بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین.
برادران وخواہران عزیز، خوش آمدید! سب سے پہلے تو میں حضرت بقیّۃ اللہ الاعظم (امام زمانہ) علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، یہ در حقیقت عالمی اور انسانی عید ہے۔ عدل و انصاف کی بشارت اور قیام عدل کی امید تاریخ میں ہمیشہ بنی نوع انسان کی آرزو اور امید کا مرکز رہی ہے۔ تاریخ بشر کا کوئی بھی دور آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس میں لوگ عدل و انصاف کے منتظر نہ رہے ہوں اور ان کے اندر کسی نجات دہندہ کی آرزو نہ رہی ہو۔ شیعہ تعلیمات کے مطابق یہ آرزو یقینا پوری ہوگی۔ حضرت امام مہدی کے وجود پر شیعہ اور سنی کسی کو شک نہیں ہے، اس پر سب کا اجماع ہے، لیکن شیعوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ حضرت امام مہدی (عج اللہ تعالی فرجہ الشریف) کو آپ کی سبھی مخصوص صفات کے ساتھ، آپ کے نام کے ساتھ اور آپ کے والد نیز آپ کی والدہ کے نام کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ یہ ہماری خصوصیت ہے۔ امید ہے کہ ان شاء اللہ ہمیں آپ کی زیارت نصیب ہو۔
میں اسی کے ساتھ اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں۔ یہ دن ہماری قوم کے لئے اور ہماری تاریخ کے لئے ایک بڑی عید کا دن ہے۔ جو بھی اسلامی انقلاب سے پہلے، شاہی دور میں ایران کی حالت سے واقف ہو، وہ پورے وجود سے تصدیق کرے گا کہ انقلاب کی سالگرہ ملت ایران کے لئے ایک تاریخی عید ہے اور ہمارے عوام جس طرح یہ عید مناتے ہیں دنیا میں کہیں بھی آپ اس کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات آئے، لیکن انقلاب آنے کے چھیالیس برس ہو جائیں اور ہر سال اس کی سالگرہ پر عام لوگ، مسلح افواج کے افراد نہیں، حکومت کے افراد نہیں، بلکہ عام لوگ باہر نکلیں، خوشیاں منائیں، انقلاب سے لگاؤ کا اظہار کریں اور اس دن کو عظیم دن سمجھیں، دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ یہ صرف یہاں سے مخصوص ہے۔ دیگر انقلابات سے ہم واقف ہیں، ان کی تاریخ ہمیں معلوم ہے، ان سے وابستہ لوگوں کو بھی ہم جانتے ہیں، ان کے اثرات اور نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں، ان انقلابات کے تیئں ان ملکوں کی اقوام اور عوام کا رویہ کیسا رہا، اس کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ صورتحال جو ایران میں ہے کہ اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے دن عوام کے مختلف طبقات کے لوگ، عورتیں، مرد، بچے بوڑھے جوان سبھی کئی گھنٹوں کے لئے سڑکوں پر نکل پڑیں، اس سرد، برفانی اور سوزناک سردی کے موسم میں ، موسم کی خرابی کے باوجود سڑکوں پر آ جائيں ، یہ صرف ایران سے مخصوص ہے۔
اور اس سال کی اسلامی انقلاب کی سالگرہ کا جشن ممتاز ترین جشن انقلاب تھا، اہم ترین جشنوں میں سے تھا۔ عوام نے پیر کے دن واقعی قیام کیا ہے۔ یہ جو عوام سڑکوں پر آئے، نعرے لگائے، باتیں کیں، ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنے نظریات بیان کئے، اور یہ پورے ملک میں ہوا، ایک عوامی قیام تھا، ایک ملی تحریک تھی، اسی اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے خلاف، اس جشن سالگرہ کے مالکین کے خلاف جو عوام ہیں، اور اس انقلاب کے ہیرو کے خلاف جو حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ ہیں، دشمن کی تشہیراتی بمباریوں اور نرم جنگ کے حملوں کے سائے میں اور تشہیراتی اور ابلاغیاتی بمباریوں کے دوران لوگ اس طرح ظاہر ہوں، یہ ملی تحریک تھی۔ شاداب اور کھلتے ہوئے چہروں کے ساتھ نوجوانوں کا آنا، اور پورے ملک میں ، صرف تہران میں نہیں، صرف بڑے شہروں ميں ہی نہیں، دیہی بستیوں تک میں لوگوں نے اسی طرح شرکت کی، بعض شہروں میں بہت سردی تھی، موسم کے حالات نامناسب تھے، اس کے باوجود لوگ نکلے، یہ ملت ایران کے اتحاد کا پیغام تھا۔ حق اور انصاف یہ ہے کہ ایرانی عوام نے بہت بڑآ کارنامہ انجام دیا۔ ان احمقانہ دھمکیوں کے مقابلے میں جو یکے بعد دیگرے مسلسل ملت ایران کو دی جا رہی ہیں، ایرانی عوام نے اپنا تشخص، اپنی شخصیت، اپنی توانائی اور پائیداری دکھا دی اور اس تحریک کو مکمل کر دیا صدر محترم کی تقریر نے۔ انھوں نے عوام کی زبان میں، عوام کے دل کی بات، جس کا بیان ضروری تھا، کہہ دی۔ میں ہمیشہ اپنے مخاطبین سے، عزیز نوجوانوں سے جنہیں میں دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہوں، کہتا ہوں کہ کام وقت پر کرنا چاہئے۔ ایرانی عوام نے پیر کے دن بروقت کام کیا۔ جب انجام دینا چاہئے تھا، اسی وقت انجام دیا، جس وقت خود کو دکھا دینا ضروری تھا، اسی وقت، دنیا کو دکھا دیا۔ خدا اس قوم پر رحمتیں نازل فرمائے! امید ہے کہ آن شاء اللہ اس دلیر، دانا اور باخبر قوم کا مستقبل روز بروز روشن سے روشن تر ہوگا۔
وہ نمائش جو آج میں نے نزدیک سے دیکھی ان بہترین نمائشوں میں سے تھی جو میں کبھی کبھی دیکھتا ہوں۔ واقعی وہ ایک گھنٹہ جو میں نے اس نمائش میں گزارا ، بہت اچھا اور شیریں تھا۔ ملک کے دفاع کے کے لئے جو کام ہو رہا ہے، اس حوالے سے اس نمائش نے ان مجاہدتوں کی نشاندہی کی ہے جو انجام پا رہی ہیں۔ آپ میں سے ایک ایک فرد اور دفاع سے متعلق اداروں میں، چاہے وہ دفاعی صنعت کا ادارہ ہو یا ديگر ادارے ہوں، کام کرنے والے سبھی افراد اس نمائش میں میں جو قابل فخر چیزیں دکھائی گئی ہیں، ان کی تیاری میں شریک ہیں، ميں ان سب کا، ایک ایک فرد کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور ایرانی عوام کو بھی آپ میں سے ایک ایک فرد کا شکرگزار ہونا چاہئے۔ قوم کا دفاع اور اس کی سلامتی کا دفاع معمولی چیز نہيں ہے۔
آج ہمارے ملک کی دفاعی طاقت زباں زد خاص وعام ہے۔ آج ایران کی دفاعی طاقت ہر ایک کی زبان پر ہے، ایران کے دوست، اس دفاعی طاقت پر فخر کرتے ہیں اور ایران کے دشمن، اس دفاعی توانائی سے خوفزدہ ہیں۔ یہ بات ملک و قوم کے لئے بہت اہم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کسی زمانے میں دنیا میں جو منہ زوری کرنے والے تھے، غنڈہ گردی کرنے والے تھے اور آج بھی ہیں، ایک وقت ایسا تھا کہ ہمیں دفاعی وسائل کی ضرورت تھی اور ہم کئی گنا قیمت ادا کرنے کے لئے بھی تیار تھے، لیکن ہم سے صاف کہتے تھے، "نہیں بیچیں گے" اور جو لوگ ایران کے ہاتھ فروخت کرنا چاہتے تھے، ان کو اس کی اجازت بھی نہیں دیتے تھے۔ کہتے تھے "ایران کے ہاتھ نہیں بیچیں گے۔" آج وہی منہ زور طاقتیں ایران سے کہتی ہيں کہ "نہ بیچو" اس "نہیں بیچیں گے" کے مرحلے اور اس "نہ بیچو" کے مرحلے میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ہمارے سائنسدانوں نے، ہمارے کام کرنے والوں نے، ہمارے محنت کشوں نے، ہمارے ماہرین نے ، ہماری ذہین ہستیوں نے، ہمارے ممتاز نوجوانوں نے اور ہمارے ان دلیر مردوں نے یہ فاصلہ طے کر لیا۔ آج دفاعی میدان میں ہماری پوزیشن اچھی ہے۔ اس نمائش میں ہماری آنکھوں کے سامنے اس سے زیادہ آیا جس کا ہمیں علم تھا اور جو ہم نے سن رکھا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام پابندیوں کے دوران انجام دیے گئے ہیں۔ یہ پیشرفت اور ترقی اس دور میں ہوئی ہے جب ہم پر پابندیاں تھیں۔ یعنی اس دور میں جب وہ کہتے تھے" نہیں بیچیں گے" اس دور میں جب وہ ہمیں کچھ دینے کے لئے تیار نہيں تھے۔ آج بھی ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ وہ پرزہ ایران کے ہاتھ نہيں لگنا چاہئے۔ لیکن ہمارے نوجوان اس سے بہتر یہاں تیار کر رہے ہيں۔ بہت اچھی پوزیشن دیکھی، الحمد للہ بہت اچھا لگا، آپ میں سے ایک ایک فرد، آپ کے افسران، ممتاز افراد، اساتید محترم اور ممتاز سائنسدانوں، سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
چند نکات بیان کروں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ یہ پیشرفت جو ہم نے آج حاصل کی ہے، اس نے ہماری دفاعی طاقت کا درجہ بڑھا دیا ہے، لیکن اس سے ہمارے اندر یہ احساس نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ الحمد للہ بس مسئلہ ختم ہو گیا، نہيں! بلکہ چونکہ ہم نے صفر سے شروع کیا ہے، اس لئے، اگرچہ بہت کام ہوا ہے، بہت کوششیں ہوئی ہیں، لیکن ابھی بہت سے معاملات میں ہم اگلی صف تک نہیں پہنچے ہیں۔ ہمیں اگلی صف تک پہنچنا ہے۔ کس لئے؟ اس لئے کہ یہ جو ہمارے بدخواہ ہیں، بعض معاملات میں اگلی صف ميں ہيں، لہذا ہمیں اپنے بدخواہوں کے مقابلے میں دفاع پر قادر ہونا چاہئے اور یہ اسی وقت ہوگا جب ہم اگلی صف میں پہنچ جائيں۔ بات یہ ہے۔ قرآن نے اس سلسلے ميں ہمیں ضروری درس دیا ہے " واعدّوا لھم ما استطعتم" (2) یہ لفظ "ما استطعتم" بہت اہم ہے۔ یعنی جو بھی کر سکتے ہو، جتنا ہو سکے خود کو تیار کرو! اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام جو ہم نے چند برس پہلے شروع کیا، اور اس کے گوناگوں بہت اچھے ثمرات کا بھی ہم نے مشاہدہ کیا، بعض کا وزیر محترم نے ذکر کیا، کچھ ہم نے اس نمائش میں دیکھا اور سنا، اس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ یہ پہلا نکتہ۔ بنابریں یہ پیشرفت رکنی نہیں چاہئے۔ ہمیں اس پر قانع نہیں ہو جانا ہے۔ مثال کے طور پر، کسی زمانے میں میزائل کی ٹارگٹ ایکیوریسی کے حوالے سے ہم نے اپنے لئے ایک سطح اور ایک حد مد نظر رکھی تھی، اب یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ حد کافی نہیں ہے! آگے جانے کی ضرورت ہے، مزید آگے بڑھنا چاہئے! یہ پہلا نکتہ کہ پیشرفت جاری رہنی چاہئے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر چاہتے ہیں کہ پیشرفت جاری رہے تو ایجاد اور نئی چیزیں تیار کرنے کو اپنا ہدف قرار دیں۔ ایجادات پر توجہ مرکوز کریں۔ رائج طریقوں پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہئے۔ ایجادات اور نئے کام کی کوئی حد نہیں ہے۔ ایجادات ضروری ہیں۔ یہ کافی نہیں ہے کہ ہم اس بات پر قادر ہو جائيں کہ دوسروں نے جو چیز بنائی ہے، ہم بھی وہ بنالیں یا اس کو مکمل کر لیں، تھوڑا سے اس سے بہتر بنا لیں۔ یہ کافی نہیں ہے۔ آپ وہ کام کرنے کی طرف جائيں جو کسی نے نہیں کیا ہے۔ عالم فطرت میں بہت سی چیزیں ہیں، بہت سے ایسے امکانات ہیں جن سے ہم واقف نہيں ہيں۔ ایک زمانے میں لوگ برقی توانائی سے واقف نہیں تھے۔ یہ توانائی دنیا میں ازل سے موجود تھی، عالم فطرت میں الیکٹریسٹی موجود تھی، انسان اس کو نہيں پہچانتا تھا، بعد میں انکشاف کیا۔ اس طرح کی اربوں توانائیاں فطرت میں موجود ہیں۔ آپ خود دیکھتے ہیں، سائنسی ترقیات کو دیکھ رہے ہیں روز بروز ترقی ہو رہی ہے۔ ایک زمانے میں انٹر نیٹ نہيں تھا، پھر وجود میں آ گیا۔ پھر اس کی انواع و اقسام کی وسیع خصوصیات سامنے آئیں۔ ایک وقت آرٹیفیشل انٹیلیجنس نہیں تھی۔ پھر سامنے آ گئی، یہ حقائق ہیں۔ کچھ لوگ کسی ایک چیز پر لگ جاتے ہیں، ان کے ذہن ميں ایک بجلی چمکتی ہے اور وہ اس پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ نتائج حاصل کرتے ہیں۔ آپ بھی یہ کام کریں۔ ایجاد اور نئے کام کا مطلب یہ ہے۔ جو کام پہلے ہو چکے ہیں انہیں مکمل کرنا نیا کام نہیں ہے۔ دونوں ميں فرق ہے۔ اگر حقیقی پیشرفت کرنا چاہتے ہیں تو نیا کام کریں۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔
اس میدان میں نوجوان، مومن، انقلابی، با استعداد سائنسدانوں سے کام لیا جائے۔ ایسے نوجوانوں کو اس پر لگایا جائے جن کے اندر توانائی اور ذہانت ہے۔ مومن میں اس لئے کہتا ہوں کہ ایمان انسان کو توانائی عطا کرتا ہے، انسان کو صحیح اور سیدھے راستے پر باقی رکھتا ہے۔ انقلابی اس لئے کہتا ہوں کہ وہ اس عظیم تغیر پر یقین رکھتا ہو۔ یہ عظیم سیاسی اور سماجی تغیر جو انقلاب کی برکت سے ملک میں آیا ہے۔ یہ لوگ نئے کام کر سکتے ہیں۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ کیڈٹ یونیورسٹیوں کی تحقیقات میں، ملک کی دفاعی ضروریات کو سامنے رکھیں۔ یعنی ہدف، دفاعی ضروریات کی تکمیل ہو۔ کمیاں دور کرنا ہو۔ میں یہ کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس لئے کہ ملک کی بعض یونیورسٹیوں ميں اساتید اور سائنسدانوں کی توجہ، مقالے لکھنے اور انہیں شائع کرنے پر ہوتی ہے، انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس مقالے سے کون سی کمی پوری ہوگی۔ بعض اوقات کوئی ایسا مقالہ لکھا جاتا ہے جس سے اپنوں سے زیادہ دوسرے استفادہ کرتے ہیں، گویا یہ مقالہ دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔ مسلح افواج کے تحقیقاتی مرکز ميں اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ گراوٹ نہ آنے پائے۔ بس یہ دیکھیں کہ ہمیں کہاں ضرورت ہے، ہماری دفاعی ضرورت کیا ہے، اس پر توجہ دیں اور اس پر کام کریں، اس پر تحقیق اور ریسرچ کریں۔
آج جو آپ کے پاس ہے، یہ اچھی فکر، یہ تحقیق کی قوت، یہ بنانے کی توانائی، یہ ایجاد اور نئے کام کی طاقت، یہ نعمت الہی ہے۔ ان نعمتوں کا شکر ادا کریں اور خداوند عالم کا عطیہ جانیں۔ ما بنا من نعمۃ فمنک لا الہ الّا انت۔(3) سبھی نعمتیں خداوند عالم نے ہمیں دی ہیں۔ شکرادا کریں۔ ان نعمتوں کا شکر، ذات اقدس الہی کا زبان اور دل سے شکریہ ادا کرنے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ اس توانائی سے کام لیں جو خداوند عالم نے آپ کو عطا فرمائی ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
1۔ اس جلسے کے شروع میں وزیر دفاع بریگیڈیئر عزیز نصیرزادہ نے رپورٹ پیش کی۔ اس سے پہلے رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتدار 1403 نمائش کا معائنہ کیا جس میں ملک کی دفاعی صنعت کے ماہرین اور سائنسدانوں کی تیار کردہ جدید ترین مصنوعات رکھی گئی تھیں۔
2۔ سورہ انفال، آیت نمبر 60
3۔ مصباح المتھجد وسلاح المتعبّد جلد 1 صفحہ 75