بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

امام خمینی سے منسوب اس حسینیہ میں آپ سبھی کا خیر مقدم ہے اور اس پارلیمنٹ میں بھی ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان شاء اللہ مجلس شورائے اسلامی میں جو بڑی اہم اور حساس پوزیشن رکھنے والا ادارہ ہے، آپ کا وجود خود آپ کے لئے بھی باعث خیر و برکت و رحمت الہی ثابت ہو اور ملک و عوام کے لئے بھی۔ پارلیمنٹ اسپیکر جناب قالی باف کا شکریہ ادا کرتا ہوں، بڑے اہم نکات کا ذکر فرمایا۔ میں بھی جناب کے ذریعے پیش کئے گئے انہی نکات میں سے بعض کا ذکر کروں گا۔

پارلیمنٹ کے بارے میں بڑی باتیں ہو چکی ہیں۔ یاددہانی، سفارشات اور کبھی کبھی نکتہ چینی بھی۔ لیکن ہنوز ناگفتہ باتیں بھی بہت ہیں۔ کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جنہیں دوہرایا جانا چاہئے۔ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دوہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بنابریں میں نے بھی چند نکات نوٹ کئے ہیں جو آپ عزیز برادران و خواہران گرامی کی خدمت میں عرض کروں گا۔

پہلا نکتہ۔ پارلیمنٹ صرف سوالات پوچھنے والا ادارہ نہیں ہے۔ بلکہ جواب دینے والا ادارہ بھی ہے۔ بہت سے افراد کے تصور کے برخلاف جو یہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ قانون بنا کر حکومت کے لئے فرمان جاری کرتی ہے، اس کے بعد بازپرس کرتی ہے، امپیچمنٹ کرتی ہے، اسی طرح کے دوسرے کام انجام دیتی ہے اور بازپرس کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ جی ہاں! بے شک یہ فرائض ہیں، لیکن جوابدہی کے فرائض انجام دینے والا ادارہ بھی ہے۔ پارلیمنٹ ملک کے ستونوں میں سے ایک ہے۔ فیصلے کرنے والا ادارہ ہے۔ اقدام کرنے والا ادارہ ہے۔ جو ادارہ یا شخص فیصلہ کرے اور اقدام انجام دے وہ جوابدہ بھی ہوتا ہے۔ لہذا پارلیمنٹ جوابدہی کے عمل کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھے۔ کچھ فرائض ہیں جو اسے انجام دینے ہوتے ہیں۔ اگر وہ انجام نہیں دیتی ہے تو اس سے بازپرس کی جاتی ہے۔ کچھ کام ہیں جن سے اسے اجتناب کرنا ہے، اگر اجتناب نہ کرے تو اس پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔ پارلیمنٹ کس کو جوابدہ ہے؟ سب سے پہلے تو اللہ کو۔ ہم ایمان رکھنے والے افراد ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم سے ہمارے کاموں اور ہمارے اعمال کی ایک ایک چیز کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آپ ایک قانون بناتے ہیں، وضع کرتے ہیں، کسی حکمنامے پر دستخط کرتے ہیں تو آپ اس کے سلسلے میں جوابدہ ہیں۔ ہم سب کو اس بڑی ذمہ داری کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ اللہ کی بارگاہ میں ہمیں جوابدہ ہونا ہے اور یہ جوابدہی دوسری کسی بھی جوابدہی اور بازپرس سے زیادہ بڑی، سنجیدہ اور قابل توجہ ہے۔ اس کے بعد عوام کے سامنے جوابدہی۔ اگر عوام نے پارلیمنٹ سے کوئی خلاف توقع عمل دیکھا تو بے شک وہ پارلیمنٹ کا گریبان تو نہیں پکڑیں گے، یعنی اس کے لئے کوئی قانونی فریم ورک موجود نہیں ہے، لیکن ان کے عمل میں، ان کی روش میں اور ان کے رد عمل میں انسان صاف طور پر ان کی رضامندی یا عدم رضامندی کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔

ان چند عشروں کے دوران ہم نے ایسی پارلیمانیں بھی دیکھی ہیں کہ جنہوں نے کچھ ایسے کام کئے جو عوام کو پسند نہیں آئے، وہ کام عوام کو اچھے نہیں لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کاموں کو انجام دینے والے افراد عوام کی نظروں سے گر گئے۔ ہم نے ان برسوں میں ان چیزوں کا تجربہ کیا ہے، مشاہدہ کیا ہے۔ ہر ایک رکن پارلیمنٹ جوابدہی کے نکتے پر توجہ رکھے۔ اس کی رفتار و گفتار، بیان، ووٹ، موقف اسی نکتے کے محور پر طے پانا چاہئے۔ یہ پہلا نکتہ۔

دوسرا نکتہ (تینوں) شعبوں کے باہمی تعاون کے بارے میں ہے۔ پارلیمنٹ ملک کے سیاسی نظام کا بہت اہم حصہ ہے۔ فطری بات ہے کہ نظام کے مختلف حصے ایک دوسرے سے مل کر ایک جامع سسٹم کو تشکیل دیں، ایک متحدہ مجموعے کو تشکیل دیں۔ یعنی مقننہ، مجریہ، عدلیہ اور مسلح فورسز جو ایک طرح سے مجریہ کا جز شمار ہوتی ہیں، یہ سب مل کر ایک جامع سسٹم کی تشکیل کریں۔ جب ان سب سے مل کر ایک مجموعہ تیار ہونا ہے تو لازمی ہے کہ ان کے درمیان باہمی تعاون ہو، مل کر کام کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں، بعض جگہوں پر ایک دوسرے کے سلسلے میں چشم پوشی سے بھی کام لیں، بعض جگہوں پر ایک دوسرے کو متنبہ کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں، ایسے چند مواقع کا شاید میں اپنی گفتگو میں ذکر بھی کروں گا۔ ان برسوں میں جو میں بار بار پارلیمانوں کو سفارش کرتا تھا کہ حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں تو اس کی وجہ یہی تھی۔ یہ بہت اہم ہے۔ یہ مجموعہ جو پورے ملک کے ووٹوں، خواہشات اور نقطہ نظر کی بنیاد پر تشکیل پایا ہے اسے ایک دوسرے سے ہم آہنگ ارکان والے سسٹم کی شکل میں اپنا رول ادا کرنا چاہئے جس کی ہمارے ملک کو، ہمارے عوام کو اور ہمارے نظام کو احتیاج ہے۔ البتہ میں حکومتوں سے بھی مناسب موقع پر یہی سفارش کرتا ہوں۔ خوش قسمتی سے صدر مملکت عوامی نمائندے کی حیثیت سے، اب مجھے نہیں معلوم کہ قانونی اعتبار سے اس عنوان کا ان پر اطلاق ہوگا یا نہیں (2) بہرحال یہاں تشریف رکھتے ہیں۔ میں حکومتوں کو بھی ہمیشہ پارلیمنٹ کے سلسلے میں سفارش کرتا ہوں۔ بعض اوقات حکومتوں کا پارلیمنٹ کے سلسلے میں یہ رویہ ہو گيا تھا کہ وہ کوئی بل ہی نہیں لاتی تھیں۔ پارلیمنٹ سے میرے پاس شکایت آتی تھی کہ ہم کئی مہینے سے انتظار میں بیٹھے ہیں، یہ حکومت بل ہی نہیں پیش کر رہی ہے، یا منظور شدہ بل پر عمل نہیں کر رہی ہے۔ اس طرح کی حکومتیں بھی ہمارے یہاں گزری ہیں۔ ہم ہمیشہ اس بات کی سفارش کرتے تھے۔ بہرحال آپ عزیز رکن  پارلیمنٹ بھائیوں اور بہنوں کا ایک اہم کام تعاون ہے۔ میں نے یہاں جو تاکید شدہ سفارشات کے طور پر نوٹ کیا ہے ان میں ایک نئی حکومت کے ساتھ تعمیری تعاون ہے۔ سب مدد کریں کہ منتخب صدر ملک کے تعلق سے جو فرائض ان کے دوش پر ہیں انہیں انجام دے سکیں۔ اگر ہم نے اس انداز سے کام کیا کہ صدر مملکت کو کامیابی مل جائے تو یہ ہم سب کی کامیابی ہوگی۔ اگر ملک چلانے میں، ملکی معیشت کو بہتر کرنے میں، ملک کے بین الاقوامی مسائل میں اور ملک کے ثقافتی امور میں کامیابی مل جائے تو یہ ہم سب کی کامیابی ہوگی۔ ان کی کامیابی ہم سب کی کامیابی ہے۔ اسے پورے وجود سے ہمیں باور کر لینا چاہئے۔

ملک کے اہم مسائل میں ملک کے اندر سے ایک ہی آواز سنائی دینی چاہئے۔ کلیدی مسائل میں جس کی تشخیص خود آپ کے ذمے ہے، کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں حکومت، پارلیمنٹ اور مختلف عہدیداران کی طرف سے یکساں موقف کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دنیا میں جو لوگ کان لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ کہیں سے اختلاف کی کوئی علامت مل جائے، وہ مایوس ہو جائیں۔ ایک آواز سنائی دینی چاہئے۔

تیسرا نکتہ پارلیمنٹ کے ایوان کے اندر بحثوں میں اخلاقیات کی بالادستی سے متعلق ہے۔ میرے عزیزو! پارلیمنٹ کو ملک کی رائے عامہ کی سطح پر سکون و اطمینان کی فضا کا سرچشمہ ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کے اندر سے آپ عوام کے لئے تعمیری لہریں پیدا کریں۔ پارلیمنٹ کو رائے عامہ کی سطح پر کشیدگی پھیلنے کا سبب نہیں بننا چاہئے۔ بری تصویر پیش کرنا، منفی باتیں بیان کرنا، جو بعض پارلیمانوں میں بعض اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے دیکھنے میں آیا، البتہ اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت ہمیشہ ان بنیادی و معتبر اصولوں کی پابند رہی، میں واقعی یہ بات بغیر کسی تکلف کے عرض کر رہا ہوں، یہ حقیقت ہے، تاہم بعض مواقع پر اس کے برخلاف صورت حال بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ صرف پارلیمنٹ کے اندر نہیں بلکہ عمومی مقامات پر، آپ میں سے بہت سے افراد عمومی مقامات پر، نماز جمعہ میں، مختلف شہروں میں نماز جمعہ کے خطبوں سے پہلے تقریریں کرتے ہیں، یا پھر سوشل میڈیا اور سائبر اسپیس میں جو آج سارے لوگوں کی سرگرمیوں کے ایک حصے پر غالب ہے، آپ کی موجودگی اطمینان و سکون کا باعث ہونا چاہئے، اختلاف کا سبب نہیں بننا چاہئے۔ جہاں بھی آپ کوئی بات کہتے ہیں، کوئی بیان دیتے ہیں، کوئی اظہار خیال کرتے ہیں تو آپ کے سامعین کو اس سے حوصلہ ملے کہ آپ مختلف فورسز کے درمیان اتحاد و اتفاق اور تعاون و ہمدلی کے طرفدار ہیں۔ اس کے برخلاف پیغام نہیں جانا چاہئے۔ یہ عوام کی نفسیاتی امن و سلامتی کا معاملہ ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ البتہ اس سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے کہ، مجھے پورا یقین ہے اور مجھے اطلاعات ہیں، دشمن کی سائیبر فوج غلط فائدہ اٹھانے کی تاک میں لگی ہے۔ کبھی وہ آپ کے سیاسی حریف کی طرف سے آپ کو گالیاں دیتے ہیں کہ آپ کو غصہ آ جائے، یا آپ کی نظر میں کسی محترم شخصیت، کسی معتبر دینی و سیاسی شخصیت کی توہین کرتے ہیں کہ آپ آگ بگولہ ہو جائیں، ایسا بھی ہے۔ اس پر بھی توجہ دینا چاہئے۔ یعنی اگر سائیبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں آپ کو کچھ آپ کی رائے کے خلاف نظر آتا ہے تو آپ فورا یقین نہ کر لیجئے کہ یہ چیز حتما آپ کے سیاسی حریف نے یا اس نے جو آپ کا سیاسی مخالف ہے اس نے ڈالی ہے۔ نہیں! ممکن ہے کہ آپ دونوں کے مشترکہ دشمن نے وہ چیز وہاں ڈالی ہو۔

چوتھا نکتہ قانون سازی سے متعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ قانون سازی مجلس شورائے اسلامی کا پہلے درجے کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ قانون در اصلی پٹری بچھانے کا عمل ہے، روڈ میپ طے کرنے کے مترادف ہے جس کے مطابق ملک کے اجرائی ادارے آگے بڑھ سکیں۔ قانون یہی تو ہوتا ہے۔ قانون کا مقصد ملک کی پیشرفت اور عوام کی خدمت ہونا چاہئے۔

اچھے قانون کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں۔ اچھے قانون کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ماہرین کے تحقیقی کام پر استوار ہو۔ بے شک مجھے اطلاع ہے کہ پارلیمنٹ کا تحقیقاتی مرکز بہت اچھے کام کرتا ہے، کمیشنوں میں مختلف ماہرین کو دعوت دی جاتی ہے، ہمیں ان چیزوں کی خبر ہے۔ قانون جتنا زیادہ ماہرانہ تحقیقات پر مبنی ہوگا اتنا اچھا ہوگا۔ خصوصیات میں سے ایک یہی ہے۔ دوسرے اس کی منمانی انٹرپٹیشن نہ کی جا سکتی ہو۔ جو قانونی بالکل واضح نہیں ہے اور الگ الگ انٹرپٹیشن کی جس میں گنجائش ہے، تو وہ لوگ جو غلط فائدہ اٹھانے والے افراد ہیں جنہیں میں قانون شکن ماہرین قانون کہتا ہوں (3) اس کا غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ آپ یہ نہ ہونے دیجئے، قانون بالکل صریحی اور منمانی انٹرپٹیشن کی گنجائش سے خالی ہو۔ اس کے علاوہ ضروری ہے کہ قانون ملکی وسائل اور توانائیوں کے مد نظر قابل عمل ہو۔ کبھی پارلیمنٹ ایسا قانون پاس کر دیتی ہے جسے عملی جامہ پہنانا ممکن نہیں ہوتا۔ یعنی ملکی وسائل اور صلاحیتیں، بجٹ کی وجہ سے یا دوسری وجوہات سے اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں ہیں۔ تو اس کا بھی لحاظ رکھا جانا چاہئے۔ بنیادی دستاویزات سے ہم آہنگ ہو۔ اچھے قانون کی لازمی خصوصیات میں سے ایک یہی ہے کہ کلیدی دستاویزات سے مطابقت رکھتا ہو، اس سے تضاد نہ رکھتا ہو۔

قانون کے سلسلے میں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کثرت نہ جائے۔ اس مسئلے کے بارے میں بعد میں میں عرض کروں گا، اس چیز کو دوہراؤں گا۔ قوانین کا ڈھیر لگ جانا ہماری ایک مشکل ہے۔ کبھی کسی مسئلے کے بارے میں متعدد قوانین پاس ہو گئے ہیں، ان میں کچھ اشتراکات ہیں اور کچھ فرق ہے۔ جو فرق ہے اس سے وہ لوگ خوب غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو غلط فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ قوانین کا ڈھیر لگ جانا ملک کے لئے واقعی ایک بڑی مشکل ہے۔ کبھی کبھی یہ تجویز آتی ہے کہ ہم پارلیمنٹ سے یہ سفارش کر دیں کہ بیٹھ کر ایسے موازی قوانین کو ختم کریں۔ مجھے ڈر ہے کہ پارلیمنٹ کی نصف عمر اسی کام میں نہ صرف ہو جائے کہ بیٹھ کر موازی قوانین کو ختم کریں! لیکن بہرحال قانون سازی میں اس چیز کا خیال رکھئے۔

وہ نکتہ جو میں نے کہا کہ عرض کروں گا یہ ہے کہ آئین نے پارلیمنٹ کے ہاتھ کوئی بل لانے کے لئے کھلے رکھے ہیں۔ یعنی اگر حکومت کی طرف سے کوئی بل نہیں آتا ہے اور کوئی اہم مسئلہ سامنے آ گیا ہے تو آپ خود بل لائیے۔ لیکن اگر بل لانے کا سلسلہ بہت زیادہ ہو گیا –مجھے اس طرح کی کچھ رپورٹیں ملی ہیں، اب یہاں تعداد بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے- تو اس سے مشکل پیدا ہوگی۔ جیسے ہی ملک میں کہیں کوئی مسئلہ پیش آیا، ہم حکومت کا بل آنے اور اس کے اقدام کا انتظار کرنے کے بجائے یہاں خود ہی ایک بل تیار کر لیں! اس سے قوانین کی کثرت ہو جاتی ہے۔ یعنی بل لانے کے سلسلے میں واقعی اس حد اقل مقدار پر اکتفا کرنا چاہئے جو لازمی ہے، اس سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر اس سے زیادہ ہوا تو قوانین کی کثرت کی ایک وجہ یہی بار بار بل آنا ہے۔ آپ اس وقت پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں تو بہت سارے بل موجود ہیں، جن کا جائزہ لیا جانا ہے اس کے بعد نوٹیفکیشن وغیرہ کے مراحل ہیں، اس میں برسوں لگ جائیں گے۔ تو یہ رہا ایک مسئلہ۔

قانون کے بارے میں ایک انتباہ یہ بھی ہے کہ کبھی حکومتوں کو کسی فوری کام کے لئے قانون کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چیز بھی ہمارے یہاں بار بار ہوئی ہے کہ ایک فوری ضرورت پیش آئی ہے بین الاقوامی مسائل کے بارے میں، کسی اہم اقتصادی مسئلے کے تعلق سے، کسی تعمیراتی مسئلے میں جس میں فوری اقدام کی ضرورت ہے، قانون موجود نہیں ہے، حکومتیں ایسے مواقع کے لئے آسان راستہ اختیار کرتی ہیں کہ ہمارے پاس آتی ہے کہ رہبر انقلاب سے اجازت مل جائے اور قانون سازی کے بغیر وہ کام انجام دے سکیں۔ میں عموما یہ اقدام نہیں کرتا، سوائے ایسے وقت کے جب ہنگامی صورت حال کی وجہ سے مجبور ہو جاؤں۔ ایسے مواقع پر جب پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی طرف سے ایک مطالبہ آیا ہے اور صورت حال ہنگامی ہے، تو قانون سازی میں سرعت عمل کا مظاہرہ کرے۔ قانون کے تعلق سے یہ دوسرا انتباہ تھا۔ البتہ آپ آگاہ ہیں کہ قانون سازی کے سلسلے میں کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن مدت ہوئی کہ جاری ہو چکا ہے۔ (4)  ان پالیسیوں کے نفاذ کے لئے قانون کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ کو چاہئے کہ خود ان پالیسیوں کے لئے قانون بنائے، یہ قانون سازی ہنوز نہیں ہو سکی ہے۔ یہ کام جلدی ہو جانا چاہئے۔ یہ چوتھا نکتہ ہے۔

پانچواں نکتہ نگرانی کے بارے میں ہے۔  البتہ آئین میں نگرانی کا لفظ نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی نگرانی کی بات نہیں ہے لیکن دوسرے بہت سارے نکات جو سوال کرنے، انتباہ دینے، تحقیق کرنے وغیرہ سے متعلق پارلیمنٹ کے بارے میں ذکر کئے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ نگرانی لازمی ہے۔ یعنی آپ تحقیق کرتے ہیں، سوال کرتے ہیں یا انتباہ دیتے ہیں تو کیسے؟ اس طرح کہ آپ کو اطلاعات اور آگاہی ہونا چاہئے۔ بنابریں مجریہ کے کاموں پر نگرانی رکھنا پارلیمنٹ کے فرائض میں شامل ہے۔ اس سلسلے میں دو یاددہانیاں کرنی ہیں۔

پہلی یاددہانی یہ ہے کہ نگرانی کا مقصد حکومت کی کارکردگی کو زیادہ موثر و نتیجہ خیز بنانا ہے۔ اس لئے کہ اگر حکومت کی کارکردگی میں کہیں کوئی خامی ہے، تو اسے آپ پارلیمنٹ کی حیثیت سے محسوس کریں، پتہ لگا لیں اور انتباہ دیں اور حکومت کی کارکردگی میں ارتقاء پیدا ہو اور کام آگے بڑھے۔ نگرانی کا مقصد یہ ہے۔ خدا نخواستہ اس سے ہٹ کے کسی اور مقصد کے لئے نگرانی نہیں ہونا چاہئے۔ یعنی مثلا اگر کسی کو کسی وزیر سے شکایت ہو جائے تو انتباہ دینا شروع کر دے، سوال پر سوال کرنے لگے، یا امپیچمنٹ وغیرہ کی بات ہو۔ جماعتی مسائل، ذاتی مسائل، سیاسی رجحان کے مسائل ہرگز اس میں دخیل نہ ہونے پائیں۔ نگرانی صرف اس جذبے کے تحت ہونا چاہئے: مجریہ میں کہیں کوئی خامی نظر آئی تو اس سلسلے میں انتباہ دیا جائے متوجہ کرایا جائے اور اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ پہلی چیز ہے نگرانی کے تعلق سے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ نگرانی کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار نہ ہوں۔ کبھی لحاظ اور  تکلف میں وہاں بھی نگرانی نہیں کی جاتی جہاں ہونی چاہئے، یہ غلط ہے۔ اور کبھی ضرورت سے زیادہ نگرانی ہونے لگتی ہے۔ بہت سارے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان برسوں میں یعنی ان چند برسوں میں جن کے دوران ہم عہدے پر ہیں، اب جب میں سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ ساری حکومتوں میں وزرا مجھ سے رجوع کرتے تھے اور شکایت کرتے تھے پارلیمنٹ میں بہت زیادہ سوال پوچھے جانے کی۔ وہ کہتے تھے کہ پارلیمنٹ ہال میں بھی اور کمیشنوں میں بھی ہمیں لے جاتے ہیں، ہمارے کئی گھنٹے وہاں صرف ہو جاتے ہیں۔ سوال کرتے ہیں، سوالوں میں الجھاتے ہیں، اس طرح کے کام کرتے ہیں۔ یہ حد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اس میں کوتاہی بھی نہیں کی جانی چاہئے۔ یعنی جہاں سوال پوچھا جانا ہے، جہاں نگرانی ہونی ہے وہاں ہونی چاہئے۔ لیکن منصفانہ انداز میں۔ نگرانی منصفانہ ہونی چاہئے۔ ذاتی اور سیاسی مسائل بیچ میں نہیں آنا چاہئے۔

چھٹا نکتہ۔ پارلیمنٹ میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ارکان پارلیمنٹ کی کارکردگی کی نگرانی کرنے کے لئے۔ جو لوگ پرانے ہیں انہیں یاد ہوگا۔ ایک دور میں انتباہ دیا گیا (5) اور اراکین نے فورا جاکر ایک کمیٹی تشکیل دے دی پارلیمنٹ کے ارکان کی کارکردگی پر نگرانی رکھنے کے لئے (6)۔ اس کمیٹی کو کیوں بنایا گيا؟ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ کبھی کوئی رکن پارلیمنٹ غفلت میں کسی خاص جذبے سے کوئی ایسا کام کر دیتا ہے جس سے 290 اراکین پارلیمنٹ پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ یعنی ایک شخص کے ایک عمل سے پوری پارلیمنٹ عوام کی نظروں سے گر جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی پیشگی روک تھام کی جائے۔ اگر پیشگی روک تھام نہ ہو پائے تو پھر اس کا علاج کیا جانا چاہئے۔ یہ اہم ہے۔ ہمیں نظر نہیں آیا اور ہمیں پتہ نہیں چلا کہ یہ کمیٹی اس انداز سے کوئی کام کرتی جس کی اس سے توقع تھی۔ یہ ہماری اگلی سفارش ہے۔

ساتواں نکتہ۔ عالمی مسائل اور خارجہ پالیسی کے موضوعات میں پارلیمنٹ کے کردار کے بارے میں ہے۔ پارلیمنٹ ایک بڑی طاقت ہے۔ دنیا میں حکومتیں پارلیمانوں کی اس بڑی طاقت سے استفادہ کرتی ہیں۔ مذاکرات میں بھی، روابط میں بھی اور عملی تعاون میں بھی۔ مذاکرات کی میز پر آپ فریق مقابل سے کوئی بات کہتے ہیں تو وہ جواب دیتا ہے: "جناب! ہماری پارلیمنٹ یہ نہیں کرنے دے گی، ہمارے یہاں قانون ہے، ہم نہیں کر سکتے۔" پارلیمنٹ کو مذاکرات میں ایک سہارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ حکومتوں کو جو الگ الگ قسم کے چیلنجز ہوتے ہیں، کسی بھی حکومت کے سامنے گوناگوں معاملات میں کچھ چیلنجز ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ حکومت کو بہت بڑا سہارا دے سکتی ہے۔ حکومت کی پوزیشن مضبوط کر سکتی ہے۔ لہذا سیاسی، بین الاقوامی اور سفارتی امور میں آپ کا کردار بہت اہم ہے۔

اچھے کاموں کا ایک نمونہ یہی اسٹریٹیجک ایکشن کا قانون ہے (7) جو گزشتہ پارلیمنٹ میں بنا۔ یہ بڑے اچھے کاموں میں سے ایک تھا۔ البتہ بعض نے اعتراض کیا، اس کے نقائص بتائے، لیکن یہ نکتہ چینی بالکل درست نہیں تھی۔ یہ بہت اچھا کام ہوا تھا۔ یہ کردار بہت موثر ہو سکتا ہے۔ کئی قسم کے کردار ہیں۔ کبھی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے سفر اور ملاقاتوں کی شکل میں ہے۔ جیسے یہی حالیہ سفر جو جناب قالی باف نے کیا اس اجلاس میں شرکت کے لئے جو منعقد ہوا (8)۔ یہ مفید اور منفعت بخش سفر تھا۔ حکومت اس سے کافی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ یا جو سفر بین الپارلیمانی وفود کرتے ہیں۔ یا ان سب سے ہٹ کر مثال کے طور پر کوئی بیان مسئلہ فلسطین جیسے کسی معاملے میں، غزہ جیسے مسئلے میں آپ کوئی اعلامیہ جاری کرتے ہیں اس کا دنیا کی عمومی فضا میں اس قضیئے پر کافی اثر پڑتا ہے۔ اعلامیہ بھی نہیں جاری کیا، بلکہ اراکین پارلیمنٹ کوئی بیان دیں، کچھ بول دیں۔ میں نے کبھی اس طرح کی توقع ظاہر کی کہ کچھ چیزوں کے بارے میں یہ توقع ہوتی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ خارجہ پالیسی کے کسی خاص مسئلے میں کچھ بولیں، کوئی بیان دیں۔ دنیا میں یہ چیز معمول کا حصہ ہے۔ مثلا خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ نے کوئی بات کہی تو یہ چیز دنیا میں مشہور ہوتی ہے۔ بہت سے کام پارلیمانیں کرتی ہیں اور حکومتیں پارلیمانوں کے ان کاموں سے استفادہ کرتی ہیں۔ یہی اسلامی جمہوریہ کے خلاف، ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا جامع قانون، یہی قانون جو 'سیسادا' (9) کے نام سے مشہور ہے، اسے ان کی پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے۔ البتہ اس سال کا ڈیموکریٹ صدر (10) دوہرے چہرے والا بد طینت شخص تھا، دوہرے چہرے کا مالک تھا اور طینت بھی بری تھی، چالاک بھی تھا۔ ہمارے عہدیداروں سے زیادہ چالاک تھا۔ بعض معاملات میں انسان ان چیزوں کو واضح طور پر دیکھتا ہے، اس نے اس قانون پر دستخط کئے۔ چاہتا تو دستخط نہ کرتا۔ دعوی کرتا تھا کہ ایٹمی مسئلے میں اور دیگر مسائل میں ایران سے تعاون کرنا چاہتا ہے، مل کر کام کرنا چاہتا ہے، لیکن دوسری طرف اس نے اس پر دستخط بھی کئے۔ جامع قانون ان کی پارلیمنٹ نے بنایا۔ پارلیمانیں یہ سارے کام کرتی ہیں۔ لہذا پارلیمنٹ ان میدانوں میں سرگرم کردار ادا کر سکتی ہے۔

پابندیوں کے اسی مسئلے میں -جس کا ذکر زبانوں پر بہت رہتا ہے، خاص طور پر انتخابات کے ایام میں اسے بار بار دوہرایا جاتا تھا، انتخابی امیدواروں، ان کے طرفداروں اور عوام وغیرہ کی طرف سے- پارلیمنٹ سرگرم کردار ادا کر سکتی ہے۔ واقعی موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہم یہ کر سکتے ہیں۔ ہم شرافت مندانہ ذرائع کی مدد سے پابندیوں کو ہٹوا بھی سکتے ہیں اور اس سے بھی بالاتر ہم پابندیوں کو بے اثر بنا سکتے ہیں۔ میں نے بار بار یہ بات کہی ہے (11) پابندیاں ہٹانا تو آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے، آپ کو کچھ تدبیریں سوچنا ہیں، پابندیاں ہٹانے کا کام فریق مقابل کے ہاتھ میں ہے، لیکن پابندیوں کو بے اثر بنا دینا تو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ پابنیدوں کو بے اثر بنانے کے بہت اچھے طریقے موجود ہیں۔  ان میں بعض طریقے ہم آزما بھی چکے ہیں اور اس کا اثر بھی دیکھ چکے ہیں۔ یعنی حکومتی عہدیداروں نے انہیں استعمال کیا اور اس کا اثر ہم نے دیکھا ہے۔ بہت اچھا تھا۔ یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ اس میدان میں پارلیمانیں، ہماری عزیز پارلیمنٹ اپنا رول ادا کر سکتی ہے۔

آٹھواں نکتہ جو کہ آخری نکتہ ہے پارلیمنٹ کے فوری کام یعنی کابینہ کو جسے جناب پزشکیان حفظہ اللہ ان شاء اللہ پارلیمٹ کے سامنے رکھیں گے، اعتماد کا ووٹ دینا ہے۔ یہ آپ کا فوری کام ہے۔ بے شک جتنی جلدی ممکن ہو مجوزہ کابینہ کو، ان اقدامات کے بعد جو انجام دئے جانے ہیں، منظوری دی جائے اور حکومت اپنے کام میں مشغول ہو، ملک کے لئے بہتر ہے۔ لیکن اس سلسلے میں آپ کی بھی اور منتخب صدر محترم کی بھی ذمہ داری بہت اہم ہے۔ کس شخص کو اس میدان میں آپ عہدہ دینا چاہتے ہیں؟ اقتصاد کے میدان میں، ثقافت کے میدان میں، تعمیراتی سرگرمیوں کے میدان میں، پروڈکشن کے میدان میں کسے ذمہ داری سونپنا ہے؟ اسے ذمہ  داری سونپنا چاہئے جو 'امین' ہو 'صادق' ہو، 'دیندار' ہو۔ پورے وجود سے اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام پر اعتقاد رکھتا ہو۔ 'ایمان' ایک اہم پیمانہ ہے۔ 'مستقبل کے سلسلے میں پرامید ہونا' افق کو مثبت نگاہوں سے دیکھنا اہم پیمانوں میں سے ایک ہے۔ جن لوگوں کو افق تاریک نظر آتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی کام کیا ہی نہیں جا سکتا، انہیں کوئی بڑا اور کلیدی عہدہ نہیں دیا جا سکتا۔ 'پابند شریعت' ہونا متشرع ہونا بھی اہم پیمانوں میں سے ایک ہے۔ پاکدامنی و صداقت میں شہرت بھی ایک پیمانہ ہے۔ ان پیمانوں کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ صدر محترم بھی اسے ملحوظ رکھیں، پارلیمنٹ بھی اسے مد نظر رکھے۔ یعنی عہدیداروں کے انتخاب میں آپ کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے۔ برا ریکارڈ نہ ہو۔ یہ بھی ایک پیمانہ ہے۔ قومی سوچ رکھتا ہو یعنی جماعتی و سیاسی مسائل وغیرہ میں الجھا رہنے والا نہ ہو، ملک کے سلسلے میں قومی سوچ رکھتا ہو۔ کارآمد انسان ہو۔ ان چیزوں کو تحقیق کرکے سمجھا جا سکتا ہے۔ البتہ کارآمد ہونا تو کام سونپے جانے کے بعد پتہ چلتا ہے، لیکن تحقیق کے ذریعے، پچھلے ریکارڈ کو دیکھ کر اور باتوں کو سن کر بھی کارآمد ہونے یا نہ ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ چیزیں ضروری ہیں۔

میری نظر میں یہ ذمہ داری بہت اہم ہے جو آپ کے کاندھوں پر بھی ہے اور منتخب صدر کے دوش پر بھی ہے کہ یہ کام انجام پائے۔ ان شاء اللہ وزرا کی ایک اچھی، کارآمد، کارساز، دیندار اور انقلابی ٹیم عہدہ سنبھالے اور ملکی امور کو آگے لے جا سکے۔ یہ ہماری دعا بھی ہے اور امید بھی ہے۔ ہم آپ سب کے لئے دعا کرتے ہیں، میں منتخب صدر کے لئے بھی دعا کرتا ہوں اور آپ کے لئے بھی دعا کرتا ہوں اور پارلیمنٹ کے اسپیکر کے لئے بھی دعا کرتا ہوں۔ یہ ہماری دائمی دعا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ صدر کون ہے، یا پارلیمنٹ اسپیکر کون ہے یا عدلیہ کا سربراہ کون ہے، ہماری دعا ہمیشہ ان کے شامل حال رہتی ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ آپ کامیاب رہیں۔

غزہ کا مسئلہ بدستور عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میں نے غیر ملکی مسائل اور سفارتکاری وغیرہ کے میدان میں پارلیمنٹ کے کام کے سلسلے میں جو کچھ عرض کیا اس کا ایک مصداق یہی غزہ کا مسئلہ ہے۔ چین سے نہ بیٹھیے، خاموش نہ رہیے، کام اہم ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس وقت مہینوں گزر جانے کے بعد بہت سے لوگوں میں وہ پہلے جیسا جوش نہیں ہے لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ اس مسئلے کی وہی پہلے دن جیسی اہمیت اب بھی ہے بلکہ اس سے زیادہ۔ مزاحمت کی طاقت روز بروز پہلے سے زیادہ نمایاں ہو رہی ہے۔ غاصب صیہونی حکومت کی پشت پر امریکا جیسی ایک بڑی فوجی، سیاسی اور معاشی طاقت، ایک مزاحمتی گروہ سے لڑ رہی ہے لیکن وہ اسے گھٹنوں پر نہیں لا سکی ہے۔ چونکہ حماس کو ہرا نہیں سکتے، چونکہ مزاحمت کو گھٹنوں پر نہیں لا سکتے اس لیے وہ اپنی بھڑاس عام لوگوں پر نکال رہے ہیں۔ عام لوگوں پر بم گرا رہے ہیں۔ دنیا کی نظروں کے سامنے اسکول، اسپتال، بچوں، عورتوں کو حد درجہ ظلم و جرم اور انتہائي حیوانیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دنیا کے لوگ اب درحقیقت غاصب خبیث حکومت کے خلاف فیصلہ کر رہے ہیں۔ مسئلہ ختم نہیں ہوا ہے، مسئلہ بدستور جاری ہے۔ آپ ان شاء اللہ سرگرم رہئے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ وہی سامنے لائے جس میں اسلام و مسلمین کی بھلائی ہو، آپ کی اور قوم کی بھلائی ہو اور ہم سب کم از کم اللہ کی بارگاہ میں اپنے ان کاموں کے لئے جو انجام دے رہے ہیں، مناسب وجہ بیان کر سکیں، کچھ بول سکیں اور ہمارے کام اللہ کی بارگاہ میں قابل دفاع ہوں۔

اللہ تعالی ان شاء اللہ آپ سب کی حفاظت کرے، امام خمینی کی پاکیزہ روح کو، شہدا کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی و خوشنود رکھے، امام زمانہ کے قلب مقدس کو (ہماری روحیں ان پر قربان) ان شاء اللہ ہم سے راضی رکھے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌الله و‌ برکاتہ

1 اس ملاقات کے آغاز میں جو بارہویں پارلیمنٹ کا ٹرم شروع ہونے کی مناسبت سے انجام پائی مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر جناب محمد باقر قالی باف نے ایک رپورٹ پیش کی۔

2 حاضرین کی ہنسی

3 منجملہ مورخہ 24 مئی 2023 کو مجلس شورائے اسلامی کے اراکین کے درمیان تقریر

4 اسلامی نظام کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن مورخہ 28 ستمبر 2019

5 آٹھویں مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر اور اراکین سے مورخہ 8 جون 2010 کا خطاب

6 مورخہ 4 اپریل 2011

7 پابندیاں ختم کرانے اور ملت ایران کے حقوق کی حفاظت کے لئے اسٹریٹیجک اقدام کا قانون جو گیارہویں  پارلیمنٹ کے ذریعے 2 دسمبر 2020 کو پاس ہوا۔

8 بریکس کی بین الپارلیمانی یونین کا اجلاس رواں سال 2024 میں 11 جولائی کو روس کے سن  پیٹرزبرگ شہر میں ہوا۔

9 (CISADA) ایکٹ، یا پابندیوں کا جامع قانون جو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پابندیوں کی اساس ہے۔

10  باراک اوباما

11 منجملہ شہید الحاج جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی برسی کے پروگراموں کی منتظمہ کمیٹی سے مورخہ 16 دسمبر 2020 کی ملاقات۔