بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آپ کا خیرمقدم ہے۔ مجھے واقعی بڑی خوشی ہے کہ ملک کے ممتاز علمی استعداد کے حامل افراد سے ملاقات کی توفیق ہوئی ہے۔ یہ اجلاس منعقد ہوتا رہنا چاہئے۔ احباب نے جو باتیں ذکر کیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اہم باتیں بیان کیں۔ قابل توجہ نکات کا ذکر کیا۔ تاہم احباب کی بیان کردہ باتوں کے بارے میں دو نکات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ایک تو یہ کہ تقریبا یہ سارے ہی مسائل، ایک دو مسئلے شاید مستثنی ہوں، اجرائی مسائل ہیں۔ اجرائی مسائل کے بارے میں اجرائی اداروں کو کام کرنا چاہئے۔ بے شک ہم بھی اس پر نظر رکھیں گے۔ میں گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جو چیزیں بیان کی گئیں انہیں نوٹ کر لیا جائے، شاید اس کا خلاصہ کرنے کی ضرورت پڑے یا جائزہ لینے کی ضرورت ہو، اس کے بعد ہم اسے مجریہ کے عہدیداروں تک پہنچائیں گے۔ تاہم آپ ملک کے اجرائی شعبے کے عہدیداروں سے اپنی ملاقاتوں میں، الحمد للہ وہ سرگرم عمل بھی ہیں، خوش قسمتی سے آج ہمارے پاس ایسے صدر جمہوریہ ہیں جو کام کرنے والے، فالو اپ کرنے والے اور پیروی کرنے والے ہیں، ان باتوں کو ان کے سامنے رکھئے، تاکہ ان پر عمل ہو۔ یہ ایک نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کچھ ادوار ایسے رہے جب علمی حلقوں اور حکومتی عہدیدروں کے بیچ کافی فاصلہ ہوتا تھا۔ مگر آج ایسا نہیں ہے۔ آج آپ ہی جیسے نوجوانوں کی بڑی تعداد حکومت کے انتظامی شعبے کا حصہ ہے۔ وزارت کی سطح پر بھی، سیکریٹریئیٹ کی سطح پر بھی، درمیانہ سطح کے عہدیداروں کی صف میں بھی۔ یہ باتیں وہاں کیوں نہیں پہنچائی جا رہی ہیں؟ وہی افراد جو یہاں کھڑے ہوکر آپ کی طرح اپنے نظریات بیان کرتے تھے آج ملک کے انتظامی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ ابھی نوجوان ہیں، سن رسیدہ اور ادھیڑ عمر نہیں ہوئے ہیں۔ آپ کی طرح نوجوان ہیں۔ یہ آپس میں جڑتے کیوں نہیں؟ ایک چین کیوں نہیں بنتی اور یہ باتیں کیوں منتقل نہیں ہوتیں؟ ملک کے مختلف اداروں میں اس کام کے بارے میں غور کیجئے۔ مثال کے طور پر آٹوموبائل کا موضوع اٹھایا گیا۔ اس وقت وزارت صنعت و معدنیات و تجارت میں ممتاز صلاحیت والے محنتی نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ آٹوموبایل کا موضوع وہاں اٹھائیے، بحث کیجئے۔ یا جو دوسری بحثیں یہاں ہوئیں ان میں محروم علاقوں کی بھی بحث تھی۔ حکومت نے پسماندہ علاقوں کے لئے ایک شعبہ مختص کیا ہے۔(2) وہاں ایک تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہاں تک کہ میرے خیال میں ان میں کچھ تو ابھی زیر تعلیم بھی ہیں، مگر ساتھ ہی وہاں بھی کام کر رہے ہیں۔ ان باتوں کو ان کے سامنے رکھئے، پیروی کیجئے۔ صرف یہ نہ ہو کہ یہاں ایک تقریر کر دی جائے۔ البتہ جو باتیں پیش کی گئیں بہت اچھی تھیں، ان شاء اللہ ہم اس کو دیکھیں گے، میں کہوں گا کہ ان پر توجہ دیجئے، ان کی پیروی کی جائے۔ خود میں بھی شاید صدر مملکت سے ان میں بعض موضوعات پر بات کروں۔ تاہم میری نظر میں آپ ان میدانوں میں زیادہ پریکٹیکل انداز میں قدم رکھئے۔

ممتاز علمی لیاقت، ممتاز افراد اور سائنسی پیشرفت کے بارے میں میں نے دو تین نکات نوٹ کئے ہیں جو عرض کروں گا۔ پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں علمی و سائنسی تحریک دو دہائی یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ قبل شروع ہوئی۔ بڑی اچھی شروعات ہوئی۔ یعنی ایک موومنٹ میں تبدیل ہو گئی۔ طلبہ کے درمیان اور یونیورسٹیوں کے اندر ایک دو نعرے آئے، جیسے 'ملک کی سائنسی سرحدوں کو عبور کرنا ہے' اور 'سافٹ ویئر موومنٹ' یہ چند نعرے ہیں جو ان ایام میں رائج ہوئے اور ان کا بھرپور اثر ہوا۔ یعنی یونیورسٹیوں کے اندر ایک مہم اور تحریک وجود میں آ گئي اور الحمد جاری بھی رہی۔ یعنی ایسی چیز نہیں تھی کہ اچانک ابھرے اور ختم ہو جائے، بلکہ جاری رہی۔ در حقیقت ملک میں علمی جست لگانے کی تحریک کا آغاز ہو گیا۔ یہ حقیقت ہے۔ جب علمی و سائنسی پیشرفت، سائنس و ٹیکنالوجی کی سرحد پر آگے بڑھنے وغیرہ جیسے کچھ نعرے یونیورسٹیوں میں آ گئے تو واقعی ایک جست کا آغاز ہوا۔ یہاں تک کہ اس زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جج کے طور پر کام کرنے والے مراکز نے کہا کہ ملک کی سائنسی  پیشرفت کی رفتار دنیا کی سائنسی پیشرفت کی اوسط رفتار سے تیرہ یا بارہ گنا زیادہ ہے! یہ بہت اہم بات ہے۔ ایسا ہوا۔ میں نے اسی وقت، یعنی اب سے چند سال قبل علمی نشستوں اور یونیورسٹی سے متعلق اجلاسوں وغیرہ میں ایک بات رکھی(3) اور وہ بات یہ تھی، میں نے کہا تھا کہ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ہماری سائنسی رشد کی رفتار زیادہ ہے۔ لیکن ہمیں اس پر کسی دھوکے میں نہیں آنا چاہئے کہ اب تک ہماری نمو کی رفتار اتنی زیادہ ہے۔ کیونکہ پیشرفت کی اس رفتار کے باوجود، ہنوز ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا کے مقابلے میں پیچھے ہیں، سائنسی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ کس طرح پیچھے ہیں اس کی میں نے بعض مواقع پر تشریح بھی کی تھی۔ اب اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ ہم پیچھے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل دور میں، سرکش حکومتوں اور ظالم و خودسر سلاطین کے ادوار میں، خواہ وہ پہلوی ہوں یا قاجاری، یہ ملک جس کا اتنا تابناک علمی و ثقافتی ماضی ہے، دنیا میں علم و سائنس کی ریٹنگ میں بالکل نیچے پہنچ گیا تھا۔ اس کے پاس کچھ نہیں تھا، وہ کچھ نہیں تھا۔

میں آج یہ عرض کرنا چاہتا ہوں، یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں علمی فعالیت کے نئے میدان میں اترنے کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے۔ یعنی یہ تو صحیح ہے کہ علمی و سائنسی جست لگانے میں کامیابی ملی ہے، سائنسی پیشرفت اچھی رہی ہے، کچھ شعبوں میں بہت اہم سائنسی پوزیشن حاصل ہوئی ہے۔ دنیا میں سائنس و ٹیکنالوجی کے پہلو سے ہماری پوزیشن نسبتا اچھی ہے۔ یہ سب درست، لیکن آج ہمیں ملک کی یونیورسٹیوں کی جانب سے ایک موجدانہ اور اختراعی موومنٹ کی ضرورت ہے تاکہ ہم پیچھے رہ جانے سے بچیں۔ ہم آگے تو بڑھے لیکن دوسرے بھی آگے بڑھے۔ یہاں تک کہ علاقے کے بعض ملکوں کو ایران کی پیشرفت دیکھنے کے بعد آگے بڑھنے کی ترغیب ملی۔ حالانکہ وہ پیچھے تھے لیکن آج جب ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ وہ بھی کافی آگے آئے ہیں۔ ڈر یہ ہے کہ ہم دنیا کی اس سائنسی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ واقعی یہ ڈر موجود ہے۔ آپ جانتے ہیں، میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ "اَلعِلمُ سُلطان"(4) علم طاقت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ملکوں کو لاخق ہونے والی عام مشکلات سے ہمارا ملک محفوظ رہے تو سب سے پہلے ایک ضروری کام جو کرنا ہے وہ سائنسی پیشرفت ہے۔ اگر ہم پیچھے رہ گئے تو کمزور ہو جائیں گے۔ کوشش کرنا چاہئے کہ ہم پیچھے نہ رہ جائیں۔ میں جن کوششوں کی بات کر رہا ہوں کہ ہم پیچھے نہ رہ جائيں تو سب سے پہلے اس میں سرمایہ کاری کی بات ہے۔ یعنی حکومت سائنسی میدان میں، علمی شعبے میں سرمایہ کاری کرے۔ ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ یہ خرچ نہیں ہے، یہ سرمایہ کاری ہے۔ در حقیقت کئی گنا آمدنی کے لئے، دگنی آمدنی کے لئے، کئی گنا توانائی حاصل کرنے کے لئے میدان ہموار کرنا ہے۔ اس طرح ہم ترغیب دلائیں، میدان  ہموار کریں کہ پرائیویٹ سیکٹر بھی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں سرمایہ کاری کرے۔ تو مادی سرمایہ کاری بھی ضروری ہے اور سائنسی ایجادات و اختراعات کی سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔ یعنی علمی و سائنسی ادارے اختراعات، اینوویشن اور تیزی سے منزل تک پہنچانے والے راستے تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی ساری کوششیں اس پر مرکوز کریں۔ دو طرفہ سرمایہ کاری، یعنی مادی سرمایہ کاری اور روحانی سرمایہ کاری دونوں ضروری ہے۔ تو میری پہلی بات یہ ہے کہ ملک کی سول سوسائٹی اور دانشور طبقے کو ایک سائنسی و علمی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے، یہ تحریک اس حکومت کے تعاون اور حکومت کے اندر موجود نوجوان عہدیداروں کے تعاون سے اور خود آپ ممتاز علمی صلاحیت کے حامل افراد کے ذریعے، اس کمیونٹی کا ایک نمونہ یہاں اس وقت موجود ہے، شروع ہونا چاہئے۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔

دوسری بات اور دوسرا نکتہ ہمارے ملک کو دستیاب موجودہ موقع کے بارے میں ہے۔ بے شک صاحب استعداد قوم ترقی کرتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ پیشرفت کے مواقع ہمیشہ فراہم ہوں۔ میں مستقبل کے بارے میں کوئی مایوسی نہیں پیدا کرنا چاہتا۔ بالکل نہیں، میری نظر میں مستقبل روشن اور امید افزا ہے، افق ایک روشن افق ہے۔ لیکن خود ہمارے تجربات اور ہمارا ماضی ہمیں بتاتا ہے کہ زمانہ حال سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ موجودہ حالات کا، موجود مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملت کے سفر میں، ہر میدان میں، سیاسی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی، سائنسی میدان میں بھی، کوئی تیز چڑھائی آ جاتی ہے، آگے بڑھنے اور چڑھائی چڑھنے کا ارادہ تو موجود ہوتا ہے لیکن ضروری توانائی کا فقدان ہوتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے لئے جس انفراسٹرکچر کی ضرورت ہوتی ہے وہ فراہم نہیں ہوتا، جن وسائل کی ضرورت ہوتی ہے وہ دستیاب نہیں ہوتے۔ ارادہ موجود ہے لیکن توانائی نہیں ہے۔ کبھی یہ ہوتا ہے کہ ارادہ بھی معدوم ہوتا ہے۔ مایوسی طاری ہونے کی وجہ سے، اپنے بارے میں سوئے ظن کی وجہ سے، اپنی توانائيوں پر یقین نہ ہونے کی وجہ سے یا اپنی پوزیشن سے عدم آگاہی کی بنیاد پر۔ تو کبھی ایسے بھی حالات ہو جاتے ہیں کہ آگے بڑھنے کا ارادہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو جیسے طاغوتی شاہی دور میں تھا کہ چڑھائی چڑھنے اور پیشرفت کو ناممکن تصور کر لیا جاتا ہے! واقعی ماضی کے بعض ادوار میں ہمارے یہاں یہ ہوا ہے کہ کہتے تھے کہ یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ شاہ کے زمانے کے وزیر اعظم کی وہ مٹی کے لوٹے کی داستان مشہور ہے،(5) آپ نے سنی ہے۔ جب آئل انڈسٹری، ملک کو تیل کی صنعت میں خود مختار بنانے اور آئل انڈسٹری کے نیشنلائیزیشن کی بات چلی، مصدق کے اقتدار میں پہنچنے سے پہلے، وہ میرے بچپن کا دور تھا، مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ہمیں تیل کی صنعت کو قومیا لینا چاہئے۔ ہماری آئل انڈسٹری انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔ (کہا جا رہا تھا) کہ اس کا نیشنلائزیشن کر لیا جائے۔ اس زمانے کے وزیر اعظم نے ایک تقریر کی اور کہا: "یہ لوگ کیا کرتے ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ آئل انڈسٹری کا نیشنلائيزیشن کر لیا جائے؟ ملت ایران کیا آئل انڈسٹری کو سنبھال پائے گی؟ ہم 'لولھنگ' تک تو بنا نہیں سکتے۔" لولھنگ جانتے ہیں کیا ہے؟ لولھنگ مٹی کا لوٹا ہوا کرتا تھا۔ میں نے دیکھا ہے۔ پرانے زمانے میں بعض گاؤوں میں لوٹا بناتے تھے تانبے یا لوہے وغیرہ کا نہیں جو عام طور پر رائج تھا، بلکہ مٹی سے۔ وہ کہہ رہا تھا: "ہماری توانائی بس مٹی کا لوٹا بنانے تک محدود ہے، ایرانی بھلا آئل انڈسٹری سنبھال سکتے ہیں؟" یہ جملہ اس وقت بہت مشہور ہوا تھا۔ اس زمانے کی آئل انڈسٹری کیا تھی جسے سنبھالنے کی بات ہو رہی تھی؟ یہی آبادان کی ریفائنری۔ جس چیز کو چلانا تھا وہ یہی آبادان کی ریفائنری تھی۔ کہتے تھے کہ ایرانی آبادان کی ریفائنری نہیں چلا سکتے! یعنی یہ سوچ تھی۔ تو بعض اوقات اس طرح کے حالات پیش آ جاتے ہیں۔ اتنی شدت سے نہ ہو تب بھی مختلف حالات پیش آتے ہیں جب آگے بڑھنے کے سلسلے میں ارادہ کمزور پڑ جاتا ہے۔

آج جب میں ملک پر نظر ڈالتا ہوں، ملک کی عمومی صورتحال کو دیکھتا ہوں تو بحمد اللہ مجھے نظر آتا ہے کہ یہ مسائل نہیں ہیں، مطلب یہ کہ آگے بڑھنے کا عزم بھی ہے اور آگے بڑھنے کی طاقت و توانائي بھی ہے۔ یہ جو توانائي کی  میں بات کر رہا ہوں، یہ نعرہ نہیں ہے، حقیقت ہے۔ ہمارے یہاں کئي ملین، ان اعداد و شمار پر توجہ دیجیے، بہت واضح اور صاف اعداد و شمار ہیں، تعلیم یافتہ یا تعلیم میں مشغول جوان ہیں، کالج اور یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹ ہیں، کئي ملین! کیا یہ کوئی معمولی ثروت ہے؟ اگر ہم یہ نہ کہیں کہ وہ سب کے سب تو ان میں سے زیادہ تر پرجوش اور پرعزم ہیں۔ ملک میں انقلابی جذبہ پایا جاتا ہے، اس کا اثر ہے۔ یہی باتیں جو ان بعض عزیز جوانوں نے یہاں بیان کیں کہ "ہم تیار ہیں، ہمارے پاس تجاویز ہیں" یہ چیز بہت گرانقدر ہے۔ بنابریں پیشرفت کے لیے عزم بھی ہے، جذبہ بھی ہے، فیصلہ بھی ہے اور توانائي بھی ہے، ہم ان سے استفادہ کریں۔ اگر ہم نے "چاہنے اور کرنے کی صلاحیت" سے جو آج موجود ہے، استفادہ نہ کیا تو ہم ظلم کریں گے۔ اس موقع سے کسے فائدہ اٹھانا چاہیے؟ عہدیداران کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے، خود جینیئس افراد کو بھی اور خود علمی و سائنسی مراکز کو بھی فائدہ اٹھانا چاہیے، اگر ہم نے یہ نہ کیا تو ہم ظلم کریں گے، اپنے ملک پر ظلم کریں گے، اپنی تاریخ پر ظلم کریں گے۔ تمام عہدیداران، میں بھی عہدیدار ہوں، سرکاری اور ایگزیکٹیو عہدیدار بھی ذمہ دار ہیں، آپ جوان بھی ذمہ دار ہیں، علمی و سائنسی اداروں کے محترم وزراء اور متعلقہ عہدیدار بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم سبھی کو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ علمی تحریک، یہ نئي چیز جس کے بارے میں مجھے توقع ہے، یعنی ایک ایجادات و اختراعات کی تحریک، شارٹ کٹ راستے، نئي جست، نئي چھلانگ، وقوع پذیر ہوگي۔ یہ ذمہ داری ہم سب کے کندھوں پر ہے۔

ذمہ داری کے تذکرے کی مناسبت سے میں نے تیسری بات بھی عرض کرنے کے لیے نوٹ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ علم، ذمہ داری لاتا ہے، دوسرے تمام اثاثوں کی طرح، دیگر تمام ثروتوں کی طرح۔ اثاثہ ذمہ داری لاتا ہے، فکری اثاثہ، مالی اثاثہ، طاقت کا اثاثہ، یہ سب ذمہ داری لاتے ہیں۔ خداوند عالم نے جو بھی اثاثہ آپ کو دیا ہے، اس کے ساتھ ایک ذمہ داری بھی قرار دی ہے، علم بھی ان ہی گرانقدر اثاثوں میں سے ایک ہے۔ آپ کے پاس علم ہے، یہ علم آپ پر ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ذمہ داری ڈالتا ہے کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے علم کو بھی لوگوں کے حق میں استعمال کیجیے اور اس پوزیشن اور حیثیت کو بھی لوگوں کے حق میں استعمال کیجیے جو اس علم نے آپ کو عطا کی ہے۔ کبھی ایک عالم اپنی حیثیت اور پوزیشن سے، جو اسے سماج میں حاصل ہے، اس میدان کے علاوہ بھی جس کا وہ عالم ہے، جس میں اسے مہارت حاصل ہے، لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ یہ ذمہ داری ہے۔ اگر آپ نے ایٹمی سائنس میں، میڈیکل سائنس میں، فزکس میں، مینیجمینٹ میں یا کسی بھی دوسرے علم میں، کوئي علمی رتبہ حاصل کیا ہے تو یہ فطری طور پر آپ پر دونوں پہلوؤں سے ذمہ داری ڈالتا ہے، یعنی خود وہ علم بھی لوگوں کی خدمت میں استعمال کیا جائے اور اس علم کی وجہ سے آپ کو جو پوزیشن حاصل ہوئي ہے اسے بھی لوگوں کے فائدے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس سلسلے میں امیر المومنین علیہ السلام کا یہ معروف جملہ، بات کو پوری طرح واضح کر دیتا ہے: "وَ ما اَخَذَ اللہُ عَلَی العُلَماءِ اَلّا یُقِرّوا عَلیٰ کِظَّۃِ ظالِمٍ وَ لا سَغَبِ مَظلوم"(6) یعنی خداوند عالم نے علماء سے، دانشوروں سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ یہ بات برداشت نہیں کریں گے "کِظَّۃِ ظالِمٍ" کو اور "سَغَبِ مَظلوم" کو برداشت نہ کریں، ظالم و ستمگر کی حد سے زیادہ شکم سیری اور ستم رسیدہ کی بھوک پر، "اَلّا یُقِرّوا" ہمیں ردعمل دکھانا چاہیے۔ آج غزہ کے معاملے میں، ردعمل کا یہ فریضہ ہم سبھی کے کندھوں پر ہے، ہمیں ردعمل دکھانا ہی ہوگا، کچھ لوگ بھوکے ہیں، کچھ لوگوں پر بمباری ہو رہی ہے، کچھ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں شہید ہو رہے ہیں۔ ملکی سطح پر، عالمی سطح پر جو یہ مختلف طرح کی محاذ آرائياں پائي جاتی ہیں، اس میں عالم کو، چاہے وہ یونیورسٹی کا عالم اور چاہے دینی درسگاہ کا عالم ہو، سب سے پہلے تو حق کو پہچاننے کی کوشش کرنی چاہیے، حق طے ہونا چاہیے، اسے حق کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے، لاتعلقی، لاتعلقی سے تماشا دیکھنا، عالم اور دانشور کے لیے جائز نہیں ہے۔

اگلی بات اس رائج آپریشنل طریقے کے بارے میں ہے جس کے بارے میں میں نے کئي بار بات کی ہے اور وہ علمی و سائنسی مقالوں کا مسئلہ ہے۔ میں نے اب تک اس سلسلے میں دو تین بار بات کی ہے۔(7) میں سوچ رہا تھا کہ اس سے پہلے جو یاددہانی کرائي گئي ہے جو باتیں بتائي گئي ہیں، وہ کافی ہیں یعنی انھوں نے کام ٹھیک کر دیا ہے لیکن میں نے سنا کہ ایسا نہیں ہے۔ علمی و سائنسی ریسرچ پیپر کو اکیڈمک بورڈ کے پروموشن کی شرط قرار دینے کا میری رائے میں کوئي معقول جواز نہیں ہے، مطلب یہ کہ واقعی اس بات کو ہضم نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے اس بات میں بالکل بھی شک نہیں ہے کہ ہمیں دنیا کے علمی و سائنسی مقابلوں میں حصہ لینا چاہیے، شریک ہونا چاہیے، یہ کام ضرور ہونا چاہیے لیکن یہ کام مجھے معقول نہیں لگتا کہ ہم اپنے تمام پروفیسروں اور ملک کے اکیڈمک بورڈز کے اراکین کو اس بات کا پابند بنا دیں کہ اگر انھیں پروموشن چاہیے تو جا کر دنیا کے فلاں مشہور میگزین یا دنیا کے فلاں علمی و سائنسی مرکز میں امتحان دیں، مقالہ لکھنے کا مطلب یہی تو ہے نا، یعنی یہ واضح ہو جائے کہ فلاں مرکز کی نظر میں آپ کا علمی مرتبہ کیا ہے۔ جی ہاں! مقالہ نویسی اچھی چیز ہے، ملک کے کچھ نامور اور نمایاں اساتذہ اپنی خاص فیلڈ میں تحقیق کریں، اور دنیا کے مؤقر جرائد میں اور علمی و سائنسی مراکز کے لیے قابل توجہ اور ٹھوس مقالے لکھیں، میں اس سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں، یہ کام ہونا چاہیے لیکن یہ کہ ہم پروموشن کے لیے مقالے کی شرط لگا دیں، یعنی اسے تمام پروفیسروں کے لیے لازمی قرار دے دیں، میری رائے میں یہ منط‍قی اور معقول کام نہیں ہے۔ البتہ اچھے مقالے، ملک کی شہرت اور اس کی علمی و سائنسی پوزیشن کو اوپر لے جا سکتے ہیں، یہ بات صحیح ہے۔ اس کے لیے صحیح راستے تلاش کیے جائيں اور ملک کے علمی و سائنسی ادارے، اس بات کے لیے راہیں  تلاش کریں کہ ملک کی علمی و سائنسی شہرت اور پوزیشن، عالمی رینکنگ میں نیچے نہ آنے پائے۔

میں نے مقالوں اور تھیسس کے بارے میں بارہا عرض کیا ہے(8) کہ علمی و سائنسی مقالوں، تحقیقی مقالوں اور تھیسس کا مقصد، ملکی مسائل میں مدد ہونا چاہیے، اصل ہدف یہ ہے۔ میں نے کچھ لمحے پہلے جو نکتہ بیان کیا اسے ہمیں نہیں بھولنا چاہیے: عالمی علمی و سائنسی مقابلوں میں شرکت ضروری ہے لیکن حقیقی ہدف یہ ہے کہ ہم ان مقالوں کے ذریعے، اس علمی تحقیق کے ذریعے، ملک کے مسائل میں سے کسی مسئلے کو حل کریں۔ یہی مسائل جن کا یہاں پر ابھی تذکرہ ہوا؛ ماحولیات کا مسئلہ، روایتی طریقۂ علاج کا مسئلہ، گاڑیوں کا مسئلہ، یہ سب ملک کے مسائل ہیں اور اس طرح کے سیکڑوں دوسرے مسائل ہیں۔ اگر ہم علم و سائنس کے ذریعے اور سائنٹیفک اور عالمانہ طریقے سے ان مسائل کو حل کرنا چاہیں تو انہی مقالوں اور تحقیقات کی ضرورت ہے۔ بنابریں ہمارے مقالے، ہمارے اسٹوڈینٹس کی تھیسس، ان مسائل پر مرکوز ہونی چاہیے کہ انھیں حل کیا جائے۔ واقعی تمام شعبے، میڈیکل اور علاج معالجے، سیکورٹی، غذائیات، ماحولیات سے لے کر حکومتی ڈھانچوں میں اصلاح، حکومتی ڈھانچوں میں اصلاح بھی ایک موضوع ہے، ان سے لے کر عالمی روابط تک سب علمی کام کے میدان ہیں، علمی کام، تحقیقاتی کام ایسے ہونے چاہیے۔ ہم اخباری کاموں اور انگریزی اصطلاح کے مطابق جرنلسٹک کاموں کے پابند نہ ہوں کہ کوئي شخص کسی اخبار میں کوئي مقالہ مثال کے طور عالمی روابط کے بارے میں، سیاسی مسائل وغیرہ کے بارے میں لکھ دے، ہم اس طرح کے کاموں پر منحصر نہ رہیں، صحیح علمی کام ہونا چاہیے۔

اس سلسلے میں آخری بات، عہدیداروں کی ذمہ داری کے بارے میں ہے۔ بحمد اللہ یہاں محترم وزراء، محترم نائب صدر اور مختلف عہدیداران موجود ہیں۔ اس سلسلے میں جو بات میں خلاصے کے طور پر عرض کر سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ عہدیداران اور ذمہ داران کو کچھ ایسا کام کرنا چاہیے کہ ممتاز علمی صلاحیت کا حامل شخص یہ محسوس کرے کہ وہ مفید ہے۔ بعض لوگوں کی زبانوں پر اور اخبارات میں ملک سے باہر جانے اور ہجرت کی جو بات کی جاتی ہے اور بعض لوگ اس سلسلے میں کچھ مبالغے سے بھی کام لیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ممتاز علمی صلاحیت کا حامل شخص محسوس کرتا ہے کہ اس کے لیے یہاں کوئي کام نہیں ہے۔ میں نے اپنی پچھلی یاددہانیوں میں(9) کہا ہے کہ ممتاز علمی صلاحیت کے حامل شخص کی ملک کا انتظام چلانے والوں سے دو توقع ہے: ایک یہ کہ اس کے پاس کوئي کام ہو، وہ مصروف رہے، کام کرے اور دوسرے یہ کہ اس کے پاس اسٹڈی اور تعلیم جاری رکھنے کا امکان ہو۔ ممتاز علمی صلاحیت کے حامل افراد کے ملک سے باہر جانے میں ایک کشش یہ ہے کہ وہاں تحقیق اور پیشرفت وغیرہ کا امکان پایا جاتا ہے، ہمیں یہ امکان اور یہ کام ان کے لیے یہاں فراہم کرنا چاہیے۔ میں آج کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ممتاز علمی صلاحیت کے حامل شخص کی توقع کا خلاصہ کریں تو وہ یہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اسے محسوس ہو کہ وہ ملک میں مفید ہے۔

اس کام کے کئي راستے ہیں۔ آج دو تین بار ان نالج بیسڈ کمپنیوں کی بات ہوئي، میں نے بھی یہی بات نوٹ کی ہے، ممتاز علمی صلاحیت کے حامل شخص کو یہ محسوس کرانے کے لیے وہ مفید ہے، ایک بہترین راستہ، نالج بیسڈ کمپنیوں کی تشکیل ہے۔ نالج بیسڈ کمپنیاں، ملک کو معاشی ترقی بھی عطا کرتی ہیں، ملک میں شادابی بھی لاتی ہیں، ملک کو علمی و سائنسی پیشرفت بھی عطا کرتی ہیں اور ساتھ ہی ممتاز علمی صلاحیت کے حامل افراد کو محفوظ بھی رکھتی ہیں اور اس طرح ان سے ملک کو فائدہ ملتا ہے۔ بنابریں میں زور دے کر کہتا ہوں کہ نالج بیسڈ کمپنیوں کی تقویت کیجیے اور ان کی تقویت کا ایک راستہ یہ ہے کہ ان کمپنیوں میں بننے والی مصنوعات کو بیرون ملک سے درآمد نہ کیا جائے۔ حال ہی میں میرے پاس کئي شکایت آمیز رپورٹیں آئی ہیں کہ نالج بیسڈ کمپنی کہتی ہے کہ ہم یہ چیز بناتے ہیں، فلاں ادارہ، جو اس چیز کا صارف ہے، اسے باہر سے درآمد کرتا ہے۔ کیوں؟ ہمیں سیکھنا ہوگا، عادت ڈالنی ہوگي، خاص طور پر سرکاری ادارو کو، جو ان مصنوعات کے اہم گاہکوں میں شامل ہیں، کہ دیسی مصنوعات استعمال کریں۔ اس بات کے، جو اتنی زیادہ دوہرائی جاتی ہے، سب سے پہلے مخاطَب خود ہم ہیں، خود عہدیداران اور ذمہ داران ہیں، سرکاری ادارے ہیں، حکومتی ادارے ہیں، انھیں ملکی مصنوعات استعمال کرنی چاہیے اور سب سے بڑھ کر انہی نالج بیسڈ کمپنیوں کی مصنوعات استعمال کرنی چاہیے۔

خیر میرے معروضات پورے ہو گئے، کچھ باتیں بہت اختصار سے فلسطین اور غزہ میں جاری حالات کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا۔ فلسطین کے معاملے میں جو چیز پوری دنیا کی نظروں کے سامنے ہے وہ غاصب حکومت کے ہاتھوں نسلی تصفیے کا جرم ہے۔ یہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ بعض ملکوں کے عہدیداروں نے، جنھوں نے ہمارے ملک کے عہدیداروں سے بات کی، غاصب صیہونی حکومت کے بچاؤ میں یہ اعتراض کیا کہ کیوں فلسطینیوں نے عام شہریوں کو قتل کیا؟ پہلی چیز تو یہ کہ یہ بات حقیقت کے برخلاف ہے، مطلب یہ کہ صیہونی کالونیوں وغیرہ میں جو لوگ رہ رہے ہیں وہ عام شہری نہیں ہیں، وہ سب مسلح ہیں۔ چلئے میں مان لیتا ہوں کہ وہ عام شہری ہیں! کتنے عام شہری مارے گئے؟ اس سے سو گنا زیادہ اس وقت یہ غاصب حکومت بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کو قتل کر رہی ہے جو عام شہری ہیں۔ غزہ کی عمارتوں میں فوجی تو نہیں رہتے، فوجی اپنی جگہوں پر ہیں۔ یہ بات صیہونی بھی جانتے ہیں۔ یہ عام شہری ہیں۔ زیادہ بھیڑ والی جگہوں کو چنتے ہیں اور وہاں حملہ کرتے ہیں۔ اب تک غزہ کے کئي ہزار فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، ان ہی چند دنوں میں۔ یہ جرم دنیا کے تمام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ صیہونیوں کو کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ آج کی غاصب صیہونی حکومت پر حتمی طور پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے، ان کو کٹہرے میں لایا جانا چاہیے، امریکی حکومت بھی اس مسئلے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔    

بہت سی اطلاعات ہیں جو ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ ان دنوں جو پالیسی چل رہی ہے، یعنی حالیہ ہفتے میں صیہونی حکومت کے اندر جو پالیسی چل رہی ہے، اسے امریکی طے کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ پالیسی میکر وہ ہیں اور جو یہ کام ہو رہے ہیں، وہ امریکیوں کی پالیسی کے تحت ہیں۔ امریکی اپنی ذمہ داری پر توجہ دیں، وہ جوابدہ ہیں۔ بمباری فوری طور پر رک جانی چاہیے۔ مسلم اقوام غضبناک ہیں، بہت زیادہ غصے میں ہیں، اس کی نشانیاں آپ دیکھ ہی رہے ہیں: عوامی گروہوں کے اجتماع، صرف اسلامی ملکوں میں ہی نہیں بلکہ لاس اینجلس میں، ہالینڈ میں، فرانس میں، یورپی ملکوں میں، مغربی ملکوں میں لوگ اجتماع کر رہے ہیں، مسلمان اور غیر مسلم دونوں، اسلامی ملکوں میں تو خیر واضح ہی ہے۔ لوگ غصے میں ہیں۔ اگر یہ جرم جاری رہا تو مسلمانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا، استقامتی فورسز کا صبر ختم ہو جائے گا، پھر کوئي بھی انھیں روک نہیں پائے گا۔ یہ بات جان لیں۔ پھر کوئي کسی سے یہ توقع نہ رکھے کہ فلاں گروہ کو یہ کام نہ کرنے دیجیے، جب ان کی برداشت کی حد ختم ہو جائے گي تو کوئي انھیں روک نہیں پائے گا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو اس وقت موجود ہے۔ البتہ صیہونی حکومت چاہے کچھ بھی کر لے، اس واقعے میں اسے جو ذلت آمیز شکست ہوئي ہے، اس کی تلافی ہرگز نہیں کر پائے گي۔(10) آخری جملہ تو آپ ہی نے بیان کر دیا، بہت شکریہ۔

والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کی ابتدا میں ممتاز علمی صلاحیت کے حامل سات افراد نے اظہار خیال کیا اور اپنے نظریات بیان کیے۔ اسی طرح سائنس، ٹیکنالوجی اور نالج بیسڈ معیشت کے امور میں نائب صدر اور نیشنل ایلیٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ جناب روح اللہ دہقانی فیروزآبادی نے ایک رپورٹ پیش کی۔
  2. ملک کے دیہی اور محروم علاقوں کی پیشرفت کا ادارہ
  3. منجملہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی و فنی مراکز کے عہدیداروں سے خطاب (11/11/2015)
  4. شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، جلد 20، صفحہ 319
  5. پہلوی حکومت کے وزیر اعظم فیلڈ مارشل حاج علی رزم آرا نے بعض اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کے مطالبے کے جواب میں اپنے تیل کے ذخائر کے مینیجمینٹ میں ایرانی قوم کی عدم صلاحیت کو ثابت کرنے کے لیے انتہائي استہزائيہ انداز میں چلا کر کہا تھا کہ "جو قوم مٹی کے لوٹے کی ٹونٹی بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی وہ کس طرح تیل کی صنعت کو چلا سکتی ہے؟"
  6. عل الشرائع، جلد 1، صفحہ 151
  7. منجملہ، ملک کے ممتاز علمی صلاحیت کے حامل افراد سے ملاقات میں خطاب (18/9/2017)
  8. منجملہ یونیورسٹیوں اور تعلیمی و فنی مراکز کے عہدیداروں سے خطاب (10/6/2018)
  9. منجملہ، ملک کے ممتاز علمی صلاحیت کے حامل افراد سے ملاقات میں خطاب (19/10/2022)
  10. حاضرین کی جانب سے "مردہ باد امریکا" کا نعرہ