گزشتہ موسم خزاں کے بلوؤں کے علل و اسباب کے بارے میں مختلف تحلیل و تجزیئے پیش کئے گئے ہیں۔ ملک کے ایک اہم ادارے، سپاہ پاسداران کے انٹیلیجنس ونگ کے تحلیل وتجزیئے کے بارے میں گفتگو کے آغاز میں، دشمنوں کی منصوبہ بندی کے مختلف پہلوؤں اور علل و اسباب کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
سن 1401 (21 مارچ 2022 کو شروع ہونے والے ہجری شمسی سال) کی پہلی چھے ماہی میں اسلامی جمہوریہ ایران کو ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر متعدد کامیابیاں اور مواقع حاصل ہونے کی طرف، میں اختصار کے ساتھ اشارہ کروں گا۔
ایک؛ پانی کی قلت، بجلی کی کٹوتی اور قدرتی آفات کے بحرانوں سے نمٹنے اور کمترین سماجی لرزش کے ساتھ معیشتی تغیر کے منصوبوں کے نفاذ میں ملک کی مجریہ، مقننہ اور نگراں اداروں کی یک جہتی اور مشترکہ مساعی۔
دوسرے؛ امریکا کے علاقائي منصوبوں میں عدم پیشرفت اور اس کے سازشی منصوبوں کو ناکام بنانے میں رہبر انفلاب اسلامی کی بصیرت و قیادت کے موثر ہونے پر دشمنوں کی تلملاہٹ۔
ایران اور روس کا اسٹریٹیجک تعاون ( بیس سالہ اسٹریٹیجک معاہدہ) شمال جنوب کوریڈور کا فعال ہونا، ایران چین اسٹریٹیجک تعاون ( پچیس سالہ اسٹریٹیجک معاہدہ) ایک پٹی ایک روڈ (شاہراہ ریشم) کے احیا کا آئیڈیا اور مغربی ایشیا میں چین کی موجودگی بھی اس سلسلے میں اہم تھی۔
اسی طرح عراق میں حکومت کی تشکیل، غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ سمندری سرحد کے تعین میں لبنان کی کامیابی، صیہونی حکومت کے خلاف غرب اردن میں غاصب صیہونی حکومت کے خلاف سرگرمیوں کا آغاز، اور اسی دوران افغانستان اور پاکستان میں درپیش چیلنج بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کی پیشرفت کا تسلسل اور یورینیم کی ساٹھ فیصد افزودگی کا اقدام، اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائي اور میزائلی طاقت میں اضافہ (بالخصوص ڈرون پاور) مغربی ایشیا سے لے کر قفقاز اور مشرقی یورپ تک ایران کی علاقائي سرگرمیوں کے دائرے میں وسعت اور اسی دوران، مذہبی و ملی پروگراموں جیسے جشن عید غدیر اور اربعین حسینی کے عظیم مارچ میں معاشرے کے مختلف طبقات کی شرکت اور ثقافتی وسماجی میدان میں ترانے "سلام فرماندہ" کی بین الاقوامی لہر کو بھی نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان حالات نے امریکیوں اور ان کے علاقائی اتحادیوں میں تشویش، بے چینی اور ایران پر وار لگانے کی فکر پیدا کی۔
لہذا انھوں نے 2022 کے ستمبر اکتوبر میں ( ایران کے تعلیمی سال کے آغاز اور نومبر 2021کے واقعے کی برسی کے نزدیک) ملک کے اندر عدم استحکام پیدا کرنے کی غرض سے اپنے عناصر اور آلہ کاروں کو فعال کرنے کے لئے، حجاب اور عورتوں اور نوجوانوں کی آزادی کا مسئلہ اٹھایا تاکہ احتجاج کے ساتھ ہی ایران پر انسانی حقوق کے دباؤ کے لئے بھی زمین ہموار کی جا سکے۔
بنابریں ایک نوجوان کرد سنی لڑکی، مہسا امینی کی موت کا حادثہ، دشمن کی منصوبہ بندی میں تیزی آنے کا عامل بن گیا۔
امریکی حکومت سے وابستہ تھنک ٹینکوں نے اس بات کا جائزہ لیتے ہوئے کہ ایران میں احتجاجی مظاہروں سے کتنا نقصان پہنچ سکتا ہے، خاص طور پر ستمبر اکتوبر 2022 کے واقعات کے پیش نظراسلامی جمہوریہ کو ختم کرنے کے لئے، عورتوں اور نوجوانوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی تھی۔ مثال کے طور پر FDD کی رپورٹ میں کہا جاتا ہے کہ ایران میں آئندہ مظاہروں میں پبلک املاک کو تباہ کرنے سمیت زیادہ تشدد ہو سکتا ہے اور امکان ہے کہ احتجاج دھماکے کی شکل میں اور کمتر وقفے کے ساتھ انجام پائيں گے۔
اگست 2022 میں (دشمن کی) جاسوسی تنظیموں نے اعلان کیا تھا کہ لازمی حجاب کے کے مسئلے میں آپریشن، نظام کے خاتمے کی تمہید ہوگا۔ لہذا انھوں نے لازمی حجاب کے موضوع پر توجہ مرکوز کی اور سوشل میڈیا پر حجاب کی مخالفت کی لہر شروع کر دی۔
بعض سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی مسائل نے بھی دشمن کے اندر اس موضوع پر توجہ مرکوز کرنے کی سوچ کو مہمیز کیا۔ عوام کے مختلف طبقات میں معیشتی اور اقتصادی مسائل میں کچھ ناراضگیوں کا وجود اور بعض سروے رپورٹوں کے مطابق معیشتی مشکلات کے جاری رہنے پر معاشرے کے اندر اعتراض کی کیفیت سے لیکر سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ میں توسیع اور گزشتہ عشروں کے دوران (خاص طور پر کورونا کے برسوں میں) VOD سیٹ لائٹ چینلوں نیز کمپیوٹر کھیلوں سے، نوجوانوں اور بچوں پر مرتب ہونے والے تخریبی اثرات ( اس نسل میں اعتراض کا جذبہ، ہیجانی کیفیت، تشدد اور لذت پرستی کا وجود میں آنا) اور نظام کی اقدار اور اصولوں کے منافی سبک زندگی وجود میں آنے تک ( ان سبھی باتوں سے دشمن کی سوچ کو تقویت ملی)۔
خطے کے ایک ملک میں ایران کے حالات کے بارے میں امریکا، برطانیہ اور صیہونی حکومت کے نمائندوں کی میٹنگ میں چند باتوں پر زور دیا گیا۔ ایک یہ کہ انقلاب مخالف کرد گروہوں کو امریکا کے پانچویں بحری بیڑے کے ذریعے اسلحہ پہنچایا جائے، دوسری اہم مراکز کی نشاندھی میں منافقین کے دہشت گرد گروہ (ایم کے او) کو انٹیلیجنس سپورٹ فراہم کی جائے اور تیسرے یہ کہ ایران کے اندر انقلاب مخالف گروہوں کو خفیہ کارروائیوں کے لئے، سرگرم کیا جائے۔
اس کے علاوہ گزشتہ برسوں کے دوران معاشرے میں مرکزیت رول کا دانشوروں سے سلیبریٹیز کو منتقل کرنے میں تیزی اور ان واقعات سے چند ماہ پہلے سے دشمن کے ابلاغیاتی مراکز، گھریلو چینلوں، فلموں اور تھیئیٹروں میں پولیس، عدلیہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے ادار ے اور گشت ہدایت و رہنمائی ادارے کی مخالفت میں اور عورتوں اور نوجوانوں کے حقوق، عورتوں کی قربانی اور حجاب کو بدنام کرنے والے پروڈکٹس (مقالات اور فلمیں وغیرہ) کی تیاری اور بالاخر ایران کے نظام حتی اسلام میں ظلم و تشدد کی جڑوں کے مضبوط ہونے کا گمراہ کن نظریہ پیش کرنے، ایران کے نظام کے طرفداروں اور مذہبی لوگوں سے نفرت پیدا کرنے اور سماجی و سیاسی خلیج بڑھانے کی کوششوں کا مشاہدہ کیا جا رہا تھا۔
دشمن کی سازشوں اور تخریبی اقدامات میں عام طور پر ایسی آشکارا علامتیں بھی ہوتی ہیں جو انٹیلیجنس کی گہری نگاہوں سے چھپی نہیں رہتیں۔ 2022 کے ہنگاموں اور بلوؤں کے دوران ایرانی قوم کے خلاف ہائیبرڈ جںگ شروع کرنے کے لئے دشمن کے عملی اقدامات کیا تھے؟
بائیڈن حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکی اپنے تجزیوں میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ بہت سے بیرون ملک آپریشنوں میں انہیں شکست ہوئی ہے اور اس کی وجہ ایران کے اقدامات اور اس کے رہبر کی بصیرت اور قیادت ہے۔ یہ شکستیں امریکا کی بین الاقوامی پوزیشن متاثر ہونے کا باعث بنی ہیں لہذا ایران کو اس کی قیمت چکانی چاہئے۔ بنابریں انھوں نے ٹرمپ کے زیادہ سے زیادہ دباؤ کے حربے کو ڈیموکریٹ کی پالیسی کے تحت ہائيبرڈ جنگ کے فارمولے میں تبدیل کرکے اسلامی جمہوریہ ایران کو روکنے اور محدود کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے تین مرحلوں پر مشتمل منصوبہ تیار کیا۔
پہلا مرحلہ، مہسا امینی کی موت پر احتجاجی ماحول تیار کرنے، ناراض گروہ کے احتجاج کو ہوا دینے، جذباتی ماحول وجود میں لانے اور ہم خیال و درمیانی طبقات کی حمایت کے حوالے سے شک و تردید پیدا کرنے پر مشتمل تھا۔
دوسرا مرحلہ، روزانہ کی ہڑتالوں کے سلسلے کے ذریعے احتجاج کو بلوے تک لے جانے، رات کے ہنگاموں اور بلوؤں اور غیر ہم خیال (مخالف) گروہوں اور تحریکوں کو فعال کرنے پر مشتمل تھا۔
تیسرا مرحلہ، ہنگاموں میں مسلح دستوں اور گروہوں کے ذریعے بلوؤں کو مسلحانہ تحریک میں تبدیل کرکے اہم مراکز، پولیس اور فوج پر حملوں اور قتل عام کا تھا۔
2022 کی دوسری سہ ماہی میں انقلاب مخالف عناصر کے ساتھ سی آئي اے کی میٹنگ میں، ملک کے عوام میں ناراضگی کو فائدہ اٹھانے کے لئے بہترین حربہ قرار دیا گیا اور آئندہ مہینوں میں احتجاجات شروع کرانے کے لئے چند تجاویز رکھی گئیں:
1۔ پروجکٹ ٹیم اور اس پر عمل درآمد کے ذمہ داروں کا تعین
2۔ اسلامی نظام کے خلاف انٹرنل وار روم کی تشکیل اور میدان میں اترنے والے لیڈروں اور افراد کی حفاظت کے منصوبوں کی تیاری
3۔ سرغنوں کی حفاظت کے لئے، ان کے ساتھ خفیہ رابطے اور دھماکہ خیز مواد کی فراہمی
4۔ جذباتی( جعلی) خبروں کے ذریعے نفرت پھیلانا
5۔ نظام کے طرفدار مذہبی طبقات اور عوام کی سلامتی پر حملے
6۔ ایسی جگہوں اور نقاط کا پتہ لگانا جہاں سی سی ٹی وی کیمروں سے بچا جا سکے
یہ ایسی حالت میں تھا کہ ریچرڈ نیفیو( امریکی وزارت خارجہ کا ایکسپرٹ اور اوباما حکومت میں ایران مخالف پابندیوں کا منصوبہ ساز) کانگریس کے اجلاس میں، ایران میں حکومت کی تبدیلی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہتا ہے: "تختہ پلٹ کی پالیسی خبر کی حد تک بھی موجود نہیں ہے چہ جائیکہ عملی مرحلے میں ہو۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا اصل چیلنج اس کی قانونی حیثیت نہیں بلکہ اس کا کارآمد ہونا ہے۔ ںظام کی تبدیلی ایک ایسی آرزو ہے کہ نہ امریکا میں اسے پورا کرنے کی توانائي ہے اور نہ ہی ایران کے اندر کسی بھی ( فوجی، بغاوت، رنگین انقلاب کی) شکل میں اس پر عمل درآمد کے لئے زمین ہموار ہے۔ ڈیموکریٹ سمجھتے ہیں کہ اندرونی گروہوں کے کردار، ان کی تقویت اور رہنمائی کے ساتھ ہی، شہری حقوق اور دراندازی کے پروجیکٹوں کی توسیع اور یونیورسٹی اساتذہ اور معاشرے کے دانشور طبقے سے رابطہ بھی ضروری ہے۔"
ان حالات میں امریکیوں نے اپنے دوسرے منصوبے پر عمل درآمد کی طرف قدم بڑھایا۔ دوسرا منصوبہ ایران کو ایک ساتھ، اندرونی بحرانوں میں مبتلا کرنے، بیرونی گروہوں کی مالی امداد، قومیتوں اور قبائل کو ورغلانے، ان کے اندر نظام کے ناکار آمد ہونے کا تاثر پیدا کرنے، دباؤ اور پابندیوں کو جاری رکھنے، وسیع تر سیاسی گوشہ نشینی سے دوچار کرنے کی کوشش اور یہ ظاہر کرنے پر مشتتمل ہے کہ عنقریب فوجی حملہ ہونے والا ہے۔ ان کا دوسرا منصوبہ دراصل ایران کو کمزور بنانا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ دشمن نے سیاسی و سماجی اختلافات اور خلیج پیدا کرنے کے لئے بعض مسائل جیسے مسلکی فرقوں اور عورتوں وغیرہ کے مسئلے پر زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس اقدام کا تجزیہ کیسے کریں گے؟
ان مسائل پر سرمایہ کاری جو معاشرے میں تفرقہ پیدا کر سکتے ہیں اور ملک کے اتحاد کو نشانہ بنا سکتے ہیں، دشمنوں بالخصوص خبیث برطانیہ کی ایسی پرانی روش رہی ہے جس سے اس نے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ صرف ہمارے ملک میں ہی نہیں بلکہ ہر اس معاشرے میں جہاں بھی اس کی گنجائش تھی، کام لیا ہے۔ اگر وضاحت کے ساتھ بیان کرنا چاہوں تو یہ عرض کروں گا کہ یہ سرمایہ کاری دشمن نے تین میدانوں میں کی ہے۔
1۔ خواتین کے سلسلے میں سرمایہ کاری ایک عالمی روش رہی ہے۔ اس بات کی پنہاں اور آشکارا علامتیں فراوانی سے موجود ہیں کہ ہمارے ملک میں بھی دشمن نے اس میدان میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سے پہلے میں نے حجاب کے مسئلے میں جاسوسی تنظیموں کے تجزیے کے بارے میں ایک بات کہی تھی۔ بائیڈن کا یہ آن دی ریکارڈ بیان کہ "ایران میں احتجاجی تحریک خواتین کی قیادت میں شروع ہوئی ہے اور امریکا ایرانی خواتین کے ساتھ ہے" اور اسی طرح حجاب ختم کرانے کے منصوبے پر امریکی وزارت خارجہ اور سی آئی اے کے بڑے بحٹ کی تخصیص اس کی ایک اور مثال ہے۔
بلوؤں کے دوران دہشت گرد تنظیم ایم کے او کے 35 لیڈروں کا اور شاہی نظام کے طرفدار 20 افراد کا پتہ لگا کر گرفتار کیا گیا۔ اس دوران محلات کے جوانوں کے نام کے گروہ کے افراد بھی بعض صوبوں میں گرفتار کئے گئے۔
گزشتہ سال کے بلوؤں کی شدت کے دوران، امریکی وزیر خارجہ نے نام نہاد انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے میدان میں سرگرم ایران کے انقلاب مخالفین کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا کہ حکومت امریکا انسانی حقوق بالخصوص عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں سرگرم عناصر کی مالی حمایت اور خواتین کی صورتحال کے تعلق سے حکومت ایران کے خلاف عالمی اجماع کے حصول کے لئے، وزارت خارجہ کے انسانی حقوق اور جمہوریت کی ترویج و توسیع کے دفتر(DRL) کے ذریعے اپنی کوششیں جاری رکھے گی۔
2۔ قومیتی اور مذہبی میدان میں، حال ہی میں ایک غیر ملکی جاسوسی تنظیم نے ہمارے ملک کے ان صوبوں میں جہاں قومیتی اور قبائلی تنوع زیادہ ہے، اختلاف اور بحران پیدا کرنے، بعض کمیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے، مسلکی تفرقہ اندازی اور قومیتی کشیدگی کو ہوا دینے اور لوگوں کو پانی کی قلت کے بحران کے بہانے ورغلانے اور قیادت نیز سپاہ پاسداران کے تئیں ان کے اندر بدگمانی پیدا کرنے کو اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرنے کا ایک اہم ترین راستہ قرار دیا تھا۔
ایک اور پروجکٹ میں پانچ لاکھ پچاس ہزار ڈالر کی رقم ایران کے سرحدی علاقوں میں قومیتی اور مسلکی اقلیتوں کو ورغلانے اور بلوؤں کی خبر نشر کرنے کے لئے ابلاغیاتی مدد کے عنوان سے مخصوص کی گئی تھی۔
3۔ نوجوانوں کے میدان میں، حال ہی میں ہمیں، ایک دوسرے معاملے میں جو اطلاعات ملی ہیں، ان کے مطابق، نوجون طبقے کو منحرف کرنا، موسم خزاں کے بلوؤں کو یونیورسٹی طلبا کی تحریک کا نام دینا، سیاسی اختلاف کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا، سیاسی جماعتوں کو انتہا پسند اور اعتدال پسند میں تقسیم کرنا، ایران کے بارے میں امریکی اسٹریٹیجی کی تبدیلی کے اقدام میں شمار کیا گیا ہے۔
موسم خزاں کے بلوؤں میں بیس سے زائد ملکوں کی جاسوسی تنظیموں کی مداخلت کی خبریں ملی ہیں۔ اس کی تفصیل کیا ہے؟
سپاہ پاسداران کی انٹیلیجنس ونگ کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ تقریبا بیس ملکوں کی جاسوسی تنظیمیں 2022 کے بلوؤں میں شریک رہی ہیں اور بعض ملکوں کی کئی انٹلیجنس ایجنسیاں دخیل رہی ہیں۔
اس بات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران دشمن ملکوں کی جاسوسی تنظیموں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالف گروہوں کا اتحاد بنانے اور ان میں کام تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مشاہدہ حالیہ واقعات میں کیا گیا۔
FDD کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مظاہروں میں زیادہ تشدد ہوگا جس میں پبلک پراپرٹی کو تباہ کرنا بھی شامل ہوگا اور احتجاج دھماکوں کی شکل میں ہوں گے اور ہر اقدام کمترین وقفے سے انجام پائے گا۔
البتہ ان ملکوں کی جاسوسی تنظیموں اور سفارتخانوں کی مداخلت، براہ راست اور بالواسطہ طور پر مختلف سیاسی، ڈپلومیٹک، سیکورٹی، قانونی اور سائبر شعبے میں پراکسی عناصر کے تعاون سے انجام پائی ہے۔ مثال کے طور پر:
1۔ بلوؤں کی میدانی صورتحال اور بلوائیوں کے مطالبات کی اطلاعات جمع کرنے
2۔ اسلحے اور گولے بارود کی اسمگلنگ کے گروہوں اور راستوں کی شناخت
3۔ دہشت گرد گروہوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا
4۔ بلوائیوں کی مالی اور ابلاغیاتی حمایت
5۔ ایران کو الگ کرنے اور اس کی رکنیت ختم کرنے کے لئے قانونی اور بین الاقوامی اداروں پر دباؤ ڈالنا
6۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر سفارتی دباؤ بڑھانا
7۔ دشمن اور مخالف عناصر کو متحد کرنے اور ان کی تقویت کی کوشش
8۔ ملک سے باہر انقلاب مخالف اجتماعات کے انعقاد کی حمایت اور سہولت کاری
9۔ معیشت اور گرانی کے تعلق سے ابلاغیاتی لہر تیار کرنے اور پابندیوں کے دباؤ میں شدت
10۔ سائبر تخریبی کارروائیوں کی منصوبہ بندی، وہ جملہ اقدامات ہیں جن کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
اس میدان میں جو ممالک سرگرم تھے، ان میں، امریکا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، فرانس، جرمنی، کینیڈا، بلجیئم، آسٹریا، البانیہ، آسٹریلیا، آئس لینڈ، اٹلی، کوزوو، ناروے، بحرین نیوزی لیںڈ اور غاصب صیہونی حکومت کے نام لئے جا سکتے ہیں۔
ان میں سے بعض جاسوسی تنظیموں اور ان کے عناصر کے اقدامات اس طرح تھے:
1۔ تہران میں فرانس کا سفارتخانہ ستمبر اکتوبر2022 میں بلوؤں کی میدانی کیفیت اور پولیس اور سیکورٹی دستوں کی صورتحال سے متعلق اطللاعات جمع کرنے اور ایک دوسرے یورپی سفارتخانے کے ساتھ انٹیلیجنس معلومات کے تبادلے میں مصروف رہا۔
2۔ صیہونی حکومت نے امریکا اور دیگر ملکوں کے مالی بجٹ اور حمایت سے احتجاج اور ہڑتال کرنے والوں کی مدد کے لئے فنڈ قائم کرنے کی وکالت کی۔
3۔ 7 اکتوبر 2022 کو ایک یورپی سفارتخانے میں جرمنی کی قیادت میں اٹھائیس یورپی ملکوں کے سفیروں کی میٹنگ ہوئی جس میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے سفیروں کی تہران سے واپسی اور سفارتخانے بند کئے جانے کی تجویز کا جائزہ لیا گیا۔
4۔ بلوؤں کی صورتحال کی اطلاعات جمع کرنے، ڈاکیومنٹری بنانے میں، یورپی باشندوں کی موجودگی کے ساتھ ہی غیر یورپی ( افغان، پاکستانی اور عراقی ) باشندوں سے کام لیا گیا جن کے دوران ایک پڑوسی ملک کے چالیس باشندوں اور فرانس اور آئر لینڈ کے ایک ایک شہری کی گرفتاری صوبہ خراسان رضوی میں اور ایک جرمن شہری کی گرفتاری صوبہ اردبیل میں انجام پائی۔
5۔ بلوؤں کی حمایت میں سی آئي اے نے کوششیں تیز کر دیں اور ہنگاموں کی خبریں نشر کرنے کے لئے ضروری سائبر وسائل اور بچ نکلنے کے امکانات فراہم کرنے کے ساتھ ہی، اطلاعات اور انٹرنیٹ کی آزادی کے بہانے موبائل کمیونکیشن سے متعلق وسائل سے پابندی ختم کر دی۔
6۔ بلوؤں کے اواخر میں سی آئي اے نے ایران کے ایٹمی، فوجی اور خلائی سائنس کے میدانوں میں سرگرم سائنسدانوں کے قتل کے پروجکٹ کے احیا کے لئے موساد اور ایم آئی سکس کے ایجنٹوں کی شرکت سے مشترکہ ٹیم تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔
7۔ ایران میں ہونے والے بلوؤں کی حمایت کے لئے متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت کے انٹیلیجنس اداروں کی مشترکہ نشست، ایک عرب ملک میں منعقد ہوئی۔
4 نومبر 2022 اور گیارہ فروری 2023 کے جلوسوں میں عوام کی شرکت اور ایرانی قوم کے اتحاد نے بلوؤں میں دشمن کو شکست دے دی لیکن جیسا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے 4 جون کے خطاب میں خبردار کیا ہے، یہ دشمن کی آخری کوشش نہیں تھی اور آئندہ بھی وہ کچھ نہ کچھ کریں گے۔ دشمن کے آئندہ اقدامات اور دشمنانہ تحریکوں کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف دشمن کی اسٹریٹیجی جاری ہے اور اس کے لئے ایک اہم موڑ رواں ایرانی سال کے انتخابات کا موقع ہے۔ لیکن دشمن کے ارادے پر ایک ارادے کو غلبہ حاصل ہے جس کو قرآن کے سورہ آل عمران کی آیت نمبر بارہ میں بیان کیا گیا ہے کہ
«قل للذین کفروا سَتغلبون ...» اور اسی طرح خداوند عالم نے سورہ انفال کی آیت نمبر 36 میں وعدہ کیا ہے کہ «ان الذین کفروا یُنفقون اموالهم لِیصدوا عن سبیل الله فَسینفقونها ثم تَکون علیهم حَسره ثم یُغلبون ...»
خدا کے اس ارادے کی علامت دوستوں اور اندرونی نیز بیرونی دشمنوں نے چار نومبر 2022 اور 11 فروری 2023 کے جلوسوں میں دیکھ لیا۔ ان دینی اور سیاسی اجتماعات میں نوجوانوں اور ان کے گھر والوں کی پر جوش اور بصیرت کے ساتھ شرکت، اور دشمن کے سو روزہ منصوبے کی شکست کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ ایرانی قوم کی استقامت نے ملک کے اندرونی حالات اور بیرون ملک اپنے اثرات مرتب کئے۔
پہلی تاثیر امریکیوں پر مرتب کی جنہوں نے بلوؤں کے بارے میں اپنے اندازوں کی غلطی میں گرفتار ہونے کے بعد اپنے دوسرے منصوبے پر عمل درآمد کی فکرمیں پہلوی ڈکٹیٹرشپ کے بدنام زمانہ حامیوں اور خبیث دہشت گردوں کی آشکارا حمایت کی، آج اپنی شبیہ ٹھیک کرنے اور موقف کی اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری تاثیر یورپ والوں پر مرتب کی جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کو یورپی یونین اور یورپی حکومتوں کی جانب سے دہشت گرد اعلان کرنے سے پسپائی کی اور اب ایران کے ساتھ سفارتی افہام و تفہیم کے راستے کی احیا کی فکر میں ہیں اور اسی سلسلے میں ہم نے ایٹمی انرجی کی بین الاقوامی ایجنسی کے سربراہ کے دورہ تہران کا مشاہدہ کیا ہے۔
اس کی تیسری تاثیر ہمارے صدر مملکت جناب ڈاکٹر رئیسی کے دورہ چین اور تہران بیجنگ اسٹریٹیجک سمجھوتوں، خاص طور پر معیشتی معاہدوں کی شکل میں ظاہر ہوئی۔
چوتھی تاثیر اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے معاہدے اور دیگر عرب ملکوں کی جانب سے ایران کے ساتھ روابط میں توسیع کے خیر مقدم کی شکل میں ظاہر ہوئی۔
ملک کے اندر حالیہ واقعات کے بہت سے ملزمین اور مجرمین کی معافی اور ان کی سزاؤں کی کمی کے تعلق سے رہبر انقلاب اسلامی کے تاریخی فرمان کے بعد اور اسی طرح افراظ زر کو کنٹرول کرنے اور بازار میں ثبات و استحکام قائم کرنے کے لئے ملک کی مجریہ، مقننہ، اور عدلیہ کی مشترکہ مساعی اور اسی طرح ملک کے اندر بیرونی سہولتوں کی آمد سے الحمد للہ عوام کے مختلف طبقات میں امید، اتحاد اور خود اعتمادی بڑھنے اور رواں ایرانی سال کے ابتدائی مہینوں میں ہی بڑے اقتصادی پروجکٹوں کے آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
البتہ دشمن کی نفسیاتی جنگ کے ماحول میں ہمیں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ شناخت کی غلطی میں مبتلا نہ ہوں۔ حالیہ تغیرات عوام کی استقامت اور اسلامی جمہوری نظام کے کارآمد ہونے کا نتیجہ ہے۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان طولانی برسوں میں دشمنوں کے اتنے شر پسندانہ اقدامات اور منصوبوں کے باوجود، ممکن ہے کہ کوئی وقفہ آیا ہو، لیکن ایران اسلامی کی عزت، پیشرفت اور سربلندی کا سلسلہ جاری رہا۔