یمن کی جانب سے فلسطینی استقامت کی حمایت کے مختلف پہلو

یہ حمایت صرف عسکری میدان تک محدود نہیں ہے۔ ہم اپنے اخلاقی، دینی اور انسانی فریضے کے تحت غزہ کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ہم فلسطینی قوم کے خلاف صیہونیت کے اس قدر وسیع اور بھیانک جرائم کو دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ اسی لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی ہمارا موقف تھا کہ ہم فلسطین کی حمایت کریں گے۔ یمن میں فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے اور اسی طرح یہاں کی سیاسی جماعتوں اور دھڑوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات، یمنی عوام کے مختلف طبقوں کی جانب سے طوفان الاقصیٰ کے مبارک آپریشن کی حمایت کی عکاسی کرتے ہیں۔

 

یمنی قوم نے فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے کو اپنا فریضہ سمجھا

طوفان الاقصیٰ مہم کے بعد، جو فلسطین کی اسلامی مزاحمت کی ایک عظیم کامیابی تھی، کافر مغربی ملکوں کی کھلی، اعلانیہ اور لامحدود حمایت کے سائے میں صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ پر وحشیانہ اور سفاکانہ جارحیت شروع ہوئي۔ غزہ میں صیہونیوں کے جرائم نے فلسطین میں امت مسلمہ کے فرزندوں کے  خلاف ان کی جارحیت کی ماہیت کو پوری طرح سے آشکار کر دیا۔ غزہ پر صیہونی حکومت کے فوجی حملے اور اس کے بھیانک جرائم میں اب تک دسیوں ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ یہ جرائم، مغرب کے بہت سے ملکوں اور عالمی اداروں اور تنظیموں کی خاموشی بلکہ مدد سے اور بڑے ہی افسوس کے ساتھ عرب اور اسلامی ملکوں کی خاموشی اور صیہونی حکومت سے ان کے تعاون کے سائے میں انجام پا رہے ہیں۔ ان حالات میں یمنی قوم نے فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے کو اپنا فریضہ سمجھا۔

یمن کی پارلیمنٹ اور حکومت نے امریکی اور صیہونی مصنوعات کے بائيکاٹ اور یمن میں ان کی آمد پر پابندی کے سلسلے میں لازم العمل قوانین پاس کیے۔ اسی طرح امریکا کی ان تجارتی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے جنھیں پہلے یمن کی صنعت و تجارت کی وزارت کے ذریعے کام کا لائسنس دیا گيا تھا۔ ان اقدامات کے بعد یمن کے لوگوں نے ایک بڑی میڈیا کیمپین شروع کی اور فلسطینیوں کی مظلومیت کی عکاسی کر کے ان کے ایثار، کارناموں اور فتوحات کو سراہا۔ ان سارے اقدامات کے بعد یمن کے صدر مہدی المشاط نے انصار اللہ کے قائد عبدالملک بدر الدین الحوثی کی مبارک ہدایات کے حوالے سے، جنھوں نے ہمیشہ ہی فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہونے پر تاکید کی ہے، یمن کی مسلح فورسز کو فلسطین کی حمایت میں فوجی آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا۔

 

یمن کی مسلح فورسز کی جانب سے صیہونی حکومت کے خلاف آپریشن کی شروعات

یمنی فورسز نے اپنا آپریشن ایلات کی بندرگاہ کو میزائیل اور ڈرون سے نشانہ بنا کر شروع کیا۔ اس کے بعد یہ طے پایا کہ صیہونی حکومت کے بحری جہازوں کو مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے سے روکنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کیا جائے۔ غزہ کے عوام کے خلاف حملے اور ان کا محاصرہ جاری تھا تو ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ سکتے تھے۔ ایسے عالم میں جب فلسطین میں ہمارے بھائي، ہر طرح کی غذائي اشیاء اور دواؤں تک سے محروم ہیں، ہم صیہونی حکومت تک اشیاء و مصنوعات کی ترسیل کی اجازت نہیں دے سکتے۔

ہمارا ماننا ہے کہ ہم نے جو فیصلے کیے ہیں ان کے ذریعے ہم سعودی عرب کے شہر جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کی کانفرنس میں منظور کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں منظور کیے گئے فیصلوں میں غزہ کا محاصرہ ختم کیے جانے اور اس علاقے میں غذائي اشیاء اور دوائيں بھیجے جانے پر زور دیا گيا ہے۔ بنابریں ہمارے خیال میں صیہونی حکومت پر یمن کی مسلح فورسز کا دباؤ، اس حکومت کو بالآخر غزہ میں انسان دوستانہ امداد بھیجے جانے کی اجازت دینے پر مجبور کر دے گا۔ یہ کام، یمن والوں کے آپریشنز کے بعد شروع ہو گيا اور آپ نے دیکھا کہ، چاہے جزئي طور پر ہی سہی، کرم ابو سالم اور رفح پاس سے غزہ تک بعض انسان دوستانہ امداد بھیجنے کی اجازت دی گئي۔

غزہ کے عوام کی حمایت میں یمن کی مسلح فورسز کا دوسرا قدم

یمن کی مسلح فورسز نے ایک دوسرا قدم اٹھایا اور وہ ان بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کا تھا جو صیہونی حکومت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اس بار مقبوضہ علاقوں کی طرف بڑھنے والے نہ صرف اسرائيلی بحری جہاز بلکہ صیہونی حکومت کی طرف جانے والے تمام بحری جہاز، یمنی فورسز کے ٹارگٹ پر آ گئے۔ یمنی فوج کی جانب سے صیہونی حکومت کے اقتصادی محاصرے میں شدت اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک صیہونی اور غیر صیہونی کمپنیوں کی مصنوعات کی ترسیل پر پابندی کی وجہ سے امریکی دشمن نے ایک منحوس اتحاد کی تشکیل کا فیصلہ کیا۔ بحیرۂ احمر میں کام کرنے والا کوئي بھی ملک اس اتحاد میں شامل نہیں ہوا۔

صیہونی بحری جہازوں پر حملوں کے مراحل

پہلے فوجی مرحلے کے کچھ عرصے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ صیہونی بحری جہازوں کا محاصرہ کافی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دیکھا کہ اسرائيل نے اپنے لیے ضروری اشیاء اور مصنوعات کو لانے کے لیے دوسری کمپنیوں کا سہارا لیا ہے تاکہ یمنی مسلح افواج کی فوجی کارروائيوں کو ناکام بنا سکے۔ اس لیے ہمیں اس کے اس حربے کو ناکام بنانے کے لیے کوئي فیصلہ کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے فیصلہ کیا ہم ہر اس بحری جہاز کو اپنے حملے کا نشانہ بنائیں گے جو مقبوضہ فلسطین کی جانب جا رہا ہوگا کیونکہ ان جہازوں میں یقینی طور پر صیہونیوں کے لیے اشیاء یا فوجی سازوسامان لدا ہوگا۔

 

اپنے فیصلے کا تاوان بخوشی ادا کر رہے ہیں

اگرچہ صیہونی بحری جہازوں یا اسرائيل کی جانب جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کا ہمارا فیصلہ، ہمارے فریضے کے تحت تھا لیکن ہم یہ بھی جانتے تھے کہ ہمیں اس فیصلے کا تاوان بھی ادا کرنے پڑے گا لیکن ان سب کے باوجود ہم اپنے اس فیصلے کا تاوان بخوشی ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے فلسطین کے دفاع اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کی حمایت کو "آپ اکیلے نہیں ہیں" نعرے کے ساتھ "مقدس جہاد" کی جنگ میں شروع کیا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ فلسطینیوں کے مصائب اب مزید جاری نہیں رہیں گے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ رہیں گے اور ان کے شانہ بشانہ میدان میں اتریں گے۔

فلسطین اور غزہ کے سلسلے میں اسلامی ملکوں کی ذمہ داری

 مسلم اقوام کے کندھوں پر بڑی سنگين ذمہ داری ہے جسے انھیں پورا کرنا ہی ہوگا کیونکہ ان کی جانب سے پسپائی اور لاتعلقی کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقوام کے پاس جو وسائل ہیں، وہ بہت زیادہ اور گوناگوں نوعیت کے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی اور صیہونی اشیاء کا بائیکاٹ، مظاہرے اور ریلیاں اور اسی طرح مقبوضہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر غم و غصے کا اظہار، ان اقدامات میں شامل ہے جو اقوام، اپنی حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے کر سکتی ہیں۔

رہبر انقلاب امام خامنہ ای کی تاکید

جب امام خامنہ ای صیہونی حکومت کی حیاتی شریانوں کو کاٹنے پر زور دیتے ہیں تو وہ پوری طرح سے مرکزی اور بنیادی نکتے پر انگلی رکھتے ہیں، اس معنی میں کہ وہ اشارہ کرتے ہیں کہ مسلم اقوام اور اسلامی و عرب حکومتوں کی پسپائي اور لاتعلقی اور اسی طرح ان کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کی عدم ادائيگی، فلسطینی قوم کے خلاف صیہونی دشمن کی جارحیت اور حملوں کے زیادہ طویل ہونے کا سبب بنے گي۔ بہرحال اس مبارک جنگ میں مختلف محاذ، اپنے فریضے پر عمل درآمد کے لیے سرگرم ہو گئے اور وہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہیں۔

ایک اہم سوال

میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ کہاں ہیں؟ وہ کیوں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کرتے؟ ہمارا ماننا ہے کہ یمن، لبنان، عراق، شام اور ان سب کی پشت پر اسلامی جمہوریہ ایران کا محاذ، محاذوں کے ہم آہنگی و وحدت کے نعرے کے ساتھ فلسطین کی حمایت میں بہت سارے کام کر رہے ہیں تاکہ فلسطین، صیہونی دشمن کے مقابلے میں اکیلا نہ رہے۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ مزاحمتی محاذ کے مختلف شعبوں اور مجاہد اور استقامتی تحریکوں نے صیہونی حکومت کے خلاف بہت سارے اقدامات کیے ہیں اور اس حکومت کے اہداف کی تکمیل کے سامنے ڈٹ گئي ہیں۔