اپنی 75 کی پوری تاریخ میں اس حکومت کو کبھی بھی اس طرح کے کثیر جہتی حملوں کا سامنا نہیں ہوا تھا جس طرح کے حملوں کا وہ اس وقت سامنا کر رہی ہے۔ 7 اکتوبر ایک جذباتی ریلا نہیں بلکہ مزاحمتی محاذ کی پوری طرح سے منصوبہ بند مہم تھی جو جذبات پر نہیں بلکہ حقائق پر مبنی تھی۔ اگرچہ پچھلے چھے مہینوں میں صیہونی حکومت نے تقریبا 35 ہزار فلسطینیوں کو نسلی تصفیے کی نیت سے قتل کر دیا ہے لیکن فوجی طاقت دکھانے کے لحاظ سے اس کے پاس کچھ خاص نہیں ہے۔ سیاسی اور عسکری سطح پر اسے جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے، اس سے وہ جنونی کیفیت میں ہے۔ صیہونی حکومت کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہے کہ وہ کسی واقعے پر پہلے سے سرگرم ہو کر ایجنڈہ سیٹ کرنے کے بجائے ردعمل دکھا رہا ہے۔ یہ مزاحمتی محاذ کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

یہی بات 14 اپریل کے 'وعدۂ صادق' آپریشن پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر 7 اکتوبر سے یہ ثابت ہوا کہ صیہونی حکومت مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہے تو 'وعدۂ صادق' آپریشن نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ جرم کی سزا سے بچ نکلنے کا دور گزر چکا ہے اور صیہونی حکومت جب بھی اپنی اوقات سے باہر نکلے گي اسے ضرور سزا بھگتنی ہوگي۔ طاقت کے شاندار مظاہرے  کے طور پر ایران نے اسرائيل کے تکنیکی لحاظ سے بہت ہی پیشرفتہ دفاعی سسٹم کے باوجود، جس پر وہ پوری دنیا کے میڈیا میں شیخی بگھارا کرتا تھا، اس پر ڈرونز اور میزائيلوں کی بارش کر دی۔

ہم اب تک کئي بار اس کے عسکری پہلو‎ؤں پر بات کر چکے ہیں، اب تبدیلی کے طور پر اس کے سیاسی اور معاشی پہلو‎‎ؤں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ صیہونی حکومت کی نسلی تصفیے کی فطرت سے پوری دنیا کا ہر گھر انٹرنیٹ اور اسمارٹ فونز کے ذریعے آگاہ ہو چکا ہے۔ یہ چیز، معلومات کے بہاؤ پر صیہونیوں اور ان کے سیاسی حلیفوں کے فولادی کنٹرول کے ڈھیلے پڑنے کی سمت میں پہلا قدم ہے۔ یہ بات اس وقت پایۂ ثبوت کو پہنچ گئي جب پورا امریکی سماجی طبقہ ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرنے لگا۔ ٹک ٹاک اور ٹیلی گرام، جو آج کل نوجوانوں کے ذریعے سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے ایپ ہیں، راتوں رات معلومات کو پہنچانے میں بہتر طریقے سے کام کرتے ہیں۔ گھبرائے ہوئے صیہونیت حامی میڈیا کی سمجھ میں ہی نہ آ سکا کہ کس طرح جواب دے۔ نیویارک ٹائمز کا اسکینڈل اس گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا ایک نمونہ ہے جب اس اخبار نے ایک من گھڑت کہانی کو ایسے لوگوں سے جوڑا جن کا تعلق قابض صیہونی فوج سے تھا۔ اب یہ بات طشت از بام ہو چکی ہے کہ صیہونی مفادات کی حفاظت کا بیڑا اٹھانے والے میڈیا کی، تدریجی ہی سہی، حتمی موت شروع ہو چکی ہے۔ آج کا جوان اس میڈیا کو ایسے ذریعۂ ابلاغ کے طور پر دیکھ رہا ہے جو فرضی خبروں کا سہارا لیتا ہے اور اسی لیے آج کا جوان متبادل میڈیا پر اعتماد ظاہر کر رہا ہے۔

یہ بات بھی عیاں ہو چکی ہے کہ جب دنیا میں لوگوں تک صحیح خبر پہنچی تو مظلوم فلسطینیوں کی حمایت، ان کا فطری ردعمل تھا۔ یہ عمل اس مرحلے میں پہنچ گيا کہ ان کم کنٹرول والے پلیٹ فارموں پر فلسطینیوں کی حمایت میں پہنچنے والے میسیجز، صیہونیوں کی حمایت میں آنے والے میسیجز سے دسیوں گنا زیادہ ہیں۔ یہ مزاحمتی محاذ کے لیے بہت بڑی فتح ہے کیونکہ یہی نوجوان، جنھوں نے صیہونی حکومت کی نسلی تصفیے کی سرشت کو دیکھا ہے، آنے والے عشروں میں مستقبل کے رہنما ہوں گے۔

صیہونی حکومت کی جانب سے نسل کشی کی صورت میں دئے جانے والے جواب نے، مغرب میں صیہونیوں کی چشم و ابرو کے اشارے پر کام کرنے والے حکمراں طبقے نیز علاقے کے نام نہاد اسلامی حکمرانوں اور ان کے عوام کے درمیان گہری خلیج پیدا کر دی ہے۔ یہ گہری خلیج خاص طور پر مغربی ایشیا اور یورپ میں نظر آ رہی ہے۔ اسپین کی قیادت میں کئي یورپی ملکوں نے فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں 7 اکتوبر سے پہلے سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ یہ کوئي معمولی کامیابی نہیں ہے۔ یہ بات پیش نظر رہے کہ ان حکومتوں نے صیہونی مفادات کی حفاظت کا بیڑا اس حد تک اٹھا رکھا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حق میں ایک جملہ بھی بولنے کی ہمت نہیں کر سکتیں لیکن اب ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔

صیہونی عفریت کا ایک اور پنجہ، مغرب کی بڑی کمپنیوں کے زیادہ تر حصے پر اس کا کنٹرول ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کمپنیوں کو یا تو صیہونیوں نے بنایا ہے یا یہ صیہونی ذہنیت رکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ ان کمپنیوں کے مالکان دوغلی وفاداری والے ہیں جس کے تحت وہ صیہونی حکومت کے مفادات کو اس ملک کے مفادات پر ترجیح دیتے ہیں جس میں وہ رہتے ہیں۔ پیٹھ میں چھرا گھونپنے والی اس وفاداری کی پول، مقامی لوگوں کے سامنے کھل چکی ہے اور انھوں نے ان کمپنیوں کو سزا دینا شروع کر دیا ہے۔ میک ڈونلڈ، اسٹاربکس اور دوسری کمپنیوں کو، جن کے مالک اس طرح گھومتے تھے گویا پوری دنیا انھیں کی ہے، اب معاشی مسائل کا سامنا شروع ہو چکا ہے۔ یہی لوگ جو کبھی غاصبانہ قبضہ بنائے رکھنے میں صیہونی حکومت کی مدد کرنے پر فخر کیا کرتے تھے، اچانک ہی حالات کو پوری طرح بھانپ گئے ہیں اور اب وہ امن اور حل کی بات کرنے لگے ہیں۔ ان کمپنیوں پر مسلسل دباؤ، انھیں صیہونی حکومت میں سرمایہ کاری کے خاتمے کے لیے اس حد تک مجبور کر دے گا کہ ایک دن ان میں سے ہر کمپنی بہت زیادہ ضرر رساں سمجھ کر اس کی طرف نظر بھی نہیں اٹھائے گي۔

مزاحمتی محاذ نے اس غاصب حکومت کو معاشی لحاظ سے ایسی چوٹیں پہنچائي ہیں کہ امریکا اس حکومت کی جتنی بھی مدد کرے، وہ کافی نہیں ہوگي۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پچھلے چھے مہینے میں صیہونی حکومت کو 58 ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے جو پچھلے 20 برس میں امریکا کی طرف سے ملنے والی معاشی مدد کے برابر ہے۔

'وعدۂ صادق' آپریشن کے دوران صیہونی حکومت اور اس کے اتحادیوں کو ایک اندازے کے مطابق تقریبا ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کا خرچہ اٹھانا پڑا تاکہ وہ میزائيلوں کو فضا میں ہی روک سکیں۔ اس کے باوجود ایرانی میزائيلوں نے اپنے مد نظر تینوں اہداف کو نشانہ بنایا؛ نیگیو میں ایک ہوائي چھاؤنی کو، نقب میں ایک ائير بیس کو اور مقبوضہ جولان میں انٹیلی جنس کے ایک ٹھکانے کو۔

انسانی وسائل پر تو اس کا اثر اور زیادہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ قریب پانچ لاکھ اسرائيلی، جنگ شروع ہونے کے وقت سے لے کر اب تک مقبوضہ فلسطین کو چھوڑ کر جا چکے ہیں جن میں سے زیادہ تر واپس نہیں لوٹیں گے۔ اگر مزاحمتی محاذ نے اسی طرح صیہونی حکومت کا ناطقہ بند کرنا جاری رکھا تو یہ تعداد بڑھتی ہی جائے گي جس کی وجہ سے یہ حکومت ایسی صورتحال میں پہنچ جائے گا کہ اسے نہ صرف انسانی وسائل کی کمی کا سامنا ہوگا بلکہ اسے آبادی کی ایسی یکطرفہ حقیقت کے بھی روبرو ہونا پڑے گا جس میں مقامی فلسطینیوں کو اپنی آبادی کا تناسب زیادہ نظر آئے گا اور اس کے نتیجے میں یہ حکومت زبانی اور عملی طور پر ایک مکمل اپارتھائيڈ حکومت میں بدل جائے گي۔

اس سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں یہ حکومت پگلائي ہوئي ہے اور پوری دنیا کو ایک اور جنگ میں جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب جہاز ڈوبتا ہے تو اپنے آس پاس کی سبھی چیزوں کو اپنے ساتھ ڈبانا چاہتا ہے۔ اپنے سیاستدانوں کے طرز عمل کی وجہ سے مغربی حکومتیں، نسل کشی کے جرم میں ملوث ہو چکی ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ جب دوسری نورینبرنگ عدالت قائم ہوگي تو وہ صیہونی حکومت کے سیاستدانوں اور عہدیداروں کے ساتھ جرم میں ملوث ہونے کے الزام سے اپنا دامن بچا نہیں پائيں گے۔ صیہونی حکومت کے یہ مغربی اتحادی اس وقت دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ خود کو جتنا اس سے نکالنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں، یہ صیہونی دلدل اتنا ہی انھیں اپنی طرف کھینچتا جا رہا  ہے جس کی وجہ سے ان کی آبادی بہت گھبرائي ہوئي ہے۔ اس طرح کی رپورٹیں سامنے آئي ہیں کہ خود مغربی حکومتوں کے اندر بغاوت کا لاوا پک رہا ہے جو اس طرح کی نسل کشی میں اپنے ملک کے ملوث ہونے سے گھبرائي ہوئي ہیں۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جنھیں صیہونی حکومت کے شریک جرم ہونے کا ڈر ستا رہا ہے اور دوسری طرف وہ سیاسی طبقہ ہے جس کی گردن صیہونی پیسوں کے بوجھ سے جھکی ہوئي ہے اور وہ دوغلی وفاداری دکھا رہا ہے۔ یہ عمل شروع ہو چکا ہے جو ابھی تو بوند بوند سامنے آ رہا ہے لیکن جلد ہی سونامی کی شکل اختیار کر لے گا۔

خطے کے نام نہاد اسلامی حکمرانوں اور تیسری دنیا کے ملکوں میں صیہونی حکومت کے اتحادیوں کو جنھوں نے یہ سمجھا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ دفن ہو چکا ہے اور اب پھر کبھی نہیں اٹھے گا، ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دو کشتیوں میں سوار ہونے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ مزاحمتی محاذ نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ سے حالات کو ایسے مقام پر پہنچا دیا ہے کہ جہاں ہر ملک یا گروہ واضح موقف اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ 'وعدۂ صادق' آپریشن کے دوران ایران نے اس مقام کی نشاندہی کر دی ہے جہاں سے کچھ نام نہاد اسلامی ریاستیں باب المندب کے پاس بحیرہ احمر کے راستے انصار اللہ کی ناکہ بندی کے باوجود صیہونی حکومت تک مدد پہنچا رہی تھیں۔ اس نے اس اسرائيلی بحری جہاز کا راستہ روک دیا جو متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ کو استعمال کر رہا ہے اور جہاں سے اس حکومت کو مدد پہنچانے والا راستہ سعودی عرب اور اردن سے گزرتا ہے۔ ایران کی اس بحری کارروائي کے صرف ایک دن بعد اردن نے 'وعدۂ صادق' آپریشن کو ناکام بنانے کی کوشش میں صیہونی حکومت کی مدد کی۔

تو اب اسلامی دنیا کا بڑا حصہ، خلیج فارس کی اسلامی ریاستوں، متحدہ عرب امارات یا سعودی عرب کی اصلیت جان گیا ہے۔ وہ جان گيا ہے کہ کون غدار ہے اور کون ہمدرد۔ صیہونی حکومت نے انھیں ایسی صورتحال میں ڈال دیا ہے کہ اب وہ اپنے 'غترہ' (سر پر ڈالا جانے والا عربوں کا مخصوص رومال) کے نیچے موجود 'کِپّا' (یہودیوں کی مخصوص ٹوپی) کو چھپا نہیں پائيں گے۔

سوربھ کمار شاہی

ویسٹ ایشیا کے امور کے ماہر

نوٹ: یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں اور ویب سائٹ کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔