غزہ کی جنگ نے فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے اپنے تمام تر مصائب و آلام اور ہر آزاد منشن انسان کے لیے تمام تر دکھوں کے ساتھ ہی یورپ اور امریکا کے بہت سے نعروں اور مفاہیم کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ مغرب کے جمہوریت، انسانی حقوق اور سب سے بڑھ کر اظہار رائے کی آزادی جیسے مفاہیم غزہ کی جنگ کی وجہ سے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ آزادئ اظہار رائے جس کی سب سے بڑی دعویدار پچھلی دہائیوں میں مغربی حکومتیں رہی ہیں اور انھوں نے ہمیشہ ہی پابندیوں، بیانوں اور عالمی اداروں میں تشویش ظاہر کرنے جیسے ہتھکنڈوں کے ساتھ اسے دیگر اقوام کے خلاف دباؤ کے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا ہےغزہ میں مغرب کا ڈھونگ بن کر رہ گئی ہے۔ غزہ کی جنگ نے دکھا دیا ہے کہ اس سے پہلے تک غلط طریقے سے فریادی اور ملزم کی جگہ بدل دی گئي تھی اور یہ لبرل ڈیموکریسی ہے جسے آزادئ اظہار رائے کی خلاف ورزی کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔ پچھلے 9 مہینوں میں دنیا میں جو کچھ ہوا ہے وہ بخوبی اس دعوے کی دلیل ہے۔
7 اکتوبر اور طوفان الاقصیٰ آپریشن کے اگلے کچھ ہی دنوں میں ہم نے غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم پر بہت سے اخبار نویسوں اور صحافیوں کے سخت احتجاج کا مشاہدہ کیا تھا۔ اس احتجاج پر مغربی حکومتوں اور ان کے ذرائع ابلاغ کے صیہونی مالکوں نے سخت ردعمل ظاہر کیا تھا۔ امریکی میڈیا وائس نیوز کے خبر نگار لاما آریان نے لکھا: "میں نے آف دی ریکارڈ اپنے بہت سے ساتھیوں سے سنا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران کے بارے میں ٹویٹ کرنا بھی انھیں بے روزگار بنا سکتا ہے، اسی وجہ سے وہ لوگ خاموش ہیں۔"(1) مغرب میں اسرائیل پر تنقید کرنے والوں کی تعداد جتنی بڑھتی جا رہی تھی، اتنی ہی روز بروز کام سے نکالے جانے والے اخبار نویسوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ مشہور جریدے Elife(2) کے مدیر اعلیٰ مائیکل آئزن سے لے کر اخبار نیویارک ٹائمز(3) کے فوٹوگرافر حسام سلام تک فلسطین کی حمایت کے سبب اپنی نوکری سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
پچھلے کچھ ہفتے پہلے ہی امریکی یونیورسٹیوں میں فلسطین کی حمایت میں اسٹوڈنٹس کے احتجاج کے اوج کے دنوں میں ایک بار پھر مغرب کی اظہار رائے کی آزادی کے دعوے کی پول کھل گئي۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق امریکا میں اس احتجاج کے دوران 3200 لوگ جن میں سے تقریبا 100 پروفیسر اور باقی سب یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس تھے، پولیس اور سیکورٹی فورسز کے ذریعے حراست میں لے لیے گئے۔(4) اسی طرح پچھلے کچھ مہینوں کے دوران میڈیا میں خبریں آئي ہیں کہ بہت سے اسٹوڈنٹس اور پروفیسروں کو فلسطین کی حمایت کے جرم میں یونیورسٹیوں سے نکال دیا گيا ہے۔ ان میں سے ایک واقعہ کچھ ہی دن پہلے کا ہے جس میں کولمبیا یونیورسٹی کے تین پروفیسروں کو، صیہونیت مخالف ایس ایم ایس بھیجنے کے بہانے نوکری سے معطل کر دیا گيا۔(5) یہ یونیورسٹی آزادی کی خلاف ورزی کا ایک طویل ماضی رکھتی ہے اور سات اکتوبر کے بعد اس یونیورسٹی میں "JVP" یا Jewish Voice for Peace جیسے گروہوں تک کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئي۔(6)
اس کے علاوہ مغرب میں آرٹ اور اسپورٹس کی دنیا کے سیلیبریٹیز بھی اظہار رائے کی آزادی سے لبرل ڈیموکریسی کی کھلی جنگ کے گزند سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ مشہور فلم سیریز اسکریم (Scream) میں مرکزی کردار ادا کرنے والی میلیسا بریرا کو صرف اس وجہ سے اس فلمی پروجیکٹ سے باہر کا راستہ دکھا دیا گيا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر غزہ کی حمایت میں کچھ باتیں پوسٹ کی تھیں۔(7) یا ہالینڈ کے فٹبالسٹ انور الغازی کو غزہ میں صیہونیوں کے جرائم پر صرف اعتراض کرنے کی وجہ سے جرمنی کے مائنز فٹبال کلب کی ٹیم سے باہر نکال دیا گيا۔(8)
دلچسپ بات یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کی دعویدار لبرل ڈیموکریسی، مغرب کے ان انگشت شمار سیاستدانوں کو بھی برداشت نہیں کرتی جو غزہ میں صیہونی فوج کے بھیانک جرائم پر اعتراض کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ابھی کچھ مہینے پہلے ہی امریکی کانگریس کی فلسطینی نژاد رکن رشیدہ طلیب کے صیہونیت مخالف بیان کی، کانگریس کے 234 اراکین کے ووٹوں سے مذمت کی گئي اور بہت سے اراکین نے کانگریس میں ان کی رکنیت ختم کیے جانے کا بھی مطالبہ کیا۔(9)
حالیہ کچھ مہینوں میں ٹیکنالوجی کی کچھ بڑی کمپنیوں کے اقدامات نے بھی یہ بات بخوبی عیاں کر دی ہے کہ مغرب میں پرائیویٹ سیکٹر بھی آزادئ اظہار رائے کو محدود کرنے کے معاملے میں حکومتوں سے کچھ زیادہ الگ نہیں ہے۔ گوگل کمپنی سے لے کر، جس نے فلسطین کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے اور صیہونی کمپنیوں سے تعاون کے خلاف دھرنے میں شرکت کی وجہ سے اپنے 20 ملازمین کو نوکری سے نکال دیا،(10) میٹا کمپنی تک جس نے ابھی کچھ ہی دن پہلے اپنے پلیٹ فارمز پر "صیہونی" لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔(11)
ایسا لگتا ہے کہ اس بار مغرب والوں نے ظاہری تکلف کو بھی برطرف کر دیا ہے اور بہت سے شہروں میں عوام کی جانب سے چفیہ (Keffiyeh) جیسے مزاحمت کے سمبل کے استعمال کو بھی جرم قرار دے دیا ہے۔ زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جرمن پارلیمنٹ نے کچھ روز پہلے غزہ کی جنگ میں فلسطینیوں کی مزاحمت و استقامت کا مظہر سمجھے جانے والے "لال مثلث" کے استعمال پر پابندی کے بل کو بھی منظوری دے دی ہے!
رہبر انقلاب اسلامی نے کچھ دن پہلے یورپ میں اسٹوڈنٹس کی اسلامی انجمنوں کی یونین کی 58ویں نشست کے نام اپنے پیغام میں "آزادئ اظہار رائے پر عملدرآمد میں لبرل ڈیموکریسی کی ناتوانی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یہ ناتوانی غزہ کی جنگ کے بعد سب کے لیے پوری طرح عیاں ہو گئي ہے اور اب مغرب، ماضی کی طرح مختلف اقوام پر اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اب دنیا اچھی طرح سمجھ چکی ہے کہ مغرب والوں کی آزادئ اظہار رائے کوئي بڑی چیز نہیں ہے اور یہ لبرل ڈیموکریسی ہے جو دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرتی ہے۔
تحریر:
محمد مہدی عباسی؛ امریکی مسائل کے محقق
[1] https://twitter.com/lalarian/status/1717951032343376222?t=GraWFIeYS3besn5C9FFtPA&s=19
3 https://thecradle.co/articles-id/2564
4 https://theappeal.org/prosecutors-charges-protesters-arrested-gaza-colleges-april/
5 https://www.aljazeera.com/news/2024/7/9/columbia-ousts-deans-over-texts-with-antisemitic
7 https://www.bbc.com/news/entertainment-arts-67494374
10 https://www.instagram.com/p/C6HFrT3P_Zw/?igsh=MTdicnIzY2E3bnd2ag%3D%3D
11 https://edition.cnn.com/2024/07/09/tech/meta-posts-zionists-hate-speech/index.html