امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم شہادت کی مناسبت سے 24 اپریل 2025 کو مجلس عزا کے بعد رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے امام جعفر صادق علیہ السلام اور مسئلہ امامت کے موضوع پر بڑی اہم گفتگو کی جس کے کچھ اقتباسات حسب ذیل ہیں؛ 
...امام صادق (علیہ السلام) کے زمانے میں 'تقدیر الہی' کی بنا پر، نہ کہ حتمی قضائے الہی کے طور پر، ائمہ ہدی (علیہم السلام) کے حق میں ایک تبدیلی واقع ہونے والی تھی۔ متعدد روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔ ایک روایت امام صادق (علیہ السلام) سے منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: "بے شک اللہ تعالیٰ نے اس امر (یعنی حقیقی معنوں میں امامت) کو اپنی تقدیر میں سن 70 ہجری کے لیے مقرر کیا تھا۔" (کافی جلد صفحہ 368 قدرے فرق کے ساتھ)
 دیکھیے! جب امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) نے معاویہ کے ساتھ صلح کی تو کچھ لوگ آ کر شکایت اور اعتراض کرتے تھے۔ حضرت فرماتے تھے: "تم نہیں جانتے، شاید یہ تمہارے لیے ایک آزمائش ہے اور ایک وقت تک کے لیے مفید ہے" یعنی یہ ایک عارضی دور ہے۔ امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کے کلمات سے اشارہ ملتا ہے کہ کفر ونفاق کا یہ غلبہ دائمی نہیں ہے، بلکہ تقدیر الہی میں یہ عارضی ہے۔ لیکن کب تک؟ سن 70 ہجری تک۔ یعنی اس روایت کے مطابق سن 70 ہجری میں اہل بیت میں سے جو بھی زندہ ہو گا، قیام کرے گا اور حکومت سنبھالے گا، اور حقیقی امامت قائم ہو جائے گی۔  
پھر حضرت فرماتے ہیں: "لیکن جب امام حسین (علیہ السلام) شہید ہوئے، تو اہل زمین پر اللہ کا غضب شدت اختیار کر گیا اور اس نے اس تقدیر کو مؤخر کر کے سن 140 ہجری تک کے لیے ٹال دیا۔" یعنی واقعہ کربلا، لوگوں کی دینی اقدار سے بے اعتنائی اور ان کی روگردانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تقدیر الہی مؤخر ہو گئی اور سن 140 تک کے لیے ملتوی ہو گئی۔ سن 140 ہجری امام صادق (علیہ السلام) کا زمانہ ہے کیونکہ آپ کی شہادت 148 ہجری میں ہوئی۔ شیعہ اس بات کو جانتے تھے، بلکہ شیعہ خواص کو اس کا علم تھا۔ اسی لیے ایک روایت میں ہے کہ زُرارہ جو امام کے قریبی اصحاب میں سے تھے، اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں: "تم اس تخت (خلافت) پر جعفر کے سوا کسی اور کو نہیں دیکھو گے۔"( رجال کشّی، صفحہ 156) اس روایت میں "اعواد" سے مراد منبرِ خلافت کی بنیادیں ہیں، یعنی میں دیکھ رہا ہوں کہ جعفر (علیہ السلام) ہی اس منبر پر متمکن ہوں گے۔ بات یہ ہے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ زُرارہ نے ہی جو کوفہ میں رہتے تھے، امام صادق (علیہ السلام) کو پیغام بھیجا اور عرض کیا: "ہمارے ایک شیعہ دوست پر قرض چڑھ گیا ہے، اور قرض خواہ اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔ وہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے شہر چھوڑ کر بے گھر ہو گیا ہے۔ اگر یہ معاملہ (یعنی خلافت کا قیام) ایک دو سال میں ہونے والا ہے — روایت کے الفاظ ہیں: 'هذا الأمر' یعنی اگر یہ واقع ہونے ہی والا ہے — تو وہ صبر کر لے، جب آپ حکومت سنبھال لیں گے تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہ معاملہ طول پکڑنے والا ہے، تو دوست چندہ کر کے اس کا قرض ادا کر دیں۔" (رجال کشّی، صفحہ 157)
یعنی زُرارہ جیسے افراد کو توقع تھی کہ یہ واقعہ ایک دو سال میں رونما ہو جائے گا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہو کر بار بار پوچھتے تھے: "آقا! آپ قیام کیوں نہیں کرتے؟" یہ سب اس لیے تھا کہ وہ کسی چیز کے منتظر تھے — انہوں نے کوئی بات سن رکھی تھی، کوئی خبر ان تک پہنچی تھی۔
اس روایت کے بعد جس میں سن 140 ہجری کا تعین کیا گیا تھا، امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا: "تم لوگوں نے (اس راز کو) افشا کر دیا، تو اللہ نے اسے مؤخر کر دیا۔" یعنی اگر شیعہ اپنی زبانوں پر قابو رکھتے اور اس راز کو فاش نہ کرتے، شاید اسی وقت مقررہ پر یہ واقعہ پیش آ جاتا۔ غور کیجئے! تاریخ کتنی بدل جاتی! بنی نوع انسان کا راستہ ہی کچھ اور ہوتا اور آج کی دنیا بالکل مختلف ہوتی۔  
یعنی ہماری کوتاہیاں، کبھی ہماری بے احتیاط گفتگو، کبھی ہمارا ساتھ نہ دینا، کبھی بے جا اعتراضات، کبھی ہمارا صبر سے کام نہ لینا، کبھی حالات کی غلط تشریح - یہ سب کبھی کبھی ایسے تاریخی اثرات مرتب کرتے ہیں کہ پورا راستہ ہی بدل جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔  
بے شک امام صادق (علیہ السلام) کی زندگی ایک غیر معمولی، حیرت انگیز اور کامیاب زندگی تھی، خاص طور پر اللہ کے احکام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے حوالے سے۔ ہمارے پاس آپ (علیہ السلام) اور آپ کے اصحاب سے روایات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ البتہ جب آپ کے چار ہزار(4000) شاگردوں کا ذکر کیا جاتا ہے تو سننے والے کے ذہن میں یہ تصور آتا ہے کہ گویا حضرت نے کوئی درس شروع کیا ہو اور چار ہزار افراد ایک ہی وقت میں بیٹھ کر سبق حاصل کر رہے ہوں۔ معاملہ درحقیقت یوں نہیں ہے۔  
دراصل، امام صادق (علیہ السلام) کی پوری زندگی میں مختلف اوقات میں آپ سے علم حاصل کرنے والے شاگردوں کی مجموعی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے – جیسا کہ تاریخی کتابوں میں درج ہے۔ یعنی آپ کے چار ہزار راوی ہیں، یہی چار ہزار شاگردوں کا مطلب ہے۔ یہ نہیں کہ ایک ہی وقت میں چار ہزار افراد آپ کے درس میں شریک ہوتے تھے اور آپ انہیں تعلیم دیتے تھے۔  
ہم ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی زندگی سے بہت کم واقف ہیں – نہ ہمیں ان کے کلمات کا مکمل علم ہے، نہ بیانات کا، نہ روایات کا اور نہ ہی ان کی زندگی کے حالات کا۔  
جن روایات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام صادق (علیہ السلام) کو منصور کے سامنے پیش کیا گیا اور منصور نے آپ پر سخت غصہ کا اظہار کیا، پھر امام (علیہ السلام) نے کہا: "اے میرے چچا زاد! بڑے بڑے پیغمبر مظلوم واقع ہوئے، انہوں نے درگزر کیا، تم بھی ہمیں معاف کر دو" – میں بالکل واضح طور پر کہتا ہوں کہ یہ تمام باتیں جھوٹ ہیں، قطعی طور پر یہ واقعات حقیقت نہیں رکھتے۔ امام (علیہ السلام) کسی سے بھی اس طرح گفتگو نہیں کرتے، چاہے قتل ہو جانے کا خطرہ ہو یا نہ ہو، کسی بھی صورت میں۔ امام (علیہ السلام) کا اندازِ کلام ہی ایسا نہیں ہوتا۔ یہ روایت کس نے نقل کی ہے؟ ربیع نے – جو منصور کا خادم اور اس کا ہرکارہ تھا، ایک درباری جھوٹا شخص جس نے یہ قصہ گڑھ لیا۔  
یہ روایت دراصل شیعوں کے جذبے کو کمزور کرنے کے لیے ایک ہتھکنڈہ ہے، اس لیے ایسی روایات کو نقل کرنے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔ بعض لوگ بلاوجہ انہیں دہراتے ہیں، حالانکہ یہ صحیح روایات نہیں ہیں۔ ائمہ (علیہم السلام) ہمیں استقامت، ثابت قدمی اور منطق کی تعلیم دیتے ہیں – وہ اپنی گفتگو میں دلیل اور برہان سے کام لیتے ہیں، مخالف کو اس کی ہی باتوں میں الجھا دیتے ہیں۔
آپ غور کریں کہ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) نے ابنِ زیاد کے دربار میں اور یزید کے سامنے کیسے حق گوئی اور بے خوفی کا مظاہرہ کیا! یہی سچا خطاب ہے، یہی ائمہ معصومین (علیہم السلام) کا اصل طریقہ ہے۔ جو کوئی بھی حق پر ڈٹ جاتا ہے، وہ درحقیقت ان ہستیوں کے نقشِ قدم پر چل رہا ہے۔  
آج بھی غزہ اور لبنان میں جو مجاہدین استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ عملاً انہی ائمہ ہدیٰ (علیہم السلام) کے راستے پر گامزن ہیں۔