8 فروری سن 1979 کو فضائيہ کے ایک خصوصی دستے 'ہمافران' کی جانب سے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخی بیعت کی سالگرہ کے موقع پر ہونے والی اس ملاقات میں انھوں نے اس واقعے کو، انقلاب کو رفتار عطا کرنے والا عنصر بتایا اور اس میں اہم افراد اور خواص کے کردادر کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ انقلاب کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری رفتار پیدا کرنے میں خواص کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خواص کو معاشرے کے بڑے اور بامقصد کاموں کو رفتار عطا کرنے والے حقیقی افراد بتایا اور کہا کہ خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو قوم کے ہر طبقے میں غور و فکر، شناخت اور امور کے تعین کی قوت کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اپنے آس پاس کے ماحول کی اندھی تقلید کیے بغیر پوری شجاعت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بر وقت پورا کرتے ہیں۔
انھوں نے ظلم اور ظالم سے مقابلے، دنیا بھر کے منہ زوروں کے مقابلے میں ڈٹ جانے، عوام کی دنیا اور ملک کے مستقبل پر توجہ اور ساتھ ہی روحانیت پر مکمل توجہ جیسے اسلامی انقلاب کے اندرونی پرکشش عناصر کو، نئی نئی پیشرفتوں کا سبب بتایا اور کہا کہ ان ذاتی پرکشش امور کے باوجود انقلاب اور ملک کو رفتار عطا کرنے والے عناصر کی ضرورت ہے تاکہ بڑے بڑے کاموں میں ہماری رفتار دھیمی نہ پڑنے پائے۔
آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے کہا کہ جو بھی یونیورسٹی والوں، اسٹوڈنٹس، سیاستدانوں، علمائے دین، تاجروں، میڈیا والوں، سپاہیوں اور کسی بھی دوسرے طبقے کے درمیان مسائل کے ادراک اور دوست اور دشمن کی محاذ آرائی کی شناخت کے ساتھ کام کرتا ہے، وہ خواص میں شامل ہے۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دشمن محاذ نے خواص کے لیے ایک خاص پروگرام تیار کر رکھا ہے، کہا کہ دشمن کا ہدف یہ ہے کہ خواص شک وشبہے میں پھنس کر اور دنیوی لذتوں میں گرفتار ہو کر ضروری اور حساس مواقع پر، ضروری کام نہ کریں اور رفتار عطا کرنے کا اپنا کردار ادا نہ کر سکیں۔
انھوں نے اس سازش کے مقابلے میں تشریح و بیان کے جہاد اور بدخواہوں کی جانب سے شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کو ناکام بنائے جانے کو خواص کی ذمہ داری بتایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خواص کی ذمہ داری حقائق کو صاف صاف بیان کرنا اور ذو معنی باتوں سے پرہیز کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج علماء، دانشوروں، سیاستدانوں اور میڈیا والوں سمیت عالم اسلام کے خواص کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا ایک سنجیدہ میدان، غزہ کا موضوع ہے۔
انھوں نے امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی پشت پناہی سے غزہ میں سامنے آنے والے انسانیت سوز مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صیہونی حکومت پر کاری ضرب لگانے کے لیے مسلم اقوام کے اندر اپنی حکومتوں سے ایک عمومی مطالبہ پیدا کرنے کو اہم شخصیات اور خواص کی اہم ذمہ داری بتایا اور کہا کہ کاری ضرب کا مطلب صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں شامل ہو جانا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب صیہونی حکومت سے معاشی اور اقتصادی تعلقات منقطع کر لینا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اقوام میں، حکومتوں کو صحیح ڈگر پر لانے اور انھیں صیہونی حکومت کی حمایت اور پشت پناہی ختم کرنے پر مجبور کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، کہا کہ اگرچہ یہ ظالم اور بھیڑیا صفت حکومت عورتوں، بچوں اور بیماروں پر حملے کر رہی ہے اور اس نے ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود بعض اسلامی ممالک نہ صرف اس کی معاشی مدد کر رہے ہیں بلکہ یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ وہ صیہونی حکومت کو ہتھیار بھی دے رہے ہیں۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے ایک دوسرے حصے میں فضائيہ کے بعض اہلکاروں کی جانب سے 8 فروری 1979 کو امام خمینی کی بیعت کے حیرت انگیز واقعے کو کبھی نہ ختم ہونے والے سبق اور عبرت کا حامل بتایا اور کہا کہ فضائیہ کے اہلکار اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اس مخلصانہ اور شجاعانہ کام کے ساتھ، انقلاب سے جڑنے میں سب سے آگے ہو گئے اور 22 بہمن مطابق 11 فروری کو اسلامی انقلاب کی کامیابی میں انھوں نے رفتار بڑھانے والے انتہائی اہم عنصر کا کردار ادا کیا۔
انھوں نے طاغوت اور آمریت کے دور کی فضائيہ کو کمان، پالیسی اور ہتھیاروں کے لحاظ سے پوری طرح امریکیوں کے کنٹرول میں اور ان کا تابع فرمان ادارہ بتایا اور کہا کہ مومن اور انقلابی اہلکاروں نے خود کفالت کے جہاد کے ذریعے فضائیہ کو امریکا کی ملکیت سے باہر نکالا اور اسے پوری طرح ایک ایرانی فورس میں تبدیل کر دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے 22 بہمن (11 فروری) اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے قریب آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے 45 برس عوام بغیر کسی ناغے کے ملک کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں میں سڑکوں پر آئے ہیں اور نعرے لگا کر انھوں نے اپنے انقلاب کا دفاع کیا ہے اور امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پیروی اور ان سے بیعت کا اعلان کیا ہے، اسی طرح اس سال بھی عزیز عوام 22 بہمن کی ریلیوں میں، جو قومی اقتدار کی ایک نشانی ہے، بھرپور طریقے سے شرکت کریں گے۔