رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تنقید کی کہ مجالس اور کتب میں امام محمد تقی، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہم السلام پر بہت کم کام ہوتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ان تینوں اماموں کے زمانے میں شیعہ تعداد اور علمی کاموں کے اعتبار سے ہر دور سے زیادہ آگے بڑھے۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے ہفتہ کی دوپہر کو امام علی نقی علیہ السلام کے یوم شہادت کی مجلس عزا کے آخر میں تشیع کے فروغ میں امام علی نقی علیہ السلام کے بے مثال کردار اسی  طرح ان کے فرزند اور ان کے والد کی بھی عظیم خدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ اسلام کے کسی بھی دور میں تشیع کو ان تینوں اماموں کے دور جیسی وسعت نہیں ملی۔ امام علی نقی اور امام محمد تقی علیہما السلام کے زمانے میں بغداد اور کوفہ شیعوں کے اصلی مراکز بن گئے اور شیعہ تعلیمات و معارف کی ترویج میں ان دونوں ہستیوں کا کردار بے مثال رہا۔ 

انہوں نے ان تینوں اماموں کی زندگی اور تعلیمات پر تاریخی اور آرٹ جیسے الگ الگ شعبوں کے ذریعے توجہ دئے جانے کی ضرورت پر تاکید کی اور ان تینوں اماموں کی زندگی پر کما حقہ توجہ نہ دئے جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ تاریخ کی نگارش، کتب نویسی اور حتی مجالس میں ان تینوں اماموں کی زندگی اور علوم پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ ضرورت ہے کہ محققین اور آرٹ کے شعبے کے افراد کام کریں اور زیادہ تعداد میں تخلیقات و تصنیفات سامنے آئیں۔ 

رہبر انقلاب اسلامی نے زیارت جامعہ کو گوہر بے مثل سے تعبیر کیا اور کہا کہ اگر امام علی نقی علیہ السلام کی کوششیں نہ ہوتیں تو آج ہمارے پاس زیارت جامعہ کبیرہ نہ ہوتی، اس زیارت میں موجود علوم و معارف جو آیات قرآنی اور خالص شیعہ حقائق پر مبنی ہیں امام علی نقی علیہ السلام کی علمی گہرائی اور عبور کا آئینہ ہیں۔ 

آیت اللہ خامنہ ای نے ایک ناول کا ذکر کیا جو حال ہی میں ان کی نظر سے گزرا اور جس میں امام محمد تقی علیہ السلام کے ایک معجزے کا ذکر تھا، ان کا کہنا تھا کہ اس میدان میں اس انداز سے بہت کم کام ہوا ہے اور ضرورت ہے کہ اس طرح کی تخلیقات زیادہ تعداد میں سامنے آئیں۔