انھوں نے اس ملاقات میں، جو 7 تیر 1360 ہجری شمسی مطابق 28 جون 1981 کے واقعے اور منافقین کے ذریعے کیے گئے بم دھماکے میں آيت اللہ بہشتی اور امام خمینی کے 72 ساتھیوں کی شہادت کی برسی پر انجام پائي، کہا کہ ڈاکٹر بہشتی دینی تعلیم کے انتہائي اعلی درجے پر فائز تھے، بہت زیادہ کام کرنے والے، نظم و ضبط کا مثالی نمونہ، جدت عمل سے کام لینے والے، دوسروں یہاں تک کہ مخالفوں کی بات توجہ سے سننے والے اور دکھاوے سے بہت دور تھے۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر بہشتی کی اخلاقی اور کام سے متعلق خصوصیات آج بھی سبھی کے لیے سبق آموز ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے اندر اور باہر بدعنوانی سے مقابلے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے زیادہ تر جج اور کارکن، شریف افراد ہیں جو واقعی کم آمدنی پر بھی انتہائي دشوار کام انجام دیتے ہیں لیکن ملک کے کسی بھی مقام پر تھوڑے سے لوگوں کے ذریعے غلط کام بھی، عدلیہ کو بدنام کر دیتا ہے اور پوری عدلیہ کے بارے میں غلط رائے قائم ہونے کا سبب بنتا ہے، بنابریں عدلیہ کے اندر ہر طرح کی بدعنوانی سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔

انھوں نے عدلیہ کے خلاف دشمنوں اور بدنیت افراد کی جانب سے پھیلائي جانے والی افواہوں کو، حقیقت سے کہیں زیادہ بتایا لیکن اسی کے ساتھ کہا کہ عدلیہ کے اندر بدعنوانی کی جڑیں کاٹ دینی چاہیے خواہ وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اگر بدعنوانی سے نہ نمٹا گیا تو وہ ریشہ دوانی کرنے لگتی ہے اور عدلیہ سے باہر کی بدعنوانی سے مقابلے کے معاملے میں حکومت، پارلیمنٹ اور دوسرے اداروں کو بھی سرگرم ہونا چاہیے ایسے تمام اسباب سے سنجیدگي سے نمٹنا چاہیے جن سے بدعنوانی پھیلتی ہے، تاکہ اس طرح کے معاملوں میں عدلیہ تک جانے کی نوبت ہی نہ آئے۔

انھوں نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں کہا کہ میڈیا میں عدلیہ کی تصویر، اچھی نہیں ہے اور اس ادارے کی جانب سے کیے جانے والے بے شمار اچھے کاموں سے لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے میڈیا اور تشہیر کا صحیح استعمال نہیں کیا جاتا اور اس کمی کے ایک حصے کے لئے ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ نیز میڈیا ذمہ دار ہے جبکہ اس کے دوسرے حصے کے لئے خود عدلیہ ذمہ دار ہے۔

اس ملاقات کے آغاز میں عدلیہ کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین محسنی اژہ ای نے اس ادارے کے مختلف کاموں اور اقدامات، دیگر اداروں نیز دانشوروں اور عوام کے مختلف طبقوں سے اس کے تعاون کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کی اور کہا کہ ان نشستوں کا نتیجہ، ترجیحات کے تعین اور مشکلات کو دور کرنے کے لیے ایسی راہ حل کی صورت میں سامنے آيا ہے جن پر سبھی کا اتفاق ہے۔

انھوں نے جدید ترین ٹیکنالوجیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کو عدلیہ کی ترجیحات میں بتایا اور کہا کہ یہ کام، بدعنوانی کی روک تھام، مشکلات کی شناخت، انصاف کے عمل کو تیزتر بنانے اور اخراجات کو کم کرنے میں بہت مؤثر رہا ہے۔