بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
بہت ہی حساس ادارے، عدلیہ کے سبھی کارکنان محترم، خواہران و براداران عزیز خوش آمدید! عدلیہ کی اہمیت کے پیش نظر، اس ادارے میں کام کرنے کا اجر (ثواب) دوگنا ہے۔ ان شاء اللہ کامیاب و کامران رہیں۔
پہلے ان ایام کی اہمیت کی طرف اشارہ کروں گا۔ آپ جو اسلامی نظام کے خادم ہیں اور ان شاء اللہ خداوند عالم کے نزدیک اہمیت اور اس سے تقرب رکھتے ہیں، ان ایام میں، بالخصوص، ماہ ذی الحجہ کے پہلے عشرے کے آخری ایک دو دنوں میں، خدا سے قلبی رابطہ جتنا ہو سکے محکم کریں۔ یوم عرفہ جو کل ہے، اس کی قدر و منزلت کو جانیں اور پوری توجہ سے خداوند عالم کے حضور مناجات اور گریہ و زاری کے ساتھ مسائل کے حل کی دعا کریں۔ اگر خدا کا فضل و کرم نہ ہو تو ہماری اور آپ کی کوششیں اور زحمتیں بے نتیجہ رہیں گی۔ دعائے کمیل میں (عرض کرتے ہیں) کہ «لا یُنالُ ذلِکَ اِلّا بِفَضلِک» (2) یعنی ہم اپنے سبھی فرائض ادا کرتے ہیں، (لیکن) ان فرائض اور کوششوں میں روح و جان، خدا کے فضل وکرم اور توجہ سے آتی ہے۔ خدا سے سبھی اوقات میں رابطہ کیا جا سکتا ہے اور خدا سے رابطہ بہت آسان ہے لیکن بعض اوقات اور بعض ایام خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اور انہی ایام میں کل کا دن یعنی یوم عرفہ بھی ہے۔ اسی طرح عیدالاضحی کا دن بھی ہے۔
شہید بہشتی (رضوان اللہ علیہ) کو یاد کریں، جن کی شہادت کی مناسبت سے اس دن کا تعین کیا گیا ہے۔ مرحوم شہید بہشتی (رضوان اللہ علیہ) معقولات و منقولات دونوں علوم میں، اعلی علمی مرتبے پر فائز تھے۔ وہ دینی تعلیمی مراکز کے علوم معقولات و منقولات دونوں میں، واقعی اعلی مرتبہ رکھتے تھے اور علامہ تھے۔ اس کے علاوہ ان کی عملی اور اخلاقی خصوصیات ہم سب کے لئے درس ہو سکتی ہیں۔ وہ بہت زیادہ محنتی تھے، تھکن کا اظہار نہیں کرتے تھے اور پوری توانائی سے کام کرتے تھے۔ بہت منظم تھے۔ ان سے واقفیت اور ان کے ساتھ کام کرنے کے برسوں میں، انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی، میں نے اپنے دوستوں میں، ہم میں جو لوگ منظم تھے، ان میں کسی کو بھی جناب بہشتی جیسا منظم انسان نہیں پایا۔ کام میں نظم و ضبط بہت اہم ہے۔ جدت پسند تھے۔ حوصلے والے تھے۔ اعتراضرات پر حتی توہین آمیز اعتراضات پر بھی، اکھڑ نہیں جاتے تھے۔ (لوگوں کی) باتوں کو سنتے تھے۔ حتی مخالف باتوں پر بھی کان دھرتے تھے، انہیں بیٹھ کر سنتے تھے۔ یہ سب ہمارے لئے درس ہے کہ اس طرح عمل کریں۔ دکھاوا نہیں کرتے تھے، ظاہرداری کرنے والے نہیں تھے۔ نہیں، ہم نے طولانی برسوں کے دوران دیکھا تھا کہ ان کا ظاہر و باطن ایک ہے۔ دکھاوا نہیں کرتے تھے۔ خداوند عالم نے بھی انھیں وہ اجر دیا جو اپنے برترین بندوں کو دیتا ہے اور وہ اس دور کے شقی ترین لوگوں کے ہاتھوں شہادت ہے جو خداوند عالم نے اپنے اس بندہ مومن و صالح کو عطا کی۔
عدلیہ کے بارے میں باتیں زیادہ ہیں۔ یاددہانی کے لئے بھی اور شکریے میں بھی۔ یاد دہانی بھی کرائي جا سکتی ہے اور شکریہ بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔ باتیں بہت ہیں۔ جو باتیں جناب محسنی نے یہاں بیان کی ہیں وہ بہت اہم ہیں۔ جو باتیں انھوں نے یہاں کہی ہیں، انہیں میں نے مختلف رپورٹوں میں بہت سنا ہے اور مجھے معلوم ہے۔ اہم باتیں انھوں نے بیان کی ہیں۔ جناب آقائے محسنی کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہ عدلیہ کے سبھی پہلوؤں اور زاویوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ برسوں اس شعبے میں رہے ہیں۔ بنفس نفیس موجود رہے ہیں۔ میں بھی ان معاملات میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
سب سے پہلے تو عدلیہ کی اہمیت ہے۔ آپ جو اس ادارے میں، منصف اور جج کی حیثیت سے یا کارکن کی حیثیت، جس حیثیت سے بھی اس شعبے میں سرگرم ہیں، جان لیں کہ آپ اسلامی نظام کے ایک اہم ترین ادارے میں کام کر رہے ہیں کہ جس سے بہت سی دوسری جگہوں کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ اسلامی نظام کا ایک بنیادی ستون ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اس بنیادی ستون میں خلل پیدا ہو جائے تو پورے نظام میں خلل آ جائے گا۔ بنابریں آپ کا کام بہت اہم ہے۔ اس بنا پر اگر یہاں کوئی غلطی ہوئی یا خلل آیا تو اس کا نقصان بھی بہت ہوگا۔ بات یہ ہے۔ جب انسان کا درجہ بلند ہو جائے تو اس کے مثبت کاموں کے بھی اور منفی کاموں کے بھی اثرات حیرت انگیز ہو جاتے ہیں۔ آپ ایسے ہیں۔ آپ کے اچھے اور مثبت کام کے اثرات عوام کی زندگی کے رفاہ میں اور اسلامی نظام کی پیشرفت میں حیرت انگیز تاثیر رکھتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ آپ سے غلطی ہو جائے تو اس کے اثرات بھی ایسے ہی ( ہوں گے)۔
میں نے گزشتہ برسوں میں، آپ سے ہونے والی ان سالانہ ملاقاتوں میں اہم باتیں عرض کی ہیں۔(3) انہی باتوں کو دوبارہ دوہرانا یا تفصیلی گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ صرف چند نکات کی تاکید کروں گا۔ میں نے گزشتہ برس جن کاموں کے لئے کہا تھا، اسی وقت ہمیں اطلاع ملی کہ عدلیہ میں ان کاموں کی پیروی کے لئے ایک مرکز قائم کر دیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کاموں میں اچھی پیشرفت ہوئی اور بعض میں پیشرفت نہیں ہوئی۔ لیکن بہرحال کام ہوا، اہتمام کیا گیا۔ ان کاموں کو آگے بڑھانے کا اہتمام بذات خود اہم اور قابل توجہ ہے۔ لیکن ایک بات میں عرض کروں گا کہ جو کام آپ نے کیا ہے، اس کے بارے میں آپ فیصلہ نہ کیجئے بلکہ کام کے نتیجے کو بنیاد بنا کر رائے قائم کیجئے۔ مثال کے طور پر فرض کریں کہ ہم نے کسی معاملے میں کچھ کام کئے ہیں اور میٹنگیں وغیرہ کی ہیں، یہ معیار نہیں ہے، فیصلے کے لئے معیار نتیجہ ہے کہ ہمارے کام کا نتیجہ کیا سامنے آیا ہے۔ ملک کے سبھی مسائل کے لئے یہی مناسب روش ہے۔ اعداد و شمار اہم ہیں لیکن ان اعداد و شمار اور ان باتوں کا نتیجہ کیا نکلا، یہ بتایا جائے۔ یہ اہم ہے کہ عوام کو اس سے کیا ملا۔
پہلی بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ عدلیہ میں یہی تبدیلی ہے۔ عدلیہ کے پاس خطاؤں اور غلطیوں کو پرکھنے کا چالیس سال سے زائد کا تجربہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ چالیس برس سے زائد عرصے سے ہم عدلیہ میں گوناگوں منصوبوں، مختلف پروگراموں اور انواع و اقسام کے اقدامات کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور ان تجربات کا خزانہ ہم صاحب رائے حضرات کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ تبدیلی کے لئے ان تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ تبدیلی کا مطلب بھی ہم نے بیان کیا۔ تبدیلی یعنی مثبت نکات کی تقویت کریں اور منفی باتوں کو ختم کر دیں۔ تبدیلی کا مطلب یہ ہے۔ بعض اوقات منفی باتوں کو ختم کرنے کے لئے اہم تنظیمی امور انجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتظامیہ میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات سمت اور پالیسی بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض محدود معاملات میں لوگوں کو بدلنا پڑتا ہے۔ تبدیلی کے لئے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تبدیلی یہ ہے۔
آج سے چند برس قبل عدلیہ میں تبدیلی کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ان چند برسوں کے دوران ماہرین نے اس منصوبے کے بارے میں مجھ سے جو بات کی ہے اور جو تحریری رپورٹ پیش کی ہے، اس میں سب کا یہ کہنا ہے کہ یہ پلان بہت اچھا ہے۔ منصوبہ بہت اچھا اور محکم ہے۔ یہ منصوبہ اس وقت آپ کے پاس ہے، عدلیہ کے اختیار میں ہے۔ میں نے گزشتہ سال بھی اس پر زور دیا تھا۔ اس منصوبے کو آگے بڑھنا چاہئے۔ اس میں پیشرفت آنی چاہئے۔ البتہ اس کے لئے بجٹ کی ضرورت ہے اور حکومت اور پارلیمنٹ کو مدد کرنی چاہئے۔ اس کے لئے کارآمد افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ الحمد للہ بعض جگہوں پر کار آمد افراد موجود ہیں اور بعض جگہوں پر شاید کارآمد افرادی قوت کی تقویت کی ضرورت ہے۔ شاید دستاویز میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی دستاویز دائمی اور ابدی نہیں ہوتی۔
ممکن ہے کہ بعض امور کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہو۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ دستاویز پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کہاں اس کی تکمیل ضروری ہے اور کہاں اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کو وقت و حالات کے مطابق بنائيں۔ لیکن عمل ہونا چاہئے۔ اس دستاویز کی خوبی اس کی منصوبہ بندی ہے۔ ہر دستاویز کی اچھائي اس کی پلاننگ ہوتی ہے جو امور کو منظم کرتی ہے، انتشار سے بچاتی ہے اور کام میں نظم لاتی ہے۔ یہ بہت اچھی اور اہم بات ہے۔ البتہ اس کے لئے قانون کی بھی ضرورت ہے۔ بعض معاملات میں دستاویز پر عمل کے لئے قانون کی ضرورت ہو سکتی ہے، اس معاملے میں پارلیمنٹ کو مدد کرنی چاہئے۔ آپ حکومت اور پارلیمنٹ سے مطالبہ کریں کہ قانون بنایا جائے۔
میں نے کہا کہ (عدلیہ میں تبدیلی کے لئے) کارآمد افرادی قوت کی ضرورت ہے تو یہاں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ماہر افرادی قوت اور ایکسپرٹ تیار کرنے کی تاکید کرتا ہوں۔ یہ بہت لازمی امور میں سے ہے۔ عدلیہ کے ہر شعبے میں ماہر اور ایکسپرٹ افراد کی موجودگی ضروری ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر- تبدیلی، تغیر یا افراد میں اضافے کی ضرورت ہو تو- ان سے کام لیا جا سکے۔ میں نے مختلف اداروں میں جانشین تیار کرنے کی جو بات کی ہے یہاں اس کا مصداق یہی ماہر افرادی قوت تیار کرنا ہے۔ یہ ایک بات ہے جس کی میں تاکید کرتا ہوں اور اس پر زور دیتا ہوں۔ دستاویز کے مسئلے کو ان خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے اہمیت دیں۔
ایک اور مسئلہ بدعنوانی کے خلاف مہم کا مسئلہ ہے، عدلیہ کے اندر بھی اور عدلیہ سے باہر بھی۔ یہ آپ کے فرائض میں ہے۔ عدلیہ کے اندر (بدعنوانی کے خلاف مہم) کے بارے میں کل پرسوں جناب آقائے محسنی سے جو ملاقات ہوئی، اس میں میں نے ان سے کہا اور اس پر زور دیا ہے۔ البتہ عدلیہ میں، بہت ہی ٹھوس اکثریت، تقریبا سبھی، اچھے لوگ ہیں چاہے وہ جج حضرات ہوں یا کارکن۔ بہت کم سہولتوں کے ساتھ، کم آمدنی کے ساتھ -واقعی کم ہے– سخت کام کر رہے ہیں۔ ان عزیزوں کی شرافت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ بہت تھوڑے سے لوگ ہیں جو اپنی پوزیشن سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور عوام کی نگاہ میں عدلیہ کی شبیہ خراب کر رہے ہیں۔ جو لوگ یہ کام کر رہے ہیں یعنی غلط کام کر رہے ہیں، وہ صرف جج کے عہدے پر ہی نہیں ہیں، ممکن ہے کہ کسی شہر کی عدالت کا پیشکار ہو جو کوئي غلط کام کر رہا ہو۔ اسی کو بڑھا کر بیان کرتے ہیں اور عدلیہ کی شبیہ کے بارے میں فیصلہ سنانے لگتے ہیں۔ حیف ہے (کہ ایسا ہو) اس کا سد باب ہونا چاہئے۔ عدلیہ کے سبھی اراکین کو دھیان رکھنا چاہئے کہ بد عنوانی نہ آنے پائے۔ بدعنوانی متعدی ہے۔ خدا نخواستہ اگر کسی شعبے میں بدعنوانی آ جائے، یہ بیماری سرایت کر جائے تو روز بروز بڑھتی جاتی ہے۔ اگر بدعنوان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے تو بدعنوانی بڑھتی ہے، عدلیہ کے اندر بھی اور باہر بھی دونوں جگہ۔
عدلیہ کے باہر انسداد بدعنوانی کی ذمہ داری میں دوسرے لوگ بھی شریک ہیں۔ یعنی بعض اوقات کوئی بدعنوانی ہوتی ہے اور اس کی ذمہ دار عدلیہ نہیں ہوتی، مجریہ ہوتی ہے، مقننہ ہوتی ہے، مسلح افواج کا ادارہ ہوتا ہے، ان کی ذمہ داری ہے کہ بدعنوانی کی جڑوں کو ختم کریں۔ لیکن اگر اس کی جڑ کو ختم نہ کیا گیا اور اس کی روک تھام نہ کی گئی تو عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ مداخلت کرے۔ البتہ آج عناد رکھنے والے اور ایسے لوگ جن کے دلوں میں بیماریاں ہیں، وہ لوگ جو «فی قُلوبِهِم مَرَض» (4) کے مصداق ہیں وہ عدلیہ کے خلاف افواہیں پھیلاتے ہیں، کبھی ہنگامہ کرتے ہیں، کبھی کچھ کہتے ہیں اور کبھی جو ہے اس کو بہت زیادہ بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں۔ یہ نہ ہونے دیں۔ یہی دوسری بات جو ہم نے بدعنوانی کے خلاف مہم کے تعلق سے عرض کی۔
ایک اور مسئلہ جو میں نے (عرض کرنے کے لئے) نوٹ کیا ہے اور بدعنوانی کی جڑوں میں شامل ہے اور ہم نے عرض کیا کہ عدلیہ کے علاوہ دیگر اداروں کی ذمہ داری ہے، وہی نکتہ ہے جس کی طرف جناب آقائے محسنی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ (یعنی) یہی غیر منقولہ املاک کے غیر رسمی سودوں کی (قانونی) حیثیت سلب کرنے کا مسئلہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ غیر منقولہ املاک سے متعلق بہت سی بدعنوانیاں انہیں غیر رسمی سودوں میں ہوتی ہیں۔ اس کی روک تھام ضروری ہے۔ واقعی ایسا ہے کہ اگر فرض کریں کہ نگراں کونسل کے نقطہ نگاہ سے پارلیمنٹ کے پاس کردہ اس قانون میں کوئی خرابی ہو تو بھی ملک اور نظام کی مصلحت اس میں ہے کہ اس قانون پر عمل ہو۔ یعنی یہ طریقہ جو اس وقت رائج ہے کہ دو سطریں لکھ کر منتقل کر دیں، خود بدعنوانی کی سب سے بڑی جڑ ہے۔ یہ ایک بات۔
ایک اور بات عدلیہ کے دیگر فرائض سے متعلق ہے۔ آئین پر اگر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ عدلیہ کا فریضہ، چھوٹی بڑی عدالتوں میں مقدمہ چلانا اور جھگڑوں اور تنازعات وغیرہ کو نمٹانا ہی نہیں ہے۔ صرف یہی نہیں ہے۔ بلکہ آئين میں عدلیہ کے ذمے دیگر اہم فرائض بھی رکھ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک عوام کے حقوق دلانا بھی ہے۔ عوام کے حقوق بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ عوام کے حقوق کی شناخت خود ایک مسئلہ ہے۔ ان حقوق کو دلانا بھی ایک مسئلہ ہے جو بہت دشوار ہے۔ اب مثال کے طور پر، ہم کوئی مثال دینا چاہیں تو عوام کے جملہ حقوق میں سے ایک، معاشرے کی نفسیاتی سلامتی ہے۔ کچھ لوگ بیٹھ کر، سوشل میڈیا یا دوسرے ابلاغیاتی ذرائع سے کام لیتے ہوئے مسلسل لوگوں میں تشویش پیدا کریں، ان کا ذہنی اور فکری سکون درہم برہم کریں، لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا کریں اور اسی طرح کے دیگر امور انجام دیں، یہ عوام کے حقوق کے منافی ہے، عدلیہ کو اس میں مداخلت کرنی چاہئے۔ البتہ مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض معاملات میں عدلیہ نے مداخلت کی ہے اور کچھ کام ہوئے ہیں، لیکن منصوبہ بندی کے ساتھ منظم طور پر اس کام کو انجام دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام باقاعدہ ہونا چاہئے۔ یہ خلا پایا جاتا ہے۔ ان کاموں کی انجام دہی ضروری ہے۔
یا قانونی آزادی کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ عدلیہ کا ایک فریضہ قانونی آزادی کی فراہمی بھی ہے۔ بہت ہی دقیق لکھا گیا ہے کہ مطلق آزادی نہیں، قانونی آزادی۔ قانونی آزادی وہی جس کی شریعت اجازت دیتی ہے۔ آئین یہ ہے۔ شرعی حکم کے سائے میں عوام کو آزادی فراہم کی جائے۔
حکومتی اداروں میں بعض اوقات فطری طور پر بعض معاملات میں اختلاف ہو جاتا ہے۔ اس معاملے میں کس کو عوام کی فریاد رسی کرنی ہے؟ عدلیہ کو۔ یعنی عدلیہ کے اہم کاموں میں سے ایک یہ بھی ہے۔
یا مثال کے طور پر جرائم کی پیشگی روک تھام ہے۔ البتہ یہ ان امور میں سے ہے، جن میں دوسرے اداروں کا کردار بھی ہوتا ہے، یہ وہ باتیں ہیں جنہیں آئین میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ یہ وہ امور نہیں ہیں کہ جو باتیں کرنے سے، کہنے سے اور حکومتی اور انفرادی سطح پر وقتی اور عارضی فیصلوں سے حل ہو جائیں گے۔ ان کے لئے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، فرمان کی ضرورت ہے، روڈ میپ کی ضرورت ہے اور ممکن ہے کہ قانون کی بھی ضرورت ہو۔ اس پر کام ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ قانون کی بھی ضرورت ہو۔ اس پر کام ہونا چاہئے۔ ان کاموں کے لئے سوچ سمجھ کر غور و فکر کے ساتھ طریقہ کار طے کرنے کی ضرورت ہے۔ بیٹھ کر سوچنے، سمجھنے اور فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے پاس قانونی صلاحیتیں اور توانائیاں ہیں، ان صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ کام لینے کی ضرورت ہے۔
ایک اور مسئلہ رجوع کرنے والوں کے ساتھ سلوک اور طرز عمل کی بات ہے۔ اس کے بارے میں ہم نے پہلے بھی کہا ہے (5) اور اس پر کچھ عمل بھی ہوا ہے۔ یہ بہت موثر بات ہے۔ یعنی جو عدالت سے رجوع کرتا ہے اگر اس سے تیوریوں پر بل ڈال کر ملا جائے تو وہ دل شکستہ ہوکر باہر جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس وقت آپ تیوریاں چڑھائيں اور بعد میں اس کا کام بھی کر دیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس کا برا اثر ہوگا۔ یعنی اچھی طرح ملنا ضروری ہے۔ البتہ دشوار کام ہے، میں جانتا ہوں۔ یعنی لوگوں کا رجوع کرنا بعض اوقات واقعی انسان کو تھکا دیتا ہے۔ لوگوں کے آنے اور ان کا سامنا کرنے سے انسان تھک جاتا ہے، انسان کو ذہنی تھکن ہو جاتی ہے لیکن برداشت کرنا چاہئے۔
اور آخری بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، عدلیہ کی اطلاع رسانی سے متعلق شبیہ ہے۔ عدلیہ کی اطلاع رسانی سے متعلق شبیہ اچھی نہیں ہے۔ میڈیا اورابلاغیاتی ذرائع سے عدلیہ میں استفادہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ البتہ اس کے ایک حصے کا تعلق ابلاغیاتی اداروں، جیسے ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبارات وغیرہ سے ہے اور ایک حصے کا تعلق خود عدلیہ سے ہے۔ خدا جناب آقائے موسوی اردبیلی مرحوم پر رحمت نازل فرمائے، (6) مجھ سے ریڈیو ٹیلویژن کے ادارے کی شکایت کرتے تھے: کہتے تھے عدلیہ کی خبریں، جیرفت ( ایران کا ایک علاقہ) کی سڑکوں کی کیفیت کیسی ہے (مثال کے طور پر) برف کی وجہ سے سڑک بند ہو گئی ہے یا اسی طرح کی دوسری خبریں نشر کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد (عدلیہ کی خبریں) نشر کی جاتی ہیں۔ ان کی شکایت یہ تھی۔ البتہ اب ایسا نہیں ہے۔ اب الحمد للہ اس لحاظ سے بہتری آئی ہے لیکن پھر بھی عدلیہ میں اتنے سارے کام ہو رہے ہیں عوام کو ان سے واقف ہونا چاہئے۔ عوام کو ان سے مطلع ہونا چاہئے۔ وہی بات جس کی طرف جناب آقائے محسنی نے اشارہ کیا ہے، مختلف طبقات کے ساتھ یہ نشست و برخاست بہت اہم ہے۔ کام کی شکل و صورت کے لحاظ سے بھی اہم ہے، بڑا کام ہے اور کام کے نتیجے کے لحاظ سے بھی اہم ہے۔ عدلیہ میں وسعت آتی ہے، فکر کھلتی ہے، اس کے سامنے افق (امور) روشن ہو جاتے ہیں۔ قانون دانوں کے ساتھ میٹنگیں کریں، مختلف شخصیات، معاشی امور کے ماہرین، سیاسی ماہرین، یونیورسٹیوں کے طلبا اور نوجوانوں کے ساتھ جو کچھ کہنا اور بولنا چاہتے ہیں، اساتید، کاروباری افراد اور علمائے کرام کے ساتھ میٹنگیں کریں، یہ نشست و برخاست بہت اہم ہے۔ ان کی خبر نشر ہونی چاہئے اور صحیح شکل میں نشر ہونی چاہئے۔ یعنی اس کی رپورٹنگ صحیح ہونی چاہئے۔
ان شاء اللہ خداوند عالم مدد فرمائے کہ یہ فاصلہ جس کا ذکر انھوں نے مکرر کیا ہے- کہ مطلوبہ صورتحال سے دور ہیں۔ صحیح بھی یہی ہے۔ واقعی یہ فاصلہ ہے – یہ فاصلہ ان شاء اللہ جلد سے جلد ختم ہو جائے۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
1۔ اس ملاقات کے شروع میں (عدلیہ کے سربراہ ) حجت الاسلام غلام حسین محسنی اژہ ای نے رپورٹ پیش کی
2۔ مصباح المتھجد، جلد 2 صفحہ 850
3۔ عدلیہ کے سربراہ اور اراکین سے مورخہ 28 جون 2022 کو ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے رجوع کریں
4۔ منجملہ سورہ بقرہ آیت نمبر 10
5۔ عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداروں سے مورخہ 27 جون 2018 کی ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
6۔ آیت اللہ سید عبدالکریم موسوی اردبیلی