بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
خوش آمدید! ان شاء اللہ سال کا یہ آغاز آپ سب کے لئے اور پوری ایرانی قوم کے لئے مبارک سال کی نوید ہو۔ اس سال نوروز اور آغاز سال کو متبرک ایام اور راتوں کے ساتھ آمد کی وجہ سے زیادہ معنوی رنگ مل گیا ہے۔ البتہ یہ نکتہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ نوروز ہر سال ایرانیوں کی نگاہ ميں معنویت اور خداوند عالم پر توجہ نیز توسل کے ہمراہ ہوتا ہے۔ اسی لئے ہم ہمیشہ 'تحویل سال' دعا کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔ جو لوگ عید نوروز کے ایام میں مسافرت پر جاتے ہیں، وہ زیادہ تر مقدس مراکز کا رخ کرتے ہیں۔ اس سال آپ نے دیکھا کہ تحویل سال کے موقع پر مشہد مقدس میں، صحن مطہر کے اندر کیسا اجتماع تھا۔ یا ایک رات قبل تہران کی بہشت زہرا میں لوگ کس طرح جمع ہوئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ایرانی، ہمارے عزیز عوام حتی عید نوروز کو بھی معنوی عید سمجھتے ہیں اور خدا پر توجہ اور توسّل کے ساتھ سال کا آغاز کرتے ہیں۔ خدا کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ اگرچہ دشمنوں نے ایرانی قوم کو معنویت سے الگ کرنے کے لئے کافی زہریلے پروپیگنڈے کئے لیکن ان کی تمام کوششیں ناکام رہیں اور ایرانی قوم معنویت، خدا پر توجہ اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے توسّل سے نزدیک تر ہوئی ہے اور ان سے اس کی عقیدت، محبت اور اخلاص بڑھا ہے۔
یہ ایام امیر المومنین علیہ االصلاۃ و السلام سے متعلق ہیں۔ یہ بھی ہمارے لئے درس ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام، تاریخ ميں عدل و انصاف کی چوٹی ہیں، تقوی کی چوٹی ہیں، عفو و درگزر کی چوٹی ہیں۔ اگر ایرانی عوام اور مسلم اقوام، اس عظیم انسان کے درس سے جو پیغمبر کے بعد برترین انسان ہے، استفادہ کرنا چاہے تو نہج البلاغہ سے رجوع کریں۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ ثقافتی و علمی میدان ميں کام کرنے والے افراد اس سال، نہج البلاغہ کے مطالعے اور تعلیم پر خصوصی توجہ دیں۔
آج جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان راتوں میں دعا و مناجات کے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ آج کی رات جو آ رہی ہے، وہ شب 21 رمضان ہے، اس کے بعد شب 23 رمضان ہے۔ یہ بہت اچھے مواقع ہیں انہيں غنیمت سمجھیں۔ ان راتوں کی ہر گھڑی ہمارے لئے ایک عمر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ، بالخصوص نوجوان، خاص طور پر نوجوان، ایک توجہ، ایک دعا، ایک اخلاص سے، اپنی زندگی بلکہ پوری قوم کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ ایک دعا سے۔ خداوند عالم نے وعدہ کیا ہے کہ «وَ اِذا سَاَلَکَ عِبادی عَنّی فَاِنّی قَریبٌ اُجیبُ دَعوَة الدّاعِ اِذا دَعانِ فَلیَستَجیبوا لی وَلیُؤمِنُوا بی»۔(1) خداوند عالم فرماتا ہے کہ میں قریب ہوں، سنتا ہوں اور جواب دیتا ہوں «وَلیُؤمِنوا بی» یعنی تاکہ یقین کرو۔ اس پر یقین رکھو، جان لیں کہ آپ کی دعا، آپ کی درخواست، آپ کی مناجات، خداوند عالم سنتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ آگر ہم خود رکاوٹ نہ ڈالیں۔ یہ دعا کامیابی کا وسیلہ ہے۔ صرف آخرت، برزخ اور قیامت کے مسائل میں ہی نہیں بلکہ آپ کی دنیا کے لئے بھی۔ آپ کی ذاتی زندگی ميں، بڑی مجاہدتوں ميں، بڑے کاموں میں، دعا کارساز ہوتی ہے۔ دعا سبب اور وسیلہ ہے۔ یہ وسیلہ خود خدا نے ہمارے لئے، ہمارے اختیار میں دیا ہے۔ جیسے ائمہ علیہم السلام سے توسّل، ائمہ خلفاء اللہ ہیں، مظہر قدرت الہی ہیں، مظہر علم الہی ہیں، ہم ان سے طلب کریں۔ خداوندعالم نے اپنے صالح بندوں کے ذمے کچھ امور کئے ہیں، جو کام وہ کرتے ہیں اور جو مدد وہ کرتے ہیں، ہماری وہ مدد در اصل خدا کرتا ہے۔ وَ ما رَمَیتَ اِذ رَمَیتَ وَ لکِنَّ اللہ رَمى" (2) اولیاء اللہ اور ائمہ ہدی علیہم السلام سے توسّل اور خدا کے حضور گریہ و زاری ایسا وسیلہ ہے جو خدا نے ہمیں عطا کیا ہے۔ اس وسیلے کی قدر کرنی چاہئے۔
پیغمبران خدا بڑی مشکلات میں، توسّل اور دعا کیا کرتے تھے۔ قرآن میں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام فرعون کے خلاف اپنی شدید مجاہدت کے دوران کہتے ہیں کہ «رَبَّنا اِنَّکَ آتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلَاَه زینۃ وَ اَموالاً ... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنَا اطمِس عَلىٰ اَموالھم وَ اشدُد عَلىٰ قُلوبھم»۔(3) دعا کرتے ہیں اور فرعون پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے خدا سے مدد طلب کرتے ہیں۔ خدا ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما فَاستَقیما۔(4) دعا کی اور فرعون سے مجاہدت میں خدا سے کامیابی چاہی، تم نے یہ طلب کیا، تو بہت اچھا، قَد اُجیبَت دَعوَتُکُما۔ تمھاری دعا پوری ہوئی، تو فَاستَقیما۔ اٹھو استحکام اور امید کے ساتھ محکم رہو۔ موسی علیہ السلام نے خدا کی اس ہدایت اور حکم پرعمل کیا اور تلوار سے خون کی جنگ میں خون کو تلوار پر غلبہ حاصل ہوا۔ ایرانی عوام کی مجاہدت بھی اسی طرح تھی، استقامت اور پائیداری کے ساتھ، توسّل، دعا اور خدا پر توجہ کے ہمراہ، اور اسی طرح رہے گی۔
البتہ محاذ حق کو اس مجاہدت میں قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ میں یہ تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ (ہجری شمسی سال) 1403 کے حوادث کو اس نظر سے دیکھیں۔ حق و باطل کی جنگ میں کامیابی حق کے لئے ہے لیکن محاذ حق کو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
آٹھ سالہ مقدس دفاع میں ایک طرف ہم تھے اور دوسری طرف عالمی اتحاد صدام کی پشت پر تھا۔ یہ جنگ آٹھ سال تک چلی، آٹھ سال کے بعد دنیا نے تسلیم کیا کہ ایران، ایران جو خالی ہاتھ تھا، حریف مقابل پر کامیاب ہوا۔ یہ سب نے سمجھا اور سب نے کہا، اس کی سبھی نے تصدیق کی، لیکن اس فتح میں، ہم شہید ہمت جیسی ہستیوں سے محروم ہوئے، شہید باکری سے محروم ہوئے، ہمیں شہید خرازی اور شہید چمران جیسی ہستیوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہ نقصان ہے، یہ قیمت دینی پڑتی ہے لیکن فتح یقینی ہوتی ہے۔
گزشتہ برس کے حوادث میں عظیم ہستیاں چلی گئيں۔ ایران اور لبنان کی عظیم ہستیوں سے ہمیں ہاتھ دھونا پڑا، حضرت موسی کی طرح ہمارے لئے یہ مصیبتیں تھیں۔ وہاں بھی اسی طرح تھا۔ حضرت موسی جب مصر آئے تو پرسکون اور آرام کی زندگی تو نہیں تھی۔ خود بھی اور بنی اسرائیل بھی بہت سختی میں تھے۔ قالوا اوذینا مِن قَبلِ اَن تآتیَنا وَ مِن بَعدِ ما جِئتَنا۔(5) بنی اسرائیل موسی سے کہتے تھے کہ جب تم پیغمبر کی حیثیت سے فرعون کے مقابلے میں کھڑے ہونے کے لئے آئے تو ہم سختی میں تھے، اب جبکہ آ گئے ہو تو اس کے بعد بھی ہم سختی میں ہیں! " قالَ موسىٰ لِقَومِه استَعینوا بِاللہ وَ اصبِروا " ( 6) حضرت موسی نے ان سے کہا کہ نصرت طلب کرو، خدا سے مدد مانگو اور صبر کرو، استقامت سے کام لو، خدا مسائل ٹھیک کر دے گا اور ٹھیک ہو گئے۔ انہوں نے جو شکوہ کر رہے تھے کہ ہم سختی ميں ہیں، اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا کہ فرعون اور اس کے ساتھی بڑی ذلت کے ساتھ پانی میں ڈوب گئے۔ نابود ہو گئے اور ان کی طاقت اور سلطنت کے آثار بھی باقی نہیں رہے، آنکھوں کے سامنے صرف ان کے جسم باقی رہے تاکہ عبرت ہو۔ جن حوادث کا سامنا ہوا انہیں اور سختیوں نیز مشکلات کو اس نگاہ سے دیکھیں۔ صرف مجاہدت میں ہی نہیں بلکہ گزشتہ برس 1403 (ہجری شمسی) میں قدرتی آفات بھی تھیں۔ طبس کی کان کے حادثے میں پچاس سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ (7) یہ تلخ حوادث ہیں۔ حضرت موسی کا جواب یہ ہے کہ اِستَعینوا بِاللهِ وَ اصبِروا۔ خدا سے نصرت طلب کرو ، مدد چاہو اور صبر کرو۔ شک نہ کریں کہ اس استقامت کا نتیجہ دشمنوں کی شکست ہے۔ خبیث اور فاسق صیہونی حکومت کی شکست ہے۔
گزشتہ روز، نئے سال کے پہلے پیغام میں، میں نے ایرانی عوام سے جو اہم نکتہ عرض کیا (8) اور اس پر زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ 1403 (ہجری شمسی) کے ان حوادث نے ملت ایران کی معنوی طاقت دکھا دی۔ ایرانی قوم کی دلیری آشکار کر دی۔ صدر مملکت اور کچھ اعلی حکام کی شہادت جیسا حادثہ اقوام کی کمر توڑ دیتا ہے، لیکن ملت ایران نے اس حادثے ميں، وہ جوعظیم الشان انداز میں رخصت کیا ہے، یعنی اپنے محبوب صدر کے جنازے میں عظیم الشان شرکت کی ہے، (9) اسی طرح 'نماز جمعہ نصر' میں (10) ان کی عظیم الشان شرکت سے دنیا حیرت زدہ رہ گئی۔ پورے ملک ميں نماز جمعہ ميں عوام نے تاریخی شرکت کی۔ دشمن دھمکی دے رہا تھا، وہ چاہتا تھا کہ ایرانی عوام خطرہ محسوس کریں لیکن عوام سینہ سپر ہوکر نماز جمعہ میں آئے اور اس نماز جمعہ میں عوام کی شرکت کم نظیر تھی۔
اسی طرح صدارتی الیکشن میں (11) عوام نے پرجوش شرکت کی تاکہ امور مملکت معطل نہ رہيں۔ انھوں نے پچاس دن کے اندر صدر منتخب کر لیا، اور حکومت تشکیل پا گئی۔
اسی طرح شہید ہنیہ کے جنازے میں (12) اور مختلف شخصیات کے جنازوں ميں، اور اسی طرح لبنان اور فلسطین وغیرہ کے واقعات پر ملت ایران نے اپنی معنوی طاقت اور جذبہ دکھا دیا اور ان سب کا نقطہ اوج 22 بہمن (مطابق 10 فروری) کا جلوس تھا۔ 1403 (ہجری شمسی) کا (یوم آزادی کا) جلوس تاریخی تھا جس میں 46 برس بعد اس انقلاب کی جس کے خلاف امریکا چیخ رہا ہے، یورپ کوشش کر رہا ہے، یورپ اس کے خلاف کوشاں ہے، دنیا کے انوع و اقسام کے منافقین، بدمعاش اور فاسق و فاجر، دنیا میں جہاں بھی ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ہر ممکن اقدام کرتے ہیں اور ایرانی عوام 22 بہمن (اسلامی انقلاب کی سالگرہ ) کے دن عظیم جلوس نکالتے ہيں، اس دن ایرانی قوم نے دنیا کو بتا دیا کہ وہ کیسی قوم ہے۔
عزیزان گرامی! ہمیں خود کو پہچاننا چاہئے۔ ملت ایران اپنے آپ کو پہچانے۔ ہم بہت طاقتور قوم ہیں، ہم بہادر قوم ہیں۔ یہ سبھی مسائل، یہ دلیری، یہ عظیم شرکت، یہ میدان میں آنا، ایسی حالت ميں تھا کہ ایرانی عوام اقتصادی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔ اس طرح کی اقصادی مشکلات عام طور پر عوام کو مایوس کر دیا کرتی ہیں، انہيں افسردہ کر دیتی ہیں، ہمارے عوام ان تمام مشکلات کے باوجود میدان میں آئے اور نظام کا دفاع کیا۔ اس نظام کے دشمنوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ایرانی عوام اسلامی جمہوری نظام کو کتنا چاہتے ہیں۔
ملک کے لئے کام کے حوالے سے بھی عوام نے خوش کر دیا۔ میں نے کل کہا تھا، اس کی تکرار کرتا ہوں کہ گزشتہ سال کے لئے ہم نے جو سلوگن دیا تھا، (13) اس پر پوری طرح عمل نہيں ہوا۔ یہ بات اپنی جگہ پر، لیکن کام کے میدان میں، تعمیرات کے میدان ميں، ترقی و پیشرفت میں، انصاف کی بات یہ ہے کہ عوام نے کوئی کمی نہیں کی۔ بڑے کام انجام پائے۔ اس کے بارے میں، اسی حسینیئے میں انٹرپرینیورز کے ساتھ جو جلسہ تھا، اس میں رپورٹ پیش کی گئی(14) جو کام انجام پائے ہیں، ان کا ایک حصہ دکھایا گیا۔ آپ بھی دیکھ رہے ہیں کہ انہیں چند مہینوں میں، پورے ملک میں عوام کے لئے مفید بے شمار پروجکٹوں کا افتتاح ہوا جن میں کچھ بڑے ہیں، کچھ چھوٹے ہیں، لیکن زیادہ اور متعدد ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ الحمد للہ عوام کام کے میدان میں فعال ہیں۔ البتہ ہم اس پر قانع نہیں ہیں۔ بہت سے کام ہیں جنہیں انجام دینے کی ضرورت ہے۔ انہیں میں سے ایک کو ہم نے اس سال کا سلوگن قرار دیا ہے۔ اس کے بارے ميں تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔
پیداوار کا مسئلہ میں کئی سال سے اٹھا رہا ہوں۔ تیز رفتار پیداوار، پیداوار میں عوام کی مشارکت، وغیرہ (کے سلوگن دیے) یہ سبھی پیداوار سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ پیداوار ملک کا اقتصاد اور عوام کی معیشت سدھارنے کی بنیادی کلید ہے۔ اندرونی پیداوار بہت اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن پیداوار کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرمایہ کاری کی بات جب ہم کرتے ہیں تو بعض لوگوں کے ذہن ميں غیر ملکی سرمایہ کاری آتی ہے۔ نہيں، ہمارے اپنے عوام کی سرمایہ کاری۔ جو پیسہ عوام کے پاس ہے، وہی جس کو کچھ لوگ سونے کے سکے، زمین، مکانات اور زرمبادلہ خریدنے میں خرچ کرتے ہیں اور ملک کے لئے مشکلات کھڑی کرتے ہیں، اس سے نہ صرف یہ کہ انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ مشکل بھی کھڑی ہوتی ہے۔ یہی پیسہ اگر پیداوار کے لئے سرمایہ کاری میں لگایا جائے تو ملک پیشرفت کرے گا۔ چھوٹی سے لے کر بڑی سرمایہ کاری تک۔ ایک محدود پیمانے کے چھوٹے سے پولٹری فارم سے لے کر ایک بڑے کارخانے تک، یہ سب سرمایہ کاری کے میدان ہیں، یہ کام کئے جا سکتے ہیں۔
میں نے اس سال کہا کہ "پیداوار کے لئے سرمایہ کاری" یہ اس سال کا سلوگن ہے۔ سبھی، حکومت اور عوام اس سلوگن پر توجہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو مدد کریں۔ ہر ایک کا اپنا الگ فریضہ ہے۔ عوام کا فریضہ الگ ہے اور حکومت کا فریضہ الگ ہے۔ عوام کا فریضہ یہ ہے کہ جس کے پاس جتنا پیسہ ہے، جتنی اس کی وسعت ہے، جو بھی اس سے ممکن ہو، ایک چھوٹی سی پیداواری یونٹ قائم کرے۔ یہ کام عوام کریں۔ اس راہ ميں جن لوگوں نے کمر ہمت باندھی، کوئی کام کیا، انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور ملک نیز عوام کو بھی اس کا فائدہ پہنچا۔ اور وہ لوگ جو بڑے پیداواری یونٹ قائم کرنے والے ہیں، بڑے انٹرپرینیورز ہیں، بڑے بڑے روزگار پیدا کرنے والے ہیں، وہ کئی ہزار لوگوں کو پیداوار میں لگا سکتے ہیں۔ ان سب کا فریضہ ہے۔ یہ کام عوام کا ہے۔
حکومت کا فریضہ کیا ہے؟ حکومت کا فریضہ یہ ہے کہ کام کے لئے زمین ہموار کرے۔ حکومت کا فریضہ یہ ہے کہ زمین ہموارا کرے۔ الحمد للہ حکومت قائم ہو چکی ہے، اپنی جگہ محکم حکومت ہے۔ گزشتہ سال کی طرح نہیں ہے کہ حکومت کی منتقلی اور تغیرات وغیرہ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ حکومت اس حوالے سے زمین ہموار کرنے کی منصوبہ بندی کر سکتی ہے۔ پیداوار بڑھانے کے لئے کچھ تمہیدی امور انجام دینے کی ضرورت ہوتی ہے، جن ميں سب سے اہم سرمایہ کاری ہے۔ اگر سرمایہ کاری میں اضافہ ہو تو پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ اس سال عوام کے لئے میری سفارش ہے۔
البتہ عوام اور جن لوگوں میں اس کام کی توانائی پائی جاتی ہے، وہ اگر سرمایہ کاری کرنا چاہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے سرمائے کو محفوظ سمجھیں۔ یہ بات میں حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے نگراں اداروں سے کہہ رہا ہوں کہ سرمایہ کاری میں سرمائے کی سلامتی ضروری ہے۔ جو لوگ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، انہیں اپنے سرمائے کے محفوظ رہنے کا احساس ہونا چاہئے۔ اگر سرمائے کے محفوظ رہنے کا احساس نہ ہو تو کام آگے نہیں بڑھے گا اور سرمایہ کاری نہیں ہوگی۔
بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ نگراں ادارے جیسے ہیں ہی نہیں۔ غائب ہیں۔ لہذا خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ یہ غلط ہے۔ دوسری طرف بعض معاملات میں نگراں ادارے بے جا سختی کرتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ ایک بات یہ ہے۔ ایک مسئلہ قوانین اور اصول و ضوابط کے ثبات کا ہے۔ ہر روز الگ اصول و ضوابط ، سرکولر اور احکامات ہر روز تبدیل نہ ہوں، تاکہ سرمایہ کار آسودہ خاطر رہے اور مطمئن ہوکر سرمایہ کاری کر سکے۔
ایک اور ضروری کام جو حکام کے ذمہ ہے، یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے پروسس کو کوتاہ کریں۔ بعض اوقات لوگ مجھے خط لکھتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں دو سال سے تین سال سے، اجازت نامے کے لئے لٹکا رکھا ہے! یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ بیچ والوں کو کم کریں تاکہ کام تیز رفتاری سے انجام پا سکے۔
ایک اور مسئلہ درآمدات کا ہے۔ کبھی کوئی کمپنی کوئی مرکز، کافی محنتوں کے بعد ملک کے اندر کوئی پروڈکٹ تیار کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور اسی وقت کوئی دوسرا سرکاری یا غیر سرکاری مرکز، وہی چیز باہر سے درآمد کر لیتا ہے! اس سے اندرونی پروڈکٹ کو نقصان پہنچتا ہے۔ حکومت ان تمام باتوں کا خیال رکھے۔
سرمایہ کاری کے لئے ایک اور ضروری کام، مواقع کو متعارف کرانا ہے۔ عوام کہتے ہیں کہ، بہت اچھا! ہمارے پاس تھوڑا سا پیسہ ہے، ہم کیا کریں؟ ان کی رہنمائی کی جائے۔ مختلف ادارے، مختلف سرکاری محکمے، اپنے دائرہ کار میں، روزگار کے مواقع متعارف کرائيں، عوام کو بتائيں، ٹیلی ویژن سے کام لیا جائے، تفصیلات بتائی جائيں، عوام کی رہنمائی کی جائے کہ اس طرح سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر نالج بیسڈ کمپنیوں میں (سرمایہ کاری)
کر سکتے ہیں۔
بہرحال اگر ملک کے حکام عوام کی معیشت کا مسئلہ حل کرنا چاہیں، یقینا چاہتے ہیں، ہمیں علم ہے، ملک کے حکام، سرکاری حکام واقعی چاہتے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ عوام کی معیشت بہتر ہو، یہ کام صرف امدادی اقدامات سے نہیں ہوگا۔ البتہ امداد کے اقدامات بہت اچھے ہیں، لیکن یہ مسئلہ بنیادی کاموں سے حل ہوگا۔ ایک بنیادی کام یہی پیداوار اور سرمایہ کاری ہے۔
اس راہ میں آگے بڑھیں۔ اس سلسلے میں باتیں بہت ہیں۔
اقتصادی مسائل سے باخبر، ذمہ دار افراد احساس ذمہ داری کے ساتھ، عوام کو سمجھائيں، انہیں کام کے طریقے اور راستے بتائیں۔ حکومت کو بتائيں اور حکومت کی مدد کریں۔ بعض لوگ کام کے راستوں سے واقف ہیں، مجھے خط لکھتے ہیں اور تجويز پیش کرتے ہیں۔ قیادت، اقتصادی منصوبہ بندی میں مداخلت نہیں کرتی۔ یعنی اس کو مداخلت کا حق بھی نہیں ہے۔ یہ حکومت کے فرائض میں ہے۔ حکومت کو یہ کام کرنا چاہئے۔ ہم بھی وہ تجویز حکومت کو بھیج دیتے ہیں۔ اہم یہ ہے کہ حکومتی ذمہ داروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے ذمہ کیا فرائض ہیں۔ ان سے کیا توقعات ہیں اور ان شاء اللہ وہ کیا کریں۔ یہ چند باتیں اس سال کے سلوگن کے تعلق سے۔
ایک اور مسئلہ ان سیاسی باتوں کا ہے جو ان دنوں کی جا رہی ہیں۔ امریکی اور حکومت امریکا کے عہدیداران، ہر ایک، ایک بات کہہ رہا ہے، کوئی ایک بات کہتا ہے، دوسرا اس کی تکمیل کرتا ہے اور کوئی اور اس کی تردید کرتا ہے اور کوئی تصدیق کرتا ہے۔ اس سلسلے میں، میں صرف ایک دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔ پہلا نکتہ جو اہم ہے، یہ ہے کہ امریکی جان لیں کہ ایران کے سلسلے میں دھمکی سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکی بھی اور دوسرے بھی یہ جان لیں کہ اگر ایرانی عوام کے خلاف کوئی خباثت کی تو سخت طمانچہ پڑے گا۔
ایک بات یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے سیاستداں اور ان کے جیسے لوگ، یہ بڑی غلطی کر رہے ہیں کہ علاقے کے استقامتی مراکز کو ایران کی پراکسی فورسز کا نام دیتے ہیں۔ یہ ان کی توہین کرتے ہیں! پراکسی کا کیا مطلب ہے؟ یمنی قوم کے اپنے محرکات ہے۔ علاقے کے ملکوں کے استقامتی مراکز کے اپنے محرکات ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو نیابتی اور پراکسی فورس کی ضرورت نہیں ہے۔ پراکسی کا کیا مطلب ہے؟ وہ خود ہیں۔ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے آغاز میں ایک ملک جو اس غاصبانہ قبضے کی مخالفت میں اگلی صف ميں رہا ہے ، یمن ہے۔ اس زمانے میں حاکم یمن اٹھے اور انھوں نے بین الاقوامی اجتماعات میں شرکت اور اس غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی۔ یمن والے اس عناد اور خباثتوں کے اور اس ظلم کے جو غاصب اور خبیث صیہونی حکومت نے کل فلسطینی عوام کے ساتھ کئے اور آج کر رہی ہے، اس کے مخالف ہيں، اس پر معترض ہیں، وہ اس کے مقابلے ميں ڈٹے ہوئے ہیں، استقامت سے کام لے رہے ہیں، یہاں پراکسی کی کوئی بات نہيں ہے۔ ان کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ایران کی نیابت ميں یہ کام کر رہے ہیں، جی نہیں، یہ نیابت نہیں ہے۔ ہمارا نظریہ بھی سب کو معلوم ہے اور ان کا نظریہ بھی سب جانتے ہیں۔
آج صیہونی حکومت کی خباثتوں نے، اس کی بے رحمیوں نے، واقعی بے رحمی کا لفظ بہت چھوٹا ہے، بہت سی غیر مسلم اقوام کے دلوں کو بھی غمزدہ کر دیا ہے۔ آج امریکا میں اور بعض یورپی ملکوں میں صیہونی حکومت کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ وہ انہیں نہیں دیکھنا چاہتے۔ مغربی حکام انہيں نہیں دیکھنا چاہتے۔ وہ یہ جاننا اور سمجھنا نہیں چاہتے کہ ان کی اقوام کیا سوچتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکا کی اس یونیورسٹی کا بجٹ کاٹ دو جس کے طلبا نے فلسطین کی حمایت میں مظاہرے کئے ہیں۔ (15) یہ ان کی فریڈم آف انفارمیشن ہے۔ یہ ان کا لبرلزم ہے، یہ ان کی آزادی ہے، یہ ان کے انسانی حقوق ہیں۔ وہ اس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ آج اقوام ان خباثتوں کی مخالف ہیں جو صیہونی حکومت کر رہی ہے۔ وہ ان خباثتوں کے خلاف ہیں۔ ان کے مقابلے ميں جس سے بھی ہو سکتا ہے، جس طرح بھی ہو سکتا ہے، وہ ان کے مقابلے میں استقامت سے کام لے رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی ان غنڈہ گردیوں اور خباثتوں کے مقابلے میں استحکام کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔ ہم نے صراحت کے ساتھ اپنے موقف کا اعلان کیا ہے۔ ہم فلسطینی مجاہدین اور لبنانی مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں جو اپنے ملک کا غزہ کا اور فلسطین کا دفاع کر رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ یہ حمایت کی ہے۔
وہ جو دھمکیاں دیتے ہیں، وہ جان لیں کہ ہم نے کبھی بھی کسی کے ساتھ لڑائی اور تصادم شروع نہیں کیا ہے، لیکن اگر کسی نے خباثت کی اور لڑائی شروع کی تو جان لے کہ سخت طمانچے کھائے گا۔
پالنے والے! سال کے پہلے دن اس قوم پر اپنا لطف اور تفضلات نازل فرما۔
پالنے والے! اس سال کو ملت ایران اور سبھی مسلم اقوام کے لئے مبارک سال قرار دے۔ مظلوم اقوام کو ظالموں پر غلبہ اور کامیابی عطا فرما۔
پالنے والے! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ہماری مغفرت فرما۔ ملت ایران کو اس کے عظیم اہداف میں کامیابی عطا فرما۔ حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے قلب مطہر کو ہم سے راضی فرما۔ ہمارے امام بزرگوار کی جنہوں نے یہ راستہ ہمارے لئے کھولا، روح مطہر کو اور شہیدوں کی جنہوں نے امام بزگوار کی مدد کی ، ارواح کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما ان پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 186
2۔ سورہ انفال آیت نمبر 17 "۔۔۔۔ اور جب ( ان پر کنکریاں) ماریں تو تم نے نہیں بلکہ خود خدا نے ماری ہیں ۔۔۔"
3۔ سورہ یونس، آیت نمبر 88 "۔۔۔۔ پالنے والے! تم نے فرعون اور اس کے سرداروں کو ۔۔۔ زیورات اور دولت دی ہے ۔ پالنے والے! انھوں نے خلق کو تیرے راستے سے گمراہ کیا، پالنے والے! ان کی دولت وثروت ختم اور ان کے دل سخت کر دے۔۔۔۔"
4۔ سورہ یونس آیت نمبر 89 " ۔۔۔۔ تم دونوں کی دعا قبول ہوئی۔ تم ثابت قدم رہو۔۔۔۔ "
5۔ سورہ اعراف آیت نمبر 129 " قوم موسی نے کہا کہ تمھارے آنے سے پہلے ہم سختی میں تھے اور آنے کے بعد بھی سختی میں ہیں "
6۔ سورہ اعراف آیت نمبر 128
7۔ طبس کی کان کے ایک بلاک میں، گیس بھر جانے اور اس کے اخراج کا مناسب راستہ نہ ہونے کی وجہ سے دھماکہ ہو گیا جس میں دسیوں کان کن جاں بحق اور درجنوں گیس سے متاثر ہو گئے۔
8۔ 20 مارچ 2025 کو ہجری شمسی سال 1404 کی تحویل کی مناسبت سے رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام نوروز
9۔ 22 مئی 2024 کو شہدائے خدمت کا جنازہ
10۔ 4 ستمبر 2025 کی نمازجمعہ
11۔ ایران میں چودھویں صدارتی الیکشن کا پہلا دور، 28 جون 2024 اور دوسرا دور 5 جولائی 2024 کو انجام پایا۔
12۔ حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے تہران آئے ہوئے تھے کہ 31 جولائی 2024 کو اپنی قیامگاہ پر دہشت گردانہ حملے میں شہید ہو گئے ۔
13۔ عوام کی شرکت سے پیداوار میں تیز رفتار ترقی، رجوع کریں، 20 مارچ 2024 کو ہجری شمسی سال 1403 کی تحویل کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے
14۔ 22 جنوری 2025 کو اقتصادی اور پیداواری شعبوں میں فعال ماہرین سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
15۔ امریکی حکومت نے کولمبیا یونیورسٹی کی 40 کروڑ ڈالرکی ایڈ، یہودیت مخالف سرگرمیوں کے الزام میں کاٹ دی اور فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کے بعد امریکی وزارت تعلیم نے بھی اس یونیورسٹی کا 60 فیصد بجٹ روک لیا۔