انھوں نے اس ملاقات کے موقع پر امت مسلمہ اور ایرانی قوم کو عید فطر کی مبارک باد پیش کی اور اس عید کو عالم اسلام کو ایک دوسرے سے جوڑنے والی ایک کڑی اور اسلام اور رسول اسلام کی عزت میں روز افزوں اضافے کا سبب بتایا اور کہا کہ اسلام کی عزت میں روز افزوں اضافے کے لیے امت مسلمہ کا اتحاد، عزم اور بصیرت ضروری ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے دنیا میں لگاتار اور بڑی تیزی سے رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان تیز رفتار واقعات کے سلسلے میں اسلامی حکومتوں کو تیزی کے ساتھ اور پوری ہوشیاری سے اپنی پوزیشن طے کرنی چاہیے اور ان کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
انھوں نے مسلمانوں کی بڑی آبادی، بے پایاں قدرتی دولت اور دنیا کے حساس علاقے میں واقع ہونے کو، عالم اسلام کے اہم مواقع میں شمار کیا۔ رہبر انقلاب نے کہا کہ ان مواقع اور حساس پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے عالم اسلام کا اتحاد ضروری ہے اور یہ اتحاد حکومتوں کے ایک ہو جانے یا تمام سیاسی امور میں ان کے ہم فکر ہو جانے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب مشترکہ مفادات کی شناخت اور اپنے مفادات کو اس طرح طے کرنا ہے کہ ایک دوسرے کے درمیان اختلاف، تصادم اور نزاع پیدا نہ ہو۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عالم اسلام، ایک فیملی کی طرح ہے اور اسلامی حکومتوں کو اس طرز فکر کے ساتھ سوچنا اور کام کرنا چاہیے، کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے تمام اسلامی حکومتوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رکھا ہے اور وہ خود کو ان کا بھائي اور ایک اجتماعی اور بنیادی محاذ کا حصہ سمجھتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی حکومتوں کے درمیان تعاون اور ہم فکری کو ظالم اور جارح طاقتوں کے حملے، منہ زوری اور غنڈہ گردی سے بچنے کا ذریعہ بتایا اور کہا کہ افسوس کہ آج کمزور حکومتوں اور قوموں پر اپنی مرضی تھوپنا بڑی طاقتوں کا ایک معمول بن چکا ہے اور اس کے مقابلے میں ہم اسلامی ملکوں کو عالم اسلام کے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے اور امریکا اور دوسروں کو غنڈہ ٹیکس وصول کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔
انھوں نے صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے جرائم کے سبب فلسطین اور لبنان کے لہولہان ہونے اور ان مصائب کے مقابلے میں عالم اسلام کے ڈٹ جانے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ملکوں کے اتحاد، ہم دلی اور ہم فکری سے، دوسروں کو اپنی اوقات سمجھ میں آ جائے گی اور ہمیں امید ہے کہ اسلامی ملکوں کے اعلی عہدیدار، اپنے عزم، جوش اور اقدام سے، حقیقی معنی میں امت مسلمہ کو وجود میں لائیں گے۔