آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ان ایام کو امیر المومنین علیہ السلام سے متعلق بتایا اور کہا کہ ایرانی قوم اور تمام مسلم اقوام، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد سب سے برتر انسان کی حیثیت سے امیر المومنین کے دروس سے استفادے کے لیے نہج البلاغہ کا رخ کرتی ہیں اور ثقافتی و علمی میدان میں کام کرنے والوں کو اس عظیم کتاب کے مطالعے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
انھوں نے شبہائے قدر کو بارگاہ الہی میں دعا و مناجات کا بہترین موقع بتایا اور کہا کہ ان شبوں کا ہر گھنٹہ، ایک عمر جتنی قدر و قیمت رکھتا ہے اور ائمہ علیہم السلام سے توسل اور عوام الناس خاص طور پر جوانوں کی دعائیں ان کے مستقبل اور ایک قوم کے مستقبل کو بدل سکتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں ایران کے سلسلے میں امریکی سیاستدانوں کے بیانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو جان لینا چاہیے کہ ایران کے ساتھ معاملات میں دھمکیوں سے انھیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ امریکیوں اور دوسروں کو جان لینا چاہیے کہ اگر انھوں نے ایران کے خلاف کوئی بھی حماقت کی تو وہ زودار تھپڑ کھائیں گے۔
انھوں نے امریکی اور یورپی سیاستدانوں کی جانب سے مزاحمتی مراکز کو ایران کی پراکسی فورسز بتائے جانے کو ایک بڑی غلطی اور ان تنظیموں کی توہین بتایا اور کہا کہ اس میں پراکسی کی کوئي بات ہی نہیں ہے اور یمنی قوم اور خطے میں مزاحمت کے دیگر مراکز میں صیہونیوں کے مقابلے میں کھڑے ہونے کا اندرونی محرّک پایا جاتا ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی پراکسی کی کوئي ضرورت نہیں ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کی خباثتوں اور مظالم کے مقابلے میں استقامت و مزاحمت کو خطے کی ایک دیرینہ روش بتایا اور کہا کہ فلسطین پر غاصبانہ قبضے کے وقت سے ہی اس ظلم کے خلاف پہلی صف میں کھڑے ہونے والے ممالک میں سے ایک یمن تھا اور اس ملک کے اس وقت کے حکمراں نے ایک بین الاقوامی نشست میں شرکت کر کے فلسطین پر غاصبانہ قبضے کی مخالفت کی تھی۔
انھوں نے غیر مسلم اقوام میں بے رحم صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف احتجاج بڑھنے اور امریکا اور یورپی ملکوں میں اس کے خلاف عوام اور اسٹوڈنٹس کے مظاہروں میں شدت آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغربی حکام اس یونیورسٹی کا بجٹ کاٹنے جیسے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں کے اسٹوڈنٹس نے فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے ہیں اور یہ اقدام ان کے آزادئ اطلاعات (فریڈم آف انفارمیشن) لبرلزم اور انسانی حقوق کے دعووں کی پول کھول دیتا ہے۔
رہبر انقلاب نے اقوام کی جانب سے صیہونی حکومت کی خباثتوں کی مخالفت اور اس کے خلاف ہر طرح کی مزاحمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران بھی ان خباثتوں کے خلاف مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے اور اس نے اپنے دائمی موقف اور روش کا کھل کر اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرنے والے فلسطینی اور لبنانی مجاہدین کی حمایت کرتا ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر ایران کے دشمنوں کی دھمکیوں کے جواب میں کہا کہ ہم کبھی بھی دوسروں سے ٹکراؤ اور جھڑپ شروع کرنے والے نہیں رہے ہیں لیکن اگر کسی نے خباثت کے ساتھ ٹکراؤ شروع کیا تو وہ جان لے کہ اسے سخت تھپڑ کھانا پڑے گا۔
انھوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں باطل کے محاذ کے سامنے حق کے محاذ کی جانب سے ہمیشہ ادا کی جانے والی قیمت ک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پچھلے ہجری شمسی سال کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے کہ حق و باطل کے درمیان جنگ میں یقینی طور پر فتح حق کے محاذ کی ہوتی ہے لیکن اس راہ میں کچھ قیمتیں ادا کرنی پڑتی ہیں جس طرح سے کہ یہ الہی سنت، مقدس دفاع کے دوران بھی جاری رہی تھی۔
آيت اللہ خامنہ ای نے پچھلے ہجری شمسی سال کے واقعات میں بڑی بڑی شخصیات کو کھو دینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ان تلخ واقعات کو برداشت کرنے، استقامت کرنے اور پروردگار عالم سے مدد طلب کرنے کا حتمی نتیجہ، دشمنوں خاص طور پر فاسد، فاسق اور خبیث صیہونی حکومت کی شکست بتایا اور کہا کہ پچھلے سخت سال میں ایرانی قوم کی معنوی طاقت، بہادری اور شجاعت بہت نمایاں ہو کر سامنے آئي۔
انھوں نے مرحوم صدر شہید رئیسی کے عظیم الشان جلوس جنازہ، دشمن کی دھمکیوں کے باوجود فاتحانہ نماز جمعہ میں عوام کی بے نظیر شرکت، صدارتی انتخابات میں لوگوں کی بھرپور شرکت اور شہید ہنیہ اور صیہونی حکومت کے حملوں میں شہید ہونے والے دیگر کمانڈروں کے زبردست جلوس جنازہ کو ایرانی قوم کی معنوی طاقت اور جذبے کی جھلک قرار دیا۔
رہبر انقلاب نے اسی طرح کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر نکالی جانے والی ریلیاں، اس عمل کا نقطۂ عروج تھیں جن میں اسلامی انقلاب سے ایرانی قوم کی وفاداری اور اسلامی جمہوریہ سے ان کا عشق پوری دنیا کے بدمعاشوں اور منافقوں کو دکھا دیا گيا اور اس نے پوری دنیا کو بتا دیا کہ ایرانی قوم کیا ہے۔
انھوں نے ایرانی قوم کی خصوصیات اور تشخص کو صحیح طریقے سے ملک کے اندر بھی سمجھے جانے کو ضروری بتایا اور کہا کہ بڑھتے ہوئے معاشی اور اقتصادی مسائل ہر جگہ کے لوگوں کو افسردہ اور مایوس کر سکتے ہیں لیکن ایران کی مضبوط اور شجاع قوم، پچھلے سال کی تمام تر مشکلات کے باوجود میدان میں آئي اور اس نے اسلامی نظام کا دفاع کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ برسوں کے نعروں میں پروڈکشن کے مسئلے کو دوہرانے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملک کے اقتصادی حالات اور عوام کی معاشی حالت کو بہتر بنانے میں پروڈکشن کا بنیادی کردار ہے۔ انھوں نے پروڈکشن کے میدان میں ہر طرح کی چھوٹی بڑی سرمایہ کاری کو مفید اور ضروری بتایا اور کہا کہ سبھی کو پروڈکشن کے میدان میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے چاہے وہ محدود اثاثے والے لوگ ہوں یا بڑی سطح پر معاشی سرگرمیاں انجام دینے والے افراد ہوں۔
انھوں نے عوامی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنے اور اس کام میں سہولت پیدا کرنے کو، اس سال کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے عمل میں حکومت کی اہم ترین ذمہ داری بتایا۔
رہبر انقلاب نے کہا کہ حکومتی عہدیداران، عوام کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں لیکن صرف عوام کی امداد جیسے کاموں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے بنیادی کاموں کی ضرورت ہے، جن میں سے ایک سرمایہ کاری ہے۔