مقبوضہ فلسطین کی جانب میزائل فائرنگ جیسے ہوائي حملوں کے ساتھ غزہ کے معرکے میں یمن کی شمولیت سے فلسطین کے مظلوم عوام کو مضبوطی ملی ہے اور صیہونیوں کی حیاتی شریانیں زبردست خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ صیہونی حکومت کے مغربی حامیوں نے ان اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کھل کر اپنی مخالفت ظاہر کی ہے اور یمن کی انصار اللہ تنظیم پر تنقید کی ہے۔ مثال کے طور پر فرانس کے وزیر خارجہ نے ایک بیان میں اسرائیل کی بندرگاہوں پر یمن کے حملے کو خطے کے لیے ایک خطرہ بتایا۔(1) اسی طرح امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا: "اسرائيلی بندرگاہوں پر حوثیوں کا حملہ یہ دکھاتا ہے کہ وہ خطے کی سلامتی کو بری طرح خطرے میں ڈال رہے ہیں۔"(2) امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے بھی واضح الفاظ میں کہا تھا کہ صیہونی حکومت کی سیکورٹی اور خطے کی سیکورٹی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔(3) خطے کی سلامتی کے لیے خطرے سے مغربی حکام کی مراد، صیہونی حکومت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ مغربی ملکوں کے متحدہ موقف کے علاوہ، وہ ممالک بھی جو عام طور پر امریکا کے نقش قدم پر ہی چلتے ہیں، مظلوم کا دفاع کرنے کے بجائے، ظالم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے ایک اجتماعی اور مشترکہ بیان جاری کر کے یمن کے عوام کو دھمکی دی کہ انھیں مقبوضہ فلسطین کی بندرگاہوں پر حملے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔(4) تاہم یمن کے مجاہدین نے ان دھمکیوں کی پروا کیے بغیر فلسطینی مظلوموں کے دفاع اور بے رحم مجرم صیہونیوں کے خلاف اپنی جدوجہد کو جاری رکھا ہے۔ ان کا یہ اقدام راہ حق میں جہاد کرنے والوں کے سلسلے میں خداوند متعال کی اس توصیف کی یاد دلاتا ہے جو اس نے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 173 میں کی ہے: "وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے خلاف بڑا لشکر جمع کیا ہے لہٰذا تم ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کر دیا اور انھوں نے کہا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔"
اس کے بعد امریکا اور برطانیہ نے بارہا یمن کے خلاف حملے کیے(5) لیکن یمن نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ یہ حملے، مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں رکاوٹ نہیں بن سکتے اور انھوں نے صیہونی حکومت کے مفادات کے خلاف اپنے حملے جاری رکھے۔(6) مغرب کے منہ زوروں کے مقابلے میں اس طرح کی شجاعت اور ٹھوس عزم نے دنیا بھر میں مظلوم و مستضعف افراد کے حامیوں کو داد تحسین دینے پر مجبور کر دیا اور رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے غزہ کے ستم رسیدہ لوگوں کی حمایت جاری رکھنے کے لیے یمن کے مجاہدین کو سراہتے ہوئے ان کی استقامت کی تعریف کی اور کہا: یمن والوں نے صیہونی حکومت کی حیاتی شریانوں پر وار کیا اور وہ امریکا کی دھمکی سے نہیں ڈرے کیونکہ جب انسان اللہ سے ڈرتا ہے تو پھر کسی دوسرے سے نہیں ڈرتا۔ حق کی بات یہ ہے کہ ان کا کام واقعی، اللہ کی راہ میں جہاد کا مصداق ہے۔(7)
یمن کی جانب سے فلسطینی کاز کی تاریخی حمایت
یمن کے عوام کی جانب سے فلسطینیوں اور حماس جیسے گروہوں کی حمایت کی جڑیں بیسویں صدی میں پیوست ہیں۔ یمن کی جانب سے حماس سمیت فلسطینی گروہوں کی حمایت کی سب سے اہم دلیل یمن کے مسلمانوں کا صیہونیت مخالف موقف اور سامراج کے خلاف ان کا تاریخی ماضی ہے۔ اسی طرح یمن کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ اس ملک نے حزب اللہ اور حماس کی ہمیشہ حمایت کی ہے اور فلسطینی رہنما یمن کے دورے کرتے رہے ہیں۔(8) اسی تناظر میں یمن نے حماس کی فوجی مدد بھی کی ہے۔ صیہونی حکومت کے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یمن سنہ 2006 میں غزہ پٹی تک میزائل اور دیگر ہتھیار بھیجے جانے کا ایک چینل رہا ہے۔(9) اسی طرح یمن میں انصار اللہ تنظیم اور سعودی عرب کی قیادت والے اتحاد کے درمیان جنگ تیز ہو جانے کے بعد انصار اللہ کے مجاہدین نے لبنان کی حزب اللہ تنظیم اور ایران سے تعاون لیا اور اپنی ہتھیاروں کی صنعت کو فروغ دیا، یہاں تک کہ انھوں نے غزہ میں حماس کو بھی ہتھیار منتقل کیے۔(10) ہتھیار دینے کے علاوہ یمن نے اسرائيلی اہداف اور صیہونی حکومت سے متعلق سمندری نقل و حمل والے بحری جہازوں پر حملوں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
طوفان الاقصیٰ کے بعد
طوفان الاقصیٰ آپریشن کے نام سے مقبوضہ فلسطین کے علاقوں پر غزہ کے مجاہدوں کا حیرت انگیز حملہ، اپنے غصب شدہ علاقوں کی آزادی کے لیے غزہ کے لوگوں کی جدوجہد میں ایک نیا موڑ تھا۔ صیہونی حکومت نے خود کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کی بھرپائي کے لیے مغرب میں اپنے روایتی حامیوں کی سیاسی، مالی اور عسکری مدد سے، غزہ کے مظلوم لوگوں کے خلاف سب سے وحشیانہ حملے کیے اور انتہائي سفاکانہ جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس بے رحمانہ قتل عام کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ غزہ کی سرزمین، صیہونی حکومت کے خونیں رقص(11) کے پلیٹ فارم میں تبدیل ہو گئی ہے اور صرف 100 دن میں ہی صیہونی حکومت نے اپنے وحشیانہ حملوں میں 10000 سے زیادہ بچوں (12)، 70 اخبار نویسوں(13)، 7000 خواتین(14) سمیت 26000 فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا۔اب تو یہ تعداد کافی بڑھ چکی ہے۔ اس دوران غزہ کے لوگوں کے خلاف صیہونی حکومت کے غیر انسانی جرائم کو روکنے کی ایک ترکیب بچوں کی قاتل اس غیر قانونی حکومت پر معاشی اور تجارتی دباؤ ڈالنا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے شروع سے ہی اسلامی اور علاقائي ممالک کو یہ اہم قدم اٹھانے کی دعوت دی اور ایندھن اور اشیاء کی ترسیل کو روکنے جیسے مختلف طریقوں سے صیہونی حکومت کی معاشی شریانوں کو کاٹ دینے کی بات کی۔(15) یمنی قوم نے فلسطینی عوام کی حمایت کے اپنے دیرینہ ماضی کے ساتھ، جیسا کہ بالائي سطور میں بیان کیا گيا، غزہ کے لوگوں اور حماس کے مجاہدین کی مدد کے لیے اپنی توانائيوں کو استعمال کیا اور صیہونی حکومت کے ڈھانچے پر کڑے وار کیے جن کے بارے میں ذیل میں اختصار سے بتایا جا رہا ہے۔
(الف) صیہونی حکومت کی بندرگاہوں پر حملے
طوفان الاقصیٰ کے بعد یمن کے حکام ایک بار پھر فلسطین کے ستم رسیدہ عوام کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور انھوں نے ڈرون اور میزائل حملوں کا حکم دے کر اسرائيل کے ساحلی شہر ایلات کو نشانہ بنایا۔(16) اسی ضمن میں انھوں نے اکتوبر 2023 میں ایک بیلسٹک اور کئي کروز میزائل ایلات کی بندرگاہ کی طرف فائر کر دیے تھے(17) جبکہ بعد کے مہینوں میں انھوں نے اپنے حملوں کا دائرہ اور وسیع کر دیا۔ عسکری پہلو سے دیکھا جائے تو صیہونی حکومت کے قبضے والے کچھ علاقوں پر حملے کی اس پہل نے صیہونیوں کی فوجی توانائي اور غزہ کے خلاف حملوں پر تمرکز کو نقصان پہنچایا اور صیہونی وزیر دفاع گیلینٹ نے اعتراف کیا کہ اسرائيل کئي محاذوں پر فوجی حملوں کا ہدف بنا ہے۔(18) اگر معاشی پہلو کی بات کی جائے تو یمنی مجاہدین نے ایلات کی بندرگاہ کو زبردست معاشی نقصان پہنچایا ہے کیونکہ صیہونی حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ایلات اور بحیرۂ احمر میں اس بندرگاہ کی طرف جانے والے بحری جہازوں پر یمن کے حملوں کے وقت سے اس بندرگاہ کے کام میں 85 فیصدی کی کمی آ گئي ہے۔(19)
(ب) اسرائيل سے تعلق رکھنے والے تجارتی بحری جہازوں پر حملے
غزہ پر حملے شروع ہوئے 100 دن سے زیادہ گزر چکے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے غزہ میں پانی، غذائي اشیاء اور ایندھن کی شدید کمی(20) کا مسلسل انتباہ دیے جانے کے باوجود اس خطے کے لوگوں کا قتل عام اور یہاں تک زندگي کی ضروری اشیاء کی ترسیل پر پابندی مسلسل جاری ہے۔(21) ان انتباہات کے سلسلے میں عدم توجہ اور صیہونی حکومت کی حمایت میں ویٹو پاور کے استعمال نے بین الاقوامی آبی سرحدوں میں اس حکومت کی تجارت اور اسرائيل تک ایندھن کی رسائي کو محدود کرنے اور اسے منہ توڑ جواب دینے کے علاوہ اور کوئي چارہ نہیں چھوڑا ہے۔ شاید صیہونی حکومت سے تعلق رکھنے والے بحری تجارتی جہازوں پر حملے، اس کے نتیجے میں عالمی منڈیوں پر پڑنے والے منفی اثرات اور صیہونی حکومت کی معاشی سلامتی خطرے میں پڑنے سے صیہونی، غزہ کے لوگوں کو بھوکا مارنے، دواؤں کی کمی کو حد سے زیادہ بڑھانے اور حیات انسانی کی ابتدائي ترین ضرورتوں کی کمی کی وجہ سے شرح اموات بڑھانے کی اپنی اسٹریٹیجی چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔ یمن نے مختصر سے عرصے میں ہی عالمی نقل و حمل کی سب سے اہم شریانوں کے سامنے زبردست چیلنج کھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اس طرح اس نے صیہونی حکومت کی معیشت کو سنجیدہ نقصان پہنچایا ہے۔
اگر ایک دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں صیہونی حکومت کو معاشی راہوں سے دباؤ میں ڈالنا ایک عالمی جدت عمل ہے جسے جنگ کے مخالف اور انصاف پسند گروہوں نے تقریبا دو عشروں سے بائیکاٹ، عدم سرمایہ کاری اور پابندی کی تحریک(22) یا بی ڈی ایس موومنٹ(23) کے نام سے پوری دنیا میں شروع کر رکھا ہے۔ یمن کی تحریک انصار اللہ کے اقدام نے عالمی پابندی کے اس طریقۂ کار میں ایک فوجی پہلو کا اضافہ کر دیا ہے۔ درحقیقت وہی دلیل جو فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضے اور فلسطینی باشندوں کے حقوق کی پامالی کو بی ڈی ایس تحریک شروع کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے(24) اور صیہونی حکومت کی بین الاقوامی حمایت کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے(25) وہی دلیل مظلوم اور بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کو رکوانے کے مقصد سے اس حکومت کی حیاتی شریانوں کو کاٹنے کا زیادہ بہتر جواز فراہم کرتی ہے۔ اسی دلیل کے تحت دسمبر 2023 کے اوائل میں، جب یمن کی انصار اللہ تحریک نے بحیرۂ احمر اور آبنائے باب المندب میں حملے شروع کیے تو صیہونی حکومت کی طرف جانے والی اشیاء اور ایندھن کی کھیپیں اور سمندری ٹرانسپورٹ بری طرح متاثر ہو گیا۔ صیہونی حکومت کے سب سے بڑے حامی امریکا نے اعلان کیا کہ اس کے ایک بحری جنگي جہاز اور کئي تجارتی جہازوں پر بحیرۂ احمر میں حملہ کیا گيا ہے۔(26) مغربی حکومتوں کو بھی یمنی مزاحمت کے جیالوں کے حملوں کا مزہ چکھنا پڑا اور فرانس کے سمندری ٹرانسپورٹ گروپ CMA CGM نے اپنے سمندری نقل و حمل کو بند کرنے کا اعلان کیا۔ اسی طرح برطانیہ نے اعلان کیا کہ اس کے ایک بحری جہاز پر، جو بحیرۂ احمر سے گزر رہا تھا، میزائل حملہ کیا گيا ہے۔(27) یمن نے صیہونی حکومت کی بندرگاہوں کی طرف جانے والے بحری جہازوں پر حملے بڑی مہارت سے کیے ہیں کیونکہ جہازوں پر اس کے حملوں کے باوجود نہ تو کوئي جہاز سمندر میں ڈوبا اور نہ ہی کسی جہاز پر سوار عملے کے افراد کو کوئي خاص نقصان پہنچا، اگر کوئي نقصان بھی پہنچا تو وہ جوابی کارروائي کی صورت میں پہنچا۔ یمن کے حملوں کے باعث دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنیوں نے بحری جہازوں کے مالکوں سے کہا کہ جہاں تک ممکن ہو وہ اس خطرناک آبی راستے سے اجتناب کریں اور اس طرح آبنائے باب المندب میں بحری جہازوں کی آمد و رفت کی شرح کم ہو کر آدھی رہ گئي۔(28) اسی طرح توانائی کی قطر کی سرکاری کمپنی نے بحیرۂ احمر سے قدرتی مائع گیس کے نقل و حمل کو فی الحال بند کر دیا ہے۔(29) یوں صیہونی حکومت کو سمندری تجارت کے میدان میں ایک اور شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
یمن کے ان اقدامات نے اسلامی اقوام میں امید کی ایک لہر پیدا کر دی ہے۔ اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ٹائمز آف اسرائیل نے کہا ہے کہ یمن کے لوگوں کی جانب سے فلسطینی کاز کی حمایت اور یمنی مجاہدین کے اقدامات کی وجہ سے مغربی ایشیا میں انھیں بے مثال مقبولیت اور حمایت حاصل ہو گئي ہے۔(30) اس کے مقابلے میں صیہونی حکومت کے مستقبل کے لیے کوئي پرامید افق دکھائي نہیں دیتا اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عالمی رائے عامہ میں اس حکومت کی امیج اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اگر یہ حکومت اس بحران میں کوئي فتح حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو تو اسے ایک "شکست سے بدتر فتح"(31) ہی حاصل ہو پائے گي۔(32)