سوال: اس سال جب حج کے مناسک انجام پا رہے ہیں، عالم اسلام کے ایک اہم حصے یعنی فلسطین اور غزہ میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ہو رہے ہیں، رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ امت مسلمہ اپنے عظیم الشان سالانہ اجتماع یعنی حج میں اس اہم مسئلے اور المئے کو نظر انداز نہیں کر سکتی، بنابریں اس سال کے حج کو آپ نے 'حج برائت' قرار دیا ہے۔ آپ اس تعلق سے کیا سوچتے ہیں؟

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سال استثنائی سال ہے اور گزشتہ ستر سالوں کے مابین اگر اس سال کو دیکھا جائے تو غزہ کی صورتحال اور فلسطینی مظلوم عوام کے وحشیانہ قتل عام اور بچوں کے قتل عام، خواتین کے قتل عام، بوڑھوں کے قتل عام، رہائشی علاقوں کی تباہی، اسپتالوں کی تباہی، بازاروں کی تباہی، اسکولوں کی تباہی کی صورت میں جس طرح کی فضا فلسطین کے اندر بنائی گئی ہے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے حج کے فلسفے کی بنیاد پر یقینی طور پر اس سال کو حقیقی معنوں میں برائت از مشرکین، برائت از اعداء اللہ اور برائت از دشمنان خدا اور دشمنان اسلام قرار دینا عین ضرورت ہے اور اس حوالے سے رہبر معظم انقلاب کی بصیرت کو سلام کرنا چاہیئے۔ اس وقت غزہ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم مسلمانوں کے فرائض دیکھیں تو حج کے اس عظیم اجتماع میں جب پوری دنیا سے اربوں انسانیوں کی نمایندگی میں لاکھوں انسان حاضر ہوتے ہیں اور "لبیّک اللّھمّ لبّیک" کہتے ہیں اور شیاطین کو منا میں جاکر پتھر مارتے ہیں، تو وہ پتھر مارنا توایک علامتی اظہار برائت ہے حقیقی اظہار برائت تو یہ ہے کہ ہر گلی ہر کوچے، ہر اجتماع، ہر شہر، ہر ملک ہر قصبے، ہر مقام پر مظلوم کی حمایت کا پرچم بلند کیا جائے اور اللہ کی وحدانیت کے پرچم کے سائے تلے، اللہ کے دشمنوں سے اپنی بیزاری کا اور اللہ کے دشمنوں سے اپنی برائت کا اظہار کیا جائے اور اللہ کے مظلوم بندوں کی  حمایت میں اور ان کے حق میں آواز اٹھائی جائے۔ تو اس حوالے سے حاجیوں کا سب سے بڑا فریضہ یہی بنتا ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن کریم میں حاجیوں کے فرائض کو بیان کرتے ہوئے سورہ توبہ کے آغاز ہی میں یہ فرمایا ہے کہ "و آذان من اللہ یوم الحجّ الاکبر انّ اللہ بریء مّن المشرکین و رسولہ"، تو حج اکبر کے موقع پر اللہ کی طرف سے بھی اعلان ہونا چاہیے اور ہوتا ہے، رسول اللہ کی طرف سے بھی اعلان ہونا چاہیے اور ہوتا ہے، تو عوام کی طرف سے حاجیوں کی طرف سے اور مؤمنین کی طرف سے بھی یہ اعلان ہونا چاہیے کہ ہم مشرکین سے بیزار ہیں، ہم کفار سے بیزار ہیں، ہم یہودیوں سے بیزار ہیں، ہم صیہونیوں سے بیزار ہیں، ہم قاتلوں سے بیزار ہیں، ہم معصوم بچوں کے بربریت کے انداز میں، وحشیانہ انداز میں قتل عام کے مجرموں سے بیزار ہیں اور ان کے خلاف ہم اپنے اتحاد، اپنی وحدت، اپنی یکجہتی کا اظہار حج کے اس عظیم عالمی اجتماع میں کریں، یہ ہماری سب سے بڑی ذمہ داری بنتی ہے آج کے دور میں۔ حج کے اجتماع سے بڑھ کر کوئی اجتماع دنیا میں اس وقت متصوّر نہیں ہے کہ جہاں پر تمام مسلمان یکساں طور پر "لبّیک اللّھمّ لبّیک" کے نعرے کے ساتھ آتے ہوں۔ کربلا کا اجتماع تعداد کے لحاظ سے اگرچہ بہت بڑا ہے لیکن وہ ایک مسلک اور ایک خاص نظریہ رکھنے والوں کا اجتماع ہے جبکہ میدان عرفات میں، میدان منا میں، خود مسجد  الحرام میں وہ لوگ جمع ہیں جو ہر طبقے سے ہیں، ہر مسلک سے ہیں اور جن کی بنیاد توحید ہے، جن کی بنیاد لا الہ اللہ ہے جو قرآن پر مشترکہ طور پر سب کے سب عقیدہ رکھتے ہیں، جو رسول اللہ کی رسالت کو مانتے ہیں، جو قرآن کی تعلیمات کو قرآن کے پیغام کو اپنے ل‍ئے واجب العمل سمجھتے ہیں، فرقوں کے اختلاف، آپس کے اختلاف کے باوجود، اس میدان میں سب کے سب اکٹھے ہیں، لہذا اس سے بڑا اجتماع اور کوئي نہیں ہو سکتا کہ جہاں پر توحید کے نعرے تلے شرک سے مشرکین سے ظالموں سے وحشتناک ظلم کرنے والے درندہ صفت صیہونیوں سے اپنی برائت کا اظہار کیا جا سکے۔ اس حوالے سے رہبر معظّم نے جو برائت از مشرکین کا سال قرار دیا ہے اور اس کو حج برائت قرار دیا ہے یہ عین ضرورت وقت ہے اور اس پر ہر صورت میں حاجیوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ توجہ صرف میدان عرفات اور منا میں نہیں بلکہ جب یہی حاجی اپنے گھروں کو واپس جائیں تو پوری دنیا سے آئے ہوئے حاجیوں کے اس اعلان برائت کا پیغام وہ اپنے علاقوں میں  لے کر جائیں تاکہ انسانوں کے اندر شعور پیدا ہو اور وقت کے ظالم اور سفاک دشمنان خدا کے مقابلے میں سب مل کر اپنی آواز بلند کر سکیں۔

 

سوال: رہبر انقلاب نے اپنے اس موقف کے لئے قرآن کی اس آیت کو بنیاد قرار دیا: "وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَۃُ وَ البَغضاء..." (سورہ ممتحنہ آیت 4) آپ اس کی کس طرح تشریح کریں گے؟ 

جواب: رہبر انقلاب نے اس حج کو برائت از مشرکین کی مناسبت سے ایک خاص اہتمام کے ساتھ دیکھا ہے۔ اور اس کے لئے اللہ تبارک و تعالی کی کتاب اور خصوصا سورہ ممتحنہ میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی سیرت اور ان کے عمل کو جس طرح سے اللہ نے اسوہ بناکر پیش کیا ہے، اس سے استدلال بھی کیا ہے اور اس سے پیغام بھی لیا ہے۔ آج کے دور میں جس طرح سے اسرائیل اس وقت بے گناہ انسانوں کے قتل عام کے ذریعے سے اللہ کے پیغام سے، کتب آسمانی سے اپنی شدیدترین دشمنی کا اظہار کر رہا ہے، ایسی صورت میں سیرت ابراہیمی کے اظہار کی ضرورت ہے، حاجی صرف منا کے میدان میں چند بھیڑ بکریوں کی قربانی کے ذریعے سے ہی حضرت ابراہیم کی تاسی نہیں کر پائيں گے جب تک حضرت ابراہیم ہی کی طرح سے آج کے اللہ کے دشمنوں سے اظہار برائت نہ کریں اور ان سے ہر طرح کے تعلق کو منقطع کرنے کا اعلان نہ کریں۔ یہ جو سورہ ممتحنہ کی آيت نمبر 4 ہے اس آیت میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام نے ابدی طور پر ان دشمنان خدا سے اور مشرکین سے قاطعیت کے ساتھ بغیر کسی طرح کی پردہ پوشی کے اپنی بیزاری کا صریحا اعلان فرمایا اور ان کے اس اعلان میں یہ رمز، یہ راز پوشیدہ تھا کہ ہم کسی بھی صورت میں اب تم سے نہیں ملیں گے، کسی بھی صورت میں ہم تم سے رابطہ نہیں رکھیں گے، کسی بھی صورت میں تم سے ہمارا کوئی تعلق قائم نہیں رہے گا مگر یہ کہ تم اپنے اس رویّے سے باز آؤ اور اللہ کی طرف پلٹو اور یہ جو تم نے ایک لائن کھینچی ہے مظلوم اور ظالم کے درمیان اس لائن کو ختم کرکے مظلوم پر ظلم کرنے کا سلسلہ ختم کرو اور کفر سے ایمان کی طرف آؤ۔ یہ حضرت ابراھیم کی سیرت ہے تو اب آج حضرت ابراھیم کی سیرت یہ تقاضا کرتی ہے امت سے کہ امت بھی من حیث امت چاہے وہ لوگ جو حج کے میدان میں ہیں چاہے وہ لوگ جو گھروں میں بیٹھ کر اللہ کی عبادت کر رہے ہیں، چاہے وہ حکمراں جو معاشرے کو لے کر چلتے ہیں، چاہے وہ علماء جو معاشروں کی ہدایت کے علمبردار ہیں، حضرت ابراھیم کی اس عملی سیرت کا اور اسوہ حسنہ کا اتباع کرتے ہوئے اس کے پیچھے چلتے ہوئے وہی روش اختیار کریں اور صیہونی اسرائیلیوں سے اپنے قطع تعلق کا ایسا اعلان کریں جس میں برگشت بالکل بھی نہ ہو اور یہ قرآن کی آیت بھی ہے اور قرآن کا پیغام بھی ہے اور قرآن نے حضرت ابراہیم کے عمل کو جس انداز میں قبول کرکے امت کے سامنے رکھا ہے اس کا ایک عملی نمونہ بھی ہے لہذا آج کے دور میں اگر ہم حضرت ابراہیم کی سنت پر عمل کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہی ہے۔

 

سوال: اگر اس سال مشرکین سے برائت کا محور امریکا و اسرائیل سے اعلان بیزاری قرار دیا جائے تو اس سے غزہ اور فلسطین کے عوام کی کتنی مدد ہو سکتی ہے؟

جواب: اگر ہم حقیقی معنوں میں اللہ کے دشمنوں سے اظہار برائت کرنا چاہیں تو اس برائت کا محور امریکہ، اسرائیل اور اسرائیل کا ساتھ دینے والے وہ تمام سسٹم اور تمام نظامات ہیں، صرف امریکا اور اسرائیل نہیں، اس میں برطانیہ شامل ہے، اس میں یورپی ممالک شامل ہیں، وہ تمام ممالک اور وہ تمام حکمراں جنھوں نے در پردہ اسرائیل کی بھرپور مدد کی ہے وہ بھی شامل ہیں، ہاں اگر ہم مصلحتا خاموش رہیں تو یہ اور بات ہے لیکن جن ممالک نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی، کھل کر اس انسان کشی اور بچوں کے قتل عام اور شہری عام بے گناہ شہریوں کے قتل عام کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اس میں اسرائیل کی بھرپور مدد بھی کی، اسلحے کے لحاظ سے، سیاسی حوالے سے، اخلاقی حوالے سے، سفارتی حوالے سے بھرپور مدد کی، ان تمام ممالک سے اظہار برائت آج کے مسلمانوں کا سب سے بڑا کام ہونا چاہیئے اور اگر ایسا ہو جائے تو یقین جانیئے کہ فلسطینویں کو ایک نئی روح ملے گی، فلسطینیوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہم اکیلے نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا کے آزادی پسند بیدار ضمیر انسان ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ اس کام کے لئے ضمیر کی بیداری بھی چاہیئے، شجاعت بھی چاہیئے، شعور بھی چاہیئے اور انسانی اقدارار ویلیوز کا زندہ ہونا بھی ضروری جو یہ کام کرنا چاہیں ان کے اندر، لہذا آج فلسطینیوں کو اقوام عالم کی طرف سے حمایت کی امید بھی ہے اور انتظار بھی ہے، فلسطین کے بچے اب بھی ہمت نہیں ہارے جب وہ ہمت نہیں ہارے تو پھر ہمارے مسلمان حکمرانوں کو بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیئے اور ان تمام ممالک کو بھی جو خاموش تماشائي ہیں اور اگر برائت از مشرکین کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل دونوں سے اظہار برائت کا سلسلہ مسلم ممالک میں کم از کم پیدا ہو جائے تو بہت جلدی ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے اور غزہ کے اس ایشو کو ہر صورت میں کامیابی تک پہونچانے میں مدد مل سکتی ہے اور یہ چالیس ہزار سے زیادہ شہداء کا خون ہے اس شہداء کے خون سے اس طرح سے وفا کیا جا سکتا ہے۔

 

سوال: اعلان برائت کی حدود اور اس کا دائرہ کیا ہے؟

جواب: اعلان برائت کے حدود اور اسکا دائرہ معاشی بھی ہے، سیاسی بھی ہے، سفارتی بھی ہے اور ہر طرح کا وہ تعلق جو ان جابر اور ظالم حکمرانوں کی کمزوری کا سبب بنے، انکی محدودیت کا سبب بنے، انکو مظلوم فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم سے روکنے کا سبب بنے، انسانی ضمیروں کی زندگی اور حیات کا سبب بنے، خود اسرائیل کے اندر رہنے والے انسانوں  کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا سبب بنے، امریکہ کے اندر رہنے والے کروڑوں انسانوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے اور ان کو اپنے ملک کے اس ظالمانہ نظام کے خلاف کھڑا کرنے کا سبب بنے، انسانی معاشروں کے اندر ظلم سے نفرت کے اظہار کا سبب بنے، ظالموں سے نفرت کے اظہار کے لئے میدان میں اترنے کا سبب بنے تو تمام کے  تمام امور اس میں شامل ہیں، ہر وہ عمل جس سے یہ اھداف حاصل ہوں، اس اعلان برائت میں شامل ہے، صرف یہ زبانی نہیں ہے، جو ممالک سفارتی تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں وہ اگر پیچھے ہٹیں تو یہ اعلان برائت ہے، جو لوگ مالی مدد اسرائیل کو دے رہے ہیں، وہ اگر پیچھے ہٹیں اور اگر اعلان برائت کریں تو یہ اعلان برائت بھی ہے اور مدد بھی ہے فلسطینیوں کی۔ جن ممالک نے اپنی زمین اسرائیل تک اجناس خورد و نوش اور اسلحہ اور بارود پہنچانے کے لئے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے اور انہیں روڈ اور کوریڈور بناکر دیا ہے ان ممالک کو اگر روکا جا سکے تو یہ اعلان برائت کی ایک شکل ہے تو گویا ہر وہ عمل جس سے ظالم کا ہاتھ روکا جا سکے اور مظلوم کی حوصلہ افزائی ہو سکے اس اعلان برائت کے حدود و اور اس کے دائرے میں شامل ہیں۔

 

سوال: اس برائت از مشرکین کو روزمرہ کی زندگی، اجتماعات، تقاریر، تحریروں اور سوشل میڈیا کی سطح پر عملی بنانے کے لئے آپ کی کیا تجویز ہے؟

جواب: ظلم سے نفرت، ظالم کے اس قبیج عمل سے نفرت، انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر لوگوں کی آنکھوں پر پڑے ہوئے جہالت کے پردے ہٹا دیئے جائیں، تو لوگ فطری طورپر خود اسرائیلی صیہونیوں اور امریکی اور برطانوی مظالم سے اپنی برائت کا اظہار کریں گے اور میدان میں اتریں گے۔ اس کے لئے شعور اور آگہی کا پیدا کرنا، لوگوں تک درست خبروں کا پہونچانا، ہر روز کے حالات سے لوگوں کو آشنا کرنا، ریڈیو کے ذریعے، ٹی وی کے ذریعے، اخبارات کے ذریعے سے، سوشل میڈیا کے ذریعے سے، تصویری شکل میں، صوتی شکل میں، ویڈیوز کی شکل میں، پیغام کی شکل میں، فلسطین کے اندر ہونے والے مظالم کو ہائی لائٹ کرنا اور اس کے ذریعے سے لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنا، اس طرح کے واقعات کو قلمبند کرکے لوگوں تک پہونچانا، تصویری شکل میں لوگوں تک پہونچانا، یہ سارے کا سارا وہ عمل ہے جس کے ذریعے سے لوگوں کے اندر شعود پیدا کیا جا سکتا ہے اگر سوشل میڈیا کا درست استعمال کیا جائے تو اس وقت چین سے لے کر روس تک اور روس سے لے کر یورپ تک تمام ان سرزمینوں میں موجود حتی ملحد، حتی بت پرست، حتی خدا سے بے خبر لوگ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں میدان میں نکل سکتے ہیں اس کی ایک مثال ہم نے یوروپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں اٹھنے والی بیداری کی تحریکوں میں ملاحظہ کیا ہے۔ ان یوروپی اور امریکی طالب علموں کا جو رشتہ ہے فلسطینیوں سے نہ وہ خون کا ہے اور نہ وہ عقیدے کا ہے لیکن انسانیت کا ہے اور انسانیت کا جو یہ رشتہ 7 اکتوبر سے پہلے کہیں پر نظر نہیں آیا لیکن 7 اکتوبرکے بعد ہونے والے مظالم اور وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں جس طرح سے یہ تصویر کسی حد تک یوروپ اور امریکہ میں پیش کی جاسکی، اس کے اثرات آپ دیکھتے ہیں، لہذا عملی طور پر تمام تر اس طرح کے نیٹ ورک کا استعمال اور جو دینی مراکز ہیں، ان مراکز میں بیٹھے ہوئے علماء، دانشوروں اور تعلیمی اداروں میں موجود معلمین اور اساتذہ کو متوجہ کرنا کہ اس ایشو کو ہر صورت میں ہر جگہ، ہر مقام پر اور ہر وقت اٹھاتے رہیں تاکہ ظلم کا رستہ روکا جا سکے۔ یہ ایک بہترین حکمت عملی ہو سکتی ہے برائت از مشرکین کو لوگوں کی زندگی میں عملی طور پر داخل کرنے کے لئے اور اسی طرح سے اسرائیلی مصنوعات اور اسرائیل کی مدد کرنے والی کمپنیوں کی مصنوعات ان پر پابندی کے حوالے سے جتنا شعور اجاگر ہوگا اتنا لوگ زیادہ سے زیادہ ان پر پابندی لگائیں گے اور ان کا استعمال چھوڑ دیں گے۔ ابھی اگر صرف پچاس ممالک میں موجود مسلمان عوام اسرائیلی مصنوعات اور اسرائیل کے ہمنوا کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تو معیشت کے حوالے سے یہ اسی برائت از اسرائیل اور برائت از مشرکین کی عملی شکل بنے گی اور اس کے نتیجے میں آپ دیکھیں گے کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹے گی لہذا اسرائیلی اجناس کے بائیکاٹ کی مہم، کیمپین اور اقوام عالم کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لئے فکری کیمپین ان تمام ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ایک انتہائی اہم عمل ہے اور اس کے نتائج بھی ان شاء اللہ تعالی بڑے اہم سامنے آئیں گے۔