بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المہدیّین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
میں آپ کی اس عظیم کاوش کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس کا اہتمام آپ کے ادارے نے کیا ہے؛ یعنی مقدس دفاع کے دوران اور اس کے بعد کے برسوں کے دوران شہید ہونے والے امدادی اداروں کے کارکنوں کی یاد میں تقریبات منعقد کرنا۔ یہ ایک انتہائی ضروری اور اہم کام تھا اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
شہداء کے تعلق سے ثقافتی و فنّی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور سامعین تک پہنچانے کی ضرورت
جناب کولیوند نے جو خلاقانہ اقدامات بیان کیے — اس خوبصورت متن میں جو انہوں نے پڑھا — کہ یہ کام ہو چکے ہیں، انہیں سامعین اور مخاطبین تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ محض یہ کہ آپ کوئی اچھی کوشش کریں، ایک اچھا گیم بنائیں، ایک اچھی کتاب لکھیں یا ایک عمدہ فلم تیار کریں، کافی نہیں ہے۔ جو باتیں آپ نے بیان کیں، وہ انسان کو جوش دلاتی ہیں اور بہت اچھی ہیں، لیکن ضروری یہ ہے کہ آپ ایسا کریں کہ آٹھ کی آبادی والے ملک میں دو کروڑ لوگ اسے دیکھیں، سنیں، یعنی واقعی اسے عام کریں — یہی اہم چیز ہے۔ اس کا راستہ تلاش کریں، آپ کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے نوجوان ان شعبوں میں — جہاں اس وقت بنیادی ڈھانچہ موجود ہے (جہاں نہیں ہے، اس کی بات نہیں کر رہا ہوں) — بیٹھ کر وقت نکالیں، سوچیں اور حل اور نئے طریقے ڈھونڈیں، تو یقیناً بہت اچھے مقام تک پہنچیں گے۔ ہم نے اسے صنعت میں آزمایا ہے، ادب و فن میں آزمایا ہے، سیاست میں آزمایا ہے، اور تعمیرات کے مختلف شعبوں میں بھی آزمایا ہے۔
نوجوانوں کی ہمت اور ولولہ ہر میدان میں پیشرفت کی ضمانت
اگر نوجوان پورے عزم اور جذبے کے ساتھ کسی کام میں جُت جائیں، ہمت کریں اور اسے سنجیدگی سے اپنائیں، تو کوئی بھی کام ناممکن نہیں رہتا۔ جہاں ملک میں بنیادی ڈھانچہ موجود نہیں، وہاں بھی آہستہ آہستہ اسے تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ آج مختلف شعبوں میں جو پیشرفت ہم دیکھ رہے ہیں، اس کی کوئی بھی شروعات میں قومی سطح کی بنیاد موجود نہیں تھی۔ اب ہمارے پاس شہداء کے حوالے سے ہزاروں پڑھنے کے قابل کتابیں موجود ہیں جو واقعتاً دلچسپ ہیں—جن میں سے ہر ایک کو پڑھنے سے انسان محظوظ ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل سچ ہے، حالانکہ انقلاب سے پہلے ہمارے ہاں فنّی کاموں، خاص طور پر افسانہ نگاری کے میدان میں، کوئی خاص بنیاد ہی نہیں تھی۔ نہ ہونے کے برابر، جو تھی وہ بھی ناقص معیار کی۔ آج کام کا معیار بلند ہے—یہ بنیادی ڈھانچہ ہمارے نوجوانوں اور فنکاروں نے خود تیار کیا ہے۔ لہٰذا، آپ آگے بڑھ سکتے ہیں اور ان شاء اللہ کامیاب ہو سکتے ہیں۔
امدادی کارکنان کے اوصاف: دوسروں کی جان بچانے کے لیے معرکے کے بیچ میں ایثار بھری موجودگی
امدادی کارکنان اور ان کے عظیم اوصاف پر کم ہی بات ہوئی ہے۔ اب ان شاء اللہ آپ کے اس سیکریٹریئیٹ کے قیام اور آپ کی کوششوں کے بعد اس میں اضافہ ہوگا۔ میں اس سلسلے میں چند جملے عرض کروں گا۔
ایک فوجی کو تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جو شخص اسے تربیت دیتا ہے یا ہتھیار فراہم کرتا ہے، وہ عموماً جنگ کے میدان سے باہر ہی یہ خدمت انجام دیتا ہے۔ جبکہ فوجی کو امداد کی بھی ضرورت ہوتی ہے، پٹی کی ضرورت ہوتی ہے، جسم سے بہتا خون روکنے اور اسے ہسپتال پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو امدادی کارکن یہ کام کرتا ہے، جو فوجی کی اس طرح پشت پناہی کرتا ہے، وہ میدان جنگ کے بالکل وسط میں کھڑا ہوتا ہے۔ مدد کی ان دو قسموں میں یہ انتہائی اہم فرق ہے۔
امدادی کارکن گولیوں اور گولہ باری کی بارش کے درمیان دوسروں کو بچانے کی فکر میں ہوتا ہے۔ ہمارا فوجی دو کام کرتا ہے: ایک تو دشمن کو پیچھے دھکیلنا، دوسرا اپنی حفاظت کرنا۔ لیکن ہمارا امدادی کارکن اپنی حفاظت کو بھول کر صرف دوسروں کی جان بچانے کے لیے میدان میں اترتا ہے۔ مجاہدین کی یادداشتوں کی کتابوں کے اوراق میں جگہ جگہ ان امدادی کارکنوں کے کارنامے پڑھنے کو ملتے ہیں جو واقعی حیرت انگیز ہیں! ان کی یہ قربانیاں، ان کی یہ مشکلات بھری خدمات، ان تمام دشواریوں کے ساتھ - انہیں عوام کے سامنے واضح طور پر بیان کرنا چاہیے تاکہ لوگ جان سکیں اور سمجھ سکیں۔
انسانی صفات اور انسان دوستی کا مظہر
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے امدادی کارکن انسانی صفات اور انسان دوستی کی زندہ تصویر تھے۔ ہم نے ایسے واقعات دیکھے جن میں امدادی کارکنوں نے زخمی دشمن فوجیوں کی بھی مدد کی- یہ انتہائی عظیم عمل ہے۔ سوچیے، دشمن میدان جنگ میں آپ کو مارنے آیا ہو، برابری کا تقاضا تو یہی ہوتا ہے کہ آپ بھی اسے مار ڈالیں۔ لیکن جب آپ امدادی کٹ کاندھے پر ڈالتے ہیں یا محاذ کے قریب پہنچ کر فیلڈ ہسپتال قائم کرتے ہیں، تو درحقیقت آپ انسان دوستی سے بیگانہ دنیا کے بالکل برعکس رویہ اپنا رہے ہوتے ہیں، عمل کر رہے ہوتے ہیں جو انسانیت سے عاری ہے۔ آپ انسان دوستی کا عملی مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔
میں نے خود دیکھا کہ محاذ کے قریب - اب مجھے فاصلہ یاد نہیں کہ کتنے کلومیٹر تھا، لیکن بہت کم تھا- ڈاکٹرز اور نرسز فیلڈ ہسپتال میں مصروف عمل تھے۔ انہوں نے آپریشن تھیئیٹر قائم کیا ہوا تھا جو حیرت انگیز تھا۔ دشمن کی گولیاں اور کم رینج کے مارٹر کے گولے وہاں تک پہنچ سکتے تھے، پھر بھی انہوں نے دشمن کی گولہ باری کے نیچے آپریشن تھیئیٹر بنایا! یہ بہت اہم بات ہے۔
دفاع مقدس کے دوران ایسے ڈاکٹرز تھے جن کا بیگ ہمیشہ تیار رہتا تھا۔ جب بھی کوئی آپریشن ہونے والا ہوتا اور انہیں اطلاع ملتی، وہ فون پر گھر والوں کو صرف اتنا کہہ دیتے "ہم چلے!" بیگ اٹھاتے اور روانہ ہو جاتے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتیں۔ انہیں صرف فن کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے، بیان کیا جا سکتا ہے اور سمجھایا جا سکتا ہے۔
عظیم قومی تحریکوں کی پہچان، دنیا میں ان کا تعارف اور انہیں عمومی ثقافت میں ڈھالنے کی ضرورت
آج ہماری قوم کو اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ وہ ان عظیم تحریکوں اور بڑے کارناموں کو پہچانے جو خود اسی قوم نے انجام دئے ہیں، اسی قوم کے بچوں نے انجام دیے ہیں۔ ہمیں اس کی ضرورت ہے، لیکن ہم نے اس معاملے میں کوتاہی کی ہے، اور [یہی وجہ ہے کہ] بہت سے لوگ ان سے واقف نہیں ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر، ہماری کوتاہی ان کارناموں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک میں کوئی ادھورا یا درمیانے درجے کا ہیرو ہوتا ہے، تو اسے کس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، اس پر کتابیں لکھی جاتی ہیں، کہانیاں تخلیق کی جاتی ہیں۔ کچھ ممالک کے پاس تو ہیرو ہی نہیں ہوتے تو وہ ہیرو گڑھ لیتے ہیں؛ تاریخ نہیں ہوتی، تاریخ ایجاد کر لیتے ہیں۔ جبکہ ہمارے پاس حقیقی ہیروز بھی ہیں، اپنی تاریخ بھی ہے، اور ایک شاندار ماضی بھی موجود ہے۔ ہمیں اسے دنیا تک پہنچانا چاہیے، اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ یہ ایک عظیم کام ہے اور ہمارا ناگزیر فریضہ ہے۔
دوسرا اہم کام یہ ہے کہ ہم ان کارناموں کو نہ صرف پہچانیں، نہ صرف ان کا تعارف کروائیں، بلکہ انہیں عمومی ثقافت کا حصہ بنا دیں۔ یعنی یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ امداد اور خدمت خلق ایک اسلامی اور انسانی فریضہ ہے، اور اسے نسل در نسل جاری رہنا چاہیے، ہمیشہ اس کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔ یہ تمام کام آپ جیسے اداروں اور تنظیموں کی ذمہ داری ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ سیمینار، یہ یادگاری تقریب، ان کاموں کے فروغ اور تکمیل کا ایک بہترین پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
ظالمانہ عالمی نظام کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ کی استقامت
اب آپ خود موازنہ کیجیے ان انسان نما درندوں سے جو ایمبولینس پر بمباری کرتے ہیں، ہسپتالوں کو نشانہ بناتے ہیں، معصوم مریضوں کو قتل کر دیتے ہیں، اور بے دفاع معصوم بچوں کو بے دریغ شہید کر ڈالتے ہیں! آج کی دنیا ایسے ہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ کی تحریک، اس کی استقامت اور وہ "نئی تہذیب" جس کا اسلامی جمہوریہ بار بار ذکر کرتی ہے، درحقیقت اسی ظالمانہ عالمی نظام کے خلاف ہے۔
کون ہے جو یہ دعویٰ کر سکتا ہے یا حقیقتاً یہ مانتا ہو کہ ایسے وحشیانہ مظالم اور خونخواری کے مقابلے میں انسان کا کوئی فرض نہیں؟ کون یہ بات کہہ سکتا ہے؟ ہم سب پر فرض عائد ہوتا ہے۔ آج جو لوگ دنیا پر حکمرانی کا دعویٰ کرتے ہیں یا مختلف ممالک پر حکومت کر رہے ہیں، ان کا یہی رویہ ہے—وہ معصوم بچوں کو مارتے ہیں، بیماروں کو قتل کرتے ہیں، ہسپتالوں کو تباہ کر دیتے ہیں اور عام شہریوں پر بے دریغ بمباری کرتے ہیں۔ اگر جنگ ہی کرنی ہے تو فوجی، فوجی سے لڑے۔ حالانکہ بعض اوقات یہ بھی انصاف پر مبنی نہیں ہوتا، بلکہ ظالمانہ ہوتا ہے—یعنی جنگ کا آغاز کرنا خود ایک ظالمانہ اقدام ہے اور آغاز کرنے والا مجرم ہے، لیکن بہرحال جنگ تو فوجیوں کے درمیان ہونی چاہیے۔ عام شہریوں کو کیوں مارا جاتا ہے؟ ان پر حملے کیوں کیے جاتے ہیں؟ گھروں کو کیوں تباہ کیا جاتا ہے؟ آج کی دنیا ایسے ہی لوگوں کے قبضے میں ہے۔
ظالموں کے مقابلے میں ڈٹ جانا: اسلامی جمہوریہ سے دشمنی کی وجہ
یہ وہ عظیم ذمہ داری ہے جو ہمارے کندھوں پر ہے۔ یہی فرض کا احساس ہے جو ہمیں حرکت میں لاتا ہے؛ یہی فرض شناسی ہے جو ہمارے دلوں سے امید کی کرن ختم نہیں ہونے دیتی، اور یہی جذبہ ہے جو ان مغربی انسان نما درندوں – ٹائی لگائے، خوشبوؤں میں بسے، ظاہری چمک دمک والے خونخواروں - کو اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں لا کھڑا کرتا ہے۔
[اصل مسئلہ] یہی ہے کہ اگر آپ ان کے وحشیانہ اقدامات پر احتجاج نہ کریں، ان سے سمجھوتہ کر لیں، بلکہ ان کی تعریف بھی کرنے لگیں تو وہ آپ سے کوئی دشمنی نہیں رکھیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے اس جھوٹی تہذیب کی بنیادوں کو ہی مسترد کر دیا ہے - اور آپ کا یہ موقف بالکل درست ہے، آپ کوایسا ہی کرنا چاہیے۔
باطل کا زوال یقینی، شرط ہے کہ اس کے مقابلے میں استقامت اور جدوجہد کی جائے
اور ان شاء اللہ یہ باطل مٹ کر رہے گا۔ باطل باقی نہیں رہ سکتا، باطل کو فنا ہو جانا ہے، بے شک۔ البتہ شرط یہ ہے کہ ہم عملی اقدام کریں۔ ایسا نہیں کہ ہم بیٹھے تماشہ دیکھتے رہیں اور باطل خود بخود پگھل کر ختم ہو جائے۔ نہیں، جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باطل فنا ہونے والا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اس کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ، جدوجہد کرو، محنت کرو تو یہ باقی نہیں رہ سکتا، اس میں مزاحمت کی طاقت نہیں۔ وَ لَو قاتَلَكُمُ الَّذينَ كَفَروا لَوَلَّوُا الاَدبارَ ثُمَّ لا يَجِدونَ وَلِيًّا وَ لا نَصيرًا؛(2)
اگر تم سینہ تان کر کھڑے ہو گے، اگر ثابت قدم رہے تو بلا شک وہ پیٹھ پھیر لے گا۔ لیکن اگر تم یا تو بیٹھے رہے، یا خوش اخلاقی دکھائی، یا مسکرا دیے، یا بھاگ کھڑے ہوئے، یا اس کے کاموں کی تعریف کی تو نہیں! وہ ختم نہیں ہو گا بلکہ روز بروز زیادہ ڈھیٹ اور گستاخ ہوتا چلا جائے گا۔
ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے، ہمیں اپنے فرائض سے آگاہ کرے اور انہیں پورا کرنے کی توفیق بخشے۔
والسّلامعلیکم و رحمۃ اللّہ وبرکاتہ
1- اس ملاقات کے آغاز میں ہلال احمر سوسایٹی کے سربراہ پیر حسین کولیوند نے ایک رپورٹ پیش کی۔
2- سورہ فتح آيت 22