آخری اعترافات

رہبر انقلاب نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی پینتیسویں برسی کے پروگرام میں اپنے خطاب کے دوران صیہونی حکومت کی ابتر اور پیچیدہ صورتحال کے بارے میں کچھ مغربی اور صیہونی تجزیہ نگاروں کی باتوں کی طرف اشارہ کیا۔ یہ تجزیہ نگار کون ہیں؟

رہبر انقلاب کے خطاب کا ایک اہم پہلو، طوفان الاقصیٰ آپریشن میں صیہونی حکومت کی شکست اور اندر سے اس کی آشفتہ صورتحال تھی۔ انھوں نے کہا: "تمام مغربی تجزیہ نگار چاہے وہ یورپی ہوں یا امریکی، یہاں تک کہ خود صیہونی حکومت سے وابستہ تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ اس آپریشن میں صیہونی حکومت کو اپنے تمام تر دکھاوے اور بلند بانگ دعووں کے باوجود ایک چھوٹے سے مزاحمتی گروہ سے سخت ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ طوفان الاقصیٰ کے آٹھ مہینے بعد بھی اتنی کوششوں کے باوجود صیہونی حکومت کمترین اہداف تک بھی نہ پہنچ سکی۔ ایک مغربی تجزیہ نگار اس طرح کہتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن اکیسویں صدی کو تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ ایک مشہور مغربی تجزیہ نگار کا خیال ہے۔ ایک صیہونی سیکورٹی تجزیہ نگار، خود صیہونی حکومت کے اندر کا تجزیہ نگار بھی اس طرح کہتا ہے: اعلی صیہونی حکام کے اندر خلفشار پایا جاتا ہے، بدحواسی پائي جاتی ہے، وہ چکرا گئے ہیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کیا کریں؟ وہ کہتا ہے کہ اسرائیلی حکام کے درمیان جو اختلافات پائے جاتے ہیں اور جو بحثیں ہوتی ہیں اگر وہ میڈیا میں آ جائيں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے نکل جائيں گے۔ الٹی ہجرت۔ یعنی اسرائيلی حکام کے درمیان وحشت، خلفشار اور بدحواسی اس حد تک پہنچ چکی ہے۔ ایک اسرائیل مؤرخ بھی کہتا ہے: "صیہونی پروجیکٹ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہم صیہونی حکومت کے خاتمے کی شروعات میں ہیں۔ اسرائیل کے شمال اور جنوب میں یہودیوں کی حفاظت میں فوج ناکام ہو چکی ہے۔"

یہ مغربی تجزیہ نگار کون ہیں؟

رہبر انقلاب اسلامی نے غزہ کی جنگ میں صیہونی حکومت کو مزاحمتی محاذ سے ملنے والی سخت شکست کے بارے میں مغربی ماہرین کا ایک تجزیہ بھی پیش کیا۔ صیہونی فوج کے سابق جنرل اسحاق بریک، حماس کے مقابلے میں صیہونی حکومت کی شکست کی بات تسلیم کرتے ہوئے نیتن یاہو کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ آپ لمبے عرصے تک لوگوں سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔ انھوں نے اسی طرح صیہونی فوج کے اعلی افسران پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے ساتھ جنگ میں ہم تقریبا بری طرح مات کھا چکے ہیں اور ہم نے دنیا میں اپنے اتحادیوں کو بھی کھو دیا ہے۔(1)

ایک دوسرا موضوع جو رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوران بیان کیا، غزہ کی جنگ میں اعلان شدہ اہداف میں سے کم ترین ہدف کے حصول میں صیہونی حکومت کی ناکامی ہے۔ ہا آرتض اخبار کے تجزیہ نگار عاموس ہرئيل نے ایک مقالے میں لکھا: "حماس کے خلاف جنگ میں اعلان شدہ اہداف حاصل نہیں کیے جا سکے اور غزہ پٹی میں حماس کی حکومت بدستور پوری طاقت سے باقی ہے اور اس کی فوجی طاقت بھی اپنی جگہ قائم ہے اور تمام یرغمالوں کی رہائي کے لیے حالات فراہم ہونے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔ حماس کے ساتھ جنگ کا موازنہ بالکل بھی اطمینان بخش نہیں ہے اور اسرائيل انتہائي بری پوزیشن میں ہے۔(2) صیہونی حکومت کے سابق وزیر انصاف حاییم رامون نے بھی کہا کہ جنگ کے اہداف پورے نہیں ہوئے ہیں اور آرمی چیف کو استعفی دے دینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ غزہ کی جنگ، اسرائيل کی اسٹریٹیجک شکست کی حامل ہے۔ (3)

خفیہ دستاویزات کی منتقلی کے بارے میں خصوصی تفتیش کار رابرٹ ہور نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے صرف دو ہی دن بعد اعلان کیا کہ امریکی صدر جو بائيڈن کا ماننا ہے کہ طوفان الاقصیٰ ایسا واقعہ ہے جو اکیسویں صدی کو بدل سکتا ہے۔(4) امریکی نیوز ویب سائٹ ایکسیوس (Axios) نے طوفان الاقصیٰ کے سلسلے میں بائيڈن کے خیال سے متعلق رابرٹ ہور کے اس بیان کو شائع کیا۔ دراصل امریکی صدر کا ماننا ہے کہ طوفان الاقصیٰ اکیسویں صدی کو بدل سکتا ہے اور بائيڈن کا بیان، رابرٹ ہور کی جانب سے سامنے آيا ہے۔

رہبر انقلاب نے جو مزید حوالے دیے ہیں ان میں ایک صیہونی اخبار نویس کا بیان بھی شامل ہے۔ اپریل کے مہینے میں شام کے دارالحکومت دمشق میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے کے قونصل خانے پر حملے کے صیہونیوں کے مجرمانہ اقدام کے بعد ایران نے سیکڑوں ڈرونز، اور میزائيلوں سے مقبوضہ علاقوں پر حملہ کر کے صیہونی حکومت کو سبق سکھایا۔ موساد سے تعلق رکھنے والے اخبار نویس رونین برگمین نے ایک رپورٹ میں ایران کے کامیاب آپریشن کے بعد صیہونی حکومت کی ابتر صورتحال کے بارے میں ایک باخبر صیہونی عہدیدار کے حوالے سے لکھا: "حکام کے درمیان جو بحثیں ہوئي ہیں، اگر وہ میڈیا میں نشر ہو جائيں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے نکلنے کے لیے بن گورین ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیں گے۔"(5) برگمین موساد کے لیے کام کرتے ہیں اور اسی طرح وہ اسرائيلی اخبار یدیعوت احارونوت کے انٹیلی جنس اور عسکری امور کے سینیر تجزیہ نگار ہیں۔ انھوں نے بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر ماسٹرز اور تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی ہے۔ برگمین تل ابیب یونیورسٹی کے پروفیسر بھی ہیں اور وہاں صحافت پڑھاتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں جن افراد کا حوالہ دیا ان میں سے ایک مشہور صیہونی مؤرخ ایلن پاپے بھی ہیں۔ وہ برطانیہ میں فلسطین اسٹڈیز سینٹر کے مینیجر اور تاریخ کے استاد ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ غزہ میں جاری جنگ، اس پروجیکٹ کی تاریخ کا سب سے خطرناک موڑ ہے جو اپنے وجود کے لیے لڑ رہی ہے۔(6) پروفیسر پاپے سنہ 1984 سے لے کر سنہ 2006 تک حیفا یونیورسٹی میں مشرق وسطی کی تاریخ اور پولیٹکل سائنس فیکلٹی کے استاد رہے ہیں۔

 

(1) https://www.aa.com.tr/en/middle-east/israel-lost-war-against-hamas-in-gaza-ex-military-commander/۳۱۶۶۷۴۸

(2) https://www.haaretz.com/israel-news/۲۰۲۴-۰۴-۰۵/ty-article/.premium/after-six-months-few-of-the-israel-gaza-wars-goals-have-been-achieved/۰۰۰۰۰۱۸e-aa۸۰-d۰۲۹-a۷۸f-faa۲۵a۸a۰۰۰۰

(3) https://www.alquds.com/en/posts/۱۱۶۴۷۵?language=en

(4) https://www.axios.com/۲۰۲۴/۰۳/۱۴/hur-transcript-biden-israel-hamas-world-changer

(5) https://english.almayadeen.net/news/politics/if-israelis-know-cabinet-talks--they-would--escape-israel

(6) https://www.presstv.ir/Detail/۲۰۲۴/۰۳/۱۰/۷۲۱۶۱۵/beginning-end-Zionist-Project-Israeli-historia