فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر 25 مارچ 2024 کو گزشتہ برسوں کی مانند محفل شعر و سخن برپا ہوئی جس میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای بھی شریک ہوئے۔ 

ایران اور دیگر ممالک سے فارسی گو شعرا اور ادبا رہبر انقلاب کے مہمان تھے۔ 

ہر سال رمضان المبارک میں ہونے والی اس محفل کا ماحول بڑا بے تکلفانہ ہوتا ہے اور یہ شعر و ادب سے رہبر انقلاب کی خاص نسبت کی علامت ہے۔ 

اس سالانہ محفل کا عام طور پر بڑا دلچسپ حصہ دیگر ممالک سے آنے والے شعرا کے کلام پیش کئے جانے کا حصہ ہوتا ہے۔ ان کی مادری زبان فارسی نہیں لیکن فارسی زبان و ادب سے انہیں ایسی گہری نسبت ہے کہ فارسی ادب میں ڈوب کر شاعری کرتے ہیں اور یہ سمجھ پانا مشکل ہو جاتا ہے کہ ان کا تعلق فارسی سرزمین سے نہیں ہے۔ 

ان مہمانوں کا شیریں لہجہ رہبر انقلاب کو وجد میں لا دیتا ہے اور بڑے شفقت آمیز انداز میں آپ داد سخن دیتے اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ 

اس سال بر صغیر ہند کے شعرا اور سخنوروں کے علاوہ علی گڑھ اور وہاں کی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ماہر ادبیات فارسی خاتون بھی اس محفل میں شریک ہوئیں، ڈاکٹر آذر میدخت صفوی۔ 

ڈاکٹر آذر میدخت صفوی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی استاد پرشین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی ڈائریکٹر اور آل انڈیا پرشین ٹیچرز ایسوسی ایشن کی ہیڈ ہیں۔ جیسا کہ ان کے نام سے ہی نمایاں ہے ان کا سلسلہ نسب ایران کے معروف صفوی خاندان سے ملتا ہے۔ ان کا خاندان صدیوں قبل ہجرت کرکے ہندوستان چلا گیا تھا۔ 

انہوں نے 1960 کے عشرے سے اپنا علمی سفر شروع کیا اور اس سفر کا آغاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فارسی لٹریچر کی تعلیم سے ہوا۔ انہوں نے 1966 میں گریجوئیشن، 1968 میں ایم اے اور 1974 میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ ان کے ڈاکٹریٹ کے تھیسس کا عنوان تھا؛ «سعدی، شاعر غزل‌سرا و بشر دوست»۔ 

انہوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔ وہ اسی وقت سے یونیورسٹی کے فارسی ادبیات کے شعبے میں تدریس میں مصروف ہیں۔ 

ایران کے معروف اسکالر، مصنف اور سیاست داں ڈاکٹر حداد عادل کے بقول ہندوستان میں فارسی زبان اساتذہ محترمہ صفوی کو اس ملک میں فارسی زبان کی چشم و چراغ کہتے ہیں۔ وہ تدریس، تربیت، تصنیف، ترجمہ، کانفرنسز کے انعقاد اور فارسی کے تحقیقاتی مرکز کے قیام جیسے مختلف شعبوں میں سرگرم ہیں۔ وہ در حقیقت اس ملک میں فارسی زبان و ادب کی خاتون اول ہیں۔ 

کئی عشروں پر محیط ان کی علمی و ادبی کاوشوں کا نتیجہ درجنوں کتب ہیں جن کی انہوں نے تصنیف، تالیف یا تصحیح کی ہے۔ ہر کتاب ہندوستان میں فارسی زبان و ادب پر کسی نہ کسی پہلو سے توجہ مرکوز کراتی ہے۔

ان کی معروف کتابوں میں تشریح الاقوام، اخبار الجمال، بحر زخار، ہندوستان کے شمس آباد میں صفوی، عصر حاضر میں مولانا روم کی روحانیت و معنویت، تصوف و عرفان در ادبیات فارسی، تذکرہ نویسی در ادبیات فارسی، ادبیات داستانی فارسی، عرفان العاشقین، تصحیح و تدوین ڈاکٹر صفوی کی ڈھیروں کتب میں سے چند نمونے ہیں۔

فارسی گو شعرا کی محفل میں ڈاکٹر آذر میدخت صفوی کی شرکت اور ادبیات فارسی پر رہبر انقلاب کی گفتگو سرزمین ہندوستان میں اس زبان کے اچھے مستقبل کی نوید ہے۔ 

ڈاکٹر صفوی جو محفل کی فضا اور رہبر انقلاب کے شعری و ادبی ذوق کو دیکھ کر مسرت و حیرت کی کیفیت میں تھیں اپنی بات اس طرح شروع کرتی ہیں:  

"ایران کے رہبر معظم کی خدمت میں سلام و درود عرض کرتی ہوں۔ میں ڈاکٹر قزوہ اور دیگر دوستوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں جن کی وجہ سے مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ آج آخرکار اس محفل میں حاضر ہو سکی جس میں حاضری کی مجھے برسوں سے تمنا تھی اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ما شاء اللہ رہبر معظم شعر و ادب کا کتنا ذوق رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ شعر و ادب کا ذوق رکھتے ہیں بلکہ تصحیح اور اصلاح بھی کرتے ہیں، الحمد للہ وہ تشبیہات و استعارات کو بخوبی اور پوری طرح سمجھتے ہیں، واقعی وہ ایک منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ عام طور پر مختلف سیاستداں اور امور مملکت چلانے والے رہنما سماجی اور معاشی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں مگر شعر و ادب کی طرف ان کی زیادہ توجہ نہیں ہوتی۔" 

اس پر رہبر انقلاب برجستہ مزاحا فرماتے ہیں:

"ان کی عقل اس کی اہمیت سمجھ نہیں پاتی۔"

رہبر انقلاب کے اس جملے پر قہقہے بلند ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صفوی بھی ہنستے ہوئے کہتی ہیں جی ہاں، آپ نے بالکل بجا فرمایا۔ اس کے ساتھ ہی وہ تالیاں بجانے لگتی ہیں اور حاضرین بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ 

ڈاکٹر صفوی اس کے بعد یہ مصرع پڑھتی ہیں؛ 

"بنده شعر شماییم و ثناخوان شما" 

وہ اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں: "ہم جو ہندوستان میں رہتے ہیں ہمیشہ سے اور صدیوں سےایران کے ساتھ ہماری ایک مشترکہ ثقافت رہی ہے اور خدا کا شکر کہ اب بھی ہے۔ میں وہاں پر فارسی زبان و ادب کی ایک ادنیٰ سی خدمتگزار ہوں اور کوشش کر رہی ہوں کہ فارسی ایک بار پھر ہندوستان میں فروغ حاصل کرے۔" 

ڈاکٹر صفوی کی اس جذباتی گفتگو پر رہبر انقلاب کا جواب جو بر صغیر میں فارسی زبان و آدب پر ان کی گہری نظر کا عکاس ہے محفل کے لطف و حلاوت کو ڈاکٹر صفوی اور ہندوستان کے دیگر مہمانوں کے لئے دو بالا کر دیتا ہے؛ "ہم آپ جیسے لوگوں کے، فارسی کے چاہنے والوں کے، جو ہندوستان میں رہتے ہیں اور ہندوستان تاریخی لحاظ سے کسی زمانے میں فارسی زبان کے اوج کا مرکز تھا، آپ لوگوں کے وجود اور فارسی زبان کے لیے آپ کے جذبات پر فخر کرتے ہیں۔"