بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدییّن المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔

 برادران و خواہران عزیز، حکام اور افسران محترم خوش آمدید! میں سب سے پہلے تو محترم صدر مملکت جناب رئیسی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ انھوں نے بہت اچھی وضاحت کی۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم انہیں اجر بھی دے، ان کی نصرت بھی کرے اور انہیں طاقت و توفیقات بھی عطا فرمائے تاکہ ان شاء اللہ یہ اسی طرح اس کام کو جاری رکھیں۔

میں پہلے ماہ رمضان کے بارے میں کچھ عرض  کروں گا۔ اس کے صرف چند روز باقی بچے ہیں، اس مہینے کی قدر کو سمجھیں۔ اس کے بعد ملک کے موجودہ مسائل کے بارے چند جملے عرض کروں گا۔

 ماہ رمضان مکمل طور پر ایک مبارک مہینہ ہے۔ اس مہینے کے ساتھ لفظ

 "مبارک" کا استعمال صرف دکھانے کے لئے نہیں ہے بلکہ حقیقی معنی میں یہ مبارک مہینہ ہے۔ یعنی مختلف پہلووں سے یہ مہینہ انسان کی باطنی اور روحانی توانائیاں بڑھاتا ہے۔ انسان کے، فرد کے، انسانیت اور تقدس کے پہلو کو بلندی عطا کرتا ہے۔ معاشرے میں افراد کا ارتقا معاشرے کے ارتقا پر منتج ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔  یہ جو میں نے کہا کہ مختلف پہلوؤں سے تو اس کا مطلب ہے کہ روزے کے پہلو سے، تلاوت قرآن کے پہلو سے جس کی اس مہینے میں تاکید کی گئی ہے، تلاوت کا ثواب بڑھا کر لوگوں میں اس کا اشتیاق بڑھایا گیا ہے اور لیلۃ القدر (2) کے پہلو سے جو ایک غیر معمولی اہم موقع ہے جو مختلف زاویوں سے "ایک ہزار مہینوں" سے بہتر ہے۔ مثال کے طور پر اگر روزہ کے پہلو سے دیکھیں تو ماہ رمضان کا روزہ، نفسانی خواہشات کے مقابلے میں خود پر قابو رکھنے کی انسان کی توانائی بڑھاتا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ نفسانی خواہشات کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، کوئی حد نہیں ہوتی۔ انسان ان خواہشات کو جتنا پورا کرتا ہے اتنا ہی ان میں اضافہ ہوتا ہے اور نفس انسان کی توقع بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کے اندر ان خواہشات سے روکنے کی کوئی توانائی ہونی چاہئے اور روزہ انسان کو یہ توانائی عطا کرتا ہے۔ ارادے کی تقویت، روح کی تقویت اور نفس کی ختم نہ ہونے والی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی مشق، ارتقا کا ایک وسیلہ ہے۔   

  تلاوت قرآن ان لوگوں کے لئے جو قرآن میں غور و فکر کرتے ہیں، اسلامی تعلیمات کے بحر بیکراں سے متصل ہونے کے مترادف ہے۔ ہمیں ہمیشہ اس بات کی ضرورت رہتی ہے کہ اپنے قلب میں تعلیمات الہیہ کی تقویت کر سکیں اور اپنی معرفت اور بصیرت کی تقویت کریں  اور اس  کی سطح بلند کریں۔ "الیہ یصّعّد الکلم الطّیّب" اس "کلم طیّب" (3)  کا ایک اہم حصہ وہ معرفت اور فضیلت ہے جو نفس انسان میں اسی قرآن سے  پیدا ہوتی ہے۔ یہ دعائیں جو ماہ رمضان کے لئے بیان کی گئی ہیں۔ رمضان المبارک کی سحر میں، ماہ رمضان کی رات میں اور دن میں بالخصوص پہلی رمضان وغیرہ کے لئے جو دعائیں وارد ہوئی ہیں، وہ قلب انسان کو یاد خدا میں غوطہ ور کر دیتی ہیں۔ اگر انسان توجہ کے ساتھ ان دعاوؤں کو پڑھے تو" الیہ یصّعّد الکلم الطّیّب" (3)  انسان  توجہ کے ساتھ ان دعاوؤں کو پڑھے تو انسان کے اندر یاد خدا اور خدا کی طرف توجہ مطلوبہ حد تک وجود میں آ جاتی ہے۔ " و لذکر اللہ اکبر"(4) اس آیہ شریفہ کے الفاظ میں، نماز کی سب سے بڑی خاصیت، ذکر الہی ہے، یاد خدا ہے جو سرچشمہ سعادت ہے، باعث پیشرفت ہے، بنیاد ارتقا ہے اور گناہوں سے دور کرتی ہے۔  

لیلۃ القدر، مقدر ساز رات ہے۔ ماہ رمضان میں انسان لیلۃ القدر میں اپنی تقدیر سنوار سکتا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اگر حقیقی طلب ہو۔ ان راتوں میں جو ضروری ہے، طلب کرنے کی حقیقی حالت اور کیفیت ہونی چاہئے۔ یقینا لیلۃ القدر سال کی سبھی راتوں میں ممتاز ہے۔ رمضان کی دیگر تمام راتیں بھی کم و بیش یہی خصوصیت رکھتی ہیں۔

یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کے عقل و ذہن کو بھی بالیدگی عطا کرتی ہیں اور اس کے قلب کو بھی معمور کرتی ہیں اور جلا دیتی ہیں۔ یہ  کیفیت اگر انسان میں پیدا ہو جائے تو اس کا اثر معاشرے پر بھی پڑتا ہے۔ افراد سے معاشرہ متاثر ہوتا ہے اور معاشرے کا تشخص افراد معاشرہ سے بنتا ہے۔ ہم نے اگر اپنی اصلاح کر لی تو معاشرے میں ہمارا اثر بھی اسی تناسب سے بڑھ جاتا ہے۔ نفس انسان کی تقویت اس طرح ہوتی ہے۔  

یہ انفرادی پہلو ہیں جو بالواسطہ اجتماعی بنتے ہیں۔ لیکن اس سے قطع نظر، رمضان کا مہینہ ایک سماجی مہینہ ہے۔  دوسروں کی مدد کا مہینہ ہے، نیکی اور مہربانی کا مہینہ ہے افطار دینے کا مہینہ ہے۔ افطار دینے کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ یہ نہیں کہا گیا ہے کہ صرف مستحقین کو دیں۔ رابطہ رکھنا، مدد کرنا، برابر اور مساوی ہو جانا،  نیکی کرنا، یہ ماہ رمضان کی خصوصیات ہیں۔   

بنابریں ماہ رمضان اصلاح کے لئے ایک غیر معمولی موقع ہے۔ پورے سال ہمارے جسم و روح پر زخم لگتے ہیں۔  ہر گناہ سے ایک زخم لگتا ہے۔ جسم  کی طرح روح انسان بھی مجروح ہوتی ہے۔  ہر گناہ سے ایک بیماری پیدا ہوتی ہے۔ ماہ رمضآن ماہ استغفار ہے۔ پورے سال (روح پر) لگنے والے زخموں کو ٹھیک کرنے کا مہینہ ہے۔ ہمیں ان شاء اللہ اس مہینے میں اپنی روح  کو ٹھیک کر لینا چاہئے۔ " ان لم تکن غفرت لنا فیما مضی من شھر رمضان فاغفر لنا فیما بقی منہ" یہ ماہ استغفار ہے۔

یہ استغفار اور توبہ اسلامی تعلیمات کی ایک بہت اہم حقیقت ہے۔ یہ صرف ذاتی مسائل سے مخصوص نہیں ہے۔ توبہ انفرادی  گناہوں کے لئے بھی ہے اور اجتماعی گناہوں کے لئے بھی۔ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے " فتوبوا الی بارئکم فاقتلوا انفسکم" (5)  یہ اجتماعی گناہ ہے۔ یعنی اجتماعی گناہ ہوتا ہے تو افراد معاشرہ اور وہ تمام لوگ جو اس گناہ کو وجود میں لانے میں اور یہ صورتحال پیدا ہونے میں موثر رہے ہیں، ان سب کو استغفار اور توبہ کرنا چاہئے۔ فطری طور پر یہ استغفار اور توبہ اصلاح کرتی ہے۔ خود اس فرد کی بھی اصلاح ہوتی اور معاشرے کی بھی۔ اور ہر معاملے میں، استغفار اور توبہ اس معاملے کے تناسب سے ہوتی ہے۔  ممکن ہے کہ ہم کسی ثقافتی مسئلے میں یا سیاسی مسئلے میں، یا فوجی اقدام میں کسی غلطی اور خطا کے مرتکب ہوئے ہوں، یا غفلت کی وجہ سے یا اپنی کاہلی اور بے توجہی کےسبب، جو ہماری ذمہ داری تھی اور ہم پر واجب تھا، اس کو ہم نے انجام نہ دیا ہو تو اس طرح ایک اجتماعی زخم لگتا ہے، اس صورت میں استغفار یہ ہے کہ توبہ کریں اور واپس جاکر اصلاح کریں۔ دیکھئے قرآن فرماتا ہے"الّا الّذین تابوا و اصلحوا" (6) قرآن میں کئی جگہ "تابوا" کے بعد "و اصلحوا" آیا ہے اور ایک جگہ "اصلحوا"  کے بعد "بیّنوا" (7) بھی آیا ہے اور ایک جگہ "واعتصموا" آیا ہے۔ یعنی توبہ کے بعد اصلاح بھی ہونی چاہئے۔ جب کوئی غلط کام ہو گیا اور اس کے بعد ہم توبہ کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، خدا سے طلب بخشش کرتے ہیں، تو ہمیں یہ کوشش بھی کرنی چاہئے کہ اس خطا کے اثرات کو زائل کریں۔ خطا سے مراد عمدا کے مقابلے میں خطائے فقہی نہیں ہے۔ خطا یعنی برا کام، غلط کام، جیسے ذاتی خطائیں ہوتی ہیں۔ جیسے فرض کریں، غیبت کرنا، جھوٹ بولنا، تہمت لگانا، ایک خطا ہے۔ تو جب ہم توبہ کرتے ہیں تو اس کی تلافی کریں، اصلاح کریں، اس خطا سے مرتب ہونے والے اثرات کو برطرف کریں۔ اجتماعی مسائل میں بھی بالکل اسی طرح  ہے۔

خداوند عالم قرآن کریم میں فرماتا ہے:"استفغروا ربّکم ثمّ توبوا الیہ یرسل السماء علیکم مدرارا و یزدکم قوۃ الی قوتکم"(9) یہ نہیں کہتا ہے کہ ہمیں قوی ملک ہونا چاہئے، یہ نہیں کہتا ہے ہم طاقتور ہوں، " یزدکم قوۃ الی قوتکم۔" استغفار اور توبہ تمہیں قوی بنا دیتی ہے۔ یعنی خطا سے واپسی۔ خطا کمزوری لاتی ہے، خطا سے واپسی موجب تقویت ہوتی ہے۔ " یزدکم قوۃ الی قوتکم۔" ہر معاملے میں یہی ہے۔ ذاتی امور میں بھی یہی ہے اور اجتماعی مسائل میں بھی اسی طرح ہے۔  ذاتی مسائل میں بھی استغفار سے روح انسان قوی ہوتی ہے اور اجتماعی مسائل میں معاشرہ استغفار سے قوی ہوتا ہے۔ ہم معاشرے کے ذمہ دار ہیں نا! آپ ملک کے مدیر(ملک کو چلانے والے) ہیں۔ ہمارے مسائل، ہمارا طرز عمل، ہمارے کام، ہماری باتیں اور ہمارے موقف، ملک کی حالت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر غلطی ہو تو پھر راستہ یہی ہے۔ راستہ استغفارکرنا ہے۔

استغفار صرف زبان سے کہنا نہیں ہے، یہ تو ظاہر ہے۔ یہ بات واضح ہونی چاہئے۔ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم مثلا شب  قدر میں یا کسی اور موقع پر، یا نماز شب قدر میں "استغفراللہ ربی  و اتوب الیہ" کہہ لیں۔ صرف یہ نہیں ہے۔ بلکہ غلطی کو پہچانیں اور جانیں کہ ہم نے غلطی کی ہے۔ جب ہمیں معلوم ہی نہ ہو کہ غلطی کی ہے تو استغفار حقیقی معنی اور توبہ حقیقی معنی میں نہیں ہوگی۔ خطا کو پہچانیں۔ یہ جانیں کہ یہ غلطی ہے اور اس سے پلٹنے کا فیصلہ کریں، جو غلطی ہوئی ہے اس پر رنجیدہ ہوں۔ استغفار یہ ہے۔ ورنہ اگر یہ نہ ہو تو پھر بقول شاعر:

سبحہ بر کف، توبہ بر لب، دل پر از شوق گناہ

معصیت را خندہ می آید ز استغفار ما (10)

( ہاتھ میں تسبیح، لب پہ توبہ اور دل میں اشتیاق گناہ  - ہمارے اس استغفار پر تو گناہ کو بھی ہنسی آتی ہے)

یہ میری پہلی گزارش ہے۔ میرے خیال میں، ہم جو ملک کے ذمہ دار ہیں، ہمیں ان باتوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو، جس عہدے پر بھی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ توجہ رکھیں، غلطی نہ کریں، خطا نہ کریں اور یہ جان لیں کہ ہماری غلطی کی تاثیر عام لوگوں کی غلطی کی تاثیر سے مختلف ہے۔

ملک کے مسائل سے متعلق جو باتیں حاضرین کرام، خواہران و برادران عزیز سے عرض کرنے کے لئے میں نے نوٹ کی ہیں، ان میں پہلی بات، سال کا سلوگن (11) اور معیشت کا مسئلہ ہے۔

اس سلسلے میں جناب صدر مملکت نے بہت اچھی طرح وضاحت کی ہے اور الحمد للہ بہت اچھی اور متواتر کوششیں انجام پا رہی ہیں۔ حق و انصاف کی بات یہ ہے کہ ہم اس کو دیکھ رہے ہیں، واقعی  کام ہو رہا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ کام کی ضرورت ہے۔ یعنی مطلوب سطح تک پہنچنے کے لئے یا کم سے کم اس سے قریب ہونے کے لئے بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے۔

ملک کی معیشت کے حقائق، سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ بعض تلخ معاشی حقائق بھی ہیں اور بعض شیریں حقائ‍ق بھی ہیں۔ تلخ حقائق کا تعلق، گرانی سے ہے، بازار کی بے ثباتی سے ہے، قومی کرنسی کی قدر گرنے سے ہے، طبقاتی فاصلے سے ہے۔ یہ تلخ حقائق ہیں۔    

معیشت کے شعبے میں شیریں حقائق وہ وسیع بنیادی امور ہیں جو انجام پا رہے ہیں اور ان کے نتائج زیادہ دور دراز کی مدت میں نہیں بلکہ درمیانی مدت میں ظاہر ہو جائیں گے۔ جیسے بہت سے ایسے مراکز کو دوبارہ فعال کرنا ہے جو بند ہو گئے تھے یا جزوی طور پر بند تھے۔ پروڈکشن کا آغاز اور روزگار کا وجود میں آنا ہے۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ دی گئی ہے،  شاید آٹھ ہزار سے زیادہ پیداواری یونٹ اور مراکز جو یا بند ہو گئے تھے یا نیم تعطل کا شکار تھے، فعال کر دیے گئے  ہیں۔ یہ شیریں حقائ‍ق ہیں۔

 نالج بیسڈ اسٹارٹ اپ کمپنیوں کی شکل میں ہزاروں نئے پروجیکٹوں کا وجود میں آنا۔ یہ بہت اچھا اتفاق ہے جس میں اضافہ ہوا ہے۔ یعنی ہزاروں نوجوان شوق، جذبے، ولولے اور امید کے ساتھ ان پروجیکٹوں میں کام کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں، نئی پروڈکٹس اور نئی سروسز پیش کر رہے ہیں۔ یہ ملک کے اقتصاد اور معیشت کے شیریں حقائق ہیں۔ یہ ملک کی معاشی حالت پر تدریجی طور پر اپنے اثرات مرتب کریں گے۔

نجی سیکٹر میں اہم اور توانا کمپنیوں کا قیام، جس کا ایک نمونہ ہم نے یہاں گزشتہ فروری میں منعقد ہونے والی نمائش (12) میں دیکھا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ بہت ہی قوی اور کارآمد  اسٹارٹ اپ کمپنیوں کا قیام عمل میں آیا ہے جو ملک کی پیشرفت اور ناخالص پیداور بڑھنے میں موثر واقع ہوں گی اور فطری طور پر عوام کی زندگی میں اس کے اثرات تدریجی طور پر مرتب ہوں گے۔ بعد میں اس سلسلے میں وضاحت پیش کروں گا۔ یہ شیریں حقائ‍ق ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے عرض  کیا، توقع  اس سے زیادہ ہے اور ان  شاء اللہ موجودہ حکومت جو کوشش کر رہی ہے، اس سے ملک کے بہت سے مسائل حل کرنے میں کامیاب رہے گی۔

ایک نکتہ جو معیشت کے شعبے میں ہمیشہ حکام کے مد نظر ہونا چاہئے، یہ ہے کہ عوام چاہتے ہیں کہ اقتصادی مسائل میں ملک کے حکام جو فیصلے اور اقدامات کریں، ان کے اثرات ان کی (عوام کی) زندگی میں ظاہر ہوں اور محسوس کئے جائیں۔ یہ  عوام کی توقع ہے۔ عوام کی یہ توقع بجا ہے۔ ہمیں ان کی یہ توقع پوری کرنی چاہئے۔ ہم  نے جو یہ کہا کہ "یہ توقع بجا ہے" یہ اس وجہ سے ہے کہ خود جناب صدر مملکت نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے: "ملک کی غیر معمولی گنجائشیں" ان میں سے چند ایک کو میں نے نوٹ کیا ہے اور جو اعداد و شمار مجھے دیے گئے ہیں، ان کے مطابق  میری نظر میں  قدرتی گنجائشیں اور افرادی قوت کی ظرفیت دونوں ہی قابل توجہ ہیں۔  

قدرتی ظرفیت کے نقطہ نگاہ سے، ہمارے ملک کی آبادی، دنیا کی آبادی کی ایک فیصد ہے لیکن قدرتی ذخائر میں ہمارا اور ہمارے ملک کا حصہ دنیا میں موجود قدرتی ذخائر کا  تقریبا سات فیصد ہے۔ یعنی ہمارے قدرتی ذخائر، دنیا میں ہماری آبادی کے تناسب سے، سات فیصد زیادہ ہیں۔ یہ  بہت اہم پوزیشن ہے۔ تیل اور گیس کے علاوہ بھی، ہمارے قدرتی ذخائر میں تیل اور گیس بہت اہم ہیں لیکن ہمارے قدرتی ذخائر صرف انہی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ تانبہ، سیسہ، جست اور پتھر کے کوئلے وغیرہ  کی اہم کانیں بھی موجود ہیں، جو فعال ہیں اور ان کے اندر موجود  ذخائر بھی بہت زیادہ ہیں۔ بعض اوقات ان ذخائر کے حوالے سے بھی بہت اچھی رپورٹیں بھی ہمیں ملتی ہیں۔ ملک کے حکام اس میدان میں بھی کام کر رہے ہیں۔

زراعت کے میدان  میں، جو مجھے رپورٹ ملی ہے، ملک میں تقریبا تین کروڑ ستر لاکھ ہیکٹر قابل زراعت زمین ہے۔ یہ 3 کروڑ 70 لاکھ ہیکٹر قابل زراعت زمین بہت ہے! بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ملک میں پانی کم ہے۔ صحیح ہے ہمارے ملک میں پانی زیادہ نہیں ہے، لیکن ایسے طریقے موجود ہیں جن کا تجربہ کیا جا چکا ہے، ان سے کام لیتے ہوئے، ملک میں جتنا پانی موجود ہے، اسی سے زراعت کی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ آبیاری ہو سکتی ہے اور ملک کی زراعت کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ ملک میں زراعت کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔  

اس وقت بھی بعض پیداواروں میں، ہم دنیا میں پہلے درجے میں اور اوپر کے درجات میں ہیں۔  سیمنٹ کی پیداوار میں، فولاد کی پیداوار میں، ان تمام عالمی مسائل اور پابندیوں کے باوجود (بہت اچھی پوزیشن میں ہیں۔)  پابندیاں لگانے والوں کو توقع تھی کہ (یہ پیداوار) یا بالکل بند ہو جائے گی یا بند ہونے کے قریب پہنچ جائے گی۔ یہ نہیں ہوا۔ آج ہماری فولاد کی پیداوار اعلی سطح پر ہے، یعنی دسویں نمبر سے بھی کم پر ہیں۔ سیمنٹ کی پیداوار میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بعض دیگر صنعتی پیداواروں میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ملک کی فطری توانائیاں ہیں جو بہت زیادہ ہیں۔

میری نظر میں افرادی قوت کے نقطہ نگاہ سے ہماری ظرفیت اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ یعنی افرادی قوت کے لحاظ سے ہماری ظرفیت (بہت اچھی ہے۔) ایک چیز ایرانی عوام کی عمومی استعداد ہے جس کا میں نے بارہا ذکر کیا ہے اور یہ معتبر اسناد پر مبنی ہے: ایران کی متوسط انسانی ذہانت (آئی کیو) دنیا کی متوسط انسانی ذہانت سے بہت بالاتر ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی استعداد بہت اعلی  سطح پر ہے۔  اسی بنا پر بہت سے میدانوں میں، مثال کے  طور پر ان کی  فوجی مصنوعات، دنیا کو حیرت زدہ کر رہی ہیں اور یہ پیشرفت ان تمام پریشانیوں اور پابندیوں کے باوجود ہیں۔ ان تمام پابندیوں اور محدودیتوں کے باوجود یہ ایسی دفاعی مصنوعات تیار کر سکتے ہیں جن کے تعلق سے دنیا میں حساسیت پائی جاتی ہے۔ تو ایک تو ایرانیوں کی یہی اعلی سطح کی اوسط انسانی ذہانت ہے، ملک میں 15 سال سے 40 برس کی عمر کے 3 کروڑ 60 لاکھ نوجوان موجود ہیں جو ایک بڑی نعمت ہے اور نوجوانوں کے اس تناسب کی حفاظت میں ہمیں غفلت نہیں کرنی چاہئے۔  گزشتہ برسوں میں ہم  تھوڑی سی غفلت کے مرتکب ہوئے۔ اب غفلت نہیں ہونی چاہئے۔ ملک کی آبادی بوڑھی نہ ہونے دیں۔ آبادی میں نوجوانوں کے تناسب کی حفاظت کریں جو ملک کے آگے بڑھنے اور پیشرفت کا سرچشمہ ہیں۔ ملک میں1 کروڑ 40 لاکھ افراد اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور اکیڈمک کمیٹی کے اراکین کی تعداد 1 لاکھ سے زائد ہے۔ یہ تعداد ابتدائے انقلاب میں تقریبا 5 ہزار تھی۔ اوائل انقلاب میں یونیورسٹیوں کی اکیڈمک کونسلوں کے اراکین کی تعداد بس اتنی تھی لیکن اب 1 لاکھ سے زیادہ ہے۔ 1 لاکھ 50 ہزار سے زیادہ  اسپیشلسٹ ڈاکٹر ہیں اور 30 لاکھ سے زائد زیر تعلیم افراد  ہیں۔ یہ دینی مدارس کے طلاب اور افاضل کے علاوہ ہیں جن کی تعداد بھی کافی ہے۔ ایسے نوجوان افاضل ہیں کہ جن کی تحریریں دیکھ کر انسان خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ مختلف شعبوں میں غور و فکر اور کام میں مشغول ہیں۔ یہ افرادی قوت ہیں۔ تو یہ ہماری قدرتی اور افرادی قوت کی توانائی اور ظرفیت ہے۔    

اس کے علاوہ ہماری جغرافیائی توانائياں بھی بہت ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی جغرافیائی پوزیشن، یہ ملک کی آب و ہوا  کی صورتحال، یہ ملک کا موسمیاتی تنوع، یہ اہم صلاحیتیں ہیں۔ بنابریں بعض اوقات اقتصادی امور میں جو توقعات ظاہر کی جاتی ہیں، وہ بے جا نہیں ہیں۔ ہمارے اندر یہ توانائیاں ہیں، ہمارے ملک کی اقتصادی حالت اچھی ہونی چاہئے۔

البتہ رکاوٹیں ہیں، ان رکاوٹوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ بعض روکاوٹیں بیرونی ہیں۔ جیسے یہ پابندیاں، دھمکیاں، بے شمار محدودیتیں ہیں۔ ہماری تجارت میں جو مشکلات ایجاد کی گئی ہیں، پیداوار بڑھانے کے ضروری وسائل کے حصول میں جو رکاوٹیں در پیش ہیں۔ مشکلات تو ہیں اور سخت مشکلات ہیں۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ ایک خصوصی ٹیم تیار کر رہے ہیں تاکہ وہ اس بات پر نظر رکھے کہ ایران کہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ کہاں سے تجارت کر رہا ہے تاکہ جاکے اس کو روک دیں۔ چند سال سے یہ کام کر رہے ہیں۔ یہ رکاوٹیں موجود ہیں۔ لیکن ان رکاوٹوں کو بھی کم کیا جا سکتا ہے۔ ان کا اثر کم کیا جا سکتا ہے۔ انہیں رکاوٹوں میں سے بعض منفی اثرات کے ساتھ ہی مثبت تاثیر بھی رکھتی ہیں۔

ملک کے پیدواری یونٹوں اور پروڈکشن کے کام میں سرگرم حضرات یہاں آئے، انھوں نے اسی حسینیے مں مجھ سے ملاقات کی۔ (13) کوئی  دس پندرہ افراد نے گفتگو کی۔ ان میں سے بعض نے صراحت کے  ساتھ کہا کہ اگر پابندیاں نہ ہوتیں تو ہم یہ پیشرفت نہ کرتے۔ یہ بات صراحت کے ساتھ یہاں کہی کہ چونکہ ملک سے باہر ہماری دسترسی نہیں تھی اس لئے ہم نے خود غور و  فکر سے کام لیا، اپنی  توانائیوں پر توجہ دی اور یہاں تک پہنچ گئے۔ یعنی بعض اوقات یہی رکاوٹیں مثبت اثرات بھی مرتب کرتی ہیں اور ملک  کی پیشرفت میں مدد کرتی ہیں۔

لیکن بعض رکاوٹیں، واقعی ہماری اندرونی رکاوٹیں ہیں۔ ہم نے کام میں کوتاہی کی، بعض معاملات میں بے توجہی کر رہے ہیں اور بے رغبتی سے کام کرتے ہیں۔ بعض اوقات ذاتی مصیبتوں میں گرفتار ہوتے ہیں، فکری اور اندرونی پریشانیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ پیداواری یونٹ کا سربراہ اور ڈائریکٹر اگر ذاتی مقبولیت کی فکر میں پڑ جائے، اس فکر میں رہے کہ لوگ اس کو دیکھیں، کام کے مسئلے اور کام کی اہمیت کو نظر میں نہ رکھے تو اس سے نقصان ہوتا ہے۔ اس سے کام کی برکت ختم ہو جاتی ہے۔ یا مستقبل کے عہدوں اور منصبوں کی فکر میں رہے۔ آج ہم ایک منصب پر ہیں تو اس طرح کام کریں کہ اس سے اوپر کے منصب پر پہنچ جائیں۔ اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ یہ فکر کام کی برکت ختم کر دیتی ہے۔ یہ بھی ہمارے کام میں حائل رکاوٹوں میں شامل ہے۔

ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ ہر لمحہ جو کام بھی کرتے ہیں، وہ اگر عوام کے لئے ہو، عوام کی آسائش کے لئے ہو، ملک کی پیشرفت کے لئے ہو تو یہ کام خدا کے لئے ہے۔ یہ نیت خدا کے لئے ہے۔ یہ جو ہم کہتے  ہیں کہ ہماری نیت خدا کے  لئے ہونی چاہئے تو اس کا ایک مطلب یہی ہے کہ آپ کی نیت یہ ہو کہ آپ کا  یہ  کام عوام کے مسائل و مشکلات دور کرنے  کے لئے ہو، تو یہ نیت خدا کے لئے ہوگی۔ پھر خدا اس کام میں برکت عطا کرے گا۔ خدا اس کام کا انعام دے گا۔ خدا جو انعام عطا کرتا ہے اس کا موازنہ اس کام کے ظاہری منافع سے نہیں کیا جا سکتا(14) جو ممکن ہے کہ ہمیں حاصل ہو۔

ایک رکاوٹ جس کے سلسلے میں، میں مختصرا چند نکات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں، اس  کا تعلق سال کے سلوگن سے بھی ہے، اقتصادی مسائل میں حکومتی اور سرکاری مداخلت ہے۔  یہ  بات میں برسوں سے عرض کر رہا ہوں۔

اس سال میں نے سال کے سلوگن میں "عوام کی مشارکت" کا مسئلہ بھی شامل کیا ہے تاکہ عوام کی مشارکت کے امکانات پر زیادہ توجہ دی جائے اورعوام حقیقی معنی میں اقتصادی میدان میں آئیں۔ عوام یعنی عوام کی توانائی، ان کی مالی توانائی، فکری اور ذہنی توانائی اور ان کی اختراعی توانائی اور ان کے اختراعات سے استفادہ کیا جائے۔

ایک تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اگر عوام اقتصادی میدان میں آئیں اور مینیجمنٹ عوام کے ہاتھ میں دے دی جائے تو حکومت کا ہاتھ بندھ جائے گا، حکام کے ہاتھ بندھ جائیں گے۔ یہ فکر صحیح نہیں ہے۔ فرائض سرکاری اور حکومتی ذمہ داروں اور عوام میں  تقسیم کئے جائیں۔ حکومتی سے مراد صرف حکومت نہیں ہے بلکہ نیم سرکاری سیکٹر بھی حکومتی  جیسے ہی ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فرائض تقسیم کئے جائیں، بعض فرائض حکومت کے ہوں اور بعض فرائض عوام کے سپرد کئے جائیں۔

ایک رپورٹ میں جو مجھے پیش کی گئی، اس میں " انتظامی پہلو اورعلمی پہلو" کی اصطلاح استعمال کی گئی جو بری نہیں ہے۔  حکومت اقتصادی مسائل میں، انتظامی امور میں کام کرے، گائیڈ کرے، لاجسٹک امور اپنے پاس رکھے، کہاں کس طرح کی اقتصادی فعالیت ہو، اس پر نظر رکھے اور   نگرانی کرے کہ کوئی خلاف ورزی نہ ہو لیکن عامل عوام ہوں۔ اقتصادی سرگرمیاں عوام انجام دیں۔ یعنی حکومت کے فرائض اورعوام کے فرائض تقسیم کئے جائیں۔ اقتصادی میدان میں عوام کے آنے کے راستے کھلے رکھے جائیں۔ اس سے ملک طاقتور ہوگا اور معیشت میں استحکام آئے گا۔ البتہ دفعہ چوالیس کی پالیسیاں بھی اسی سلسلے میں ہیں جن کا برسوں پہلے سرکولر جار کیا جا چکا ہے۔ (15) اور یہ پالیسیاں ملک کے آئین کی اساس پر تیار کی گئی ہیں۔  یہ نہ سمجھا جائے کہ یہ آئین کے خلا ف ہیں۔ نہیں یہ پالیسیاں خود آئین سے ہی استفادہ کرتے ہوئے تیار کرکے سرکولیٹ کی گئی ہیں۔ ان پر عمل ہونا چاہئے۔ ماضی میں اس سلسلے میں کافی کوتاہیاں رہی ہیں۔  

ایک نکتہ یہ ہے کہ اقتصادی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ آٹھ فیصد اقتصادی نمو ممکن ہے اور ساتویں ترقیاتی پروگرام ( 16) کی پالیسیوں میں بھی آٹھ فیصد شرح نمو مد نظر رکھی گئی ہے۔ بعض لوگوں کو تردد ہے کہ آیا یہ ممکن ہے یا نہیں۔ اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ آٹھ فیصد شرح نمو کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے اور اگر یہ شرح نمو جاری رہے یعنی یہ نہ ہو کہ ایک سال تو شرح نمو  بڑھے اور پھر اس میں تنزلی آ جائے، تو عوام کی زندگی میں مطلوبہ بہتری آئے گی۔ البتہ صرف  اقتصادی پیشرفت کافی نہیں ہے۔ یعنی عوام کی زںدگی اور کمزور طبقات کے لوگوں کی معیشت بہتر کرنے کے لئے، صرف اقتصادی ترقی ہی کافی نہیں ہے بلکہ بعض دوسری باتیں بھی ضروری ہیں۔ جیسے امکانات و وسائل تک دستری کے مساوی مواقع کی فراہمی۔ جملہ انتہائی اہم کاموں میں سے ہیں۔ مشارکت کے لئے، مختلف سطح پر امکانات و وسائل کی صحیح اور منصفانہ تقسیم ضروری ہے۔ البتہ یہ آسان کام نہیں ہیں۔ مشکل کام ہیں۔ اس کی ٹریننگ دینا چاہئے، مہارت پیدا کرنا ضروری ہے۔ ہمارے بہت سے نوجوان کام کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں مہارت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔  نوجوانوں کے اندر مہارت بڑھانے کے لئے کام ہونا چاہئے۔ بڑے اور سینیئر افسران جو اس کی منصوبہ بندی اور  پلاننگ کر سکتے ہیں، وہ یہ کام کریں۔ اورمشارکت کے راستے عوام کو دکھائے جائیں۔ ہم کہتے ہیں کہ "عوام اقتصاد میں مشارکت کریں" کس طرح مشارکت کریں؟ مشارکت کی راہیں انہیں دکھائی جائیں۔  کچھ لوگ اس سلسلے میں کام کریں اور عوام کے مختلف طبقات کے لوگوں کو مشارکت کے طریقے بتائیں۔  مثال کے طور پر یہی نالج بیسڈ اسٹارٹ اپ کمپنیاں ہیں، جو اقتصادی امور میں نوجوانوں کی مشارکت کا ذریعہ ہیں۔ کچھ لوگ بیٹھیں اور اس بارے میں سوچیں۔ میری نظر میں حکومت اور پارلیمنٹ کو کچھ ماہر اور صاحب فکر لوگوں کی ضرورت ہے جو لوگوں کو مشارکت کی مختلف راہیں بتائیں۔ یہ مشکل کام ہیں لیکن قابل عمل ہیں۔ عوام حتی بہت کم سرمائے کے ساتھ اقتصادی میدان میں مشارکت کر سکیں۔  

ایک نکتہ ساتویں ترقیاتی پروگرام سے متعلق ہے۔ اب تک پنج سالہ چھے پروگرام گزر چکے ہیں۔ یعنی چھے پنج سالہ پروگرام گزرے چکے ہیں جن میں سے ایک کی مدت میں توسیع بھی کی گئی (17) یہ ساتویں پنج سالہ پروگرام کا پہلا سال ہے۔ میری تاکید ہے کہ اس پروگرام پر توجہ دی جائے اور پوری توجہ سے اس پر عمل  کیا جائے۔  

جیسا کہ مجھے رپورٹ  دی ہے، گزشتہ پنج سالہ ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کی شرح اوسطا 35 فیصد رہی ہے۔ یعنی کافی محنتوں سے یہ منصوبہ تیار کیا جاتا ہے، اس کو قانون میں تبدیل کیا جاتا ہے اور پھر سرکولیٹ کیا جاتا ہے لیکن گزشتہ برسوں میں ان پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا۔ یہ ملک کا نقصان ہے۔ کوشش کی جائے کہ منصوبے پر پوری طرح عمل ہو۔ خوش قسمتی سے حکومت، موجودہ حکومت، یعنی اس حکومت کے افراد واقعی سرگرم ہیں، کام کر رہے ہیں، فکر کر رہے ہیں، کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا کام کریں کہ اس منصوبے پر پوری طرح عمل ہو۔  یہ منصوبہ، کام کی رہنمائی ہے۔ صرف اقتصادی میدان میں ہی نہیں بلکہ تمام شعبوں میں اس پر عمل کیا جائے۔

ایک اہم نکتہ وقت سے تعلق رکھتا ہے۔ مختلف شعبوں کے محترم ڈائریکٹرز، خواہران و برادران عزیز! وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے، جا رہا ہے، ہاتھ سے نکل رہا ہے، وقت سے غافل نہ رہیں۔ آج کا کام کل پر نہ ٹلے۔ ایک دن بھی بہت اہم ہے۔ بعض اوقات ایک گھنٹہ بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ اس عظیم  سرمائے کو خرچ کرنے میں،  جس کو وقت کا سرمایہ کہا جاتا ہے، بہت توجہ سے کام لیں، وقت کو ہاتھ سے نہ نکلنے دیں۔ مختلف امور، مختلف شعبوں میں جب منصوبے پاس کریں تو وقت کا تعین بھی کریں اور اس وقت کے تعین پر اصرار کریں کہ اس منصوبے پر اس تاریخ تک عمل مکمل ہو جانا چاہئے۔  وقت پر اس طرح توجہ دیں اور حساسیت سے کام لیں۔

البتہ یہ بھی عرض کر دوں کہ اقتصاد کے مسئلے میں ڈپلومیسی اور خارجہ پالیسی بھی بہت موثر ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے اطراف میں، ہمارے بہت سے پڑوسی ہیں، ہم کئی عالمی معاہدوں میں شامل ہیں، ان میں شریک ہیں اور ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اقتصادی مسائل میں غیر معمولی سفارتی فعالیت کی ضرورت ہے۔ یہ اقتصادی مسائل میں میری گزارشات تھیں۔

ایک اور مسئلہ بیان کرنا چاہتا ہوں، یہ حجاب کا چیلنج اور مسئلہ ہے جو مسلط کردہ ہے۔ حجاب کا مسئلہ  ایک چیلنج میں تبدیل ہو گیا ہے جو ہمارے ملک پر مسلط کیا گیا ہے۔ اس کو مسلط کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے بیٹھ کر اس کی منصوبہ بندی کی ہے کہ حجاب کو ہمارے ملک کے لئے ایک مسئلہ بنا دیں۔  جبکہ ملک میں ایسا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ لوگ مختلف شکلوں میں زندگی گزار رہے تھے۔ میں اس سلسلے میں محکم انداز میں اپنا نظریہ بیان کروں گا۔ اس مسئلے کو فقہی اور شرعی  نقطہ ںگاہ سے بھی دیکھنے اور قانونی پہلو کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی بعض ذیلی مسائل اور امور بھی ہیں۔

شرعی لحاظ سے، حجاب ایک مسلمہ  شرعی حکم ہے۔ یعنی خواتین کے لئے، چہرے اور دونوں پنجوں کو(کلائی تک) چھوڑکر پورے جسم کو چھپانا واجب ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے عوام مسلمان ہیں، شرع کے پابند ہیں، عبادت گزار ہیں، ہماری خواتین عبادت گزار ہیں، وہ اس کی پابندی کریں۔ یہ شرعی حکم ہے۔ ایک نقطہ نگاہ قانونی ہے۔  قانون کی پابندی بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں قانونی حکم بھی موجود ہے۔ حکم قانونی پر عمل کرنا سب کے  لئے ضروری  ہے۔ ان کے لئے بھی جو شرع کو مانتے ہیں اور ان کے لئے بھی جو شرع کو نہیں مانتے، قانون  کی  پابندی ضروری ہے۔ 

ذیلی پہلو سے، یہ اغیار کا کھڑا کیا ہوا مسئلہ ہے۔ آج جو ملک میں یہ مسئلہ در پیش ہے، مسئلہ حجاب، اس میں بیرونی مداخلت بالکل واضح تھی، آشکارا تھی۔ باہر سے، ذرائع ابلاغ عامہ  اور انواع و اقسام کے تشہیراتی اور ابلاغیاتی ذرائع  نے اس مسئلے کو ہوا دی۔ کچھ لوگوں نے ملک کے اندر سے بھی ان کی مدد کی، لیکن اس کی منصوبہ بندی باہر کی گئی اور وہیں سے یہ مہم چلائی گئی۔ اس پر توجہ ضروری ہے۔ ہماری خواتین، ہماری عورتیں، عقلمند اور سمجھدار ہیں، وہ اس نکتے پر توجہ دیں کہ یہ مسئلہ دشمن نے کھڑا کیا ہے اور باہر سے ہی اس کو چلایا جا رہا ہے۔ قابل اعتماد رپورٹوں میں جو مجھے بتایا گیا ہے، بعض لوگوں کو انہوں نے اس کام پر لگایا کہ وہ یہاں آئیں اور ملک میں قانون  شکنی کریں اور حجاب  کی حرمت کو توڑیں۔ ہماری خواتین اور جو لوگ اس مسئلے میں سوچتے ہیں اور بولتے ہیں  وہ ان نکات پر توجہ دیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں  بیرونی اور اغیار کے ہاتھ ہیں تو ہمارا موقف بھی اسی مناسبت سے ہونا چاہئے کہ اغیار کی مدد نہ کریں۔         

یہ ایک ذیلی مسئلہ ہے کہ  آج خواتین کا حجاب ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ ابتدا ہے، انتہا نہیں ہے۔ اصل ہدف یہ نہیں ہے۔ دشمن کا ہدف یہ ہے کہ ملک کی حالت، انقلاب  سے پہلے کی حالت پر جو شاہی حکومت کے دور میں تھی، اس پر پلٹ جائے۔ اس ذلت آمیز حالت پر جو اس دور میں تھی۔  آپ میں سے بعض نے شاید دیکھا ہوگا، آپ کو یاد ہوگا اور بہت سوں  نےاس حالت کو  نہیں دیکھا ہوگا۔  حقیقی معنوں میں اس دور میں خواتین کی حالت، ان کی روش، ان کا طرزعمل اور معاشرے میں ان کی موجودگی کا انداز بہت ذلت آمیز تھا۔  آج علمی لحاظ سے، انتظامی صلاحیتوں کے لحاظ سے، ملک کے حساس اور اہم اداروں میں خواتین کی موجودگی کے لحاظ سے، ملکی سطح پر اور عالمی سطح پر ہماری خواتین کی پوزیشن بہت اعلی سطح کی ہے۔ ہماری خواتین حجاب کے ساتھ، حجاب میں رہتے ہوئے،  بہت سے ملکوں کی خواتین سے بہت آگے ہیں۔  اس دور میں  یہ نہیں تھا۔ خواتین کی خواندگی کی شرح، خواتین کی علمی سطح اور ملک کی انتظامیہ اور اعلی عہدوں  پر خواتین کی موجودگی اس طرح نہیں تھی۔ بہت کمزور تھی۔ اور  لباس کے لحاظ سے سماجی اصولوں کے نقطہ نگاہ سے صورتحال بہت خراب تھی۔ واقعی ذلت آمیز تھی۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہی حالت دوبارہ یہاں وجود میں لائیں۔ یہ ان کے کام کی ابتدا ہے۔ اس پر توجہ دیں۔

ایک ذیلی مسئلہ وہی ہے جو میں نے عرض کیا کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے ملک کی خواتین حتی وہ  بھی جو حجاب کے مسئلے میں کسی حد تک غفلت سے کام لیتی ہیں، وہ بھی اسلام کی شیدائی ہیں، اس نظام کی شیدائی ہیں، میں بارہا یہ بات کہہ چکا ہوں۔ ہماری خواتین کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں۔ لیکن بہرحال اس حجاب کے مسئلے کی پابندی کریں۔ سبھی اس کی پابندی کریں۔  

مجھے یقین ہے کہ حکومت، عدلیہ اور مختلف شعبوں کی اس تعلق سے ذمہ داری ہے، وہ اپنی قانونی اور شرعی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔ خود خواتین اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں، وہ اسلامی حجاب کی پابندی کریں۔  یہ بھی ایک مسئلہ ہے۔

آخری مسئلہ غزہ کا ہے۔ غزہ کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن میں یہ اجازت نہیں دینا چاہئے کہ دنیا کے عوام کی نگاہ میں ان کی ترجیح ختم ہوجائے۔ غزہ کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے ! جو جرائم غزہ میں کئے جا رہے ہیں، وہ حتی ان اواخر کے ادوار کی تاریخ میں جن کا ہمیں علم ہے۔ اب ماضی بعید کی ہمیں صحیح اطلاع نہیں ہے،  ان کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اس طرح جرائم کا ارتکاب، اس طرح اجتماعی قتل عام، نسل کشی، خواتین پر حملہ، بچوں پر حملہ، اسپتالوں پر حملہ، اسپتالوں میں زیر علاج  مریضوں پر حملہ، عجیب وغریب بات ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ حتی مغربی سماج میں مغربی تہذیب میں پلنے والے لوگ بھی، امریکا اور یورپ میں لوگ جمع ہوکر اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ جبکہ بہت سی خبریں صحیح طریقے سے ان تک پہنچ بھی نہیں رہی ہیں۔  لیکن جتنی انہیں خبر ہے، اسی پر وہ اعتراض کررہے ہیں۔ جرائم اتنے شدید ہیں۔ یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔

ایک اور پہلو سے بھی یہ بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کو غزہ کے مسئلے میں دو بڑی شکستوں کا سامنا ہوا ہے۔ پہلی شکست سات اکتوبر کو آپریشن طوفان الاقصی کی شکل میں ہوئی۔ میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ شکست ناقابل تلافی ہے (18) اور واقعی ایسا ہی ہے۔ اب تک اس کی تلافی نہیں ہو سکی ہے اور ہوگی بھی نہیں۔ وہ حکومت جو بہت ہی دقیق انٹیلیجنس اور ایسے فوجی تسلط کی دعویدار ہے کہ اس کی نظروں سے پوشیدہ ہوکر کوئی پرندہ پر بھی نہیں مار سکتا، اس کو ایک مزاحمتی گروہ  نے  محدود وسائل کے ساتھ   انٹیلیجنس کے میدان میں اتنی بڑی  شکست دے دی! اس شکست کی تلافی نہیں ہو سکی ہے اور ہو بھی نہیں سکے گی۔ صیہونی حکومت کی آبرو خاک میں مل گئی۔    

دوسری شکست یہ چھے ماہ ہیں۔ وہ جب اپنی پہلی شکست کی تلافی کے لئے میدان میں اترے تو انھوں نے پہلے ہی دن اپنے اہداف کا اعلان کر دیا لیکن ان چھے مہینوں میں ان میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ ان چھے مہینوں میں انھوں نے انواع واقسام کے اسلحے کے ساتھ جنگ کی، امریکا نے ان کی اسلحہ جاتی مدد بھی کی، مالی مدد بھی کی اور سیاسی مدد بھی کی، کئی بار ان کے خلاف قراردادیں ویٹو کیں ۔ یہ آخری قرار داد (19) جس کو بعض وجوہات سے ویٹو نہ کر سکا، اس کے لئے کہتے ہیں کہ لازم الاجرا نہیں ہے۔ یہ محض جھوٹ ہے اس پر عمل بھی نہیں ہوگا۔ ان کے اندر جو خود اپنی توانائی تھی، اس کے علاوہ امریکا کی اتنی مدد کے باوجود وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔ حتی جن اہداف کا انھوں نے ذکر کیا تھا، جنہیں وہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور اب بھی کوشاں ہیں، ان میں سے ایک بھی حاصل نہ کر سکے۔ وہ چاہتے تھے کہ استقامتی محاذ کو بالخصوص حماس کو ختم کر دیں، نابود کر دیں، نہ کر سکے۔ حماس بھی اور جہاد اسلامی بھی غزہ کا استقامتی محاذ پوری قوت اور توانائی کے ساتھ موجود ہے اور تمام مشکلات کے باوجود جنگ کر رہا ہے اور صیہونیوں پر وار بھی لگا رہا ہے۔

یہی صیہونی حکومت عورتوں اور بچوں کی جان کے پیچھے اس لئے پڑی ہے کہ استقامتی محاذ کے سپاہیوں کے مقابلے  سے عاجز ہے۔ چونکہ ان کے مقابلے میں خود کو عاجز پاتی ہے اس لئے نہتے عوام، عورتوں اور بچوں پر حملے کرتی ہے۔ ہزاروں لوگوں کا قتل عام کر دیتی ہے جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔  اس کی شکستوں کا سلسلہ یقینا جاری رہے گا۔

 یہ ناکام کوشش اور حرکت جس کا ارتکاب انھوں نے شام میں کیا ہے (20) اس کا جواب یقینا پائیں گے،  لیکن اس طرح کے اقدامات بھی ان کو فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے اور مشکلات سے نہیں نکال سکیں گے۔ وہ خود اس جال میں پھنسے ہیں۔ اس دلدل میں گرے ہیں، اس سے ان کی نجات کا  کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ حکومت روز بروز کمزور سے کمزورتر ہوتی جائے گی اور اس  کا زوال اور خاتمہ ان شاء اللہ روز بروز نزدیک سے نزدیک تر ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارے آج کے نوجوان اس دن کو دیکھیں گے جب قدس شریف مسلمانوں کے اختیار میں ہوگا اور اس میں نماز پڑھیں گے اور اسلامی دنیا ان شاء اللہ اسرائیل کی مکمل نابودی کا جشن منائے گی۔

خداوندعالم سے ہماری دعا ہے کہ اہم فرائض کی ادائگی میں ہمیں کامیابی عطا فرمائے، ہمیں ان امور کی انجام دہی کے لئے جو ہمارے ذمہ ہیں، توانائی اور قوت عطا فرمائے۔ اسلامی انقلاب سے اسلامی دنیا میں ایک بڑا موقع پیدا ہوا ہے، مقدس اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل سے اسلامی دنیا کے لئے ایک بڑا موقع دستیاب ہوا ہے۔ اس موقع سے آج تک کافی استفادہ کیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اسلام اور مسلمین کے فائدے میں اس سے مزید استفادہ کیا جائے گا۔ اسلامی نظام ان شاء اللہ روز بروز قوی سے قوی تر ہوگا اور اس کے دشمن روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوں گے۔ علاقے میں توازن اور اندازے اس آپریشن طوفان الاقصی کے  بعد تبدیل ہو گئے ہیں اور مزید تبدیل ہوں گے۔ اب وہ پہلے والے اندازے باقی نہیں رہے۔ استقامتی محاذ کے فیصلے بھی اور مقابل محاذ کے فیصلے بھی یقینا تبدیل ہوں گے چنانچہ تبدیلی آئی ہے، علاقے میں استقامتی محاذ کی پوزیشن دوسری ہو گئی ہے اور اس سے زیادہ بدلے گی۔ اسلام، استقامتی محاذ اور اسلامی جمہوریہ کے دشمن ان تغیرات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں اور جان لیں کہ اس علاقے میں، مسلم معاشرے پر حکمرانی اور فرمانروائی نہیں کر سکتے۔      

خدا وند عالم سے ہماری دعا ہے کہ رمضان المبارک کے ان بچے ہوئے ایام میں ہمیں اس مہینے کے فیوضات سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی توفیق عطا فرمائے۔  

اس سال یوم القدس غاصب حکومت کے خلاف بین الاقوامی گھن گرج کے ساتھ منایا جائے گا۔ یعنی اگر گزشتہ برسوں میں یوم القدس صرف اسلامی ملکوں میں منایا جاتا رہا ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ اس سال ان شاء اللہ یوم القدس غیر مسلم ملکوں میں بھی پوری عظمت کے ساتھ منایا جائے گا۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ ایرانی عوام اس بار بھی تمام دیگر مخصوص مواقع کی طرح یوم القدس پر، محمد و آل محمد کی حرمت کے سائے میں،  پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ فگن ہوں گے۔  

 پالنے والے !اگر اب  تک ہماری مغرفت  نہیں کی ہے تو اب ہماری مغفرت فرما۔ 

 پالنے والے ! ہمیں، ملک، عوام، ںظام، اسلام اور امت اسلامیہ کی خدمت کی توفیق عنایت فرما۔

پالنے والے! ایرانی عوام کو دشمن سے شاد نہ فرما۔ ایرانی قوم کو توفیقات کامل عنایت فرما۔

 پالنے والے !  ہمارے امام بزرگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر کو جنہوں نے ہمارے لئے یہ راستہ کھولا اور دنیا میں یہ عظیم تحریک شروع کی، پیغمبر اور اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

 پالنے والے!  ہمارے عزیز شہیدوں کو شہدائے صدر اسلام، اپنے اولیا اور محمد وآل محمد کے ساتھ محشور فرما۔

پالنے والے ! شام کے حالیہ واقعے میں شہید ہونے والوں کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرما۔

 پالنے والے!  قلب ولی عصر ارواحنا  فداہ کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔ ہمیں اپنی ساری عمر میں آپ کے سپاہیوں میں شامل فرما۔ اپنی توفیقات ہمارے شامل حال فرما۔ ہماری عاقبت کو پسندیدہ اسلامی عاقبت  قرار  دے  اور ہماری  عمر کا خاتمہ بخیر پر ہو۔  

 والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ

 

1۔ اس موقع پر پہلے  صدر مملکت ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے کچھ باتیں بیان کیں۔

2۔  سورہ قدر، آیت نمبر 3۔۔۔۔۔۔ ہزار مہینے  سے بھی بہتر ہے"

3۔ سورہ فاطر، آیت نمبر 10۔۔۔۔ پاکیزہ باتیں اس کی طرف اوپر جاتی ہیں۔۔۔"

4۔ سورہ عنکبوت آیت نمبر 45 "۔۔۔۔  اور یقینا ذکر خدا سب سے اوپر ہے ۔۔۔۔ "

5۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 54 " تو اپنے پروردگار کی درگاہ میں توبہ کرو۔۔۔۔۔"

6۔  سورہ بقرہ آیت نمبر 160

7۔ سورہ  بقرہ آیت نمبر 160

 8۔ سورہ نساء آیت نمبر 146

9۔ سورہ ہود آیت نمبر 52"۔۔۔اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کرو، اور پھر اس کی درگاہ میں توبہ  کرو تاکہ آسمان سے تمھارے اوپر بارش اور قوت نازل فرمائے۔۔۔۔ "

10۔ قدسی مشہدی

11۔ "عوام کی مشارکت سے پیداوار میں تیز رفتار ترقی" رجوع کریں، نئے ہجری شمسی سال کے آغاز  پر آپ کے پیغام سے

12۔ حسینیہ امام خمینی میں 29 جنوری 2024 کو منعقدہ داخلی پیداوار کی توانائیوں کی نمائش کا معائنہ

13۔  رجوع کریں 30 جنوری 2024 کو ملک کے اقتصادی اور پروڈکشن  کے  شعبوں میں سرگرم افراد  سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے

14۔ ظاہری خود نمائی

15۔ مئی 2005 کے تیسرے ہفتے میں آئین کی دفعہ 44 کی اساس پر تیار کردہ پالیسیوں کا سرکولر

16۔   اسلامی جمہوریہ ایران کی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی ترقی کا ساتواں پنج سالہ منصوبہ۔ رجوع کریں 12 ستمبر 2022 کو منصفانہ اقتصادی ترقی کی ترجیحات کے ساتھ ساتویں ترقیاتی منصبوے کی کلی پالیسیوں کے اجرا کی طرف

17۔ چھٹا پنچ سالہ ترقیاتی منصوبہ

18۔ 10 اکتوبر 2023 کو کیڈٹ یونیورسٹیوں کے طلبا کے سالانہ جشن تقسیم اسناد کی تقریب سے خطاب

19۔ غزہ کے عوام کا قتل عام شروع  ہونے کے تقریبا چھے ماہ بعد 25 مارچ 2024 کو سلامتی کونسل میں غزہ  میں فوری جنگ بندی کی قرار داد پاس ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ رمضان المبارک میں غزہ میں فوری جنگ بندی نافذ ہو جو پائیدار جنگ بندی پر منتج ہو۔ سلامتی کونسل کے 15  میں سے 14 اراکین نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیے اور امریکا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔  

20۔یکم اپریل 2024 کو صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں نے دمشق میں ایران کی کونسلیٹ پر کئی میزائل ‏گرائے جس میں بریگیڈیئر محمد رضا زاہدی اور بریگیڈیئر محمدہادی حاج رحیمی سمیت ایران کے سات فوجی مشیر شہید اور متعدد افراد زخمی ہو گئے۔