سترہوں اور اٹھارویں صدی میں بردہ فروشی کے تاجروں کی ایک سب سے بڑی منزل اور بیسویں اور اکیسویں صدی میں میڈیا اور معیشت کی ایک سب سے بڑی سلطنت کی حیثیت سے ریاستہائے متحدہ امریکا پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بردہ داری، ایک قانونی بل ہونے سے زیادہ ایک سوچ اور ذہنیت ہے۔ وہی جارحانہ ذہنیت جو کئي صدیوں سے دنیا کے لوگوں کو قربانی بنا رہی ہے۔
قانونی طور پر غلامی کا خاتمہ اور معاشی و ثقافتی غلامی کا آغاز
امریکا کے عام کلچر میں یہاں تک کہ بعض مؤرخین کے درمیان بھی ریاستہائے متحدہ امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن کے سر، ان کے انسان دوستانہ اور انصاف پسندانہ افکار کے سبب بردہ داری کے خاتمے کا سہرا باندھا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اعلامیۂ آزادی (Emancipation proclamation) کو منظوری دی تھی۔ امریکا کی تاریخ اور لنکن کی تحریروں اور تقریروں کا گہرائي سے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی جانب سے بردہ داری کے خاتمے کا اعلان، جنوبی ریاستوں پر شمالی ریاستوں کے تسلط کو مکمل کرنے کی ایک سیاسی و سیکورٹی اسٹریٹیجی تھی۔(1) لنکن کی کوشش تھی کہ بردہ داری کو منسوخ کر کے اور اس قانون کو جنوبی ریاستوں پر نافذ کر کے، زرعی زمینوں میں غلاموں سے کام لینے کی ان کی سہولت کو ختم کر دیں اور شمالی ریاستوں کی معاشی برتری کو، جو اب صنعتی ہو چکی تھیں، ان پر مسلط کر دیں۔ سیاہ فاموں کو زندگي کی بنیادی ضرورتیں فراہم کیے بغیر بردہ داری کے اچانک خاتمے اور غلاموں کے مالکوں اور مرکزی حکومت کے درمیان ٹکراؤ سے، یہاں تک کہ جنوبی یونین کی شکست کے بعد بھی سیاہ فاموں کی زندگي میں کوئي خاص بہتری نہیں آئي۔ سیاہ فام، جو زندگي گزارنے کے بنیادی ترین وسائل سے محروم تھے یا شمال کی جانب ہجرت کر جانے کے بھی وسائل نہیں رکھتے تھے، اپنے پیروں سے معاشی غلامی کی زنجیریں نہیں توڑ سکے۔ لگ بھگ ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے بعد اس وقت بھی امریکی سیاہ فاموں کے پاس سب سے کم جائیداد اور زراعت اور کام کاج کی چھوٹی بڑی زمینیں ہیں۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکا میں سیاہ فام باشندوں کی آبادی قریب چار کروڑ ہے اور وہ اس ملک کی آبادی کا چودہ فیصد ہیں جبکہ امریکی گھروں میں ان کی حصہ داری کی شرح 5.5 فیصد ہے اور اس ملک کی زرعی اراضی میں ان کی ملکیت کی شرح 0.5 فیصد ہے۔ امریکا کے بڑے شہروں کے اطراف میں غربت زدہ محلے، جہاں سیاہ فام رہتے ہیں، برسوں سے گیٹو (ghetto) کہلاتے ہیں اور ان محلوں میں منشیات کی لت اور بے راہ روی میں اضافے اور عمومی تعلیم کی کمی کو بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ برسوں سے امریکی سیاہ فاموں کی غربت نے انھیں امریکا کے قانونی سسٹم کا شکار بنا رکھا ہے جہاں سفید فاموں کو چھوڑ کر دوسرے رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے تمام افراد جیل میں طویل قید کی سزا پانے کے بعد، امریکا کی بڑی پرائيویٹ کمپنیوں کے زرخرید غلام بن جاتے ہیں۔
امریکی بردہ داری جسے چاہتی ہے غلام بنا لیتی ہے
صنعتی انقلاب اور ہر طرح کے ذرائع ابلاغ کے پھیل جانے کے بعد امریکی سرمایہ داروں نے لوگوں کی جلد کے رنگ سے قطع نظر اپنے لوگوں کو غلام بنانے کا ایک نیا راستہ تلاش کر لیا۔ مواصلات کے شعبے کے مشہور نظریہ پرداز نیل پوسٹ مین اپنی معروف کتاب Amusing Ourselves to Death میں بتاتے ہیں کہ کس طرح اخبارات سے لے کر ٹیلی ویژن تک، ذرائع ابلاغ میں تشہیرات کے داخل ہونے کے بعد امریکی عوام کی سوچ زیادہ سے زیادہ صارف کلچر کی طرف مڑ گئی ہے۔ معاشرے میں صارف کلچر کا چلن شدید معاشی رقابت، کام کے اوقات میں اضافے، روحانی اور جسمانی مشکلات میں اضافے، معاشی دباؤ اور انسانی مسائل کو نظر انداز کیے جانے کا سبب بنا۔ جب زندگي میں ترجیح، اشیاء کی خریداری ہو تو گہرے فکری اور انسانی مسائل حاشیے پر چلے جاتے ہیں، گھرانہ کمزور پڑ جاتا ہے اور صرف اپنے بارے میں سوچنے کا جذبہ، انسانوں کے ذہن کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس طرح کے سماج میں سبھی انسانی رشتے اسی جذبے کی تقویت کے لیے استعمال ہونے لگتے ہیں۔ امریکی ثقافت میں صارف کلچر اور امریکیوں کی جانب سے اس طرز زندگي کو برآمد کرنے کے نمونے آج سبھی کی نظروں کے سامنے ہیں:
امریکا دنیا کا سب سے موٹا ملک ہے۔ ایسے ملک میں، جس کی بالغ آبادی کا تیس فیصد حصہ اکیلے زندگي گزارتا ہے، تقریبا ساٹھ فیصد جوان جوڑوں میں دونوں ملازمت کرتے ہیں،(2) کام کی جگہ پر پہنچنے سے پہلے، کام کے دوران اور کام کے بعد پیٹ بھرنے کا سب سے اچھا راستہ فاسٹ فوڈ ہے۔ اس طرح کے کیلریز سے بھرے اور مرغن کھانے، آپ کو فاسٹ فوڈ اور موٹاپے کی دواؤں کا مستقل گاہک بنا دیتے ہیں۔ امریکا میں فوڈ سیفٹی کے سلسلے میں قانون بنانے والے ادارے بھی سرمایہ داروں کا ساتھ دیتے ہوئے اس طرح کی طرز زندگي کی حمایت کرتے ہیں۔(3) برسوں سے میک ڈونلڈ دنیا میں امریکا کی ثقافتی یلغار کا مظہر بنا ہوا ہے۔ فاسٹ فوڈ اور اس کی پشت پر پایا جانے والا معاشی کلچر اس وقت دنیا میں مختلف شکلوں میں سامنے آ رہا ہے اور لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ دنیا کی زیادہ تر ثقافتوں میں دسترخوان، فیملی کے اکٹھا ہونے اور اس اکائي کی تقویت کا مظہر ہے تاہم امریکی بردہ فروش اس دسترخوان کو گھروں سے ہٹانے کے لیے کوشاں ہیں۔
امریکا میں افلاطونی نفس کے تین عناصر، غضب اور شہوت تو ہیں لیکن عقل نہیں
امریکا دنیا میں غیر اخلاقی اور عریاں فلمیں بنانے اور عریاں کنٹینٹ استعمال کرنے میں پہلے نمبر پر ہے، جنسی بیماریوں میں مبتلا ہونے کی شرح(4) کے لحاظ سے امریکا دنیا کے سب بڑے ملکوں میں سے ایک ہے، شریک زندگی سے بے وفائی کے معاملے میں بھی امریکا بہت آگے ہے(5) اور اسی طرح جنسی پہچان کے مسائل میں مبتلا جوانوں کی شرح(6) بھی امریکا میں بہت زیادہ ہے۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ "آزاد لوگوں کی سرزمین" در اصل "ذمہ داری قبول کرنے سے بیزار لوگوں کی سرزمین" ہے جو سرمایہ داروں کی طرف سے رائج بے راہ روی میں مبتلا ہو چکے ہیں اور امریکا، جنسی بیماریوں کی دواؤں اور علاج کی ایک سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ امریکا میں ہر سال تیس ارب ڈالر براہ راست جنسی انفیکشن کی دواؤں اور پورن کنٹینٹ پر خرچ ہوتے ہیں۔ امریکا اب اسی جنسی طرز زندگي کو دنیا میں ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ ہر سال امریکا کی کئي ہزار فلمیں، ٹی وی سیریل، ویب سیریز، ناول اور میوزک ایلبم پوری ڈھٹائي سے حیا اور عفت کا مذاق اڑاتے ہیں اور بچوں اور نوجوانوں کو اس طرز زندگي کی طرف کھینچتے ہیں۔ جو ممالک سنجیدگي کے ساتھ جنسی بے راہ روی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں، ان پر امریکا کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگایا جاتا ہے اور گھرانے اور سماج کی عفت کی حفاظت کی وجہ سے ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
امریکا میں ہر سال اوسطاً پچاس ہزار لوگ فائرنگ کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ امریکی قانون ساز اور سربراہان مملکت ہر بار میڈیا میں ہتھیار رکھنے کے قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت کی بات کرتے ہیں لیکن اس کے بعد ٹی وی کے اگلے پروگراموں میں قتل اور تشدد کو آرٹ سے سجا کر دیکھنے والوں کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہان تک کہ جوکر جیسے سماجی آئيڈیل کو بھی حالیہ برسوں میں تشدد اور قانون شکنی کے جذبے کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے امریکی سنیما کے ذریعے تیار کیا گيا اور عراق و ایران یہاں تک کہ خود امریکا میں سڑکوں پر ہونے والے ہنگاموں کے دوران دکھایا گیا۔ امریکا اسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ برآمد کرنے والا ملک بھی ہے اور وہ ہر سال سو سے دو سو ارب ڈالر کے ہتھیار ایکسپورٹ کرتا ہے۔ تشدد، امریکا میں ہتھیاروں کے پروڈکشن اور ایکسپورٹ کی بڑی صنعت کی خدمت میں ہے جس کی اس ملک میں طاقت کی ایک سب سے بڑی لابی ہے۔
امریکا نے زیادہ سے زیادہ خریداری کے اپنے کلچر کو بھی دنیا میں ایکسپورٹ کیا ہے۔ ہر سال امریکا کی بڑی کمپنیاں، سال کے آخر میں ویئرہاؤسنگ کے خرچے کو کم کرنے کے لیے آخری جمعے کو بہت زیادہ کنسیشن کے ساتھ اپنی مصنوعات کا سیل لگاتی ہیں جسے بلیک فرائیڈے کہا جاتا ہے۔ ایسی اشیاء کی خریداری کے لیے جن کی شاید بہت زیادہ ضرورت بھی نہ ہو، شاپنگ سینٹرز پر امریکی عوام کی بھیڑ دیکھنا دنیا کے لوگوں کے لیے تفریح کا ایک سامان بن گیا تھا یہاں تک کہ امریکی کلچر کا یہ رسوخ، ان ملکوں تک بھی پہنچ گیا جن کا کیلنڈر تک عیسوی کیلنڈر سے الگ ہے۔ بہت سارے ملکوں میں امریکا میں بلیک فرائیڈے کے ساتھ ہی، بلیک فرائیڈے کا اعلان کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ زبردست کنسیشن دیکھ کر اشیاء کی خریداری کے لیے ٹوٹ پڑیں۔
جسمانی خواہشات کو اس طرح سے توجہ کا مرکز بنانا، انسانیت کی سطح سے نیچے گرنا ہے۔ امریکی حکومت نے اہم سیاسی مسائل کی جانب سے لوگوں کی غفلت اور بے توجہی سے فائدہ اٹھا کر برسوں سے ان کے ٹیکس کے پیسوں سے پوری دنیا میں جنگیں بھڑکا رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ غزہ میں ہو رہی نسل کشی بھی امریکی عوام کو اس طرح سے بیدار نہیں کر پائي جس طرح سے انھیں بیدار ہونا چاہیے۔ امریکی بموں سے قریب پینتالیس ہزار لوگوں کا قتل، کچھ یونیورسٹیوں اور سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے علاوہ امریکا میں کوئي سنجیدہ تبدیلی نہیں لا سکا۔
بردہ داری کی بھینٹ چڑھنے والوں کی یاد
رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے سنہ 1992 میں کہا تھا: "امریکی کہتے ہیں کہ ہم انسانی حقوق کے حامی ہیں! ہم کہتے ہیں کہ تم انسانی حقوق کو مانتے ہی نہیں ہو۔ تم امریکا کی بڑی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کے حقوق کو مانتے ہو۔ تم پوری دنیا میں امریکی حکومت کے ناجائز مفادات کو مانتے ہو! (6/5/1992)
بہرحال بردہ داری کے خاتمے کے دن کی مناسبت سے امریکا میں ماڈرن بردہ داری کی قربانی بننے والوں کو یاد کرنا چاہیے جن سے صدیوں سے کہا جاتا رہا ہے کہ امریکا میں طبقاتی فاصلہ، اشیاء کی بے مقصد خریداری اور استعمال، بے راہ روی اور تشدد، آزادی کا فطری نتیجہ ہے۔ بلاشبہہ اس سوچ کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکی عوام کو ہوا ہے اور وہ ان اقوام کے لیے عبرت کا نشان بن گئے ہیں جنھوں نے امریکا، امریکی خواب اور امریکی انسانی حقوق کو اپنے لیے آئيڈیل بنا رکھا ہے۔