خطاب حسب ذیل ہے؛
بہت بہت خوش آمدید پیارے بھائیو، پیاری بہنو، عظیم اور عزیز ایرانی قوم کے نمائندو جو مجلس شورائے اسلامی میں موجود ہیں۔ سب سے پہلے میں عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں؛ یقیناً یہ پورے عالم اسلام کے لیے ایک عظیم تہوار ہے۔ واقعہ غدیر میں جن مضامین پر توجہ دینی چاہیے، وہ بہت وسیع ہیں جو اسلام کی معرفت تک پہنچاتے ہیں۔ صرف یہ نہیں کہ امیرالمؤمنین کو ولایت پر مقرر کیا گیا؛ اس کے تحت اور بھی اہم مفاہیم موجود ہیں۔ اسی طرح، میں حضرت ہادی النقی (سلام اللہ علیہ) کی ولادت کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
محترم اور عظیم مجلس شورائے اسلامی کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے؛ ہم نے کہا، دوسروں نے کہا، اور اب الحمدللہ جناب آقائے قالیباف کی اس تفصیلی رپورٹ کے ساتھ — جنہیں پارلیمنٹ اسپیکر منتخب ہونے کی ہم مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں — درحقیقت، تمام یا زیادہ تر ضروری باتوں کا ذکر ہو چکا ہے جو اس بیان اور دیگر بیانات میں موجود ہیں۔ میں بھی چند جملے عرض کرتا ہوں۔
اسمبلی کی شان، اسمبلی کا مقام، قانون کی شان کی وجہ سے ہے۔ جو چیز قانون ساز اسمبلی کو قدر و منزلت دیتی ہے اور اسے ایک معزز اور عظیم مقام عطا کرتی ہے، وہ قانون سازی کا مسئلہ ہے؛ کیونکہ قانون اجتماعی زندگی کی بنیاد ہے۔ اجتماعی زندگی اور معاشرتی حیات کی لازمی شرط قانون ہے؛ یہ کام اسمبلی کرتی ہے اور اسمبلی کی اہمیت بنیادی طور پر اسی وجہ سے ہے۔
بے شک قانون کی بہت اہمیت ہے، لیکن عقلی اعتبار سے وہ قانون زیادہ معتبر ہے جو اجتماعی عقل پر مبنی ہو۔ تاریخ میں ایسے قوانین موجود رہے ہیں اور ہیں جو قانون تو تھے، بعض اچھے بھی تھے، برے بھی نہیں تھے، لیکن وہ کسی ایک فرد کے دماغ سے نکلے تھے؛ "یاسای چنگیزی" مشہور ہے۔ بہت معتبر اور مضبوط قوانین بنائے گئے اور لوگوں نے ان پر عمل کیا، لیکن عقلا کے نزدیک وہ قانون جو کسی ایک انسان کے دماغ سے نکلتا ہے، اس قانون کی قدر نہیں رکھتا جو اجتماعی عقل سے وجود میں آتا ہے۔ اب اگر اس اجتماعی عقل کا ایک اور امتیاز بھی ہو اور وہ یہ کہ جو لوگ بیٹھ کر یہ قانون بناتے ہیں — عقل والے — وہ کسی قوم کے نمائندے ہوں، یعنی درحقیقت وہ قوم خود قانون بنا رہی ہو؛ تو ظاہر ہے کہ اس کی عظمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ قانون ساز اسمبلی کا قانونی اعتبار اسی پر مبنی ہے؛ اولاً یہ قانون ساز ہے، ثانیاً اس کی قانون سازی اجتماعی عقل سے نکلتی ہے، ثالثاً یہ گروہ ایک قوم کا منتخب کردہ ہے؛ قوم نے سوچا ہے، اس گروہ کو چنا ہے، اکثریت کے ساتھ اسمبلی میں بھیجا ہے۔
تو، یہ قانون ساز اسمبلی کا قانونی مقام ہے؛ لیکن اس قانونی مقام کے ساتھ ساتھ ایک اور آزمائش گاہ بھی ہے جس کا حساب لگانا ضروری ہے اور وہ ہے اسمبلی کی حقیقی شان اور حقیقی وزن۔ چلئے ٹھیک ہے، اب ہم سمجھ گئے کہ دنیا کی جمہوریتوں کی قانون ساز اسمبلیوں کو عقلا کے نزدیک یہ اعتبار حاصل ہے، لیکن کیا ان اسمبلیوں کا حقیقی وزن یکساں ہے؟ قانونی اعتبار سے تو وہ ایک جیسی ہیں، لیکن کیا حقیقی اعتبار سے بھی یکساں ہیں؟ نہیں، وہ اسمبلی جو وحی پر، دین پر، پاکباز انسانوں پر، مومن اور پرہیزگار انسانوں پر مبنی ہو، وہ اسمبلی اس اسمبلی کے برابر نہیں جو بے پروا انسانوں پر مشتمل ہو؛ اب خواہ کسی بھی وجہ سے انہیں ان کے ملک میں منتخب کیا گیا ہو، لیکن وہ کوئی بلند مرتبہ انسان نہیں ہیں، کوئی ممتاز انسان نہیں ہیں، کوئی ایسا انسان نہیں جس پر ذاتی معاملے میں بھروسہ کیا جا سکے، اجتماعی اور عوامی معاملے کی تو بات ہی چھوڑیں۔ جو اسمبلی ایسے انسانوں پر مشتمل ہو، اس کا حقیقی وزن اس اسمبلی سے زمین آسمان کا فرق رکھتا ہے جو پرہیزگار اور بلند مرتبہ انسانوں پر مشتمل ہو۔ یا مثال کے طور پر وہ اسمبلی جس کا ہمہ تن مقصد یہ ہو کہ عدل کی خدمت کی جائے، کمزوروں کو مزید کمزور کرنے اور مظلوموں پر دباؤ سے سختی سے اجتناب کیا جائے اور اس کا راستہ روکا جائے، یہ اسمبلی اس اسمبلی کے برابر نہیں جو ظلم کی مدد کرتی ہے، امتیاز کی مدد کرتی ہے، طبقاتی فرق کی مدد کرتی ہے، انسانوں کو تکلیف دینے والوں کی مدد کرتی ہے، مثلاً غزہ کے قاتلوں کی مدد کرتی ہے؛ یہ دونوں یکساں نہیں ہیں۔
لہٰذا، قانونی وزن اور معیار کے علاوہ جو تمام اسمبلیوں میں موجود ہوتا ہے اور تمام اسمبلیوں کو اعلیٰ مقام دیتا ہے، ہمارے پاس ایک اور معیار اور ایک اور پیمانہ ہے جو اس کی حقیقی اہمیت ہے جو کہیں موجود ہوتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی۔ اگر ہم اس نظر سے دیکھیں، تو پھر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے نظام میں مجلس شورائے اسلامی کا مقام کہاں ہے؛ میں یہی کہنا چاہتا ہوں۔ آپ کی شان اور مقام بطور اسلامی مشاورتی اسمبلی کے نمائندے کے، اسلامی ایران میں، اس دنیا میں جسے ہم دیکھ رہے ہیں، بے مثال ہے۔ آپ "مجلس شورائے اسلامی" ہیں۔ امام (رضوان اللہ علیہ) نے "اسلامی" لفظ پر زور دیا۔ پہلے دور میں جب ہم نمائندہ تھے، کچھ لوگ اس وقت بھی کچھ اور کہتے تھے، امام نے فرمایا نہیں، "مجلس شورائے اسلامی، اسلامی مشاورتی اسمبلی"۔ لہٰذا مجلس شورائے اسلامی کا مقام بہت بلند ہے؛ یعنی اس اسمبلی اور دنیا میں موجود دوسری اسمبلیوں کے موازنے میں، ہم اس اسمبلی کے امتیازات کو نظرانداز نہیں کر سکتے جو ہمارے ملک میں موجود ہے۔ انقلاب کے آغاز سے اب تک، اس اسمبلی کی مختلف شکلیں اور سیاسی رجحانات رہے ہیں — اس میں کوئی شک نہیں؛ تمام ادوار یکساں نہیں تھے — لیکن مجموعی طور پر جب ہم دیکھتے ہیں، تو یہ اسمبلی دوسری اسمبلیوں سے مختلف ہے؛ یہ اسمبلی ایک ممتاز اسمبلی ہے، ایک منفرد اسمبلی ہے۔ مجلس شورائے اسلامی کے لیے ہمارا احترام اس لیے ہے کہ اس کے قانونی وزن کے علاوہ، اس کا ایک حقیقی وزن [بھی] ہے۔ نمائندے کے لیے ہمارا احترام اس لیے ہے کہ وہ اس قیمتی اور عظیم گروہ کا حصہ ہے۔ لہٰذا، امام (رضوان اللہ علیہ) کہتے تھے کہ اسمبلی قوم کے فضائل کا خلاصہ ہے؛(2) یعنی حقیقی معنوں میں وہ اسمبلی جو اس طرح پروان چڑھتی ہے، جس کی یہ بنیاد ہوتی ہے، وہ اسمبلی قوم کے فضائل کا خلاصہ سمجھی جاتی ہے اور اس کی قدر و قیمت بہت بلند و بالا ہے۔
میرے خیال میں اگر ہم اس اسمبلی کے مندرجات اور حقیقی مواد کو دیکھیں، تو اسمبلی ایک عبادت گاہ ہے؛ یہ اسمبلی آپ کی مسجد ہے اور حقیقی معنوں میں عبادت کی جگہ ہے۔ آپ جو بیٹھ کر سوچتے ہیں، محنت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں، وہی کام جو اب ڈاکٹر قالیباف نے بیان کیے ہیں، آپ انہیں انجام دیتے ہیں، انہیں آگے بڑھاتے ہیں، قانون کو اچھی طرح بناتے ہیں وغیرہ، ان میں سے ہر ایک، ایک عبادت ہے۔ تو اسمبلی مسجد بن گئی اور "لَمَسجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقوىٰ مِن اَوَّلِ یَومٍ اَحَقُّ اَن تَقومَ فیهِ فیهِ رِجالٌ یُحِبّونَ اَن یَتَطَهَّروا" (3) کی مصداق ہے؛ یہ آیت اس پر صادق آتی ہے۔ مجلس شورائے اسلامی کی اہمیت یہی ہے۔ میں اسمبلی کو اسی نظر سے دیکھتا ہوں اور اسمبلی کو اسی تعریف سے پہچانتا ہوں۔
اسلامی جمہوریہ میں اسمبلی کی فطرت ایک شریف اور پاکیزہ فطرت ہے، اور دنیا کی دیگر قانون ساز اسمبلیوں میں بے مثال ہے؛ یہ ہمارا نظریہ ہے۔ لیکن یہاں ایک اہم نکتہ موجود ہے؛ وہ یہ کہ ہمیں اس فطرت کو اسمبلی کے مختلف مصداقوں میں محفوظ رکھنا چاہیے۔ یعنی جب یہ بنیاد رکھی گئی کہ یہ "تقویٰ پر قائم ہو"، تو ہمیں تقویٰ کو اسمبلی میں زندہ رکھنا ہوگا۔ [کیونکہ] جب یہ عبادت گاہ بنائی گئی ہے، اور عبادت میں اخلاص ضروری ہے، تو ہمیں اخلاص کو برقرار رکھنا ہوگا۔ میں نے اس سلسلے میں کچھ نکات یادداشت کیے ہیں جو اب عرض کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ ضروری ہے، انہیں برقرار رکھنا ہوگا؛ یعنی مجلس شورائے اسلامی کی شرافت، جیسا کہ ہم نے بیان کیا، ایک ایسی چیز نہیں جو خود بخود قائم رہے؛ اسے محفوظ رکھنا ہوگا، اس طرح اس کی حفاظت کرنی ہوگی، اسے اسی طرح چلانا ہوگا؛
ورنہ برصیصا عابد جیسا شخص بھی کبھی اپنے عبادت کے مقام سے گر جاتا ہے: " کَمَثَلِ الکَلبِ اِن تَحمِل عَلَیهِ یَلهَث اَو تَترُکهُ یَلهَث؛(۴) ایسا ہو جاتا ہے۔ اسے برقرار رکھنا ہوگا، اسے محفوظ کرنا ہوگا۔
اسے کس کو محفوظ رکھنا ہے؟ آپ کو، آپ کو اسے برقرار رکھنا ہے، اسمبلی کے خود نمائندوں کو ہی اس شان کو قائم رکھنا ہوگا۔ ہم باہر سے اسمبلی کا احترام کریں گے اور ان شاء اللہ کرتے ہیں — یعنی سب کو اسمبلی کا احترام کرنا چاہیے — لیکن اسمبلی کے اندر کون اس حقیقت، اس فطرت، اس شرافت، اس پاکیزگی کو جو مجلس شورائے اسلامی میں موجود ہے، محفوظ رکھے گا؟ اسمبلی میں موجود نمائندے؛ وہی ہیں [جو اسے برقرار رکھیں گے]۔ لہٰذا آپ کا رویہ بہت اہم ہے، آپ کا طرز عمل بہت اہم ہے۔ لہٰذا اسمبلی کے لیے کچھ چیزیں ایسی ہیں جنہوں ضرور انجام دینا چاہئے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے ضرور پرہیز کرنا چاہئے۔ اب ان طویل سالوں میں ہر اسمبلی کے قیام پر، میں نے کچھ الفاظ، کچھ سطریں، کچھ صفحات کے طور پر تجاویز اور اپنی رائے پیش کی ہے جو حضرات کے سامنے موجود ہیں۔ کچھ وہ وہ چیزیں ہیں جو ضرور کرنا چاہئے اور کچھ ایسی چیزیں ہیں سے ضرور پرہیز کرنا چاہئے۔ ان چیزوں کو محوظ رکھنا ضروری ہے؛ کچھ باتیں آپ نے خود کہی ہیں، دوسروں نے کہی ہیں، میں نے بھی اب کچھ نکات یادداشت کیے ہیں جو پیش کرتا ہوں۔
ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ نمائندے کو خود کو جوابدہ سمجھنا چاہیے؛ کس کے سامنے؟ اللہ کے سامنے اور قانون کے سامنے؛ یعنی جو بھی اقدام آپ کرنا چاہتے ہیں، یہ محسوس کریں کہ ایک دن آپ سے اس بارے میں پوچھا جائے گا؛ [خود کو] جوابدہ سمجھیں۔ جوابدہ ہونے کا تقاضا کیا ہے؟ یہ کہ اسمبلی میں جو کام آپ کرتے ہیں، جس قانون کو آپ ووٹ دیتے ہیں، جس قانون کو آپ ووٹ نہیں دیتے، اس ووٹ دینے یا نہ دینے میں ذاتی اغراض شامل نہ ہوں۔ واقعی غور کریں، تشخیص اور دقت نظر سے دیکھیں کہ مصلحت کیا ہے، کون سی چیز اللہ تعالیٰ کو راضی کرتی ہے، اسی کے مطابق ووٹ دیں؛ ذاتی اغراض [شامل نہ ہوں]۔ جوابدہ ہونے کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان ذاتی اغراض اور مقاصد کو شامل نہ کرے؛ آج کل کی اصطلاح میں جو ظاہراً غیر ملکی اصطلاح سے لی گئی ہے، "مفادات کا تصادم"( Conflict of interest) مفادات کے تصادم کے آگے ہار نہ مانیں۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ نمائندے کو اپنی بات، اپنے اقدام اور اپنے فیصلے کے ملک کے عوامی ماحول پر اثر کا ادراک ہونا چاہیے۔ آپ نمائندہ بننے سے پہلے مثلاً معلم تھے، ڈاکٹر تھے، تاجر تھے، طالب علم تھے، فرض کریں مختلف کاموں میں مصروف تھے، آپ کی کوئی رائے ہوتی، کوئی بات کہتے تو اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا، اتنا ردعمل نہیں ہوتا؛ لیکن جب آپ اس فورم پر آ جاتے ہیں — اسمبلی کا فورم — تو آپ کی بات کا اب اثر ہوتا ہے۔ کچھ لوگ آپ کی بات کا ایک مطلب نکالتے ہیں — سب پرہیزگار اور متقی نہیں ہوتے؛ کچھ بے تقویٰ بھی ہوتے ہیں — اور اپنی خواہش کے مطابق اس بات کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، ملک کے خلاف، نظام کے خلاف، حکومت کے خلاف، قومی مفادات کے خلاف؛ بات کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔
اسمبلی کے پلیٹ فارم پر آپ جو کچھ کہتے ہیں، اسے معاشرے میں امید اور اطمینان پیدا کرنے والا ہونا چاہیے۔ البتہ خوش قسمتی سے اب کچھ عرصے سے اسمبلی کا یہی حال ہے؛ پہلے ایک دور میں جب اسمبلی کا مائیکروفون کھولا جاتا تو اس سے جھگڑے، اختلافات اور ایسی ہی باتیں نکلتی تھیں؛ لیکن اب الحمدللہ ایسا نہیں ہے، اسمبلی اختلاف انگیز نہیں ہے اور کافی حد تک واقعی اطمینان بخش ہے؛ یہ اہم ہے۔ اسمبلی میں جو کچھ کہا جاتا ہے اور جو نمائندے کی زبان سے نکلتا ہے، وہ اسمبلی کی عقلیت کی علامت ہونا چاہیے، یہ ظاہر کرے کہ سوچ سمجھ کر کام ہو رہا ہے اور بات کی جا رہی ہے؛ سامعین کو یہی تاثر ملنا چاہیے؛ اس کا بہت اثر ہوتا ہے۔ یہ انقلاب کے اصولوں سے وابستگی کا مظہر ہونا چاہیے۔ یہ ہرگز نہ ہونے دیں کہ فلاں شخص اور فلاں شخص کی خوشنودی جو دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے ہیں، ہماری بات پر اثر ڈالے۔ نہیں، ہمارے اپنے اصول ہیں، ہمارے اپنے مقاصد ہیں، ہمارے واضح فرائض ہیں، اور ان سے وابستگی نمائندوں کے بیانات میں ظاہر ہونی چاہیے۔
یہ عزم اور اقتدار کی علامت ہونا چاہیے، خاص طور پر بیرونی ماحول میں؛ یعنی آپ کو ایسے انداز میں بات کرنی چاہیے جو عزم کی علامت ہو، اقتدار کی علامت ہو، یہ ظاہر کرے کہ قوم — جس کے آپ نمائندہ ہیں — عزم رکھتی ہے، ارادہ رکھتی ہے، قومی ارادہ مضبوط ہے، اقتدار رکھتی ہے۔ یہ خلاف واقعہ بھی نہیں ہے، حقیقت بھی یہی ہے؛ ہماری قوم واقعی ایک عزم والی، پختہ ارادہ والی قوم ہے۔ آپ کو کون سی قوم ملے گی جو دنیا کی ان طاقتوں کے مقابلے میں کھڑی ہو جو اب فضول باتیں کرنے، دباؤ ڈالنے اور ہر کسی کو حکم دینے میں مصروف ہیں، اور اپنی بات مضبوطی سے، صراحت سے اور واضح طور پر کہے؟ ہماری قوم کے علاوہ، شاید ہی کوئی قوم ایسی ہو۔ یورپ کے لوگ کچھ چیزوں کے سامنے کانپ جاتے ہیں، ہماری قوم نہیں؛ ہماری قوم اپنے موقف پر مضبوطی سے کھڑی رہتی ہے۔ امام کے خلاف جتنا بھی پروپیگنڈا کیا گیا اور مسلسل کیا جاتا ہے، آپ دیکھتے ہیں کہ امام کی رحلت کے دن، چالیس سال بعد بھی لوگ کیا کرتے ہیں! انقلاب کے خلاف جتنی باتیں کی گئیں، آپ دیکھتے ہیں کہ '22 بہمن' (11 فروری انقلاب کی سالگرہ) کو سردی اور مشکل حالات میں لوگ کس طرح سڑکوں پر آتے ہیں! یہ اقتدار کی علامت ہے، مضبوط ارادے کی علامت ہے؛ یہ ظاہر ہونا چاہیے؛ یہ آپ کے بیان میں، آپ کے اقدام میں، آپ کے فیصلوں میں، قانون یا افراد کے بارے میں آپ کی نفی و قبول میں نظر آنا چاہیے۔ میں البتہ کافی حد تک دیکھتا ہوں اور ان خصوصیات کے اثرات اسمبلی میں محسوس کرتا ہوں؛ جہاں تک مجھے معلومات ہیں، الحمدللہ اچھی صورت حال ہے؛ ان چیزوں پر توجہ دیں، یہ اہم مسائل ہیں۔
ایک اور ضروری چیز جس پر ضرور عمل کرنا چاہئے، قومی اتحاد کا مسئلہ ہے۔ آج قومی اتحاد ہمیشہ سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ ہمیشہ ضروری رہا ہے، لیکن آج پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ اختلاف، کشمکش ہمیشہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ چاہے یہ کشمکش کسی ذاتی مسئلے پر نہ بھی ہو، لیکن اگر ہم اپنے ذوقی، سیاسی یا عملی اختلافات کو جھگڑے یا تنازعات کی شکل میں پیش کریں، تو یہ ہمیشہ نقصان دہ ہے، اور آج تو پہلے سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہے۔ میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ ملک سے بنیادی مسائل میں ایک ہی آواز نکلنی چاہیے، سب کو متحد ہونا چاہیے۔ ہماری قوم اور ہمارا سیاسی و انتظامی نظام یک جان ہونا چاہیے۔ اس کی فضا بھی موجود ہے۔ الحمد للہ تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، حکومت) کے سربراہوں کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ میں بعض حکومتوں پر زور دیتا رہا کہ آپس میں بیٹھ کر مسائل حل کریں، مائیکروفون کے پیچھے سے ایک دوسرے کے خلاف بولنے کے بجائے ذاتی ملاقاتوں میں بات چیت کریں، پہلے یہ مشکل لگتا تھا، لیکن اب الحمد للہ وہ اکٹھے بیٹھتے ہیں، مسائل پر بات کرتے ہیں اور مشکلات کو مل کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے اب سازگار ماحول ہے اور شعبوں کے درمیان الحمدللہ ایک حد تک ہم آہنگی موجود ہے۔ اسے برقرار رکھنا چاہیے، اسے محفوظ رکھیں، مخالفت کی فضا نہ بننے دیں اور اسمبلی کا مائیکروفون اختلافات کے بیان کا ذریعہ نہ بنے۔ الحمدللہ ایسا نہیں ہے۔ یہ درحقیقت ہماری عمومی نصیحتیں ہیں، جبکہ کچھ عملی نکات بھی ہیں جن میں سے میں نے تین چار یادداشت کیے ہیں جو اب پیش کرتا ہوں۔
پہلا مسئلہ ساتویں پروگرام کا ہے۔(5) ساتویں پروگرام کا آغاز تقریباً اسی اسمبلی کے آغاز کے ساتھ ہوا ہے، یہ ایک موقع ہے۔ پچھلے پروگراموں (یعنی اس سے پہلے چھ پروگرام) پر زیادہ سے زیادہ 35 فیصد تک عملدرآمد ہوا۔ یہ کیا معنی رکھتا ہے؟ یعنی پروگرام بنانے والوں نے حکومت اور اسمبلی نے (کیونکہ پروگرام اسمبلی ہی منظور کرتی ہے) گھنٹوں وقت صرف کیا، وسائل لگائے، ایک پروگرام تیار کیا، پھر اس پر عمل نہیں ہوا! یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ زیادہ کرایہ دے کر ٹیکسی لیں، ڈاکٹر کے کلینک پہنچیں، ایک دو گھنٹے انتظار کریں، ڈاکٹر سے نسخہ لیں، اور پھر باہر آ کر اسے پھاڑ دیں! کیا یہ عقلمندی ہے؟ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ پروگرام صرف 35 فیصد تک ہی نافذ ہو، بلکہ اسے 100 فیصد لاگو ہونا چاہیے۔ اگر معمولی کوتاہی ہو تو 90-95 فیصد تک عملدرآمد تو ٹھیک ہے، لیکن پروگرام پر عمل ہونا چاہیے۔ آپ اس پر توجہ دیں۔ جناب قالیباف صاحب نے بھی اس کا ذکر کیا، لیکن عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ پروگرام، پروگرام ہوتا ہے، اس کے لیے قانون درکار ہوتا ہے۔ پروگرام کی ہر شق کے نفاذ کے لیے قانون کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں کہیں پروگرام کے نفاذ کے لیے قانون کی کمی ہو، وہاں مناسب طریقے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔
دوسرا مسئلہ قوانین کی تنقیح (اصلاح و ترمیم) کا ہے۔(6) میں نے بارہا قوانین کی تنقیح پر زور دیا ہے۔ اب باہر جناب قالیباف اور ان کے ساتھیوں نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ قوانین کی تنقیح کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مثلاً ماحولیات کے غیر موزوں قوانین کی نشاندہی کی گئی آرٹیفیشیل انٹیلیجنس سے، اور کئی دیگر شعبوں میں بھی غیر موثر قوانین کو الگ کیا گیا ہے۔ حال ہی میں مصنوعی ذہانت اور الیکٹرانک ذرائع کو بھی اس کام کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں نے ان بھائیوں سے کہا جو وضاحت کر رہے تھے کہ یہ سب محض ابتدائی اقدامات ہیں، یہ تنقیح قوانین نہیں ہے۔ اگر ان ابتدائی اقدامات کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے اور اصل مسئلے پر توجہ دی جائے، تب ہی تنقیح ممکن ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق (جس پر جناب قالیباف کو اعتراض ہے، ان کا کہنا ہے کہ شاید معلومات درست نہیں ہیں)، تنقیح کے لیے تجویز کردہ 50 عنوانات میں سے صرف ایک منظور ہوا ہے، باقی 49 زیر التوا ہیں۔ ان شاء اللہ یہ رپورٹ غلط ہو، لیکن اگر یہ درست ہے تو یہ قابل قبول نہیں۔ قوانین کی تنقیح بہت اہم ہے، اور جن فوائد کا ذکر انہوں کیا،(7) وہی ہمارے ذہن میں بھی ہیں جن کی وجہ سے ہم نے اس پر زور دیا۔
تیسرا مسئلہ نمائندوں کی حاضری کا ہے۔ میں نے ایک بار پچھلی اسمبلی کے نمائندوں سے کہا تھا (اگرچہ میں موجودہ اسمبلی کے بارے میں یہ بات نہیں کہنا چاہتا) کہ جب میں ٹی وی پر اسمبلی کے اجلاس کی تصویر دیکھتا ہوں تو عوام کے سامنے شرمندہ ہوتا ہوں، کیونکہ بہت سی سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔(8) یہ اہم ہے۔ اسمبلی کے ہال اور کمیٹیوں میں باقاعدہ شرکت ضروری ہے۔ دوسری ضروری چیز تیاری ہے۔ مرحوم اختری (9) نے مجھے بتایا تھا کہ جب رکن پارلیمنٹ تھے تو وہ اجلاس سے پہلے گھنٹوں مطالعہ کرتے تھے، قانون پر غور کرتے تھے، ماہرین سے مشورہ کرتے تھے۔ یہی رویہ ہونا چاہیے۔ اسمبلی ایک بنیادی کام ہے، کوئی ضمنی سرگرمی نہیں۔ یہی آپ کا بنیادی فریضہ ہے۔ کمیٹیوں اور ہال میں مکمل تیاری اور مطالعے کے ساتھ شرکت کریں۔ یہ میری تجویز ہے۔
ایک اور سفارش حکومت کے ساتھ تعاون کا معاملہ ہے۔ تعاون کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ حکومت کے ساتھ تعاون کی ایک شکل یہ ہے کہ سرکاری اہلکاروں کو سوالات کی کثرت اور بار بار طلب کر کے مصروف نہ کیا جائے۔ حکومتی لوگوں نے (نہ صرف موجودہ حکومت، اگرچہ انہوں نے بھی شکایت کی ہے، بلکہ پچھلی حکومتیں تو زیادہ شکایت کرتی تھیں) ہمیں بتایا کہ اس عرصے میں اتنی تعداد میں سوالات کیے گئے! ایک بہت بڑی تعداد؛ جبکہ یہ تمام سوالات ضروری نہیں، تمام طلبیاں ضروری نہیں۔ کسی وزیر کو کمیٹی میں طلب کیا جائے، دو تین گھنٹے یا اس سے زیادہ اس کا وقت لے لیا جائے۔ انہیں کچھ کم کیا جائے؛ یعنی حکومت کے ساتھ تعاون کی ایک مثال یہ بھی ہے؛ کم سے کم پر اکتفا کیا جائے۔ یا وہ تحقیقات جو کبھی کبھی ہوتی ہیں، جو اسمبلی کی نگرانی کے طور پر ہیں؛ یعنی بالکل درست ہے کہ اسمبلی کو تحقیق کا حق حاصل ہے، لیکن کہاں، کس نقطہ نظر سے، کس مقصد سے؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی مستند ذریعہ کسی محکمے کے بارے میں ہمیں رپورٹ دیتا ہے جس پر تحقیق ضروری ہوتی ہے؛ اور کبھی ایسا نہیں ہوتا، کوئی معتبر ذریعہ نہیں ہوتا، کہیں سے ایک رپورٹ آ جاتی ہے؛ اس صورت میں نہ صرف اسمبلی پریشان ہوتی ہے بلکہ وہ محکمہ بھی۔ لہٰذا، ہماری ایک اور سفارش یہ ہے کہ ان تحقیقات، سوالات اور طلبیوں کو جہاں تک ممکن ہو ضرورت کے مطابق محدود رکھا جائے۔ البتہ میں اسمبلی کے اس حق کا پورا قائل ہوں، لیکن ضرورت کے مطابق؛ ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔
ایک اور معاملہ معاشی بلز کا ہے۔ جس پر میں نے اسمبلی کو کئی بار توجہ دلائی ہے۔ معاشی بلز میں ترمیم محدود ہونی چاہیے؛ زیادہ رد و بدل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک معاشی بل ہوتا ہے، اس کا ایک آغاز ہوتا ہے، ایک اختتام ہوتا ہے، ایک مجموعہ ہوتا ہے، ایک ساخت ہوتی ہے، اگر آپ اس میں زیادہ ترمیم کر دیں اور یہ ساخت بکھر جائے تو اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے؛ پھر جب اس پر عمل کیا جاتا ہے تو نتیجہ نہیں نکلتا اور ذمہ داریاں الجھ جاتی ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اگر وہ بل جو میں نے پیش کیا تھا، اسمبلی نے واپس کر دیا اور منظور کر لیا ہوتا تو نتیجہ نکلتا؛ اب یہ ذمہ داری اسمبلی پر آ جاتی ہے، اور اسمبلی کوئی اور جواب دے گی! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں جہاں تک ممکن ہو، معاشی بلز میں کم سے کم ترمیم کی جائے۔
بجٹ کے معاملے میں، اب حکومتی عہدیدار کہتے ہیں کہ وہ اگلے سال کا بجٹ عملی بنیادوں پر ترتیب دیں گے۔ پہلے بھی بارہا "عملی بجٹ" کی بات ہوئی؛ یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ ہم نے جو بجٹ بنایا ہے وہ عملی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلتا کہ نہیں، یہ عملی نہیں بلکہ اخراجات پر مبنی ہے۔ "عملی بجٹ" کا مطلب ہے لاگت اور فائدہ؛ جو رقم خرچ ہو، اس کے مقابلے میں عمل اور فائدہ ہو؛ یہ عملی بجٹ ہے۔ اب جب حکومت بجٹ تیار کر کے اسمبلی کو پیش کرے، تو بجٹ کی ساخت محفوظ رہنی چاہیے؛ یہ نہ ہو کہ اسے ہی بدل دیا جائے؛ البتہ جہاں اسمبلی کو اعتراض ہو، اس کا حق ہے، اسے درست کرنا چاہیے؛ لیکن بجٹ کی مجموعی ساخت اور ڈھانچہ برقرار رہے۔ دوسرا یہ کہ بجٹ میں غیر حقیقی وسائل شامل نہ ہوں؛ یہ ہماری ایک بڑی مشکل رہی ہے۔ اخراجات عموماً حقیقی ہوتے ہیں، اخراجات میں عموماً خلاف ورزی نہیں ہوتی، لیکن وسائل اور آمدنی اکثر غیر حقیقی ہوتی ہے۔ مختلف سالوں کے بجٹ میں دیکھتے ہیں: حکومت کو فلاں چیز کی فروخت سے اتنی آمدنی ہونی چاہیے! [حالانکہ] ایسی کوئی فروخت نہ تو ممکن ہے، نہ ہوتی ہے۔ بجٹ میں وسائل کو حقیقی بنایا جائے؛ یہ ہماری ایک اور سفارش ہے۔
آخری نکتہ جو میں نے پہلے بھی کئی بار کہا ہے، وہ یہ ہے کہ اسمبلی کا انداز انقلابی ہونا چاہیے۔ اسمبلی، انقلاب کی اسمبلی ہے، اس کا مزاج انقلابی ہونا چاہیے۔ لیکن "انقلابی ہونے" کو سمجھنے میں غلطی نہ ہو۔ انقلابی ہونا صرف شور مچانا نہیں ہے؛ "انقلابی ہونے" کا مطلب ہے مقاصد کی طرف بڑھنا؛ انقلابی ہونے کی بنیاد یہی ہے؛ یعنی ہم بھول نہ جائیں کہ انقلاب کیوں ہوا۔ آپ میں سے بہت سے نوجوان (جو الحمدللہ اسمبلی میں بھی موجود ہیں) انقلاب کے دور میں نہیں تھے، جدوجہد کے دور میں نہیں تھے، تحریک کو نہیں دیکھا۔ تحریک کے مقاصد کیا تھے؟ امام کے بیانات میں دیکھیں، واضح ہو جائے گا؛ انقلاب کے نعروں پر غور کریں، واضح ہو جائے گا؛ انقلاب کے مقاصد کو دیکھیں، واضح ہو جائے گا۔ انقلاب کے مقاصد سے انحراف نہ ہو؛ یہ انقلابی ہونے کی پہلی بنیاد ہے۔ پھر رائے کے اظہار میں بے خوفی؛ یہ انقلابی ہونا ہے؛ یعنی اپنی رائے کو صاف صاف، واضح اور مناسب انداز میں پیش کیا جائے۔
انقلابی ہونے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ کام کے حساب کتاب میں ذاتی اغراض کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ مثلاً کسی سے سیاسی اختلاف ہو، کسی کو پسند کرتے ہیں، کسی کو نا پسند کرتے ہیں؛ تو ان چیزوں کو بالکل الگ رکھا جائے۔ کام کے لیے جو حساب کتاب ہو، اس میں ذاتی مسائل، مفادات اور ترجیحات کو بالکل الگ رکھا جائے؛ یہ انقلابی ہونا ہے۔ پھر اللہ کو یاد رکھنا، خود کو اللہ کے سامنے حاضر سمجھنا۔ امام (رضوان اللہ علیہ) نے مختصراً فرمایا: "دنیا محضر خدا ہے" (10) "محضر" یعنی حاضر ہونے کی جگہ۔ یہ سارا جہان اللہ تعالیٰ کے حضور کی جگہ ہے۔ اب جب ہم بات کر رہے ہیں، تو اللہ کے حضور بات کر رہے ہیں؛ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں، اللہ کی رضا کو مدنظر رکھیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہم سے چاہا ہے اور جو اس کی رضا کا باعث ہے، اسے پیش نظر رکھیں؛ یہی انقلابی ہونا ہے۔
پھر انقلاب کے موقف میں مضبوطی، بے خوفی اور صراحت کے ساتھ بات کرنا، بیان کرنا، فیصلہ کرنا۔ دنیا کے کسی کونے میں کوئی نادان کوئی بات کہتا ہے، اسلامی جمہوریہ پر کوئی تہمت لگاتا ہے جو دنیا بھر میں پھیل جاتی ہے؛ اسمبلی کو یکجا، مضبوط اور مستحکم انداز میں جواب دینا چاہیے۔ کبھی تمام نمائندوں کو جواب دینا چاہیے؛ کبھی ایک دو نمائندے یا متعلقہ کمیٹی کو موقف اختیار کرنا چاہیے؛ بلا خوف جواب دینا چاہیے۔ انقلابی ہونا یہی ہے۔ اب اگر اسمبلی کے عظیم منبر سے ایسا استفادہ کیا جائے کہ توہین یا اس قسم کی بات نکلے، تو یہ بہتر نہیں۔
بہرحال، ہم اللہ تعالیٰ سے آپ سب کے لیے توفیق اور ہدایت کے دعا گو ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ کی محنتوں کے بدلے میں آپ کو اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا تاکہ آپ اس دور کو بہترین طریقے سے ان شاء اللہ مکمل کر سکیں اور جہاں آپ کی موجودگی ضروری ہو، وہاں موجود رہیں اور اللہ تعالیٰ آپ سب کو لمبی، کامیاب اور خدمت سے بھرپور عمر عطا فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر جناب محمد باقر قالیباف نے ایک رپورٹ پیش کی۔
(2) صحیفہ امام، جلد 12، صفحہ 345؛ مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے خطاب 25 مئی 1980
(3) سورہ توبہ، آیت 108 کا ایک حصہ؛ "... بے شک وہ مسجد جس کی اول دن سے تقویٰ و پرہیزگاری پر بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس کی زیادہ مستحق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں (مسجد قبا و مسجد نبوی) اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک و صاف رہنا پسند کرتے ہیں..."
(4) سورہ اعراف، آیت 176 کا ایک حصہ؛ "... تو اب اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تب بھی ہانپتا ہے اور یونہی چھوڑ دو تب بھی ایسا کرتا ہے۔..."
(5) اسلامی جمہوریہ ایران کا ساتواں پانچ سالہ ترقیاتی منصوبہ؛ ملاحظہ کریں: ساتویں منصوبے کی کلی پالیسیوں کا اعلان مع مساوات کی ترجیح کے ساتھ اقتصادی ترقی مورخہ 12 ستمبر 2022
(6) قوانین کے جمع کرنے، درجہ بندی کرنے اور چھانٹنے پر مشتمل اقدامات اور عمل کا مجموعہ
(7) پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اسپیکر
(8) مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے ملاقات میں تقریر مورخہ 16 جون 2004
(9) حجت الاسلام والمسلمین عباس علی اختری (پہلی اور ساتویں پارلیمان کے رکن)
(10) مثلاً صحیفہ امام، جلد 13، صفحہ 461؛ شہداء کے خاندانوں اور عوام الناس کے مختلف طبقات سے خطاب 28 دسمبر 1980