ہے کہ) آئيے تاکہ ایک کام ہو، آئیے تاکہ ایک مقصد پورا ہو، حج یہ ہے۔ اس کی دعوت ایک ہدف کے لئے دی گئي ہے۔ وہ ہدف کیا ہے؟ امت اسلامیہ کا ارتقا ہے'یہ ہدف، امت اسلامیہ کے افراد کے دلوں کو ایک دوسرے سے قریب لانا ہے۔ یہ ہدف امت اسلامیہ کا اتحاد ہے۔ کس چیز کے مقابلے میں؟ کفر کے مقابلے میں، ظلم کے مقابلے میں، استکبار کے مقابلے میں، انسانی اور غیر انسانی بتوں کے مقابلے میں، ان تمام چیزوں کے مقابلے میں جنہیں ختم کرنے کے لئے اسلام آیا ہے۔ جمع ہوں تاکہ ان کا مقابلہ کریں۔ مثال کے طور پر آج اسرائیل کا مسئلہ ہے، صیہونی حکومت کا مسئلہ درپیش ہے۔ پوری اسلامی دنیا جمع ہو اور صیہونی حکومت کے خلاف اس اجتماع کا ایک پیغام ہو۔ آج دنیا کا مسئلہ استکباری طاقتوں کا نفوذ ہے۔ سب جمع ہوں تاکہ اپنی موجودگی کا اعلان کریں، اپنی طاقت کا اعلان کریں، استکباری طاقتوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہوں۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے۔ یہ دنیاوی فوائد ہیں۔ البتہ دنیاوی فوائد کو اگر ہم شمار کرنا چاہیں تو اس کو لکھنے اور بیان کرنے کے لئے دسیوں صفحات کی ضرورت ہوگی۔ میں نے دو جملے میں عرض کر دیا۔
اخروی فوائد۔ اخروی فوائد انہیں دنیاوی فوائد سے آمیختہ ہیں۔ حج کی تاثیر دلوں میں ہے۔ خداوند عالم سے انس پیدا ہونا۔ خداوند عالم سے رابطے کی تقویت۔ عمل میں اخلاص پیدا ہونا۔ یاد خدا سے متصادم اور اس کی مخالف ہر چیز سے دل کا پاک ہونا۔ یہ سب ہیں۔ یہ چیزیں ہونی چاہئیں۔ یہ اعمال جو حج میں ہیں- یہ احرام، یہ طواف، یہ نماز اور یہ سعی اور یہ عرفات، یہ مشعر اور منیٰ کے اعمال وغیرہ – ہر ایک، ایک مکمل باب ہے، عالم معنی اور عالم غیب کا راستہ روشن اور منور کرنے والا ایک دریچہ ہے اور آپ کے دل اس دریچے سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس طرح حج کے لئے جانا چاہئے۔ اس طرح حج کرنا چاہئے۔
حج کے سلسلے میں ایک مسئلہ مسلمانوں کی عالمی اور سرزمین سے ماورا نگاہ ہے۔ اس سے غفلت نہیں کرنی چاہئے۔ اسلام نے سبھی مسلمانوں سے کہا ہے کہ ان کی نگاہ زمین سے بالاتر اور ماورا ہونی چاہئے۔ فطری طور پر انسان طویل المیعاد اور قلیل المیعاد مسائل اور روز مرہ کی زندگی سے دوچار ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے اور اس سے گریز بھی نہیں ہے لیکن اسی میں محدود نہیں ہونا چاہئے۔ آپ کو اپنی ذاتی زندگی، خاندانی زندگی، اپنے بچوں، اپنے مستقبل، اپنے روزگار، اپنے ملک کے مستقبل اور اپنے ملک کی پیشرفت اور ترقی کی فکر کے ساتھ ہی دنیا کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ ایک روایت میں نے نوٹ کی ہے جو اتفاق سے اسی حج سے مناسبت رکھتی ہے۔ یہ روایت بھی امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہے۔ البتہ روایت زیادہ طولانی ہے۔ یہ روایت وسائل میں ابواب "وجوب الحج" میں ہے۔ توجہ فرمائيں! نکتہ یہ ہے کہ یہ باتیں امام علیہ السلام وجوب حج کی مناسبت سے بیان فرماتے ہیں۔ اس روایت میں جو عبارتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ وَ لَو کانَ کُلُّ قَومٍ اِنَّما یَتَّکِلونَ عَلیٰ بِلادِهِم وَ ما فیها۔ اگر ہر بستی اور ہر قوم صرف اپنے بارے میں، اپنے ملک کے مسائل کے بارے میں اور اپنے شہر کے مسائل کے بارے میں سوچے، صرف ان پر توجہ دے اور انہیں کو اہمیت دے تو، 'ھلَکوا' ختم ہوجائے گی۔ اگر تم یہ نہ جانو کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے تو کمزور ہو جاؤگے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے الفاظ ہیں 'ھلَکوا وَ خَرُبَتِ البِلاد' وہ تمھارا ملک، تمھارے پسندیدہ علاقہ بھی نابود ہو جائے گا۔ خراب ہو جائے گا۔ . وَ سَقَطَتِ الجَلَبُ وَ الاَربَاح- «جَلَب» یعنی آمدنی- تمھاری قومی آمدنی بھی کم ہو جائے گی۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ وَ عَمِیَتِ الاَخبَار۔(۷) دنیا سے بے خبر رہ جاؤ گے۔ دنیا پر نظر ڈالو اور دیکھو کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔
یہ جو ہم دشمن شناسی کے مسئلے کا بار بار ذکر کرتے ہیں، یہ جو ہم کہتے ہیں کہ دشمن کو پہچانیے، دشمن کی روش کو پہچانیے، دشمن کے کام کو پہچانیے، دشمن کی ترقی کی مقدار کو جانیے، دشمن کی کمزوری کو جانیے، دشمن کی طاقت کو جانیے، تو یہ خطاب صرف حکام سے نہیں ہے بلکہ عوام الناس سے بھی ہے۔ جس ملک کے نوجوان، سن رسیدہ لوگ، عالم حضرات، پڑھنے والے، روزگار چلانے والے، سبھی عالمی مسائل پر توجہ رکھتے ہیں، وہ ملک کبھی دھوکہ نہیں کھا سکتا۔ بہت سے عالمی معاملات میں ہمیں اس وجہ سے دھوکہ ہوا ہے کہ عالمی مسئلے پر ہماری توجہ نہیں تھی۔ ہمارا حریف کس نیت سے میدان میں اترا ہے، کس نیت سے ہم سے یہ باتیں کر رہا ہے، وہ کسی مسئلے پر اصرار کر رہا ہے تو اس کا ہدف کیا ہے، ہم کتنے ضرورتمند ہیں وہ کتنا ضرورتمند ہے۔ ان باتوں کو ہمیں جاننا چاہئے۔ اگر یہ ہمیں معلوم ہوں تو ہمیں دھوکہ نہیں ہوگا۔ جہاں ہمیں ان باتوں کا علم رہا اور اپنی معلومات کے مطابق ہم نے عمل کیا، آگے بڑھے، ہم نے اس وقت عالمی، بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر اچھی پیشرفت حاصل کی ہے۔ اس سے امریکیوں کا بہت زیادہ برہم ہونا، ہماری پیشرفت ہے۔ یہ پیشرفت اس لئے حاصل ہوئی کہ جو ان کاموں کے ذمہ دار تھے وہ ہوشیار تھے، سمجھتے تھے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ حج وہ کلیدی مقام ہے کہ جہاں آپ اس ہدف کو حاصل کر سکتے ہیں۔
حج میں یورپ سے آتے ہیں، افریقا سے آتے ہیں، پورے ایشیا سے آتے ہیں، فلاں سیاسی رجحان رکھنے والے ملکوں سے آتے ہیں، دوسرے سیاسی رجحان رکھنے والے ملکوں سے آتے ہیں، ہر طرح کے لوگ آتے ہیں۔ وہاں آپ کے پاس دنیا بھر کے مسآئل سے واقفیت کا موقع ہے، کسی جھوٹے اخبار یا کسی جھوٹی اور خبیث نیوز ایجنسی کے ذریعے نہیں جو پوری دنیا میں جھوٹ پھیلاتی ہے، جھوٹی افواہیں پھیلاتی ہے اور حقائق کو الٹا بیان کرتی ہے، بلکہ آپ نزدیک سے ان باتوں کو سمجھتے ہیں۔ حج یہ ہے۔ حج کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
حج کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ عملی طور پر دکھا دیتا ہے کہ یہ امتیازات جو دنیا میں، مختلف ملکوں میں پائے جاتے ہیں، اسلام آن امتیازات کو قبول نہیں کرتا۔ نسلی امتیاز، جغرافیائی امتیاز، طبقاتی امتیاز، انہیں قبول نہیں کرتا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ آج وہ ممالک جو متمدن ہونے کے دعویدار ہیں- میری نظر میں تمدن ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا ہے- یہی ممالک جو خود کو متمدن سمجھتے ہیں اور بقیہ دنیا کو وحشی، کالے گورے کے مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں، یورپی نسل اور غیر یورپی نسل کے مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں، مہاجرین کے مسئلے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہزاروں مہاجرین سمندر میں ڈوب جائيں، ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی۔ انہیں اہمیت نہیں دیتے۔ انہیں انسان ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ قابل اعتنا مخلوق نہیں سمجھتے۔ اپنے پالتو جانور کو اس اجنبی انسان سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں جو ان کے پڑوس میں رہتا ہے۔ یہ حوادث جن کا انسان دنیا میں روز مرہ کی بنیاد پر مشاہدہ کرتا ہے، ان میں پھنسے ہوئے ہیں، ان مسائل کو حل نہیں کر سکے ہیں۔ اسلام نے حل کر دیا ہے، وہ بھی صرف زبانی نہیں۔ زبانی طور پر قرآن فرماتا ہے: «اِنَّمَا المُؤمِنونَ اِخوَة»(۸)۔ اسی طرح دیگر آیات، روایات اور بزرگان اسلام کے کلام میں، یہ باتیں بھری پڑی ہیں۔ عملی میدان میں دیکھئے، امتیاز و تفریق ختم کرنے کی اسلام کی زبان، زبان عمل ہے۔ کہاں؟ حج میں۔ کالے ہیں، گورے ہیں، دنیا کے فلاں خطے سے آئے ہیں، فلاں تمدن کے ہیں، فلاں تاریخ کے ہیں، سب ایک ساتھ بغیر کسی امتیاز کے، ایک ساتھ ہیں، کوئی امتیاز نہیں ہے۔ ایک ساتھ چلتے ہیں، ایک ساتھ طواف کرتے ہیں، ایک ساتھ سعی کرتے ہیں، ایک ساتھ وقوف کرتے ہیں۔ یہ باتیں بہت اہم ہیں۔ یہ اسرار حج ہیں۔ انہیں معرفت کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔
میں اب جو یہ باتیں عرض کر رہا ہوں -بارہا ان مسائل کو بیان کرچکا ہوں- میری تاکید یہ ہے کہ امور حج کے ذمہ دار حضرات اس سلسلے میں کام کریں، اس انداز سے کام کریں کہ جیسے ہی حج کا نام آئے، خانہ کعبہ کا نام آئے، ہمارے آج کے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ باتیں آ جائيں۔ ان کے اذہان میں، اس ثقافت و تمدن، اس عالمی اتحاد، سرحدوں سے ماورا اور بین الاقوامی نقطہ نگاہ اور امتیازات و تفریق ختم کرنے کا مفہوم مجسم ہو جائے۔ اس کو رواج بنانے اور عام کرنے کے لئے کام ہونا چاہئے، یہ امور حج کے ذمہ داروں اور حج میں ہمارے نمائندہ دفتر کے اراکین، دونوں کی ذمہ داری ہے۔ سب، جس کے اندر بھی توانائی ہے اس کو، حج کے سلسلے میں اس ثقافت کو رواج دینے کے لئے کام کریں۔ ایسا کام کریں کہ لوگ حج کو اس نیت سے ادا کریں۔ اگر ہم اس ثقافت کو لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا سکے تو پھر ہمیں اس بات کی فکر نہیں ہوگی کہ ہماری کوئی بہن یا بھائی حج کے زمانے میں بازاروں میں گھومتا ہے کہ لوگوں کو تحفہ دینے کے لئے وہاں سے گھٹیا سامان خریدے۔ آج یہ فکر ہے، یہ پریشانی ہے لیکن اگر وہ ثقافت رائج ہو جائے تو پھر یہ فکر نہیں رہے گی۔
ہمارے عظیم امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) نے جو تاکید کی ہے، میں نے بھی وہ تاکید کی ہے کہ مسجد الحرام میں -اہلسنت کی نمازوں میں- شرکت کریں، یہ اسی لئے ہے ورنہ، وہاں مسجد الحرام میں دسیوں لاکھ لوگ جمع ہوتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، آپ اپنے ہوٹل میں پچاس افراد کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، یہ نہیں ہوتا۔ اجتماعات میں شرکت کریں، بولیں، بات کریں، رابطہ قائم کریں۔ جی ہاں ان باتوں کی مخالفت ہے، جانتا ہوں۔ ممانعت ہے، لیکن جو ممانعت کرتا ہے وہ بھی ایک انسان ہے اور آپ بھی ایک انسان ہیں۔ آپ بول سکتے ہیں، یہ فوائد حاصل کریں۔ معنوی فوائد یہ دعائیں اور مناجاتیں ہیں۔ جہاں تک ہو سکے دعائيں کریں۔ جہاں تک ہو سکے، (خدا کے حضور) گریہ و زاری کریں، مسجد الحرام اور مدینہ منورہ میں، وہ اعمال جو اللہ کو پسند ہیں، ان مخلصانہ اعمال کو بار بار انجام دیں، خدا کے حضور گریہ و زاری زیادہ کریں، اَللهُمَّ ارزُقنی حُبَّکَ وَ حُبَّ مَن یُحِبُّکَ وَ حُبَّ کُلِّ عَمَلٍ یوصِلُنی اِلیٰ قُربِک۔(۹) جو اعمال ہمیں خدا سے نزدیک کرتے ہیں، جیسے یہی گریہ و زاری، یہی توجہ اور دعائيں جو بیان کی گئی ہیں۔ یا وہ دعائيں جو وہاں سے مخصوص نہیں ہیں (جیسے) یہی دعائے کمیل۔ ایک ساتھ مل کے دعائے کمیل پڑھنا بہت اچھا ہے۔ ہمارے ذمہ دار حضرات اس سلسلے میں اس ملک کے ذمہ داروں سے بات کریں، ان کے ساتھ اس کام کے تعلق سے تفاہم اور توافق کریں تاکہ یہ کام ہو سکے، یہ اس قضیے کا مثبت پہلو، یعنی تقرب خدا کا پہلو ہے۔ دوسری طرف مشرکین سے برائت کا پہلو بھی ہے۔ یہ عظیم اقدام جو جاری ہے اس کو جاری رہنا چاہئے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک قابل فخر کارنامہ یہ ہے کہ اس نے گنجائشیں پہچنوائیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پوری طرح احیا کیا- مکمل طور پر احیا نہیں کیا- لیکن لوگوں کو ان گنجائشوں سے آشنا کیا۔ انقلاب سے پہلے یہ باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ نہ لوگ ان باتوں کی طرف متوجہ تھے اور نہ ہی ہم لوگ جن کے سروں پر عمامے تھے، لوگوں میں ان باتوں کو بیان کرتے تھے۔ ہم بھی ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ یہ ہمیں انقلاب نے دیا ہے۔ یہ باتیں ہمیں انقلابی تحریک نے دی ہیں۔ حج کی یہ عظیم گنجائشیں اور مواقع ہمیں دکھائے۔ ہمیں چاہئے کہ عوام کو یہ گنجائشیں اور مواقع دکھائیں اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔
خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو کامیابی عطا فرمائے، آپ کا حج قبول ہو، ان شاء اللہ خداوند عالم پوری دنیا سے آنے والے عازمین حج کا حج قبول فرمائے۔ انہیں توفیق عنایت فرمائے،عزت و احترام عطا فرمائے اور حضرت امام خمینی (رحمت اللہ علیہ ) کی روح مطہر اور شہدا کی ارواح کو خوشنود فرمائے۔
والسلام علیکم ورحمۃ للہ وبرکاتہ
1) اس اجتماع میں پہلے (حج وزیارت کے امور میں نمایندہ ولی فقیہ) حجت الاسلام والمسلمین سید عبدالفتاح نواب نے رپورٹ پیش کی۔
2) سورہ مائدہ، آیت نمبر 97 کا ایک حصہ
3) سورہ حج آیت 27 و آیت 28 کا ایک حصہ۔ " اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، کہ لوگ (آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے) آپ کے پاس آئیں گے۔ پیادہ اور ہر لاغر سواری پر کہ وہ سواریاں دور دراز سے آئی ہوں گی۔ تاکہ وہ اپنے فائدوں کے لئے حاضر ہوں"
4۔ کافی جلد 4، صفحہ 203
5۔سورہ بقرہ، آیت 203 کا ایک حصہ
6۔ سورہ حج آیت 28 کا ایک حصہ
7۔ وسائل الشیعہ جلد 11، صفحہ 14
8۔ سورہ حجرات، آیت 10 کا ایک حصہ، "بے شک اہل ایمان و اسلام آپس میں بھائی بھائی ہیں۔"
9۔ بحار الانوار، جلد 91 صفحہ 149 (تھوڑے سے فرق کے ساتھ)