بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّتہ اللہ فی الارضین

برادران و خواہران عزیز! خوش آمدید! ماہ رجب شروع ہونے والا ہے، یہ دعا، عبادت اور خدا سے توسّل کا مہینہ ہے۔ اس مہینے سے استفادہ کریں، اپنے دلوں کو، اپنی روح کو اور اپنی نیتوں کو رحمت الہی کے بحر بیکراں سے متصل کریں۔ سارے امور خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ خدا سے ہمت طلب کریں، توانائی طلب کریں اور توفیق بندگی طلب کریں۔ ماہ رجب کی دعائیں اعلی اسلامی اور خدائی تعلیمات اور مضامین و مفاہیم سے سرشارہیں۔ خدا سے عافیت طلب کریں، توفیق طلب کریں، اور نصرت طلب کریں۔

  آج کا یہ جلسہ ہمارے عزیز شہید، شہید سلیمانی کی شہادت کی برسی اور اسی طرح گزشتہ برس شہید ہونے والے ان کے مزارکے زائرین کی     برسی کی مناسبت سے منعقد ہوا ہے۔ اس جلسے میں ان میں سے بعض شہدا کے لواحقین بھی موجود ہیں۔ کچھ لبنانی خواہران وبراداران بھی موجود ہیں، جن میں سے بعض وہ ہیں جنہیں لبنان کے حالیہ حوادث سے نقصان پہنچ چکا ہے۔ یہ شہادت اور اخلاص کا اجتماع ہے۔ آپ کے اس نورانی اجتماع سے حسینیے کی فضا بھی نورانی ہو گئی ہے۔

  خداوند عالم نے دکھا دیا کہ عزت اس کے ہاتھ میں ہے۔ یہ عزت ہی تو ہے؛ شہید سلیمانی کی برسی پر لوگوں کا دور دراز کے علاقوں سے، دوسرے ملکوں سے ان کے مزار پر جانے، اس کی زیارت اور وہاں فاتحہ پڑھنے کے لئے روانہ ہونا، عزت نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ عزت ہے۔ جب خدا کے لئے کام کرتے ہیں تو خدا بھی اس طرح اجر دیتا ہے۔ یہ تو دنیا میں ہے؛عالم رحمت و نعمت الہی میں ان کا درجہ ہمارے لئے قابل تصور بھی نہیں ہے۔ لیکن دنیوی اجر یہ ہے جو آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ ہزاروں لوگ ان کے مزار کی زیارت کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ یہ عزت خدا عطا فرماتا ہے؛ جب ہم اخلاص سے کام کرتے ہیں تو خدا اس طرح اجر دیتا ہے۔ بعض لوگ عزت حاصل کرنے کے لئے غلط کاموں اور وسیلوں کا سہارا لیتے ہیں۔

 قران میں ارشاد ہوتا ہے کہ" ایبتغون عندھم العزّۃ؛" عزت کے لئے کفار و منافقین کے پاس جاتے ہیں۔ " فانّ العزۃ للہ جمیعا"؛(2) عزت تو صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔ عزت خدا کے پاس ہے، اس کے اختیار میں ہے۔ یہ سورہ نساء کی آیت تھی۔ سورہ فاطر کی ایک آیت میں بھی ارشاد ہوتا ہے: "من کان یرید العزّۃ فللہ العزّۃ جمیعا"؛ (3)  عزت خدا کے اختیار میں ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ طرز زندگی میں، روش زندگی میں ان تعلیمات اور معرفتوں کو دخیل ہونا چاہئے۔ ان کی تاثیر ہونی چاہئے۔ ہم عزت چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ عزت کہاں ہے اور معدن عزت کہاں ہے۔

چند نکات عرض کروں گا؛ ایک نکتہ شہید سلیمانی کے بارے میں ہے۔ شہید سلیمانی کے بارے میں بہت باتیں کی گئيں۔ بہت کچھ کہا گیا۔ ان کی خصوصیات اور حالات کے بارے میں کتابیں لکھی گئيں۔ آرٹ اور فن کے شعبوں میں کام کیا گیا۔ مقررین نے تقریریں کیں۔ میں نے بھی اس سے پہلے کچھ باتیں عرض کی ہیں۔ (4) آج بھی شہید سلیمانی کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ عرض کروں گا تاکہ ہم بھی سیکھیں، یاد کریں اور ہم بھی اس راہ میں آگے بڑھیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ دو ہزار کے عشرے میں ہمارے علاقے میں، افغانستان میں اور عراق میں امریکا کے شرپسندانہ فوجی اقدامات شروع ہوئے، امریکا باضابطہ میدان میں آیا اور درحقیقت اس نے شر پسندی شروع کر دی۔ اس کی شرپسندانہ کارروائيوں کے آغاز میں ہی شہید سلیمانی میدان میں آ گئے۔ انھوں نے خطرے کی پرواہ نہیں کی اور دشمن کے رعب و دبدبے کو خاطر میں نہیں لائے۔

امریکا کا اصل ہدف ایران تھا؛ اس نے ایران کے مشرق میں افغانستان پر اور مغرب میں عراق پر حملہ کیا۔ دونوں حملے ایک الگ بہانے سے کئے گئے۔ ظاہری قضیہ یہ تھا لیکن درحقیقت مقصد ایران اسلامی اور ایرانی قوم کا دونوں طرف سے محاصرہ کرنا تھا۔ ہدف یہ تھا۔ یہ دونوں حملے ناکام ہو گئے تو فطری طور پر دشمن اپنا (مطلوبہ) نتیجہ حاصل نہ کر سکا۔

 شہید سلیمانی شروع میں ہی میدان میں آ گئے تھے۔ اس جہاد میں اس باشرف اور صادق انسان کا کردار بے نظیر ہے۔ خود تو نہ کہتے تھے اور نہ لکھتے تھے؛ میرا خیال نہیں ہے کہ کسی اور نے بھی ان کی ان خصوصیات اور ان باریکیوں کو لکھا ہوگا۔ یہ افسوس  کی بات ہے۔ معلومات بہت ہیں؛ اس سلسلے میں خود ہمارے اور دوسروں کے پاس اطلاعات بہت ہیں۔ انہیں ہمارے ملک کے سیاسی علوم ( پولیٹیکل سائنس) میں محفوظ رہنا چاہئے۔ انہیں دستاویز کی شکل میں محفوظ کرنا چاہئے تاکہ ہماری آئندہ نسلیں سمجھ سکیں۔

  شروع میں ہی جب، بیرونی افواج نے عراقی شہروں، نجف، کربلا، کاظمین، بغداد اور دیگر جگہوں پر حملہ کیا تھا تو تھوڑے سے نوجوانوں نے، کچھ نوجوانوں نے نجف میں، روضہ امیرالمومنین میں  مورچہ بنایا تھا، لیکن وہ بے سہارا تھے، نہ ان کے پاس ڈھنگ کے اسلحے تھے اور نہ ہی خوراک تھی۔ اس موقع پر سلیمانی نے اپنے فریضے کا احساس کیا۔ ان سے رابطہ برقرار کیا، ان کی مدد کی اور انہیں نجات دلائی۔ البتہ اس وقت ایک بہت ہی اچھا اور موثر اقدام دینی مرجعیت نے بھی انجام دیا وہ بھی انتہائی اہم تھا لیکن پہلے سلیمانی میدان میں آئے۔

امریکی اس لئے عراق نہیں آئے تھے کہ صدام کو ہٹاکے چلے جائيں؛ بلکہ اس لئے آئے تھے کہ صدام کو ہٹا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائيں۔ پہلے ایک فوجی حاکم کو، ایک فوجی جرنیل کو(5) عراق کا حاکم بنایا۔ پھر سمجھ میں آیا کہ یہ بہت برا ہے تو اس کو ہٹاکر اس کی جگہ ایک سیاسی فرد، بریمر کو (6) اس کی جگہ بٹھا دیا۔ وہ ہستی جو  اس اہم موڑ پر، اس بات کا سبب بنی کہ یہ دوسرا فرد ہٹایا جائے اور ایک سخت، پیچیدہ اور طولانی عمل میں عراق خود عراقیوں کو واپس ملے اور وہ خود اپنی حکومت کا انتخاب کریں، شہید سلیمانی تھے۔ انھوں نے اپنے کاموں سے ایک کثیر جہتی جنگ شروع کی، ثقافتی جنگ، فوجی جنگ، تشہیراتی جنگ اور سیاسی جنگ شروع کی۔ یہ کام الحاج قاسم سلیمانی نے کیا۔ 

 ایک مدت کے بعد داعش کی باری آ گئی؛ امریکیوں نے جب دیکھا کہ عراق اور اس علاقے کی دوسری جگہوں پر براہ راست مداخلت ان کے فائدے میں  نہیں ہے تو داعش کو تشکیل دیا۔ اس کا تو خود امریکیوں نے بھی اعتراف کیا ہے کہ داعش کو انھوں نے تشکیل دیا ہے۔ داعش کے مقابلے میں جو فرد اٹھا اور ڈٹ گیا وہ بھی شہید سلیمانی تھے۔ اس سلسلے میں ایک اہم نکتہ بعد میں عرض کروں گا۔ عراقی نوجوانوں نے کارنامہ انجام دیا؛ عراقی نوجوانوں نے اس مسئلے میں حقیقی معنوں میں کارنامہ انجام دیا لیکن شہید سلیمانی کا کردار حیاتی اہمیت رکھتا تھا۔ اگر وہ نہ ہوتے تو یہ کارنامہ انجام نہیں پا سکتا تھا۔ یعنی ایک فرد، خطے کے ایک اتنے اہم واقعے میں کہ اس علاقے کی زںدگی اور موت کا انحصار اس پر تھا، اس طرح جدت عمل، شجاعت اور طاقت کے ساتھ میدان میں آتا ہے اور اپنی جان ہتھیلی پر لے کر آگے بڑھتا ہے۔ ان مقابلوں میں جن کا ذکر ہوا، ان چند برسوں میں عجیب واقعات رونما ہوئے۔ یہ ایک بات۔  

دوسری بات یہ ہے کہ اپنی ان جہادی سرگرمیوں میں شہید سلیمانی کی مستقل حکمت عملی یہ تھی کہ استقامتی محاذ کی تقویت کی جائے؛ یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ ان ملکوں کے ان نوجوانوں کی توانائیوں سے استفادہ کیا جائے جو اس کام کے لئے تیار تھے تاکہ یہ کام بہترین طریقے سے انجام دیا جائے۔ وہ جہاں بھی جاتے تھے، عراق میں ایک طرح سے، شام میں ایک الگ طرح سے اور  لبنان میں ایک اور طرح سے، ہر ملک کی آمادہ قومی قوتوں کو، وہاں کے اپنے نوجوانوں کو جو اس کام کے لئے آمادہ ہوتے تھے، لام بند کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر عراق میں، دینی مرجعیت نے فتوی یا حکم دیا تھا کہ لوگ اور نوجوان داعش کا مقابلہ کریں؛ ہزاروں نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن یہ ہزاروں نوجوان بغیر کسی تنظیم کے، بغیر اسلحے کے اور بغیر ٹریننگ کے کیا کر سکتے تھے؟ انہیں کس نے منظم کیا؟ کس نے انہیں ہتھیار دیئے؟  کس نے انہیں مختصر مدت کی ٹریننگ دی؟  شہید سلیمانی نے اپنے عراقی دوستوں (منجملہ) شہید ابو مہدی کے تعاون سے۔ شہید ابو مہدی کو کم نہ سمجھیں۔ بہت عظیم انسان تھے، شہید سلیمانی اور دیگر مجاہدین کے ہمراہ جن میں سے بعض زندہ ہیں اور بعض شہید ہو گئے، بہت اہم تھے۔ ان مجاہدین کو شہید سلیمانی میدان میں لائے؛ یہ اس شہید کی ایک خصوصیت تھی۔ یہ درس ہے؛ یعنی موجودہ توانائيوں سے عظیم کام کے لئے استفادہ کرنا، اس کام سے واقفیت اور اس کا بیڑا اٹھانا؛ یہ شہید سلیمانی کا کام تھا۔ شہید سلیمانی کے بارے میں ایک اور بات یہ عرض کرنی ہے کہ عظیم مجاہدت کے ان تمام مراحل میں ہمارے اس عزیز برادر اور رفیق کے لئے مقدس مقامات کا دفاع بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔ روضہ ہائے مقدس کا دفاع ضروری تھا، زینبیہ کا دفاع ضروری تھا، اصحاب امیر المومنین کہ جن میں سے بعض شام میں اور بعض عراق میں مدفون ہیں، ان کے مزاروں کا دفاع ضروری تھا۔ مسجد الاقصی کا دفاع ضروری تھا جو عالم اسلام کا ایک عظیم مقدس مرکز ہے؛ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی رہنما نے شہید کی نماز جنازہ سے پہلے اپنی تقریر میں انہیں شہید القدس کہا تھا۔(7) وہ اس حرم کا دفاع کرتے تھے۔ اس کو حرم کا مصداق سمجھتے تھے۔ ایران کا بھی ایک حرم کی  حیثیت سے دفاع کرتے تھے۔ دیکھئے! مقدس حدود، مقدس محترم مراکز کے دفاع کی یہ منطق بہت اہم ہے۔ یہ بھی اس عظیم ہستی کی ایک خصوصیت تھی۔

 ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ ملک کے مسائل کے بارے میں شہید سلیمانی کا نقطہ نگاہ محدود نہیں تھا۔ یہ بہت اہم ہے۔ وہ ملک کے مسائل کو عالمی اور بین الاقوامی نقطہ نگاہ سے دیکھتے اور پرکھتے تھے۔ اس  کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا نظریہ تھا کہ علاقے میں بلکہ دنیا میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہمارے ملک کے اندر اور ہمارے ملکی مسائل پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ جتنا ان سے متعلق تھے، بعض چیزیں ان سے تعلق نہیں رکھتی تھیں؛ اقتصادی مسائل شہید سلیمانی سے متعلق نہیں تھے، وہ عالمی واقعات کی تاثیر پر نظر رکھتے تھے، انہیں پہچانتے تھے، ان کا تجزیہ کرتے تھے، اندازہ لگاتے تھے اور پھر اس پر کام کرتے تھے۔ سرحد پار کے خطرات پرنظر رکھتے تھے اور پہلے سے ہی اس کی تشخیص دے دیا کرتے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ میں دشمن کی لوری سے آسودہ خاطر ہوکر سونے والا نہیں ہوں۔ (8)  شہید سلیمانی اس طرح تھے۔ ان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی۔  یہ اس شہید عزیز کی بعض خصوصیات تھیں۔  

  شہید سلیمانی کے اندر ایک شخص کی حیثیت سے یہ خصوصیات نہيں تھیں۔ شہید سلیمانی اپنی ذاتی اور ایک فرد، ایک انسان کی حیثیت سے یہاں مد نظر نہیں ہیں، ان کی یہ حیثیت ثانوی درجہ رکھتی ہے؛ یہاں وہ مکتب کے ایک رکن اور ہدف کے ایک راہی کے عنوان سے مد نظرہیں۔ یہ خصوصیات  شہید سلیمانی کے اندر ایک مکتب کی حیثیت سے پائی جاتی تھیں جو ان کے پیش نظر تھا اور جس کے تئیں وہ اپنا فریضہ محسوس کرتے تھے۔ ميں بتاتا ہوں۔ مکتب سلیمانی وہی مکتب اسلام ہے، مکتب قرآن ہے اور وہ اس مکتب کے اس طرح پابند تھے اور اس طرح اس پر عمل کرتے تھے کہ اس کا معیار، محور اور مرکز بن گئے۔ ہمارے اندر بھی اگر وہی ایمان اور وہی عمل صالح ہو تو ہم بھی سلیمانی ہو جائيں گے۔ ہم ميں جو بھی اسی طرح اس راستے پر چلے، یہ لطف الہی اس کے بھی شامل حال ہو جائے گا۔ یہ شہید سلیمانی کے تعلق سے پہلی بات ہے۔    

 دوسرا نکتہ دفاع حرم کے مسئلے سے تعلق رکھتا ہے۔ دفاع حرم وہ عنوان ہے جو ایران میں، ہمارے عوام اور معاشرے میں اس طرح مقبول ہوا کہ بہترین لوگ اس کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے؛ دفاع حرم میں عزیز جانیں قربان ہوئيں اور پاکیزہ خون بہے۔ کچھ لوگ، ان کے بارے میں، میں برے الفاظ بروئے کار نہیں لاؤں گا، صحیح تجزیہ نہ ہونے کی بنا پر، صحیح فہم نہ ہونے کی بنا پر اور مسائل کی ضروری شناخت کے فقدان کی بنا پرسوچنے لگے، زبان پر بھی لانے لگے اور شاید اس بات کی ترویج بھی کرنے لگے کہ علاقے کے حالیہ واقعات سے، وہ خون بھی رائیگاں ہو گیا جو دفاع میں بہا ہے۔ یہ غلط ہے، بہت بڑی غلطی ہے جس کے وہ مرتکب ہو رہے ہیں۔ خون رائیگاں نہیں ہوا۔

 اگر جانوں کی یہ قربانیاں نہ ہوتیں، یہ مجاہدتیں نہ ہوتیں، اگر خطے کے پہاڑی علاقوں اور صحراؤں میں الحاج قاسم سلیمانی کی دلیرانہ کارروائیاں نہ ہوتیں اور وہ پاسبانان حرم کو اپنے ساتھ میدان میں نہ لائے ہوتے تو یقین رکھیں کہ  آج ان روضہ ہائے مقدس کی کوئی خبر نہ ہوتی۔ نجف کی کوئی خبر نہ ہوتی۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ سامرا؛ سامرا کے تعلق سے تھوڑی سی غفلت ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ انھوں نے روضہ ہائے سامرا کے گنبد شہید کر دیے۔ ضریحوں کی بے حرمتی کر دی۔ کن لوگوں نے؟ انہیں تکفیریوں نے امریکا کی مدد سے۔ ہر جگہ ایسا ہی تھا؛ اگر یہ دفاع انجام نہ پاتا تو یہ مقدس روضے بھی، یہ قبلہ ہائے قلب مسلمین بھی، روضہ سامرا کی طرح شہید ہو جاتے۔ یہ (مدافعین حرم) گئے، مجاہدت کی، کارنامے انجام دیے، دشمن کے سامنے ڈٹ گئے اور اس کو دنداں شکن جواب دیا۔ انھوں نے بہت عظیم دفاع کیا ہے۔ یہ عظیم حقیقت صرف مکان مقدس سے ہی نہیں بلکہ صاحب مکان (مکین) سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ یہ مکتب امام بزرگوار( امام خمینی رحمت اللہ) ہے۔

ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ بنیادی طور پر قرآنی تعلیمات کے مطابق جو خون بھی راہ خدا میں بہے، وہ رائیگاں نہیں جاتا۔ کوئی خون بھی ضائع نہیں ہوتا۔ حتی اگر کامیابی حاصل نہ ہو تب بھی جو خون بہتا ہے وہ رائیگاں نہیں جاتا۔ جناب حمزہ کا خون احد میں بہایا گیا؛ کیا رائیگاں ہوا؟ نہیں۔  اور سب سے بڑھ کر سید الشہدا (سلام اللہ علیہ) کا خون کربلا میں بہا، کیا رائیگاں ہو گیا؟ ہرگز نہیں۔  جو خون بھی راہ خدا میں بہے وہ رائیگاں نہیں جاتا۔ قرآن بھی یہی فرماتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ " وَ مَن یُقاتِل فی‌ سَبیلِ اللہ فَیُقتَل اَو یَغلِب فَسَوفَ نُؤتیہ اَجرًا عَظیمًا"(9) آپ چاہے کامیاب ہوں یا مارے جائيں، شکست کھا جائيں اور کامیاب نہ ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ اقدام خدا کے نزدیک اہم ہے؛ یہ جہاد خداوند عالم کے نزدیک اہمیت رکھتا ہےاور کامیابی بھی یقینی ہے۔ ان کی باطل حرکتوں کو نہ دیکھیں۔ جان لیں کہ یہ جو آج اچھل کود رہے  ہیں، ایک دن مومنین کے پیروں تلے کچلے جائيں گے۔   

ایک اور نکتہ انقلاب سے متعلق ہے، اسلامی جمہوریہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ان چند برسوں کے واقعات، جن میں شہید سلیمانی اور ان کے احباب اور ساتھی فعال اور نمایاں تھے، منجملہ دفاع حرم نے ثابت کر دیا کہ اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ زندہ ہے، شاداب ہے اور درخت ثمر دار ہے؛ تُؤتی‌ اُکُلھا کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رَبّھا"؛(10) اس کو ثابت کر دیا۔ دو ہزار اور دو ہزار دس کے عشرے کے نوجوان اسّی کے عشرے کے نوجوانوں کی طرح اٹھے، میدان میں آئے، مجاہدت کی اور جاں نثاری کی۔ جس طرح کہ اسّی کے عشرے میں بعض نوجوان اپنے والدین کے قدموں میں پڑکے ان سے محاذ پر جانے کی اجازت مانگتے تھے، اسی طرح شہید حججی اپنی ماں کے پیروں کو بوسہ دے کر ان سے محاذ پر جانے، مجاہدت کرنے اور حرم کا دفاع کرنے کی اجازت طلب کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انقلاب زندہ ہے۔ دنیا میں بہت سے سماجی اقدامات انجام پاتے ہیں۔ شروع میں ان میں جوش وخروش ہوتا ہے پھر افسردگی آ جاتی ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران چالیس سے زائد برسوں سے آج بھی اسی طرح زندہ ہے۔ آج بھی یہ عزیز نوجوان اٹھ کھڑے ہوئے اور یقینا دسیوں لاکھ  نوجوان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ضرورت ہوئی تو ہم اسلام کے دفاع میں، د شمن کے مقابلے پر جانے اور اپنی جان فدا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ 

پاسبانان حرم نے ثابت کر دیا کہ پرچم مجاہدت بدستور سربلند ہے اور ان برسوں کے دوران، دشمن اپنی تمام تر سرمایہ کاری کے باوجود جو اس نے کی تھی اور ان تمام اخراجات کے بعد بھی جو اس کو برداشت کرنے پڑے، پرچم استقامت کو نہ جھکا سکا؛ چاہے وہ فلسطین ہو یا لبنان، شام ہو یا عراق یا ایران، کہیں بھی یہ کام نہ کر سکا اور کبھی نہیں کر سکے گا۔

ایک اور اہم نکتہ جو میں نے یہاں لکھا ہے، یہ ہے کہ ہر ملک میں استقامت اور ملی طاقت و توانائی کے کچھ عوامل ہوتے ہیں؛ ان عوامل کی حفاظت ضروری ہے۔ بعض ملکوں میں بڑی غلطیاں یہ کی جاتی ہیں کہ ثبات و استحکام اور طاقت و توانائی کےعوامل کو میدان سے باہر کر دیتے ہیں۔ جاں نثاری کے لئے تیار مومن نوجوان ملی قوت و اقتدار کے اہم ترین عوامل ہیں۔ انہیں کنارے نہیں لگانا چاہئے۔ یہ بھی ہمارے لئے ایک درس ہے۔ الحمد للہ کہ یہاں بہت حد تک اس کا خیال رکھا گیا ہے۔ بعض دیگر ملکوں میں بھی اس نکتے پر توجہ ضروری ہے۔ انہيں معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے ثبات و استحکام کے عوامل کیا ہیں۔ اگر انہیں کنارے لگا دیا تو وہی ہوگا جو بعض ملکوں میں ہوا ہے۔ ثبات واستحکام اور ملی اقتدار کے عوامل کو کنارے لگایا گیا تو وہی ہوگا جو شام میں ہوا۔ ہرج ومرج ہوگا۔ جیسے شام پر اغیار کا قبضہ ہو جاتا ہے، ایک طرف سے امریکا، دوسری طرف سے صیہونی حکومت اور بعض دیگر جارح ممالک پہنچ جاتے ہیں۔

البتہ یہ شام میں ٹک نہیں پائيں گے۔ شام، شام کے عوام کا ہے۔ جنہوں نے شامی عوام کی سرزمین پر جارحیت کی ہے، ایک دن شام کے غیور نوجوانوں کی طاقت کے مقابلے میں پسپائی پر مجبور ہوں گے۔ اس میں شک نہیں کہ یہ ہوکے رہے گا۔ جارح کو اس سرزمین سے جو دوسری قوم کی ہے، خود نکل جانا چاہئے نہیں تو نکالا جائے گا۔ آج امریکی شام میں اڈے پر اڈے بنا رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ، ایک دن یقینا یہ اڈے شامی نوجوانوں کے پیروں تلے روندے جائيں گے۔ 

 لبنان استقامت کی علامت ہے۔ لبنان پر ضرب لگی لیکن وہ خم نہیں ہوا، جھکا نہیں۔ دشمن ضرب لگاتا ہے لیکن" فَاِنّھم یَالَمونَ کَما تَالَمون "(11) پھر خود اس پر وار لگتا ہے اور آخر میں قوت ایمانی اور صاحبان ایمان کامیاب ہوتے ہیں۔ لبنان استقامت کی علامت ہے، کامیاب ہوگا؛ یمن بھی استقامت کی علامت ہے کامیاب ہوگا اور ان شاء اللہ دشمن اور جارحین، جن میں سر فہرست لالچی اور جرائم پیشہ امریکا ہے، یہ علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوں گے، علاقے کی اقوام سے شکست کھائيں گے اور ذلت و خواری کے ساتھ اس علاقے سے نکلنے پر مجبور ہوں گے۔

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
  
1۔  اس جلسے میں شہید سلیمانی، شہدائے پاسبان حرم، شہدائے استقامت، 2023 میں گلزار شہدائے کرمان میں انجام پانے والے دہشت گردانہ حملے کے شہدا، 2019 میں شہید سلیمانی کے جنازے میں شہید ہونے والوں اور  لبنان کے حالیہ واقعات میں شہید اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین موجود تھے۔
 2۔ سورہ نساء کی آیت نمبر139 کا ایک حصہ

3۔ سورہ فاطر کی آیت نمبر10 کا ایک حصہ؛" اور جو بھی عزت و سربلندی چاہتا ہے اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ عزت و سربلندی صرف خدا کے اختیار میں ہے۔   ‌

 4۔ رجوع کریں 6-1- 2019 کی تقریر سے

 5۔ جے گارنر

 6۔ پال بریمر

 7۔  تہران میں شہید سلیمانی کی نمازجنازہ سے پہلے، حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ شہید اسماعیل ہنیہ کی تقریر کی طرف اشارہ ۔

 8۔ نہج البلاغہ خطبہ نمبر6 " وَ اللہ  لا اَکونُ کَالضَّبُعِ تَنامُ عَلی طولِ اللَدم‌ "

 9۔ سورہ نساء آیت نمبر 74 کا ایک حصہ"۔۔۔ اور جو بھی راہ خدا میں جنگ کرے اور مارا جائے یا کامیاب ہو جائے، ہم بہت جلد اس کو بڑا انعام دیں گے"

 10۔ سورہ ابراہیم آیت نمبر 25 کا ایک حصہ "یہ درخت اپنے پرورگار کے اذن سے ثمر دے گا۔۔۔"

11۔ سورہ نساء آیت نمبر 104 کا ایک حصہ"۔۔۔ جس طرح تم درد برداشت کر رہے ہو،  وہ بھی اسی طرح  درد میں مبتلا ہوں گے۔۔۔۔"