انھوں نے ایرانی قوم کو تعزیت پیش کرنے کے لیے جناب بشار اسد کی تہران آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایران اور شام کے تعلقات کو استحکام عطا کرنے میں مرحوم صدر جناب رئيسی کے نمایاں کردار کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ جناب امیر عبداللہیان بھی اس سلسلے میں خصوصی توجہ کے حامل تھے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحتمی محاذ کے دو اہم ارکان کی حیثیت سے ایران اور شام کے تعلقات میں استحکام کو اہم بتایا اور کہا کہ شام کا نمایاں تشخص، جو مزاحمت سے عبارت ہے، مرحوم حافظ اسد کے دور صدارت میں، "مزاحمت و استقامت کے محاذ" کی تشکیل کے ساتھ سامنے آیا اور اس تشخص نے شام کے قومی اتحاد کی بھی ہمیشہ مدد کی ہے۔ 
انھوں نے اس تشخص کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مغرب والے اور خطے میں ان کے پٹھو، شام کے خلاف جنگ شروع کر کے اس ملک کے سیاسی نظام کو گرانا اور شام کو علاقائي معاملات سے دور کر دینا چاہتے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اور اس وقت بھی وہ کبھی پورے نہ ہونے والے وعدوں جیسے دوسرے طریقوں سے شام کو علاقائي معاملات سے باہر نکال دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 

آيت اللہ خامنہ ای نے جناب بشار اسد کی مضبوط استقامت کو سراہتے ہوئے کہا کہ سبھی کو شام کی حکومت کے خصوصی امتیاز یعنی مزاحمت کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا چاہیے۔ 

انھوں نے ایران اور شام پر امریکا اور یورپ کے سیاسی و معاشی دباؤ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ہمیں اپنا آپسی تعاون بڑھا کر اور اسے منظم بنا کر ان حالات سے گزر جانا چاہیے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے مختلف میدانوں میں ایران اور شام کے تعاون میں اضافے کی خاطر مرحوم اور عزیز صدر جناب رئيسی کی مستعدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی جناب مخبر صاحب، صدر کے اختیارات کے ساتھ، اسی روش کو جاری رکھیں گے اور ہمیں امید ہے کہ تمام امور بہترین طریقے سے آگے بڑھتے رہیں گے۔ 

انھوں نے غزہ کے مسئلے میں خطے کے بعض ممالک کے موقف اور بے عملی پر تنقید کرتے ہوئے منامہ میں حالیہ عرب سربراہی کانفرنس کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس کانفرنس میں فلسطین اور غزہ کے سلسلے میں بہت سی کوتاہیاں ہوئيں لیکن بعض ملکوں نے اچھے کام بھی کیے۔ 

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مستقبل کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کی نگاہ مثبت اور روشن ہے، کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ہم سب اپنے فریضے پر عمل کريں گے اور اس روشن مستقبل تک پہنچیں گے۔ 

اس ملاقات میں شام کے صدر جناب بشار اسد نے رہبر انقلاب اور ایران کی حکومت و قوم کو تعزیت پیش کرتے ہوئے آيت اللہ خامنہ ای سے کہا کہ ایران اور شام کے تعلقات، اسٹریٹیجک تعلقات ہیں جو آپ کی رہنمائي میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ان ہدایات کو عملی جامہ پہنانے میں سب سے پیش پیش جناب رئیسی اور جناب امیر عبداللہیان تھے۔ 

انھوں نے جناب رئیسی صاحب مرحوم کی متواضع، حکیمانہ اور بااخلاق شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں اسلامی انقلاب کے نعروں اور مواقف کا نمایاں مظہر بتایا اور کہا کہ جناب رئيسی صاحب نے پچھلے تین سال میں، علاقائي امور اور فلسطین کے مسئلے میں ایران کے کردار ادا کرنے اور اسی طرح ایران اور شام کے تعلقات کے استحکام میں مؤثر طریقے سے کام کیا۔ 
شام کے صدر نے اسی طرح خطے میں مزاحمت کے موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پچاس سال سے زیادہ گزرنے کے بعد خطے میں مزاحمت پیشرفت کر رہی ہے اور اس وقت وہ ایک عقیدتی اور سیاسی نظریے میں بدل گئي ہے۔ 

انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہمارا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ مغرب کے مقابلے میں کسی بھی طرح کی پسپائي، ان کی چڑھائی کا سبب بنے گي، کہا کہ میں نے کئي سال پہلے اعلان کیا تھا کہ مزاحمت کا خرچ، سازباز کے خرچ سے کم ہے اور یہ بات اب شام کے عوام کے لیے پوری طرح سے واضح ہے اور غزہ کے حالیہ واقعات اور مزاحمت کی فتح نے بھی خطے کے عوام کے لیے اس بات کو ثابت کر دیا ہے اور دکھا دیا ہے کہ مزاحمت ایک بنیادی اصول ہے۔ 

جناب بشار اسد نے خطے میں مزاحمت کی حمایت میں اہم اور نمایاں کردار ادا کرنے اور اسی طرح تمام معاملات میں شام کی حمایت کرنے پر رہبر انقلاب اسلامی کا شکریہ ادا کیا اور ان کی قدردانی کی۔ 

جناب بشار اسد کی اس گفتگو کے بعد رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ آپ کی گفتگو میں کئي اہم نکات تھے لیکن ایک نکتہ میرے لیے زیادہ اہم تھا اور وہ نکتہ یہ ہے کہ آپ نے تاکید کے ساتھ کہا کہ "ہم جتنا پیچھے ہٹیں گے، فریق مقابل آگے بڑھے گا" اس بات میں کوئي شک نہیں ہے اور یہ، پچھلے چالیس سال سے ہمارا نعرہ اور عقیدہ رہا ہے۔