فضا میں پہلے تو ایک ہلکی سی آواز سنائي دی لیکن بڑی تیزی سے وہ ایک وحشت ناک وارننگ میں بدل گئي۔ حزب اللہ کے ڈرون اس چھاؤنی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سپاہیوں نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور فوراً سمجھ گئے کہ ڈرون ایک دم صحیح نشانے پر ان کی طرف آ رہے ہیں۔ دھماکوں نے خاموشی کو توڑ دیا اور کچھ ہی منٹوں میں دسیوں فوجی ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ صیہونی حکومت نے ہمیشہ کی طرح حقیقت کو چھپاتے ہوئے مرنے والے فوجیوں کی تعداد 4 اور زخمیوں کی 58 بتائي۔ اس حملے نے صیہونی حکومت کو سخت چوٹ پہنچائي اور نہ صرف شمالی سرحدوں پر بلکہ اس غاصب حکومت کے فوجی ڈھانچے کو بھی گہرا نقصان پہنچایا۔ گولانی بریگیڈ کی چھاؤنی صرف ایک ٹریننگ کیمپ نہیں تھی بلکہ وہ صیہونی حکومت کی فوجی طاقت کی بنیاد مانی جاتی تھی۔ وہ ایسی جگہ تھی جہاں ایلیٹ فوجیوں کی نئي نسل تیار کی جاتی تھی۔ اس دن صبح حزب اللہ نے اس چھاؤنی کو صیہونی حکومت کے لیے ایک تلخ یاد میں تبدیل کر دیا اور دکھا دیا کہ سب سے محفوظ چھاؤنیوں کو بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔(1)
البتہ یہ حملہ تو بس آغاز اور حزب اللہ کے طے شدہ سلسلے وار حملوں کا صرف ایک حصہ تھا جو پوری منصوبہ بندی اور دقت نظر کے ساتھ کیا گيا تھا۔ حزب اللہ نے واضح طور پر اپنے اہداف کو لبنان کی سرحدوں سے دور اور غاصب صیہونی حکومت کے کافی اندر تک پہنچا دیا تھا اور اس کے حیاتی اور اسٹریٹیجک مقامات پر حملہ شروع کر دیا تھا۔ اس بار حزب اللہ نے غاصب حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کے گھر کو پوری باریکی کے ساتھ نشانہ بنایا تھا۔(2)
جلیل علاقے کے پہاڑی اور صحرائی علاقوں میں غاصب حکومت کی دفاعی فورسز کا کمانڈ سینٹر، شمالی سرحدوں پر آپریشنوں کے اصل محاذ کے طور پر کام کر رہا تھا لیکن تین جون کو حزب اللہ کے متعدد ڈرونز نے اس کمانڈ سینٹر پر حملہ کر کے وہاں کے کمانڈروں کو متحیر اور خوفزدہ کر دیا۔ یہ کمانڈ سینٹر نہ صرف یہ کہ غاصب صیہونی حکومت کی ڈیفنس شیلڈ کے طور پر کام کر رہا تھا بلکہ شمالی سرحدوں پر اس کی آنکھ اور کان سمجھا جاتا تھا اور اب حزب اللہ نے اسے نابینا بنا دیا تھا۔
حزب اللہ کے حملے یہیں تک محدود نہیں رہے۔ ایک ہفتے بعد ہی عین زیتیم اور امیعاد جیسے علاقے، جو اس وقت تک غیر اہم سے نام تھی، لاجسٹکس اور فوجی سازوسامان کے ایک میدان جنگ میں تبدیل ہو گئے۔ 12 جون کو حزب اللہ نے تقریباً 90 راکٹ اور میزائيل ان تنصیبات پر فائر کیے اور صیہونی حکومت کے دفاعی نیٹ ورک پر شدید حملے کیے۔ یہ چھاؤنیاں، جو ہتھیاروں اور گولہ بارود سمیت مختلف فوجی سازوسامان سپلائي کیا کرتی تھیں، غاصب صیہونی حکومت کی فوجی تیاری اور فوری ردعمل کی بنیاد تھیں اور اب ایک صبح، حزب اللہ نے اس جنگي مشین کو بند کر دیا تھا۔(3)
میرون کے علاقے میں، فضائي نگرانی کے اسٹیشن میں، جو غاصب صیہونی حکومت کے لیے بہت اہم تھا اور اس کی ذمہ داری، فضائي نگرانی تھی، ایک دوسرا حملہ ہوا۔ دھماکے نے نگرانی کے اس اسٹیشن کو ٹھپ کر دیا اور صیہونی حکومت فضائي حملے کے خطرے میں آ گئی۔ حزب اللہ کو معلوم تھا کہ اس اسٹیشن کی تباہی، ایک علامتی حملے سے بڑھ کر تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ اب اسرائيل کے پائلٹ، فضائي گشتی جہاز اور ڈرونز پہلے کی طرح آسانی سے نہ تو گشت لگا سکتے ہیں اور نہ ہی فضائي کنٹرول کا کام کر سکتے ہیں۔
یہاں تک کہ شہر عکا بھی ان حملوں سے محفوظ نہیں رہا۔ 23 اپریل کو حزب اللہ نے اس علاقے میں غاصب صیہونی حکومت کی دو فوجی چھاؤنیوں پر ڈرون حملہ کیا۔ یہ چھاؤنیاں جو فوجیوں کی سپلائي اور لاجیسٹک سپورٹ کے لحاظ سے کافی اہم تھیں، اچانک ہی محاصرے میں آ گئيں۔ عکا کے اسرائیلیوں کو، جو بحیرۂ روم کے مقبوضہ ساحل پر تعیش زندگي گزارنے کے عادی تھے، اب جنگ اور حملوں کے جھٹکوں کا سامنا تھا۔(4)
یہ حملے سنہ 2006 میں ہونے والی میزائيلوں کی بارش کی طرح نہیں تھے بلکہ حزب اللہ نے اس بار زیادہ دقیق اور زیادہ اسمارٹ اسٹریٹیجی اختیار کی تھی۔ صیہونی حکومت کے حساس اور کلیدی فوجی ٹھکانوں پر حملے، صرف ایک چوٹ نہیں تھی بلکہ ان کا ایک ٹھوس پیغام تھا۔ اب حزب اللہ کے پاس ڈرون اور گائیڈیڈ میزائيل جیسے پیشرفتہ ہتھیار ہیں جو نہ صرف یہ کہ غاصب صیہونی حکومت کی دفاعی لائن کو چیر سکتے ہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین کے بالکل اندر تک گھس کر گہرا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ان حملوں سے ہونے والا جانی اور مالی نقصان، مادی لحاظ سے بھی اور نفسیات لحاظ سے بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ حملے، صیہونی حکومت کے لیے صرف فوجی حملے نہیں ہیں بلکہ اس کے غرور اور خود اعتمادی کے لئے دھچکا اور ایک وارننگ ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکومت کی دفاعی لائن پوری طرح سے ٹوٹ کر بکھر چکی ہے۔ جو حکومت ہمیشہ اپنی تکنیکی برتری اور فوجی تیاری پر گھمنڈ کیا کرتی تھی، اب حزب اللہ کے 2024 کے حملوں کے سبب اس نے اپنی اس شیلڈ میں ایسی دراڑیں پڑتی دیکھ لیں ہیں جن کو پاٹا نہیں جا سکتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ سامراج کا یہ دسیوں سالہ منصوبہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہا ہے۔